Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1432ھ

ہ رسالہ

6 - 19
خواہشات نفسانی اور ہدایات ربانی
	

حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانوی

﴿ومن اضل ممن اتبع ھواہُ بغیر ھدی من الله، ان الله لا یھدی القوم الظلمین﴾․(سورہ قصص:50)
ترجمہ: اور ایسے شخص سے زیادہ کون گم راہ ہو گا جو اپنی نفسانی خواہش پر چلتا ہو، بدون اس کے کہ منجانب الله کوئی دلیل ہو، الله تعالیٰ ایسے ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں کیا کرتا“۔

روحانی امراض سے بے فکری
یہ ایک آیت کا ٹکڑا ہے، جس میں حق تعالیٰ نے ہمارا ایک ایسا مرض ذکر کیا ہے جوقریب قریب اکثر طبائع میں عام ہے، ہاں! یہ ضرور ہے کہ اس کے مدارج (درجات) مختلف ہیں، جیسے کسی خاص قسم کا بخار ایک مرض مشترک ہے، مگر اس کے مدارج مختلف ہوتے ہیں، کسی کا بخار تیز ہے او رکسی کا ہلکا ہے، لیکن نفس بخار ایک جماعت میں مشترک ہے، پھر امراضِ جسمانی میں ہماری حالت یہ ہے کہ اگر کسی کو خفیف مرض ہو(چھوٹی بیماری) تو عقلاء کے نزدیک اس کی خفت کی طرف نظر نہیں کی جاتی اور یہ خیال نہیں کر لیا جاتا کہ یہ تو خفیف سا مرض ہے، اس کاعلاج نہ کیا جائے، بلکہ باوجود خفیف ہونے کے اس کے علاج سے بے فکری نہیں ہوتی اوراس کے حالی ضرر کے علاوہ اس کے مآلی شدید ضرر کا اندیشہ ہوتا ہے(اس کے وقتی نقصان کے علاوہ اس کے ذریعہ بعد میں ہونے والے سخت نقصان کا بھی خیال کیا جاتا ہے) مگر امراضِ روحانی کے باب میں علاوہ اس کے کہ جسمانی امراض کی طرح اس کا اہتمام نہیں ایک مرض اور بھی ہے، وہ یہ کہ اس میں یہ تفتیش ہوتی ہے کہ یہ بڑا مرض ہے یا خفیف(چھوٹا)۔

چھوٹے بڑے گناہ کے بارے میں سوال
چناں چہ عموماً یہ سوال کیا جاتا ہے کہ کیوں صاحب! کیا یہ بڑا گناہ ہے یا چھوٹا؟ میں پوچھتا ہوں کہ اس سوال سے مقصود بجز اس کے او رکیا ہے کہ اگر بڑا گناہ ہو گا تو اس سے بچیں گے، ورنہ نہیں،مگر اس کی تو ایسی مثال ہے جیسے کوئی شخص آپ کے پاس آکر یوں کہے بھائی! میں تمہارے چھپر میں آگ لگاؤں گا، مگر چھوٹی سی چنگاری رکھوں گا، بڑا سا انگارانہ رکھوں گا۔ تو اس کو سن کر ہر گز آپ کو بے فکری نہ ہو گی اور آپ اس سے یوں نہ کہیں گے کہ ہاں جی! چھوٹی سی چنگاری کا کیا مضائقہ ہے؟ رکھ بھی دو۔ بلکہ یہ سن کر معاً اس کی مزاحمت کرو گے ،روکو گے اور احتجاج کروگے کہ یہ آپ نے خوب کہی کہ بڑا انگارا نہ رکھوں گا، آپ نے یہ نہ سمجھا کہ چھوٹی چنگاری بھی بجھنے سے پہلے بڑی بن جاتی ہے، دوسرے چھوٹی چنگاری گو حساً چھوٹی ہے، مگر نوعیت تو مشترک ہی ہے، جو کام بڑا انگارا کرتا ہے وہی یہ کر سکتی ہے۔ ہاں! یہ فرق ضرور ہے کہ بڑا انگارا جلد کام کرتا ہے او رچھوٹی چنگاری ذرا دیر میں کام کرتی ہے، مگر دونوں کا اثر تو یکساں ہے، اس لیے یہ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے چھوٹا ہونے سے کیا کچھ بے فکری ہو سکتی ہے؟ حالاں کہ دونوں میں فرق بھی ہے، مگر یہ فرق ظاہری مضرات(نقصان) میں معتدبہ شمار نہیں ہوتا مگر حیرت ہے کہ مضراتِ باطنی میں اس چھوٹے بڑے کے فرق کو معتبر او رمؤثر سمجھا جاتا ہے وجہ اس کی صرف یہ ہے کہ مضرات باطنی کو لوگ مضرت ہی نہیں سمجھتے اگر مضرت سمجھتے تو گناہ کے چھوٹے اور بڑے ہونے کی تحقیق کیوں کی جاتی؟

