Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق جمادی الاول 1432ھ

ہ رسالہ

3 - 19
دیکھو، سنو اور سمجھو
	

محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیرخان

دیکھیے! ابھی پچھلے پانچ چھ سال میں جو قدرتی آفات دنیا پر نازل ہوئی ہیں او رعوام وملکیت ومویشی تباہ ہوئے ہیں، میں آج اس پر کچھ تبصرہ کرنا چاہتا ہوں ۔2005ء کو کشمیر کا زلزلہ اور پچھلے سال کا تباہ کن سیلاب ابھی آنکھوں کے سامنے گھوم رہے ہیں ۔ اس سے پیشتر سونامی ( سمندری سیلاب) نے تباہی پھیلا کر تین لاکھ سے زیادہ افراد کو ہلاک کر دیا تھا۔ صرف انڈونیشیا میں اڑھائی لاکھ سے زیادہ افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ املاک اور مویشی کے نقصان کا اندازہ اَربوں ڈالر میں لگایا تھا۔ چند سال گزرنے کے بعد متاثرین ابھی بھی بغیر چھت اور بے یارومدد گار کھلے آسمان کے نیچے عذاب الہٰی کا شکار ہیں اور سونے پر سہاگہ یہ ہے کہ جب یہ بے چارے عوام احتجاج کرتے ہیں تو ان پر گولیاں اور لاٹھیاں برسائی جا تی ہیں ۔ درحقیقت میں یہ مضمون اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ابھی چند دن پیشتر جاپان میں زلزلے سے اور سونامی نے جو تباہی مچائی ہے او رجو مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں ان سے دل دہل گیا ہے ۔ پہلے تقریباً ریکٹر اسکیل پر 9 کا زلزلہ اور پھر دس دس میٹر اونچی طوفانی لہریں، بڑے بڑے مکانات، عمارتیں ، جہاز، بسیں، کاریں، کشتیاں پانی پراس طرح تیرتی او ربہتی نظر آئیں جس طرح ہم پچپن میں کاغذ کی کشتیاں بنا کر بہتے نالے میں چھوڑ کر ان کو بہتا دیکھتے تھے ۔ یہ ہول ناک مناظر دیکھ کر مجھے الله رب العزت کے فرمودات اور تنبیہات یاد آگئی ہیں۔آیے! آج ان کی روشنی میں موجودہ آفات کے نزول کو دیکھتے ہیں۔

الله رب العزت نے کلام مجید میں ہم کو اس طرح خبر دار کیا تھا۔ ”جب زمین بھونچال سے ہلا دی جائے گی او رزمین اپنے اندر کے بوجھ باہر پھینک دے گی او رانسان ( گھبرا کر) پوچھے گا کہ اس کو کیا ہوا ہے؟! اس روز وہ اپنے حالات بیان کر دے گی، کیوں کہ تمہارے پروردگار نے اس کو اس کا حکم دیا ہو گا۔ اس دن لوگ گروہ در گروہ ہو کر آئیں گے، تاکہ ان کو ان کے اعمال دکھائے جائیں ۔ تو جس نے ذرہ برابر نیکی کی وہ اس کو دیکھ لے گا او رجس نے ذرّہ برابر برائی کی وہ اسے دیکھ لے گا“ ( سورة الزلزال)۔” کھڑکھڑانے والی، کھڑکھڑانے والی کیا چیز ہے؟ تم کیا جانو کھڑکھڑانے والی کیا چیز ہے ؟ یہ وہ قیامت ہے جس دن لوگ ایسے ہوں گے جیسیبکھرے ہوئے پتنگے اور پہاڑ ایسے ہو جائیں گے جیسے دُھنکی ہوئی رنگ برنگ کی اُون۔ تو جس کے اعمال اچھے ہوں گے اس کو دل پسند عیش ملے گا او رجس کے اعمال ٹھیک نہ ہوں گے اس کا مقام ہاویہ ہے اور تم کیا سمجھے کہ ہاویہ کیا ہے ؟ وہ دہکتی ہوئی آگ ( جہنم) ہے“۔( سورة القارعہ)

