Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1432ھ

ہ رسالہ

5 - 19
اسلام کی حسین معاشرت
	

محترم محمد عزیزالرحمن

اسلام کے نقطہٴ نظر سے کائنات کا یہ سارا نظام قدرت نے اس لیے قائم فرمایا ہے کہ انسان اپنی معاشی سہولتوں کے لیے بالواسطہ یا بلاواسطہ اس سے استفادہ کرے اور نفع اٹھائے، اسلام کا ایک مستقل معاشرتی اور سیاسی نظام قرآن شریف نے مسلمانوں کو عطا کیا ہے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے اس کی تشریح کی ہے اور خلفائے راشدین نے اس پر عمل کرکے دنیا کو یہ بتلا دیا کہ اسلام کا معاشرتی اور سیاسی نظام کیا ہے ذیل میں ان واقعات کو درج کیا جاتا ہے ، جن سے اسلام کے معاشرتی اور سیاسی نظام کی جھلک ظاہر ہوتی ہے۔

اپنی مدد آپ کرو
ایک صاحب آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور کچھ امداد کے طالب ہوئے۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ان کونہ خود اپنے پاس سے کچھ دینے کی کوشش کی اور نہ دوسروں سے کچھ دلوایا۔ بلکہ ضرورت مند صاحب سے دریافت فرمایا۔” تمہارے پاس کوئی چیز بھی ہے“؟ وہ بے چارے اتنے غریب ونادار تھے کہ جواب میں انہوں نے عرض کیا” میرے پاس صرف ایک ٹاٹ ہے، جس کے ایک حصہ کو اوڑھ لیتا ہوں اور دوسرے کو بچھاتا ہوں۔ اس کے سوا ایک پیالہ بھی ہے، جس میں پانی پیتا ہوں۔“

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ جاؤ اسی پیالے اور ٹاٹ کو لے آؤ۔ وہ صاحب اپنا ٹاٹ اور پیالہ لے کر آئے، دیکھنے والوں نے دیکھا اور دنیا دنگ رہ گئی کہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم خود اس پیالہ اور ٹاٹ کو اپنے ہاتھ میں لے کر،اس کا نیلام کرنے کھڑے ہو گئے اور پکارنے لگے۔

من یشتر ھذین؟ ان دونوں کو کون خریدتا ہے ایک صاحب نے کہا:

انا آخذھما بدرھم․ میں لیتا ہوں ایک درہم میں نیلام کرنے والے صلی الله علیہ وسلم نے پھر حاضرین کو مخاطب کیا:

من یزید علی درھم؟ ایک درہم پر اضافہ کون کرتا ہے؟ اور لوگوں کو اس طرف توجہ دلوائی۔ بالآخر دو درہم پر بولی ختم ہو گئی، خریدار کو ٹاٹ او رپیالہ دے دیا گیا اور در درہم جو، قیمت میں، وصول ہوئے تھے وہ حاجت مند انصاری کے حوالے کرکے ارشاد فرمایا۔

ایک درہم سے اناج خریدلینا اور اپنے گھر والوں کو دے دینا اوردوسرے درہم سے ایک کلہاڑی خرید کر میرے پاس لاؤ۔

حضرت انس، جو اس روایت کے راوی ہیں، فرماتے ہیں کہ جس وقت انصاری نے کلہاڑی لاکر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کو دی تو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اس کلہاڑی کو لے جاؤ او رلکڑیاں کاٹ کاٹ کر لاؤ اور اس کو بیچو اور پندرہ روز کے بعد پھر مجھ سے ملنا وہ چلے گئے اور پندرہ دن بعد جب خدمت مبارک میں حاضر ہوئے تو وہ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم سے کہہ رہے تھے کہ ان پندرہ دنوں میں دس درہم آمدنی ہوئی، جس میں سے چند درہم کے تو کپڑے خریدے گئے اور چند درہم کا غلہ مول لیا گیا۔ انصاری کی یہ رپورٹ سن کر آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا چہرہ مبارک دمک اُٹھا اور فرمایا: ” یہ بہتر ہے اس سے کہ تمام قیامت کے روز بھیک کا داغ اپنے چہرے پر لگائے ہوئے آؤ۔“

حضرت ابوبکر اور فضول خرچی
حضرت ابوبکر جب خلیفہ بنائے گئے تو ایک دن حسب معمول چند چادریں ہاتھ میں لیے بازار میں فروخت کرنے کے لیے جارہے تھے۔ راستہ میں حضرت عمر ملے اور پوچھا کہاں تشریف لے جارہے ہیں؟

آپ نے فرمایا،بازار جار ہاہوں۔ حضرت عمر نے فرمایا، اگر آپ تجارت میں مشغول رہے تو خلافت کا کام کون کرے گا؟