چھوٹے بڑے گناہوں کی علمی تحقیق علماء کا کام ہے
البتہ تحقیق علمی کا مضائقہ نہیں، جس سے مقصود صرف فرق مراتب اور درجات عمل کا معلوم کرنا ہوتا ہے، مگر یہ حق صرف اہلِ علم کو ہے، عوام کو اس تحقیق کا حق نہیں نہ ان کو اس تحقیق سے کچھ فائدہ ہے۔ کیوں کہ جب ان کو اعمال مباحہ ومامور بہا(وہ اعمال جو جائز ہیں اور وہ اعمال جن کے کرنے کا حکم دیا گیا دونوں کے درجات میں ان کو فرق معلوم نہیں) کے درجات معلوم نہیں، نہ ان کے ذمہ لازم ہیں ، تو وہ گناہوں کے درجات معلوم کرکے کیا لیں گے؟ ان کی غرض اس سوال سے بجز اس کے کچھ نہیں کہ اگر بڑا گناہ ہو تو نہ کریں اورچھوٹا ہو تو اس کی جرات کر لیں، سو اس غرض سے یہ سوال سراسر ناجائز اورنہایت مضر سوال ہے۔

امراضِ ظاہری او رباطنی میں لوگوں کا طرزِ عمل
مگر دیکھا جاتا ہے کہ آج عموماً اس قسم کے سوالات علماء سے کیے جاتے ہیں، جو علامت ہے گناہوں کو ہلکا سمجھنے کی، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ امراض روحانی میں تو لوگوں کی یہ عادت ہو گئی ہے او رامراضِ جسمانی میں خفیف مرض کی بھی زیادہ فکر کرتے ہیں ان کو ہلکا نہیں سمجھتے مثلاً خفیف بخار میں(ہلکا سا بخار ہو جائے تو) یوں سمجھتے ہیں کہ بخار کا جسم میں رکا ہوا ہونا بہت برُا ہے۔ یہ جو تھوڑا بخار رہتا ہے، بعض اوقات تیز بخار سے بھی زیادہ فکر کی بات ہے۔ غرض امراضِ جسمانی میں قلیل وکثیر دونوں سے یکساں خطرہ اور خوف ہوتا ہے اس قاعدہ کا مقتضا تو یہ تھا کہ امراض روحانی میں بھی شدید او رخفیف معصیت سے، دونوں قسم کی معصیت سے، یکساں خوف ہوتا، مگر اس میں اس کے خلاف دیکھا جاتا ہے، وہ یہ کہ جو معصیت شدید ہوتی ہے اس کو تو معصیت سمجھتے ہیں، مثلاً زنا کو گناہ بھی سمجھتے ہیں، اس کوطبعایا عرفاً عیب بھی سمجھتے ہیں ۔ اس کا ارتکاب بھی اکثر مسلمان نہیں کرتے او راگر کبھی غلطی سے زنا سرزد ہو جائے تو بہت پریشان او رپشیمان ہوتے ہیں، بخلاف غیبت کے، اس کو خفیف سمجھا جاتا ہے اور خفیف سمجھ کر اس کا ارتکاب بھی کر لیا جاتا ہے۔

