حفاظت قرآن کے مختلف طریقے
مولانا مفتی سحبان محمود
قرآنِ کریم بہ ہمہ پہلو معجزہ ہی معجزہ ہے اور کیوں نہ ہو کہ الله تعالیٰ کا قیامت تک باقی رہنے والا کلام ہے۔ رب العزت نے اس کی کلی حفاظت کی ذمہ داری خود لے رکھی ہے﴿انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون﴾ یعنی ہم نے قرآن کریم کو نازل کیا ہے او رہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں ۔ یہ حفاظت نہ صرف حروف والفاظ اور اعراب وحرکات کی فرمائی گئی ہے، بلکہ اس کے معانی ومطالب کی بھی حفاظت منجانب الله کی گئی ہے۔ چوں کہ یہ دنیا عالم اسباب ہے کہ جو کچھ بھی یہاں رونما اور ظاہر ہوتا ہے وہ اسباب ووسائل کے ماتحت ہوتا ہے، اس لیے ربِ کریم نے امت مسلمہ کو اپنے بے حساب اجروثواب سے نوازنے کے لیے اس کی حفاظت کا ذریعہ اسے اس طرح بنایا کہ جن ممکنہ طریقوں سے اس کی کماحقہ حفاظت ہو سکتی تھی وہ اس امت کو عطا فرمادیے۔
سب سے پہلے اس کی حفاظت حضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کے ذریعہ کرائی گئی۔ ان حضرات نے خداوند ذوالجلال کے اس کلام معجز کی ہر پہلو سے حفاظت فرمائی۔ حفاظت قرآن کا سب سے موثر طریقہ اس کو حفظ کرنا ہے ۔ چناں چہ یہ حضرات، جو فہماً او رحفظاً تمام عالم میں ممتاز تھے اور جن کے حافظہ کا یہ عالم تھا کہ اپنے نسب کے علاوہ اپنے گھوڑوں اور جانوروں کا نسب بھی ان کو دور تک یاد تھا اور جو سو سواشعار والے قصائد صرف ایک مرتبہ سن کر اسی مجلس میں بعینہ حفظاً سنا دیا کرتے تھے، ان حضرات نے اس کلام ربانی کو اپنے سینوں میں محفوظ کرکے اپنے قلب کو منور کیا اور ہزاروں کی تعداد ان حضرات کی حافظ قرآن تھی۔
علاوہ ازیں ان ہی حضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین نے اس کلام کو لکھ کر اس کی حفاظت کی ۔ رب ذوالجلال کے اس کلام کی کتابت تین مراحل میں ہوئی۔ چناں چہ اس کلام معجز کی کتابت عہد رسالت صلی الله علیہ وسلم میں بھی ہوئی اور عہد رسالت صلی الله علیہ وسلم میں کاتبین وحی کی تعداد چالیس تک جا پہنچتی ہے۔ جن میں خلفائے اربعہ کے علاوہ حضرت ثابت بن قیس ، حضرت عمروبن العاص، حضرت ابی کعب، حضرت زید بن ثابت، حضرت مغیرہ بن شعبہ وغیرہ اہم ہیں۔ البتہ اس زمانے میں کاغذ کی کم یابی کی وجہ سے آیاتِ کلام ربانی پتھر کی سلوں، چمڑے کے پارچوں، کھجور کی شاخوں، بانس کے ٹکڑوں، درخت کے پتوں اور جانوروں کی ہڈیوں پر لکھی جاتی تھیں ، البتہ کبھی کاغذ کے ٹکڑے بھی استعمال فرمائے گئے۔ ( عمدہ القاری)
دوسرا مرحلہ: جب جنگ یمامہ کا واقعہ پیش آیا، جس میں حفاظِ کرام کی کثیر تعداد ( تقریباً چار سو) شہید ہو گئی تھی۔ ایک دن حضرت فاروق اعظم نے کسی مجلس میں حاضرین سے کسی آیت کے متعلق سوال کیا تو لوگوں نے کہا کہ یہ آیت تو سالم مولیٰ ابی حذیفہ کے پاس تھی اور وہشہید ہو گئے ہیں تو حضرت عمر نے انا لله پڑھا اور یہیں سے ان کو جمع قرآن کا داعیہ پیدا ہوا او روہ حضرت ابوبکر صدیق کی خدمت میں آئے او ران سے جمع قرآن کے سلسلے میں بات کی ۔ چند مرتبہ کے مکالمہ کے بعد حضرت ابوبکرصدیق کو بھی اس مسئلے میں شرح صدر ہو گیا او رانہوں نے اس کام کو کرنے کی حامی بھرلی او راس سلسلے میں حضرت زید بن ثابت سے بات کی ۔ حتی کہ ان کو بھی شرح صدر ہونے کے بعد حضرت صدیق اکبر نے ایک کمیٹی تشکیل دی، جس کا سربراہ حضرت زید کو مقرر کیا او ران کی اعانت کے لیے حضرت ابی بن کعب کو مقرر فرمایا۔ چناں چہ ان حضرات نے نہایت جانفشانی او راحتیاط کے ساتھ ان آیات قرآنی کو یکجا کرنا شروع کیا جو مختلف اشیاء پر کتابةً محفوظ تھیں یا صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کو یاد تھیں۔ حتیٰ کہ ایک نسخہ تیار ہو گیا، جس میں اجزاء تو یکجا ہو گئے، لیکن سورتوں میں ترتیب نہ تھی او راب اس مرحلہ میں قرآن کریم باعتبار آیات مرتب ہو گیا تھا۔
