Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1432ھ

ہ رسالہ

7 - 19
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
	

دارالافتا جامعہ فاروقیہ کراچی

سودی قرضہ لینے کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرا م اس مسئلہ کے بارے میں کہ ہم سب بھائیوں اور بہنوں کا ایک مشترکہ مکان ہے میں اپنے لیے الگ مکان لینے کا خواہش مند ہوں کیوں کہ میں ایک سرکاری ادارے کا ملازم ہوں ہمارے لیے نیشنل بینک میں یہ سہولت ہے کہ مذکورہ بینک ہمیں 20 تنخواہیں ایڈوانس میں دیتا ہے جو کہ تقریباً دو لاکھ تیس ہزار رقم بنتی ہے اور یہ رقم ہم بینک کو پانچ سال کے عرصہ میں واپس دیتے ہیں لیکن واپسی میں ہمیں دو لاکھ اسی ہزار روپے واپس ادا کرنے پڑتے ہیں آیا میرے لیے مذکورہ صورت میں رقم لینا کیسا ہے؟ اور کیا اسلام میں اس کی گنجائش ہے؟ قرآن وسنت کی روشنی میں مسئلہ ہذا کی وضاحت فرمائیں الله آپ کا حامی وناصر ہو۔

جواب… واضح رہے کہ سود لینا اور دینا دونوں حرام ہیں ، قرآن کریم میں سب سے زیادہ سخت او ربڑی وعید اسی گناہ کے بارے میں بتائی گئی ہے اور سود لینے کو الله تعالیٰ اور اس کے رسول ( صلی الله علیہ وسلم) کے ساتھ جنگ کرنا قرار دیا گیا ہے اور حدیث شریف میں بھی ایسے شخص پر لعنت کی گئی ہے ، ایک حدیث میں آیا ہے کہ سود کا ایک درہم جان بوجھ کر کھانا چھتیس (36) مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ بدتر ہے، ایک اور حدیث میں ہے کہ سود کے ستر(70) درجات ہیں، سب سے ادنیٰ درجہ گویا اپنی ماں کے ساتھ زنا کرنا ہے، اس کے علاوہ اور بھی بے شمار وعیدیں احادیث مبارکہ میں بیان فرمائی گئی ہیں، اس لیے ایک مسلمان ہونے کی حیثیت سے سود سے بچنا انتہائی ضروری ہے۔

سوال میں مذکورہ صورت”بینک سے قرضہ لینا اور زیادتی کے ساتھ واپس کرنا“ واضح سودی معاملہ ہے ، جو کہ ناجائز اور حرام ہے۔

چند منٹوں کی تاخیر کی وجہ سے پورے دن کی تنخواہ کا کاٹنا
سوال… جناب مفتی صاحب، براہ کرم شریعت کی روشنی میں وضاحت فرمائیں کہ:

ہمارے دفتر میں نظم ونسق کے نام پر مہینے میں تین دن، پانچ منٹ تاخیر سے آنے پر اسٹاف کی ایک دن کی تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔

جب کہ آفس ٹائم کے بعد مقررہ کام مکمل کرنے پر اسٹاف کو کوئی معاوضہ ( اوور ٹائم) نہیں دیا جاتا۔

نیز اتوار یا کسی بھی تعطیل یا ہڑتال کے دن اسٹاف کو بلایا جاتا ہے جس کا بھی کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا اور ہڑتال کے روز بھی آفس نہ پہنچنے پر تنخواہ کاٹ لی جاتی ہے۔

عدم مساوات یہ بھی ہے کہ بعض منیجر یا اسسٹنٹ منیجر جو اکثر دیر سے آتے ہیں انہیں اس مد میں استثنیٰ حاصل ہے یا پھرکٹوتی ، پارٹنر کی مداخلت پر انہیں واپس کر دی جاتی ہے۔

استفسار یہ ہے کہ اسٹاف کی اس طرح تنخواہ کاٹنا شرعی اعتبار سے کیسا ہے؟ کیا نظم ونسق کے نام پر اس قسم کے اقدام جائز ہیں؟

جواب مرحمت فرماکر عندالله ماجور ہوں۔

جواب… مذکورہ صورت میں اس دفتر میں ملازم اجیر خاص کی حیثیت رکھتا ہے او را سکو دفتر کے وقت میں حاضر ہو کر کام کرنا ضروری ہے ، لہٰذا صورت مسئولہ میں دفتر کے وقت میں جتنی تاخیر کی جائے، اسی کے بقدر تنخواہ کاٹنا جائز ہے، نہ کہ اس سے زیادہ۔

چوں کہ اس ملازم کے ساتھ یہ عقد دفتر کے وقت پر ہوا ہے، اب اگر ملازم دفتری وقت کے بعد بھی کام کرے ، تو منتظمین پر اس کی اجرت لازم نہ ہو گی ، کیوں کہ اس پر عقد ہو اہی نہیں، البتہ منتظمین کو چاہیے کہ مروتاً ایسے ملازمین کو ”اوورٹائم“ کی اجرت دے دیا کریں۔