غیبت میں ابتلائے عام
حتی کہ علماء او رمشائخ بھی اس سے خالی نہیں۔ بلکہ عوام الناس تو اس کو برُا سمجھ کر کرتے ہیں او رہم کچھ تاویل کرکے اچھا سمجھ کرکرتے ہیں۔ نیز عوام الناس تو ان لوگوں کی غیبت کرتے ہیں جو اکثر ذنوب وعیوب میں مبتلا بھی ہیں گو ان کی غیبت بھی حلال نہیں اور ہم لوگ جو اہل علم او راہل ارشاد کہلاتے ہیں ہماری یہ کیفیت ہے کہ ہم غیبت کے لیے بھی علماء وصلحاء کو منتخب کرتے ہیں، اگر مولوی صاحب غیبت کریں گے تو کسی مولانا ہی کی کریں گے او رپیر صاحب غیبت کریں گے تو پیر صاحب ہی کی کریں گے۔ رہی یہ بات کہ ان کو عوام اور جہلا سے تعرض کیوں نہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ ان کے مال وجاہ میں شریک نہیں ہیں اور اہلِ علم وصلحا ان کے مال وجاہ میں شریک ہیں، ان کا وہم یہ ہے کہ دوسرے علما ومشائخ ہمارے جاہ ومال میں شریک ہو جائیں گے تو ان کی وجہ سے ہماری جاہ و مال میں کمی آجائے گی، اس لیے ان کو غیبت کے لیے خاص کیا جاتا ہے ۔ غرض اس گناہ میں مشائخ تک بھی مبتلا ہیں او روجہ وہی ہے کہ اس کو خفیف سمجھا جاتا ہے۔

علما او رمشائخ کی غلط تاویل
بلکہ غضب یہ ہے کہ ایک گونہ عبادت قرار دی جاتی ہے۔ یعنی یوں کہا جاتا ہے کہ ہم دوسرے علما ومشائخ کی اس لیے غیبت کرتے ہیں او ران کے عیوب کو اس لیے ظاہر کرتے ہیں، تاکہ الله کے بندے ان کے اثر اور ضرر سے محفوظ رہیں وہ لوگوں کو گمراہ کر رہے ہیں ۔ اس لیے لوگوں کو ان کے عیوب وفتن سے آگاہ کر دینا چاہیے۔

غرض یہ کہ ہم غیبت بھی کرتے ہیں، پھر اس کو عبادت قرار دے کر کرتے ہیں ۔ ہم لوگوں کی یہ حالت عوام سے بھی بدتر ہے۔ بہرحال اس کی بنیاد کیا ہے ۔ بنیاد وہی ہے کہ اس کو خفیف سمجھا جاتا ہے، اس لیے بے دھڑک اس کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔

گناہ کو ہلکا سمجھنا گناہِ کبیرہ ہے
او رمحققین نے دلائل سے ثابت کر دیا ہے کہ جس گناہ کو خفیف سمجھا جائے وہ گناہ کبیرہ سے بھی اشد ہے، کیوں کہ اس سے توبہ بھی نہیں کی جاتی۔ اس سے توبہ کی توفیق ہونا بھی مشکل ہے، اسی لیے میں کہتا ہوں کہ ایسا گناہ زیادہ قابل اہتمام ہے۔