تیسرا مرحلہ: حضرت عثمان غنی کے زمانہٴ خلافت میں جب مسلمانوں کی سلطنت میں وسعت ہوئی اور لوگ فوج در فوج دائرہ اسلام میں داخل ہونے لگے تو حضرات صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین نے ان نو مسلموں کو قرآن کی تعلیم دینا شروع کی اور جیسا کہ سب کو معلوم ہے کہ قرآن کریم سات قراء ات میں نازل ہوا تھا اور مختلف صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین نے اس کو حضور صلی الله علیہ وسلم سے مختلف قراء ات کے مطابق سیکھا تھا۔ اس لیے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی کے مطابق قرآن پڑھایا جس کے مطابق اس نے خود حضور صلی الله علیہ وسلم سے سنا تھا۔ چناں چہ قراء ات کا اختلاف دور دراز کے ممالک تک پھیل گیا اور یہ بات ان ممالک میں مشہور نہ ہو سکی کہ قرآن کریم سات قراء ات میں نازل ہوا ہے ۔ ایک صحابی کے شاگرد دوسرے صحابی کے شاگردوں کی تغلیط کرنے لگے۔ جس سے امت مسلمہ کے ایک عظیم فتنہ میں گھر جانے کا اندیشہ پیدا ہوا، جس کے سد باب کے لیے یہ ضروری تھاکہ پورے عالم اسلام میں ایسے نسخے پھیلا دیے جائیں جن میں ساتوں قراء ات یکجا ہوں۔ چناں چہ یہ عظیم الشان کارنامہ حضرت عثمان غنی نے اپنے دور خلافت میں انجام دیا۔ حضرت عثمان غنی نے قرآن کریم کے متعدد معیاری نسخے تیار فرمانے کے بعد ،وہ تمام نسخے، جو مختلف صحابہ کرام رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کے پاس انفرادی طور پر تھے، حاصل کرکے نذر آتش کر دیے تاکہ امت مسلمہ رسم الخط اور مسلمہ قراء ات ،نیز سورتوں کی ترتیب میں متحد ہو جائے۔
حفاظت قرآن کا یہ مختصر سا نمونہ حضرات صحابہ رضوان الله تعالیٰ علیہم اجمعین کے دور کا تھا۔ حضرات تابعین اور تبع تابعین کے زمانے میں یہی سلسلہ رہا کہ ایک ہی شخص حافظ قرآن، مفسر قرآن اور علم قراء ات کا ماہر ہوتا تھا۔ پھر جیسے جیسے صلاحیتوں میں کمزوری آتی گئی ویسے ویسے حفاظت قرآن کی خدمت امت مسلمہ کے مختلف طبقوں میں تقسیم ہوتی رہی ، چناں چہ حضرات علمائے مفسرین نے قرآن کریم کے معانی ومطالب، تفسیر وتشریح او رمراد خداوندی کی حفاظت فرمائی۔ حضرات قراء ومجودین نے اس کی مختلف قراء ات ، ادائیگی حروف او رمخارج وصفات کی حفاظت کی او رحضرات حفاظ نے اس کے الفاظ کو اپنے سینوں میں محفوظ کرکے یہ خدمت انجام دی ۔ اس طرح صحیح مسلم شریف کی حدیث میں بیان کی ہوئی پیش گوئی پوری ہو گئی کہ الله تعالیٰ نے حضورا کرم صلی الله علیہ وسلم کے حق میں فرمایا کہ ”ونزل علیک کتابا لا یغسلہ الماء“ یعنی ہم آپ کے اوپر کتاب نازل کرنے والے ہیں جسے پانی نہیں دھوسکے گا۔ مطلب یہ ہے کہ کاغذاور قلم سے لکھی ہوئی کتابیں توحوادث وآفات کی زد میں آکر دنیا سے مٹ جاتی ہیں ، چناں چہ تو رات وانجیل وغیرہ کا جو حشر ہوا اور ہو رہا ہے وہ دنیا کے سامنے ہے، لیکن قرآن کریم کو اس طرح سینوں میں محفوظ کر دیا جائے گا کہ اس کا ضائع ہونا تو کجا، معمولی سے تغیر وتبدل کابھی خطرہ نہ رہے گا۔
یہ کلام ربانی کہ جس کی حفاظت کا وعدہ خودرب العزت نے ﴿وانا لہ لحافظون﴾ فرماکر کیا ہے، اس کے الفاظ، حروف، نقطے ، حرکات، حتیٰ کہ متشابہات وغیرہ کروڑوں مسلمان مردوں، عورتوں او ربچوں کے سینوں میں محفوظ ہیں تو کس طرح کوئی اس میں تغیر وتبدل کر سکتا ہے او راگر کسی نے ایسی ناپاک جرات کی تو امت کے انہی حفاظ وقراء نے اس کو ناکام بنا دیا۔
جب تک دنیا میں قرآن کریم موجود ہے، اس وقت تک اس کی حفاظت کرنے والے لا تعداد خوش نصیب بھی دنیا میں رہیں گے، جو تقریراً وتحریراً اس کی حفاظت کی خدمت انجام دیتے رہیں گے، لیکن ہر زمانے میں الله تعالیٰ ایسی محیر العقول ہستیاں پیدا فرماتا رہا ہے او رفرماتا رہے گا جو اپنی خداداد صلاحیتوں کی وجہ سے اپنے طبقہ میں ممتاز اورخدمت قرآن کریم میں لوگوں کے مزاج وضرورت کے مطابق جدت طرازی پر عمل کرکے دونوں جہان کی سعادتوں سے بہرہ ور ہوتی ہیں۔ ان کا اوڑھنا، بچھونا، سونا اورجاگنا صرف خدمت قرآن کریم ہوتا ہے۔
صلی الله علی سیدنا محمد وعلی آلہ واصحابہ اجمعین․