اتوار یاکسی اور تعطیل کے دن یا پھر ہڑتال کے دن حاضری کو لازم قرار دینے پر اس کی اجرت دینا بھی لازم ہو گا ، ورنہ ان ایام میں حاضر نہ ہونے پر تنخواہ سے کٹوتی جائز نہ ہو گی۔

منتظمین اگر کسی کی تنخواہ سے تاخیر کرنے پر کٹوتی کرتے ہیں، تو اس کا ان کو اختیار ہے او راگر وہ اس تاخیر کرنے کے باوجود تنخواہ پوری دیں، تو اس کا بھی ان کو اختیار ہے، لہٰذا اگر منیجر یا اسسٹنٹ منیجر کی تنخواہ سے کٹوتی نہیں کی جاتی، تو اس میں کوئی مضائقہ نہیں، اگرچہ اولیٰ یہی ہے کہ سب میں مساوات برقرار رکھی جائے، البتہ کٹوتی ہو جانے کے بعد غیر قانونی طریقہ سے واپس لینا جائز نہیں۔

مارکیٹ میں گاڑی کی خریداری کی ایک مروج صورت کا حکم
سوال… مسئلہ یہ ہے کہ اکثر وبیشتر مارکیٹ میں یہ صورت پیش آتی ہے کہ ہمیں گاڑ ی کی ضرورت ہوتی ہے لیکن قیمت کے زیادہ ہونے کی وجہ سے ہم نہیں خرید سکتے، تو اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ہم کسی شو روم میں ایک گاڑی پسند کرلیتے ہیں او رپھر کسی دوسرے شخص سے کہتے ہیں کہ تم وہ گاڑی شوروم سے خرید کر ہمیں قسطوں پر فروخت کر دو چناں چہ وہ شخص وہ گاڑی خرید کر زیادہ مہنگی کرکے ہمیں قسطوں پر فروخت کر دیتا ہے ، اب اس معاملہ کی کئی صورتیں ہوتی ہیں جو درجہ ذیل ہیں۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بائع وہ گاڑی مکمل رقم شوروم والوں کو دے کر ہمیں فروخت کرتا ہے اس میں کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بائع شو روم والوں سے گاڑی اپنے قبضہ میں لے لیتا ہے او رکبھی ایسا ہوتا ہے کہ گاڑی شو روم ہی میں کھڑی رہتی ہے البتہ شو روم والے بائع کو کہہ دیتے ہیں کہ جب چاہو تم یہ گاڑی لے جاؤ ۔

کبھی ایسا ہوتا ہے کہ بائع شو روم والوں کو کچھ بیعانہ دے دیتا ہے اور بیعانہ دینے کے بعد ہمیں فروخت کرتا ہے اس میں بھی کبھی ایسا ہوتا ہے کہ اگر بائع کی شو روم والوں سے جان پہچان ہو تو وہ اس کو گاڑی او راس کے کاغذات دے دیتے ہیں اور آپس میں یہ طے کر لیتے ہیں کہ اتنے دن بعد بقیہ رقم دے دو گے اور بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ شو روم والے بائع سے صرف بیعانہ لینے کے بعد گاڑی کا قبضہ یا اس میں تصرف کا حق نہیں دیتے ہیں جب تک کہ وہ مکمل رقم شو روم والوں کو نہ دے دے۔

پھر بیعانہ کی صورت میں ایسا بھی ہوتا ہے کہ اگر بائع کا ہم سے کسی بات کی وجہ سے سودا نہ ہو ( مثلاً ہمیں گاڑی پسند نہیں آئی یا گاڑی کی قیمت کے متعلق ہمارا اتفاق رائے نہ ہو سکاتو بائع وہ گاڑی شو روم میں کھڑی رہنے دیتا ہے ( اور اگر اس نے پہلے شو روم والوں سے بات کر لی کہ اگر میں آگے سود نہ کر سکا تو پھر میں گاڑی نہیں لوں گا)

اب اس میں بعض دفعہ شوروم والوں اور بائع کا آپس میں پہلے سے گٹھ جوڑ ہوتا ہے کہ اگر ہم نے نہیں لی تو وہ گاڑی شو روم میں کھڑی رہے گی، لہٰذا بعض دفعہ شو روم والے بیعانہ اپنے پاس رکھ لیتے ہیں بعض دفعہ مزید تاوان لیتے ہیں اور بعض شو روم والے وہ بیعانہ بھی واپس کر لیتے ہیں۔

لیکن خریدتے وقت ہمیں معلوم نہیں ہوتا کہ بائع نے کس صورت کے تحت ہمیں گاڑی فروخت کی ہے یعنی وہ ہمیں یہ کہہ دیتا ہے کہ یہ گاڑی اب میری ملکیت میں ہے، میں نے مکمل خرید لی ہے۔