غیبت کا گناہ زیادہ کیوں؟
اور عجب نہیں کہ یہی مبنیٰ ہو اس حدیث کا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”الغیبة اشد من الزنا“ کہ” غیبت زنا سے بھی اشد ہے“ حالاں کہ ظاہراً مفسدہ اور قبح زنا کا زیادہ ہے، مگر پھر بھی آپ غیبت کو اشد فرما رہے ہیں ۔اس میں بہت سے اسرار ہیں ،منجملہ ان کے ایک یہ نکتہ بھی ہو سکتا ہے زنا جو شخص کرتا ہے وہ اس کو بُرا بھی سمجھتا ہے اور غیبت کو اکثر حالات میں بُرا نہیں سمجھا جاتا اور ظاہر ہے کہ جس گناہ کے ساتھ استخفاف کیا جاوے وہ اس گناہ سے اشد ہے جس کے ساتھ استخفاف نہ کیا جاوے کیوں کہ اس سے توبہ کی توفیق نہیں ہوتی او راگر اس دلیل یعنی عدم توفیق توبہ سے بھی اس کی اشدیت کو مستنبط نہ کیا جاوے، تاہم قاعدہ شرعیہ یہی ہے کہ جس گناہ کو خفیف سمجھا جائے وہ شدید ہو جاتا ہے( یعنی تو بہ کی توفیق نہ ہونے سے بھی غیبت کی سختی کو نہ سمجھا جائے تو شرعی قاعدہ یہی ہے کہ جس گناہ کو ہلکا سمجھیں بڑا ہو جاتا ہے) خواہ وجہ اس کی کچھ ہی ہو، اس لیے بہت زیادہ ضروری تھا کہ اس سے بہت احتیاط کی جاتی، مگر ہم لوگوں کی یہ حالت ہے کہ تفاوت درجہ کی وجہ سے بعض گناہوں کو خفیف سمجھ کر بے دھڑک ان کا ارتکاب کر لیتے ہیں حالاں کہ مقتضائے عقل تو یہ تھا کہ جتنا خفیف مرض ہو تساہل کے خوف سے اس سے زیادہ احتراز ہوتا، جیساکہ امراض جسمانی میں کیا جاتا ہے، مگر یہاں ثقیل گناہ سے تو کچھ رکاوٹ ہوتی بھی ہے، مگر خفیف سے بالکل نہیں ۔ پس سمجھ لیجیے کہ درجہ کا تفاوت سبب جرأ ت ہونا چاہیے کہ یہ تو صغیرہ گناہ ہے اور یہ بات تو مکروہ ہے، اس کو کر لیا جاوے اور یہ کبیرہ ہے، اس کو نہ کرنا چاہیے۔

گناہ صغیرہ او رکبیرہ کی تحقیق کی وجہ
ہر چند کہ گناہوں میں درجہ کا تفاوت ہے، مگر اس کے یہ معنی نہیں کہ اس کی اجازت ہے اور اس کی اجازت نہیں بلکہ یہ معنی ہیں کہ جب درجہ متعین ہو جائے گا تو اس سے یہ معلوم ہو گا کہ کبیرہ کی سمیت شدید ہے۔ کبیرہ کا زہر زیادہ ہے۔ اس کا تدارک مہتم بالشان تدابیر سے ہونا چاہیے او را س کے لیے زیادہ اہتمام کی ضرورت ہے اور یہ معلوم ہو جائے کہ جو گناہ خفیف ہیں ان کی تدابیر آسان ہیں، اس وجہ سے تحقیق تفاوت درجہ کی، کی جاتی ہے، نہ اس وجہ سے کہ اس کو کیا جاوے اور اس کو نہ کیا جاوے۔

خلاصہ یہ ہے کہ منجملہ اور امراض کے، ہمارے اندر ایک یہ بھی مرض ہے کہ خفیف سمجھ کر بعض گناہوں سے بچنے کا اہتمام بالکل چھوڑ دیتے ہیں، اسی مرض کو حق تعالیٰ ایک خاص عنوان، جس سے اس مرض کا منشا بھی معلوم ہو جاوے گا ،اس جگہ بیان فرماتے ہیں۔

ہوائے نفسانی کے مرض کا منشا
چناں چہ وہ مضمون او راس کا منشا ترجمہ ہی سے معلوم ہو جائے گا سو ارشاد ہے:﴿ومن اضل ممن اتبع ھٰوہ بغیر ھدی من الله﴾ یعنی” کون زیادہ گم راہ ہے اس شخص سے جس نے اتباع کیا اپنی خواہش کا بدوں اس کے کہ اس کے متعلق الله تعالیٰ کی کوئی ہدایت یعنی دلیل شرعی ہو؟“ یعنی بغیر ہدایت او ردلیل شرعی کے اس نے اتباع کیا اپنی خواہش نفسانی کا۔

