Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ

ہ رسالہ

8 - 21
غنا کا راز قناعت

مولانا ڈاکٹر عبدالرزاق اسکندر
	
جن صفات سے ایک انسان کی زندگی خوش گوار اور پرسکون بنتی ہے۔ اُن میں ایک قناعت کی صفت ہے اور قناعت کے معنی یہ ہیں کہ: جو نعمت اِنسان کے نصیب اور حصہ میں آئے اُس پر وہ رَاضی رہے۔ یعنی اِنسانی ضروریات جائز ذرائع سے جتنی جس شخص کو مل رہی ہیں۔ اُن پرراضی رہے اور اس سے زیادہ حرص اور لالچ نہ کرے۔

جس شخص کو قناعت کی یہ صفت نصیب ہوئی اُسے بڑی نعمت نصیب ہو گئی۔ جس سے وہ اپنی زندگی میں سکون اور راحت محسوس کرے گا اور اُن تمام مشکلات اور پریشانیوں سے بچ جائے گا جو حرص اور لالچ کے نتیجے میں اِنسان کو لاحق ہوتی ہیں۔ کیوں کہ وہ زیادہ مال ومتاع کی لالچ میں یا تو ناجائز ذرائع استعمال کرے گا۔ جیسے چوری، ڈَاکہ اور رشوت وغیرہ یا جائز ذرائع میں طاقت سے زیادہ محنت کرے گا اور جسمانی نقصان اُٹھائے گا۔

قناعت ایک ایسی صفت ہے جس سے الله تعالیٰ کی بھی خوش نودی حاصل ہوتی ہے او رانسان بھی ایسے شخص سے محبت کرتے ہیں۔

ایک شخص نے جناب نبی کریم صلی الله علیہ وسلم سے سوال کیا کہ آپ مجھے ایک ایسا عمل بتائیں جس سے مجھ سے الله بھی راضی ہو اور لوگ بھی مجھ سے محبت کریں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ازھد فی الدنیا یحبک الله، ازھد فیما عند الناس یحبک الناس․“
ترجمہ:”تو دُنیا سے بے رغبت ہو جا۔ الله تجھ سے محبت کریں گے اور انسانوں سے بے غرض ہو جا تو اِنسان تجھ سے محبت کریں گے۔“

ظاہر ہے کہ جب انسان دُنیا کی لالچ میں نہیں پڑے گا تو بہت سے گناہوں سے بچ جائے گا، جو الله تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنتے ہیں او رجب دُوسروں سے کوئی غرض اور لالچ نہ ہو گی تو لوگ بھی اُس سے محبت کریں گے۔ جب کہ خود غرض اور لالچی اِنسان کو کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔

قناعت والی زندگی کے بارے میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے ”قد افلح من اسلم، ورزق کفافاً وقنعہ الله بما آتاہ․“
ترجمہ:”وہ شخص کا م یاب ہے جسے اسلام کی دولت نصیب ہوئی اور اُسے ضرورت کے مطابق روزی مل رہی ہے اور الله تعالیٰ نے اُسے اس پر قناعت نصیب کی ہے۔“

دوسری روایت میں فرمایا:”طوبیٰ لمن ھدی الیٰ الاسلام، وکان عیشہ کفافاً وقنع․“
ترجمہ:”خوش خبری ہو ایسے شخص کے لیے جسے اسلام کی دولت ہوئی اور اس کی روزی بقدرِ ضرورت تھی اور وہ اس پر قناعت کرنے والا تھا۔“

حقیقت میں غنا اور مال داری مال کی کثرت کا نام نہیں۔ بلکہ مال داری تو دل کے غنا کا نام ہے۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”لیس الغنی عن کثرة العرض، ولکن الغنی غنی النفس․“
ترجمہ:”مال کی کثرت کا نام غنا نہیں، غنا تو دل کے غنا کا نام ہے۔“

قناعت کی صفت حاصل کرنے کا ایک طریقہ اسلام نے یہ بتایا ہے کہ انسان اپنے سے اُوپر والے کو دیکھنے کے بجائے اپنے سے نیچے والے کو دیکھے جو اس سے ما ل ومتاع میں کم ہو۔ اس سے الله کی نعمت کی قدر ہو گی اور بے جا لالچ او رحرص سے بچا رہے گا۔

نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:”انظروا الیٰ من ھو أسفل منکم، ولا تنظروا الی من ھو فوقکم، فھو اجدر ان لا تزدروا نعمة اللہ علیکم․“
ترجمہ:”جو تم سے مال واسباب میں کم ہو اس کی طرف دیکھو اور جو تم سے مال واسباب میں زیادہ ہو اس کی طرف مت دیکھو۔ اس طرح کرنے سے تم اس نعمت کو حقیر نہ جانوگے جو الله تعالیٰ نے تم پر کی ہے۔“