”اور جب ہم کسی بستی کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیتے ہیں تو ہم ان میں خوش حالی میں مگن ( امیر) لوگوں کی کثرت کر دیتے ہیں تو وہ وہاں نافرمانی شروع کر دیتے ہیں، پھر ان پر حجت تمام ہو جاتی ہے اور پھر ہم اسے پوری طرح بر باد کر دیتے ہیں ۔“ (سورہ بنی اسرائیل) اور دیکھیے کہ الله تعالیٰ نے کس طرح غیر مبہم اور صاف صاف الفاظ میں لوگوں کو خبردار کیا ہے ۔ ” اور تم یہ گمان مت کرو کہ الله ان کاموں سے غافل ہے جو گناہ گار کرتے ہیں، الله نے انہیں صرف اس دن تک مہلت دے رکھی ہے جس روز ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ جائیں گی۔“ ” اور واقعی ان لوگوں نے اپنی خفیہ تدبیریں کر لی تھیں او ران کی سب تدبیریں الله کے سامنے تھیں اور واقعی ان کی تدبیریں ایسی تھیں کہ ان کے آگے پہاڑ بھی اپنی جگہ سے ہل جائیں ( مگر ہمارے آگے ا ن کی کوئی تدبیر کام نہ آئی)“۔ ( سورة ابراہیم) اور زلزلے، سیلاب وغیرہ سے جولوگ ہلاک ہوئے ہیں ان کے لیے الله نے پہلے ہی خبردار کر دیا ہے ۔ ” او رہم نے جو بستیاں ہلاک کی ہیں ان سب کے لیے ایک جانا ہوا نوشتہ ہے ۔ کوئی قوم اپنے وقت معینہ سے نہ پہلے ہلاک ہوتی ہے اور نہ پیچھے رہتی ہے“۔ ( سورة حجر) آپ نے ہم نے دیکھا کہ لوگ کیا تدبیریں نہیں کرتے ، خود کو وہم میں مبتلا رکھتے ہیں کہ انہوں نے جو احتیاطی اقدامات کیے ہیں ان سے وہ عذاب الہٰی سے محفوظ رہیں گے او ران کی ٹیکنالوجی ان کو ہر تکلیف سے بچالے گی ،مگر الله تعالیٰ نے جوفرمایا ہے اس پر غور کیجیے۔ ”ان سے پہلے بھی لوگ تدبیریں کر چکے ہیں مگر الله نے ان کی عمارتوں کو جڑوں سے اُکھاڑ پھینکا او رپھر ان پر اوپر سے چھتیں گر پڑیں اور ان پر ایسی جانب سے عذاب آیا جہاں ان کا وہم وگمان بھی نہ تھا اور پھر الله ان کو قیامت کے روز مزید رسوا کرے گا۔“ ( سورہ نحل) جاپان ( او راس سے پیشتر انڈونیشیا، کشمیر وغیرہ) میں جو بھی ہلاکتیں او رتباہی پھیلی ہے اس کو الله تعالیٰ کے ان فرمودات کی روشنی میں دیکھیے۔ ” کیا انہیں اس بات سے سمجھ نہیں آئی کہ ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی بسیتوں کو تباہ وبرباد کر دیا ؟یہ لوگ ان کی رہائش گاہوں اور بستیوں میں چلتے پھرتے ہیں، بلاشبہ اس میں عقل وفہم والوں کے لیے عبرت کی نشانیاں ہیں۔ “ ( سورہ طہ) ” اور ان سے پہلے ہم نے کتنی ہی قوموں کو ہلاک کر دیا ہے ۔ کیا آپ ان میں سے کسی کی آہٹ پاتے یا ان کی بھنک سنتے ہیں ؟“ ( سورة مریم) ” ان سے پہلے جو بستیاں بھی ہم نے تباہ وبرباد کی تھیں وہ ایمان نہیں لائی تھیں تو کیا وہ اب ایمان لائیں گے ؟ “ ( سورة انبیاء)۔

آئیے اور دیکھیے کہ سورہ اعراف میں الله تعالیٰ نے کیا فرمایا۔ ”اورکتنی ہی بستیاں ہم نے ہلاک کر ڈالیں اور ہمارا عذاب کبھی رات کے وقت آیا یا دوپہر کو جب کہ وہ آرام کر رہے تھے او رپھر جب ہمارا عذاب آپہنچا تو اس بستی والوں کے منھ سے اس کے سوا کچھ نہ نکلا کہ واقعی ہم بڑے ہی گناہ گار تھے“۔ او راسی سورہ اعراف میں الله تعالیٰ نے مزید فرمایا ہے ۔ ” کیا یہ لوگ اس بات سے نڈر ہوچکے ہیں کہ ہماری طرف سے ان پر عذاب آجائے، رات کے وقت، جب کہ وہ سو رہے ہوں یا یہ لوگ اس بات سے نڈر ہو چکے ہیں کہ ہمارا عذاب ان پر دن دہاڑے آجائے، جب وہ کھیل کود میں مصروف ہوں یا وہ الله کی ناگہانی گرفت سے بے فکر ہو رہے ہوں، اگر ایسا ہے تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ الله کی ناگہانی پکڑ سے صرف نقصان اُٹھانے والے ہی بے فکر ہوتے ہیں۔“ ”کیا ان لوگوں پر جو ملک کے وارث ہوئے وہاں کے باشندوں کے ہلاک ہونے کے بعد یہ ظاہر نہیں ہوا کہ اگر ہم چاہیں تو انہیں بھی ان کے گناہوں کے سبب پکڑ لیں؟ اور دراصل ہم نے ان کے دلوں پر مہر لگا دی ہے اور اب سنتے ہی نہیں ہیں۔“ ( سورہ اعراف)