ترجمہ سے معلوم ہو گیا ہو گا کہ حق تعالیٰ کس بات کی مذمت فرمارہے ہیں اور یہ ذرا توجہ سے معلوم ہوسکتا ہے کہ واقعی ہم لوگوں میں یہ مرض عام ہے یا نہیں ۔ سو حق تعالیٰ مذمت فرماتے ہیں خواہش نفسانی کی کہ جس چیز کو جی چاہا کر لیا اور ظاہر ہے کہ خواہش نفسانی کا جب ایسا اتباع ہو گا گناہ اس کی نگاہ میں ثقیل اور عظیم نہ ہو گا، بلکہ خفیف اور سرسری ہو گا۔ اس سے دونوں باتیں معلوم ہو گئیں، مرض بھی ،یعنی استخفاف معاصی اور اس کا منشا بھی، یعنی اتباع ہوی اور اس کا مرض عام ہونا جو جی میں آیا کر لیا۔ پس ہمارے یہاں مرجح محض اتباع ہوی ہے یعنی ہمارے نزدیک وجہ ترجیح صرف ہماری خواہش کا ہونا ہے چاہے وہ فعل ہو ۔دونوں میں مرجح یہی ہے او رکچھ نہیں اور مرجح کا اشتراط ظاہر ہے کیوں کہ یہ مسئلہ مسلمہ ہے کہ ( القدرة تتعلق بالضدین) یعنی” قدرت کا تعلق ضد ین کے ساتھ ہوتا ہے “۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ ایک ضد پر تو قدرت ہو دوسریٰ پر نہ ہو، مثلاً کوئی شخص نماز پڑھنے پر قادر ہے تو اس کے ترک پر بھی ضرور قادر ہو گا۔ افعال مقدورہ میں دونوں جانبوں یعنی فعل وترک پر قدرت ہوتی ہے ، کہ وہ افعال جن کا کرنا انسان کی قدرت میں ہو ان کے نہ کرنے پر بھی انسان قادر ہوتا ہے او رایک جانب کودوسری پر ترجیح کسی خاص وجہ سے دی جاتی ہے، غرض فعل ہو یا ترکِ فعل، ہر ایک کے لیے مرجح ہونا چاہیے، یعنی کوئی ایسا داعی ہونا چاہیے جس کی وجہ سے انسان اپنی قوتِ ارادیہ کو ایک جانب کی طرف پھیردے۔

افعال وترکِ افعال کا داعی کون؟
اب دیکھنا یہ ہے کہ ہمارے افعال یا ترک میں وہ داعی کون ہے؟ عقلاً دو حال سے خالی نہیں یا داعی مذموم ہے اور وہ ہویٰ ہے یا داعی محمود ہے اور وہ ہدیٰ ہے ( اس کا سبب بُرا ہے جو کہ خواہش ہے یا اچھا جو کہ ہدایت ربانی ہے) یہی دونوں چیزیں اس آیت میں بھی مذکور ہیں او ردونوں کے لفظ ہم قافیہ بھی ہیں۔ پس داعی بننے کے قابل یہی دو چیزیں ہیں، مگر بندہ کی شان کہ اتباع ہویٰ کو مرجح بنا رکھا ہے ، وہ خواہشات کی پیروی کو ترجیح دیتے ہیں پس اس آیت میں اسی بات کی مذمت کی ہے کہ ہویٰ پر ترجیح دی جاتی ہے، اب ہم لوگوں کو چاہیے کہ اپنی حالت کو ٹٹول کر دیکھیں کہ یہ بات ہمارے اندر ہے یا نہیں۔