حضرت ابوبکر نے فرمایا، بال بچوں کا پیٹ کیسے پالوں؟ حضرت عمر نے کہا چلو ابوعبیدہ کے پاس چلیں، جنہیں رسول کریم نے امین ہونے کا لقب دیا ہے ، وہ آپ کے لیے بیت المال سے کچھ رقم مقرر کر دیں گے۔ حضرت ابوعبیدہ نے حضرت ابوبکر کے لیے کچھ رقم مقرر کر دی۔ او راتنا مقرر کیا جو ایک عام آدمی کو مل سکتا ہے۔ آپ نے اس کوبہ خوشی قبول کیا اور اپنا سارا وقت مسلمانوں کے کام کے لیے وقف کر دیا۔

یہ رقم اتنی قلیل تھی کہ اس سے بمشکل گھر کے اخراجات چل سکتے تھے۔ یہاں تک کہ اس میں اتنی گنجائش نہیں تھی کہ اس سے کچھ اچھے کھانے پکائے جائیں۔

آپ کی بیوی کو کوئی میٹھی چیز پکانے کا خیال ہوا۔ لیکن بیت المال کے معاوضہ میں اتنی گنجائش کہاں تھی؟ انہوں نے روز کے خرچ میں سے تھوڑا تھوڑا بچا کر چند دنوں میں کچھ پیسے جمع کر لیے اور میٹھا بنا کر حضرت ابوبکر کے سامنے پیش کیا حضرت ابوبکر نے دریافت کیا کہ میٹھا بنانے کے لیے پیسے کہاں سے آئے؟ آپ نے سچ سچ بتلا دیا کہ اس طرح تھوڑا تھوڑا اکٹھا کرکے ہم نے پیسے جمع کیے ہیں ۔ حضرت ابوبکر نے اسی وقت بیت المال سے اتنی رقم کم کر وا دی اور کہا مجھے بیت المال سے صرف اتنی ہی رقم لینے کی اجازت ہے جس سے میرا اور میرے بیوی بچوں کا پیٹ پل سکے۔

حضرت عمر اور خلافت!
حضرت عمر نے جب اسلامی فوجوں کو ایران پر چڑھائی کا حکم دیا اور جنگ قادسیہ شروع ہوئی تو آپ کا یہ معمول تھا کہ آپ ہر روز سورج نکلتے ہی مدینہ منورہ سے باہر نکل جاتے او رجنگ کی خبر کے انتظار میں قاصد کی راہ دیکھتے ایک دن حسب معمول جب آپ باہر تشریف لے گئے تو آپ نے ایک شترسوار کو مدینہ کی طرف آتے دیکھا۔ یہ اسلامی فوجوں کے سپہ سالار حضرت سعد کا قاصد تھا۔ اور فتح کی خوش خبری لایا تھا۔ آپ نے اس کو ٹھہرانے کی کوشش نہیں کی ۔ بلکہ اونٹ کی رکاب پکڑے اس کے ساتھ ساتھ دوڑتے جاتے تھے اور شتر سوار سے جنگ کے بارے میں دریافت کرتے جاتے تھے۔

جب شتر سوار شہر میں داخل ہوا تو اس نے دیکھا کہ لوگ حضرت عمر کوامیر المؤمنین کے لقب سے پکار رہے ہیں۔ شتر سوار بہت آبدیدہ ہو ا اور ڈر سے کانپنے لگا اور کہا امیر المؤمنین! مجھے معاف فرما دیجیے۔ آپ نے کہا کہ تم نے کوئی غلطی نہیں کی۔ میں بھی تم جیسا ایک انسان ہوں، تم اپنا سلسلہ برابر جاری رکھو ۔اس طرح اس کی رکاب پکڑے گھر تک تشریف لے گئے۔

حضرت علی اور پیوند
حضرت علی کے کرتے میں پیوند دیکھ کر ،جب کہ وہ خلیفة المسلمین تھے ،دیکھنے والوں نے کہا: اپنے کرتے میں آپ پیوند کیوں لگاتے ہو؟

فرمایا:
”لا نہ یخشع القلب“: اس سے دل میں نرمی پیدا ہوتی ہے۔

حق گوئی اور بیبا کی
ایک دن حضرت عمر نے مسجد کے منبر پر کھڑے ہو کر کہا اگر میں دنیا کی طرف جھک جاؤں اور اسلام کے راستے سے بھٹک جاؤں تو تم لوگ کیا کرو گے ؟ ایک شخص وہیں کھڑا ہو گیا اور تلوار میان سے نکال کر کہا ہم تمہارا سر اڑا دیں گے۔ ایک اور موقع پر حضرت عمر نے مسلمانوں کے ایک گروہ سے پوچھا اگر میں اسلام کے اصولوں کے خلاف تم پر حکومت کروں تو تم کیا کرسکتے ہو؟ اس گروہ میں ایک بوڑھیا بھی تھی ،جب اس نے مسلمانوں کے خلیفہ سے اس قسم کی بات سنی تو آگ بگولہ ہو گئی اور غصہ میں کہنے لگی اے عمر !اگر ہم تمہیں الله اور الله کے رسول کے قانون پر چلتے ہوئے نہ دیکھیں تو تمہیں اسی وقت ختم کر دیں گے۔