سورہ عنکبوت میں الله تعالیٰ نے صاف صاف خبردار کیا ہے ۔ ” اور عاد اور ثمود کو ہم نے تباہ کر دیا اور تمہارے لیے ان کا انجام ان کی رہائش گاہوں سے عیاں ہے اور شیطان نے ان کے اعمال بد انہیں پسندیدہ کر دکھائے او راہِ راست سے روک کر غلط راستہ پر چلا دیا ہے۔ حالاں کہ یہ لوگ بصیرت رکھتے تھے اور قارون وفرعون وہامان کے پاس موسی کھلی کھلی نشانیاں لے کر آئے، لیکن اُنہوں نے ملک میں سرکشی کی اور وہ ہماری گرفت سے بھاگ کر کہیں نہیں جاسکتے تھے، سو ہم نے ہر ایک کو اس کے گناہوں کے سبب پکڑ لیا۔ سو کچھ پر ہم نے پتھر برسائے او ربعض کو کڑک نے آپکڑ او ربعض کو ہم نے زمین میں دھنسا دیا اور بعض کو ہم نے سمندر میں غرق کر دیا اور الله تو ایسا نہ تھا کہ ان پر ظلم کرتا، لیکن وہ خود ہی اپنی جانوں پر ظلم کرتے تھے۔“ سورہ طور میں الله رب العزت نے یوں خبردار کیا ہے ۔ ” کوہ طور کی قسم اور لکھی ہوئی کتاب ( قرآن) کی، جو کشادہ اوراق میں ہے او راونچے چھت (آسمان) کی کہ تمہارے پروردگار کا فرمایا ہوا قیامت کا دن واقع ہو کر رہے گا او راس کو کوئی روک نہیں سکے گا۔ جس دن آسمان کپکپا کر لرزنے لگیں گے اور پہاڑ اُون کی طرح اُڑنے لگیں گے، اس دن جھٹلانے والوں کے لیے خرابی ہے جو خود باطل میں پڑے کھیل رہے ہیں، اس دن ان کو آتش جہنم کی طرف دھکیل دھکیل کر لے جایا جائے گا۔“

دیکھیے! عہد قدیم میں جب مواصلاتی نظام ناپید تھا اور بہت سے لوگوں تک پیغمبروں کی ہدایت نہ پہنچ پاتی تھی توالله تعالیٰ ان لوگوں پر ان کی معصومیت اور لاعملی کی وجہ سے رحم فرما دیتا تھا، لیکن موجودہ دور میں جب کہ جدید ترین ذرائع معلومات ( کتب، انٹرنیٹ وغیرہ) موجود ہیں اور عوام الله تعالیٰ اور اس کے پیغمبروں کے پیغامات سے واقفیت حاصل کرسکتے ہیں تو وہ لاعلمی کی حجت ختم ہو جاتی ہے او را س بات کو مدِ نظر رکھ کر ہی تو سورہ کہف میں الله تعالیٰ نے فرمایا ہے ۔ ” اور ہم نے اس قرآن میں لوگوں کو سمجھانے کے لیے طرح طرح کی مثالیں بیان کی ہیں، لیکن انسان سب سے بڑھ کر جھگڑالو ہے۔ اور لوگوں کے پاس جب ہدایت آگئی تو ان کو کس چیز نے منع کیا ہے کہ ایمان لائیں اور اپنے پروردگار سے بخشش مانگیں؟ بجز اس بات کے منتظر ہوں کہ انہیں بھی پہلوں کا سا معاملہ پیش آئے یا ان پر عذاب سامنے موجود ہو“۔ موجودہ عذاب/ عتاب الله تعالیٰ کے فرمودات کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے ہے اور اس میں الله تعالیٰ غیر مسلمانوں او رنام نہاد مسلمانوں میں کوئی تفریق نہیں کر رہا ۔ جو بھی اس کے احکام کی نافرمانی کر رہا ہے ان پر اس کا عتاب نازل ہو رہا ہے۔

(بشکریہ روز نامہ جنگ، کراچی)
Flag Counter