کسی آیت کا کفار کی شان میں ہونے سے یہ لازم نہیں آتا کہ اس کا تعلق مسلمانوں سے نہیں ہے
ہرچند یہ آیت بدلالت سباق وسیاق کفار کی شان میں ہے، مگر دیکھنا یہ ہے کہ مناط مذمت کیا ہے اوربرائی کا سبب کیا ہے؟، سو ظاہر ہے کہ مناطِ مذمت وہ صفت ہے جو اس آیت میں مذکور ہے اس لیے جس میں بھی یہ صفت ہو گی وہ قابل مذمت ہو گا، وجہ اس کی یہ ہے کہ حق تعالیٰ کو کسی کی ذات من حیث الذات سے نفرت نہیں ہے۔ اگر ذات سے بغض ہوتا تو حق تعالیٰ کفار کو ایمان کا مکلف نہ فرماتے، کیوں کہ اس حالت میں ایمان کا مکلف بنانا محض بے سود ہوتا۔ کیوں کہ اگر کوئی کافر ایمان لے آئے تو ذات تو وہی ہوتی ہے اوراگر ذات سے بُغض ہوتا تو ایمان لانے سے کوئی نفع نہ ہوتا او ر حق تعالیٰ کا اس کو مخاطب بہ ایمان بنانا ایک فعل عبث ہوتا اورحق تعالیٰ فعل عبث سے منزہ ہیں، بس ثابت ہو گیا کہ حق تعالیٰ کو کسی کی ذات سے بغض نہیں بلکہ جس سے بعض ہے اس کے افعال کی وجہ سے ہے خواہ افعال باطنی ہوں یا ظاہری، جب یہ بات ثابت ہو گئی تو اس آیت میں جو کفار کی مذمت ہے تو وہ کسی خاص فعل اور خصلت پر ہے، اس لیے جہاں وہ خصلت ہو گی وہاں مذمت بھی ہو گی، خواہ وہ خصلت مسلمان میں ہو یاکافر میں، اس لیے آیت کا کفار کی شان میں ہونا بے فکری کا سبب نہیں ہو سکتا۔

مسلمان بدرجہ اولیٰ مخاطب ہیں
بلکہ اگر غور کرکے دیکھا جائے تو مسلمان کو ایسی خصلت سے زیادہ نفرت ہونی چاہیے، کیوں کہ اکثر علما کے نزدیک کفار مکلف بالفروع نہیں ہیں، بلکہ محض ایمان کے مکلف ہیں،(کفار سے مطالبہ نماز ،روزہ و فروعی مسائل کا نہیں، ان سے مطالبہ تو ایمان لانے کا ہے اس لیے ان سے نماز روزہ کے ترک پر مواخذہ نہیں ہو گا، بلکہ ایمان نہ لانے پر پکڑ ہو گی۔اس واسطے احتمال ہے کہ کفار سے افعال فروع پر مواخذہ نہ کیا جائے او رمسلمان تو ہرحالت میں اصول وفروع سب کا مکلف ہے، تو جس فعل کو کفار کے بارے میں باوجود ان کے مکلف نہ ہونے کے مذموم کہا گیا ہے وہ مسلمان کے لیے، جو کہ مکلف ہیں بدرجہ اولی مذموم ہو گا، (مسلمانوں کے لیے تو ضرور بُرا ہو گا)، اس لیے مسلمانوں کو اس سے زیادہ نفرت ہونی چاہیے، اس کی ایسی مثال ہے جیسے چمار سے کوئی بے جا فعل سر زد ہو، (وہ کوئی بُرا کام کرے) اور اس پر کہا جائے کہ تو بڑا نالائق ہے کہ تونے ایسی نالائق حرکت کی تو کیا کوئی شریف آدمی اس کو سن کر بے فکر ہو سکتا ہے کہ یہ شریف کو تھوڑا ہی خطاب ہے، یہ تو چمار کو خطاب ہے او رکیا وہ اس حرکت کو اختیار کر سکتا ہے ؟ ہر گز نہیں، بلکہ اس کے لیے تو یہ فعل زیادہ نازیبا ہوگا کہ چمار کی سی حرکت کرنے لگے ۔ اسی طرح یہاں سمجھ لیجیے کہ گو آیت میں خطاب کفار کو ہے، مگر مسلمان بدرجہ اولیٰ اس کے مخاطب ہیں مگر ہم نے تو ایک یہ بھی سستا سا نسخہ یاد کر لیا ہے کہ ایسی آیات کو سن کر یوں کہہ دیتے ہیں کہ یہ آیت توکفار کے بارے میں ہے، مسلمانوں کے بارے میں تھوڑا ہی ہے۔ بہرحال جتنی آیتیں کفار کے حق میں ہیں ان میں مسلمانوں کو بھی تنبیہ ہے کہ جہاں وہ خصلت ہو گی وہاں مذمت بھی ہو گی اس لیے اُس سے بچنا مسلمانوں کو بھی ضروری، بلکہ زیادہ ضروری ہے، جیسا ابھی مذکور ہوا۔