آں حضرت صلی الله علیہ وسلم اور انصاف
ایک دفعہ قبیلہمخزوم کی ایک عورت فاطمہ چوری کے جرم میں گرفتار ہوئی۔ اسلام میں چور کے لیے یہ سزا ہے کہ اس کا ہاتھ کاٹ دیا جائے، عورت ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی تھی، اس کے رشتہ داروں کو یہ بات گوارا نہ تھی کہ ایک معزز خاتون کے ساتھ بھی یہ سلوک کیا جائے۔ وہ بارگاہ نبوی میں حاضر ہوئے اور پیغمبر صلی الله علیہ وسلم سے رعایت کی درخواست کی اور اسامہ بن زید کو سفارش کے لیے پیش کیا۔ حضور نے فرمایا! اے اسامہ !کیا تم الله کی حدود کو توڑنے کے لیے سفارش کرتے ہو؟خدا کی قسم !اگر محمد کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو اس کے بھی ہاتھ کاٹ دیے جاتے۔

خاتون جنت اور محنت
حضرت سلمان فرماتے ہیں کہ ایک دن حضرت علی کے ہاں گیا اور دیکھا کہ حضرت فاطمة الزہرہ چکی پیس رہی ہیں۔ آپ ان دنوں بیماری کی وجہ سے بہت ہی کمزور تھیں ۔میں نے دیکھا کہ جب آپ کا ایک ہاتھ تھک جاتا تو دوسرے ہاتھ سے چکی گھمانے لگتیں۔ آپ کے دونوں ہاتھ سرخ ہو گئے تھے اور پیشانی سے پسینہ بہہ رہا تھا، خاتون جنت کو اس قدر محنت کرتے دیکھ کر میرا دل بھرآیا او رمیں نے عرض کیا۔ اے بنت رسول !آپ اس ناتوانی میں کیوں اس قدر مشقت فرمارہی ہیں ،آپ کو حضور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے خدمت کے لیے ایک کنیز دے رکھی ہے ،اس سے کیوں کام نہیں لیتیں؟

خاتون جنت نے فرمایا۔ بارگاہ نبوت سے مجھے یہ حکم ملا ہے کہ میں اس سے برابری کا سلوک کروں۔ وہ میرا ہاتھ بٹائے اورمیں اس کا ہاتھ بٹاؤں، ہم نے گھر کے کام کاج کو اس طرح تقسیم کیا ہے کہ ایک روز وہ چکی پیسے او رایک روز میں ،اسی طرح آج میری باری ہے اور مجھے یہ کام انجام دینا ہے۔

گورنری یا درویشی
حضرت سعد بن عامر جنگ خیبر سے پہلے مسلمان ہوئے اور بعد کی جنگوں میں آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کے ہمراہ رہے ،حضرت عمر کے زمانہ میں جنگ یرموک میں انہوں نے بڑے کارہائے نمایاں کیے اور حضرت عمر نے انہیں حمص کا گورنر مقرر کر دیا، گورنر ہونے کے باوجود آپ زہد وتقوی کی زندگی بسر کرتے تھے، حضرت عمر کی طرف سے تمام گورنروں کے لیے خاص وظیفے مقرر تھے۔ لیکن وہ اپنے گھوڑوں کی قلیل آمدنی پر گزارہ کرتے او رتمام وقت رعایا کی بہبودی اور ہمدردی میں صرف کرتے۔ حضرت عمر جب حمص تشریف لے گئے تو انہوں نے فقراء ومساکین کی فہرست طلب کی، تاکہ حکومت کی طرف سے ان کے معاش کا انتظام کیا جائے۔ جب فہرست تیار ہو کر آئی تو اس میں سعد بن عامر کا نام بھی تھا۔

حضرت عمر نے پوچھا یہ سعد بن عامر کون ہے؟ فہرست تیار کرنے والے نے کہا:” ہمارا امیر اور گورنر“۔

حضرت عمر نے حیرت سے پوچھا یہ اپنا وظیفہ کیا کرتے ہیں؟ جواب ملا انہوں نے کبھی وظیفہ کو ہاتھ نہیں لگایا۔

حضرت عمر نے فوراً ایک ہزار دینار ان کی خدمت میں بھیج دیے، آپ نے تھیلی دیکھ کر انا الله وانا الیہ راجعون پڑھا۔ بیوی نے پوچھا کیا حادثہ ہوا؟ آ پ نے فرمایا بہت خطرناک ؟ بیوی نے پھر پوچھا کیا قیامت آگئی؟ آپ نے فرمایا: قیامت سے زیادہ خطرناک، دنیا فتنوں کو لے کر میرے پاس آئی ہے، اسی وقت تھیلی لشکر میں تقسیم کروادی اور سجدے میں گر کر خدا سے دعا مانگی۔
Flag Counter