ایک دُوسری روایت میں الفاظ اس طرح آئے ہیں:”اذا نظر احدکم الی من فضل علیہ فی المال والخلق فینظر الی من ھو اسفل منہ․“
ترجمہ:” جب تم میں سے کوئی ایسے شخص کو دیکھے جو مال اور جسم میں اُس سے افضل ہو تو اسے چاہیے کہ ایسے شخص کی طرف نگاہ کرے جو ان اُمور میں اُس سے کم ہو۔“

ظاہر ہے کہ اِس قاعدہ پر عمل کرنے سے الله تعالیٰ کی نعمت جو اُسے حاصل ہے۔ اُس کی قدر ہو گی اور اس پر الله کا شکر ادا کرے گا اور شکر کا نتیجہ نعمت میں اضافہ اور ترقی کی شکل میں ظاہر ہو گا۔ ارشاد باری ہے:﴿لَئِن شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ ﴾․(ابراہیم، آیت:7)
ترجمہ:”اگر تم میری نعمتوں پر شکر ادا کرو گے تو میں تمہیں اور زیادہ دوں گا۔“

اور اس کے برعکس اگر اوپر والے کو دیکھے گا تو یہ نعمت جو اسے حاصل ہے وہ ہیچ معلوم ہو گی اور اسے حقیر سمجھے گا اور ناشکری کا مرتکب ہو گا اور ناشکری کی صورت میں اس کے چھن جانے کا بھی خطرہ رہتا ہے۔

﴿وَلَئِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد﴾(ایضاً)
ترجمہ:”اگرتم ناشکری کرو گے تو میرا عذاب بہت سخت ہے۔“

اس کے علاوہ اوپر والے کو دیکھنے سے اس جیسا بننے کا شوق پیدا ہوتا ہے اور اس میں ناکامی کی صورت میں پریشانی میں مبتلا ہوتا ہے۔

ایک بزرگ نے فرمایا: جب تک میرا تعلق مال داروں سے رہا میں ہمیشہ پریشان رہتا تھا۔ کیوں کہ ان کے بڑے محلات دیکھتا، عمدہ قسم کے گھوڑے اور سواریاں دیکھتا اور اپنے پاس ان کو نہ پاتا۔ پھر جب میں نے مال داروں کے بجائے اپنا تعلق غریبوں سے جوڑا تو مجھے سکون او راطمینان نصیب ہوا۔

نیز قناعت کی صفت حاصل کرنے کے لے ایک طریقہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنی زندگی کی حقیقت کو پہچانے، آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ایک صحابی  کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا:

”کن فی الدنیا کأنک غریب أوعابر سبیل․“
ترجمہ:”دنیا میں ایسے رہو جیسے تم ایک اجنبی یا مسافر راہ گذر ہو۔“

اس کے برعکس جب انسان لمبی لمبی اُمیدیں باندھتا ہے تو اس میں لالچ او رحرص بڑھ جاتی ہے اور وہ غفلت میں مبتلا ہو کر اپنے مالک کو بھی بھول جاتا ہے اور یہ غفلت کا پردَہ تب اُٹھتا ہے جب موت آجاتی ہے۔ تب پتہ چلتا ہے کہ سخت غفلت اور بھول میں تھے، محض چند روز کی چہل پہل تھی۔ اسی کو قرآن کریم نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:﴿أَلْہَاکُمُ التَّکَاثُر،حَتَّی زُرْتُمُ الْمَقَابِرَ ﴾․ (التکاثر،آیت:2-1)
ترجمہ:” غفلت میں رکھا تم کو بہتات کی حرص نے۔ یہاں تک کہ جا دیکھیں قبریں۔“

نیز یہ بھی جاننا چاہیے کہ کسب حلال کے لیے جائز اسباب اختیار کرنا اور اپنی وسعت کے مطابق اُن میں محنت کرنا قناعت کے خلاف نہیں۔ نیز یہ کہ قناعت کا تعلق نیک اعمال، نیک اخلاق اور علمی کمالات سے نہیں، بلکہ ان اعمال اور کمالات میں زیادہ ہونے کا شوق اور ایک دوسرے سے آگے بڑھنا قابل تعریف ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿فَاسْتَبِقُواْ الْخَیْْرَات﴾․ (البقرہ، آیت:148)
ترجمہ:” نیک کاموں میں ایک دوسرے سے بڑھو۔“

او را س کا قاعدہ یہ ہے کہ ان کمالات میں اپنے سے اوپر والے کو دیکھو، تاکہ تم میں اس کمال کو حاصل کرنے کا شوق پیدا ہو۔

بہرحال پُرسکون اور خوش گوار زندگی کے لیے ضروری ہے کہ انسان قناعت کی صفت کو اپنائے۔ ضروریات زندگی پر اکتفا کرے اور جمالیات وکمالیات پر زیادہ زور نہ دے اور بے جا حرص ولالچ سے بچتا رہے۔

Flag Counter