اب آپ حضرات سے استفسار یہ ہے کہ کیا مذکورہ صورتوں کے مطابق جو ہم معاملات کرتے ہیں وہ جائز ہیں یا ناجائز یا پھر کون کون سی صورتیں جائز اور کون سی ناجائز ہیں؟

جواب… واضح رہے کہ کسی بھی چیز کی خرید وفروخت کا معاملہ (خواہ نقد کی صورت میں ہو یا قسطوں کی صورت میں ) کرنے کے لیے ضروری ہے کہ بائع کا مبیع پر قبضہ ہو یا وہ مبیع حوالے کرنے پر قادر ہو اور بائع ومشتری دونوں کی طرف سے کوئی ایسی شرط نہ لگائی جائے جس کا بیع تقاضا نہیں کرتی ہو ، لہٰذا ! صورت مسئولہ میں ذکرکردہ صورتوں میں سے جواز کی واضح اور آسان صورت یہ ہے کہدوسرا شخص مکمل رقم کی ادائیگی کے بعد شو روم والوں سے گاڑی اپنے قبضے میں لے لے، یا شوروم والے خریدی جانے والی گاڑی کو دیگر گاڑیوں سے اس طرح ممتاز کر دیں کہ یہ جب چاہے بغیر کسی رکاوٹ کے وہ گاڑی شو روم سے لے جاسکے اور اسے گاڑی میں تصرف کا مکمل اختیار حاصل ہو ، تو اس صورت میں اس کے لیے آگے فروخت کرنا اور آپ کے لیے خریدنا شرعاً جائز ہے۔

کسی چیز کی خریداری کے وقت جو بیعانہ خریدار بائع کو رکھواتا ہے اس سے معروف یہ ہوتا ہے کہ اگر خریدار نے باقی رقم بھی ادا کردی تو مبیع اس کے حوالے کر دی جائے گی اور اگر وہ سود ے سے مکر جائے تو اس کی رکھوائی ہوئی رقم کو بائع ضبط کر لے گا، مذکورہ طریقے پر بیعانہ رکھوا کر کوئی چیز خریدنا اور فروخت کرنا، ناجائز ہے، اگر کسی نے اس طرح بیع کر لی تو اس کو ختم کرنا ضروری ہے ، اگر بیع ختم نہ کی اور خریدار اس چیز کو آگے فروخت کرکے منافع کمالے تو وہ اس کے لیے حلال نہیں ہو گا۔

البتہ اگر خریدار کسی چیز کو قسطوں پر خریدے اور بوقت عقد دی جانے والی رقم ایڈوانس ( ابتدائی قسط) کے طور پر جمع کرائے یا پھر نقد خریدنے کی صورت میں خریدار اس بات کی وضاحت کر دے کہ پیشگی ادا کی گئی رقم، خریدی جانے والی چیز کی قیمت میں سے ہے او ر یہ کہ اگر مشتری کسی عیب وغیرہ کی وجہ سے انکار کر دے تو اس کی ادا کردہ رقم اس کو واپس کی جائے گی، تو اس صورت میں بیع جائز ہو گی اور سودانہ ہونے کی صورت میں بائع پر لازم ہے کہ خریدار کی جانب سے جمع کرائی گئی رقم واپس کرے۔

لہٰذا ! صورت مسئولہ میں اگردوسرا شخص شو روم والوں کو صرف بیعانہ رکھوا کر بیع کر لے اور آگے فروخت کر دے تو اس کا فروخت کرنا اور آپ کا خریدنا جائز نہیں، البتہ اگر عمران شو روم والوں سے گاڑی کی قیمت متعین کر لے اور پھر ابتدائی طور پر متعین ثمن میں سے کچھ حصہ شو روم والوں کو دے کر گاڑی اپنے قبضے میں لے اور اس بات کی صراحت کر دے کہ اگر کسی وجہ سے وہ بیع قائم نہ رکھ سکا تو جمع کرائی ہوئی رقم اسے واپس مل جائے گی تو اس طریقے سے اس کا شو روم والوں سے گاڑی خریدنا اور آپ کو فروخت کرنا جائز ہے۔

اسی طرح اگریہ دوسرا شخص شو روم والوں سے اس شرط پڑ گاڑی خریدے کہ اگر وہ آگے فروخت نہ کر سکا تو وہ گاڑی شو روم والوں کو واپس کر دے گا، تو یہ بیع فاسد اور ناجائز ہو گی اور اس طرح خریدنے کے بعد اگراس نے اس گاڑی کو آپ پر فروخت کیا تو اس کے لیے حاصل شدہ نفع حلال نہیں ہو گا، اسی طرح اگر آپ کو یہ معلوم ہے کہ اس نے شو روم والوں سے گٹھ جوڑ کیا ہے ، تو آپ کے لیے بھی اس سے گاڑی خریدنا درست نہیں بشرطیکہ وہ مکمل طور پر گاڑی پر قبضہ کر لے اور گاڑی میں تصرف کا اسے مکمل اختیار حاصل ہو۔
Flag Counter