مخاطب کوئی، مقصود کوئی
حق تعالیٰ نے جہاں کہیں کسی فعل پر کفار کی مذمت فرمائی ہے تو یہ مقصود نہیں کہ مسلمانوں کو ان افعال سے بے فکر کر دیا جائے، بلکہ ہم کو کفار کے واقعات سے سبق دینا مقصود ہے، چناں چہ ایک موقع پر ارشاد فرماتے ہیں ﴿لقد کان فی قصصھم عبرة لاولی الالباب﴾․(سورہٴ یوسف:111)

کہ” مذکورہ واقعات میں، جن میں کفار کے قصے بھی ہیں، عقل مندوں کے لیے عبرت ہے۔“ اور ظاہر ہے کہ عبرت جبھی ہو گی جب ہم ان سے سبق لیں۔ بعض اوقات کسی مصلحت سے ایک کو مخاطب بناتے ہیں اورمقصود خطاب سے دوسرا ہوتا ہے ،عارف رومی  کا قول ہے #
        خوشترآں باشد کہ سر دلبراں
        گفتہ آید درحدیث دیگراں

یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ محبوب کی مجلس میں میرا ذکر دوسروں کے ذیل میں آتا۔

کسی کی پردہ پوشی کی وجہ سے خطاب دوسرے کو ہوتا ہے
اور بعض اوقات کسی کی شرافت کا لحاظ کرکے اس کی قدرووقعت محفوظ رکھنے کی غرض سے دوسرے کو خطاب کیا جاتا ہے، مگر اس کو بھی سنانا مقصود ہوتا ہے، پس ایسے خطاب کا مقتضا تو یہ تھا کہ ہم عاشق ہو جاتے اور سمجھتے کہ حق تعالیٰ کی کیا رحمت ہے کہ خطاب دوسرے کو ہو رہا ہے اور ہماری پردہ پوشی فرمارہے ہیں ۔ اور اس کا اثر یہ ہوتا کہ ان افعال سے ہم کو ذرا بے فکری نہ ہوتی، بلکہ زیادہ نفرت ہو جاتی او را س لیے ہم ان افعال سے زیادہ رکتے، غرض ہم کو اپنی حالت میں غور کرنا ضروری ہو ااگر ہمار ی بھی وہی حالت ہے جو آیت میں کفار کی حالت مذکور ہے تو اس کا تدارک سخت ضروری ہے۔

اتباعِ ہویٰ میں مسلمانوں کا طرزِ عمل
پس غور کرنے کے لیے سمجھنا چاہیے کہ افعال اختیار یہ میں مرحج تین چیزیں ہوتی ہیں ایک اتباع ہویٰ محض( صرف خواہشات نفسانی کا اتباع کرنا) ایک اتباع ہدیٰ محض( صرف ہدایات ربانی کا اتباع کرنا) ایک اتباع ہدیٰ ممزوج باتباع ہویٰ، ( اتباع ہدایت ربانی لیکن اس میں آمیزش ہو اتباع ہویٰ کی) اب یہ دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اوپر غالب کون سی چیز ہے؟ میں یہ نہیں کہتا کہ ہمارے اندر اتباع ہدیٰ ہے ہی نہیں۔ اتباع ہدیٰ ہے، مگر ممزوج ہے( ملی ہوئی ہے) اتباع ہویٰ کے ساتھ اور مسلمانوں میں غالب یہی صورت ہے اور کہیں کہیں اس میں اتباع ہویٰ بھی ہے، باقی خالص اتباع ہدیٰ تو بہت ہی کم ہے، کہیں صورت ہدیٰ کوہدیٰ حقیقی سمجھتے ہیں، مگر حقیقت میں وہ غیر ہدیٰ ہی میں داخل ہے ۔ چناں چہ ہمارے بعض افعال میں محض سہولت وغصب کا اتباع ہے، مثلاً کسی نامحرم کے دیکھنے کو جی چاہا ،اس کو دیکھ لیا، کسی کا گانا سننے کو جی چاہا، اس کا گانا سن کر کبھی جی چاہا تو کسی کے حسن وجمال کاتصو رکرکے مزہ لینے لگے۔ اس سے بحث نہیں کہ ہم جائز کام کر رہے ہیں یاناجائز۔ حالاں کہ یہ سب صورتیں زنا میں داخل ہیں۔

زنا کی مختلف صورتیں
حدیث میں ہے:”العینان تزنیان، وزناھما النظر، والاذنان تزنیان، وزناھما الاستماع․․․․“ ( مسنداحمد:372/2)

”آنکھیں بھی زنا کرتی ہیں، ان کا زنا دیکھنا ہے، کان بھی زنا کرتے ہیں، ان کا زنا سننا ہے “ چناں چہ اجنبی عورت کی آواز یا امرد کی آواز شہوت کے ساتھ سننا زنا میں داخل ہے، زبان بھی زنا کرتی ہے ، اس کا زنا نطق ہے ۔ غیر محرم سے بیہودہ باتیں کرنے کی اجازت نہیں، کیوں کہ نفس لذت حاصل کرنے کو ایسی باتیں کرتا ہے ۔ قلب بھی زنا کرتا ہے، اس کا زنا رغبت سے سوچنا او رخیال جمانا ہے، اسسے دل میں امنگ اور تصور پیدا ہوتا ہے ،اس کی شکل وصورت سوچ کر مزالیا جاتا ہے اس کو کوئی سمجھتا ہی نہیں کہ یہ بھی کوئی گناہ ہے، اگر کوئی بڑا ثقہ نیک آدمی ہوا تو بدنامی سے بچنے کے واسطے یا دین داری کی وجہ سے اگر کبھی بچاجاتا ہے اور احتیاط کی جاتی ہے تو آنکھ کے زنا سے تو احتیاط ہو جاتی ہے، مگر قلب کے زنا سے متقی بھی اکثر تحرز نہیں کرتے( نہیں بچتے)، اس کو تو معصیت(گناہ) ہی نہیں سمجھتے۔

دل کے افعال
عموماً یہ اعتقاد ہو رہا ہے کہ جو افعال دل کے متعلق ہیں وہ حلال ہیں ،ان میں گناہ ہی نہیں، کیوں کہ دل پر اختیار نہیں۔ میں کہتا ہوں کہ اس میں آپ سے غلط فہمی ہوئی ہے، کیوں کہ افعال قلب کے مراتب بھی مختلف ہیں کہ بعض افعال اختیاری ہیں او ربعض غیر اختیاری تو جن افعال کے اختیاری ہونے کو عقل بتلا رہی ہے کہ اختیاری ہیں ان کی نسبت یہ کہنا کہ اختیار میں نہیں، غلط ہے ۔ مثلاً ہم کو یہ اختیار ہے کہ کسی بات کو سوچیں اور یہ بھی اختیار ہے کہ نہ سوچیں۔ ہاں !بے سوچے خیال آجائے تو یہ غیر اختیاری ہے ،پس جو مرتبہ غیر اختیاری ہے ،اس پر بے شک مواخذہ نہیں، مگر تم تو اختیاری کو غیر اختیاری سمجھے ہوئے ہو یہی معنی ہیں اس آیت کے ﴿وان تبدوا ما فی انفسکم او تخفوہ یحاسبکم بہ الله﴾ ”اور جو باتیں تمہارے نفسوں میں ہیں ان کو اگر تم ظاہر کروگے یا پوشیدہ رکھو گے حق تعالیٰ تم سے حساب لیں گے “ (سورہٴ بقرہ:284)

مراد اس سے وہی خیالات ہیں جو قدرت واختیار میں ہوں، مثلاً یہ آپ کی وسعت میں ہے کہ ایک خطرہ قلب میں آئے اور آپ اس کو ہٹا کر دوسرے خیال میں میں لگ جائیں اب دوسری طرف توجہ کرنے کے بعد بھی اگر وہ پہلا خیال رہے یہ بے اختیاری ہے او رجو درجہ بے اختیاری ہے اس کے لیے حدیث میں ہے:”ان الله تجاوز عن امتی ما وسوست بہ صدورھا“․ ( السنن للنسائی:157/6) یہ ہے اس کی تفصیل ،باقی یہ سمجھنا کہ دل پر اختیار نہیں، بالکل غلط ہے اور اسی غلطی نے لوگوں کو رذائل قلب کے ازالہ سے مایوس کر دیا ہے۔
Flag Counter