Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ

ہ رسالہ

17 - 21
حضرت طفیل بن عمر ودوسی رضي الله عنه

مولانا آفتاب نعمانی خیر آبادی
	
نام و نسب
طفیل بن عمرو بن طریف بن العاص بن ثعلبہ بن سلیم بن فہم بن غنم بن دوس بن عدنان ،بن عبداللہ بن زہران بن کعب بن الحارث بن عبداللہ بن نضر الازدی الدوسی، آپ کا لقب ذوالنور (اسد الغابة ص 460)ہے، نیز آپ کو ذوالقطنین بھی کہا جاتا ہے ۔

مکہ معظمہ میں آمد اور قبول اسلام
طفیل بن عمر دوسی برے ہی شریف الطبع، نیک طینت ،پاکیزہ خصلت ،قادر الکلام شاعر ،بڑے مہمان نواز ،اتنہائی زیرک اور صاحب حل وعقد لوگوں میں سے تھے۔ آپ کا شمار قبیلہ دوس کے روٴسامیں ہوتا تھا، جب مکہ معظمہ میں تشریف لائے تو سرداران قریش نے بڑے پرجوش انداز میں آپ کا استقبال کیا اور کہا !آپ چوں کہ شاعر ہیں اور اپنی قوم کے سردار ہیں اس لیے ہم آپ سے ایک بات بڑی صفائی سے کہہ دینا چاہتے ہیں، وہ یہ کہ آپ ہمارے شہر میں تشریف لائے ہیں اور اس وقت یہاں کے خصوصاً مکہ کے حالات بڑے سنگین چل رہے ہیں ۔ہمارے یہاں ایک آدمی نے ہمیں بڑی پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے، اس نے خاندانوں اور قبیلوں میں تفرقہ پیدا کر دیا ہے، اس کی باتیں بڑی موٴثر او ر سحر آفریں ہوتی ہیں، وہ اپنی باتوں کے ذریعہ باپ بیٹے میں ،بھائی بھائی میں ،بیوی شوہر میں دوری پیدا کردیتا ہے۔ ہمیں ڈر ہے کہ اس کا جادو کہیں آپ پر اور آپ کی قوم پر نہ چل جائے، اس لیے آپ ہر گز ہرگز اس سے بات نہ کیجیے اور نہ اس کی باتوں کو سنیے۔ اور اس پروہ بار بار تاکید کرتے رہے، یہاں تک کہ حضرت طفیل نے انھیں یہ باور کرادیا کہ میں اس سے ہرگز بات نہ کروں گا اور نہ اس کی باتوں کو اپنے کان میں پڑنے دوں گا۔ اس کے بعد انہوں نے اپنے دونوں کانوں میں روئی ٹھونس لی کہ مبادا اس کی باتوں کو سننے کا میرا ارادہ نہ ہو، لیکن اچانک میرے کان میں پڑیں اور اثر کر جائیں ۔ارباب سیرو تاریخ نے ان کو ذوالقطنین کہنے کی یہی وجہ بیان کی ہے۔

حضرت طفیل حرم پاک میں بیت عتیق کے طواف اور بتوں کے دیدار اور پرستش کی غرض سے علی الصباح پہنچے ادھر حبیب کبریا صلی الله علیہ وسلم خانہ کعبہ کے پاس نماز میں مشغول تھے ۔حضرت طفیل دوسی نے جب آپ کو نماز کی حالت میں دیکھا تو یہ منظر انھیں بہت بھایا اور وہ غیر اختیاری طور پر حضورصلی الله علیہ وسلم سے قریب ہوتے گئے، یہاں تک کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی قراء ت اور تکبیرات کی آواز ان کے کانوں میں پڑنے لگی ،انہوں نے دل ہی دل میں کہا یہ تو بہت عمدہ کلام ہے، میں اس کی باتوں کو ضرور سنوں گا کیوں کہ میں تو شاعر اور عقلمند ہوں، اگر اس کی باتیں بھلی ہوں گی تو اسے قبول کرلوں گا اور اگر میرے وجدان و شعور کے خلاف ہوں گی تو نہیں مانوں گا۔ حضرت طفیل موقع کی تلاش میں وہیں ٹھہرے رہے، جب رسول خدا صلی الله علیہ وسلم گھر جانے کے ارادے سے مسجد سے نکلے تو حضرت طفیل بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ہولیے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے پیچھے چل دیے جب آپ صلی الله علیہ وسلم رسالت کدہ میں داخل ہوئے تو حضرت طفیل بھی آپ صلی الله علیہ وسلم کے پیچھے داخل ہوگئے ۔اور کہا !اے محمد!آپ کی قوم نے مجھے بڑی تاکید کی ہے کہ میں آپ سے باتیں نہ کروں اور نہ ہی آپ کی باتوں پر توجہ دوں، لیکن میں نے آپ کی باتوں کو بڑے غور سے سنا ہے، واقعہ یہ ہے کہ آپ کی باتیں بڑی پر مغز اور اثر انداز ہوتی ہیں ۔اچھا یہ بتائیے کہ اصل معاملہ کیا ہے؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت طفیل کے سامنے اسلام کی تعلیمات پیش کیں اور قرآن حکیم کی چند آیات پڑھیں ۔حضورصلی الله علیہ وسلم کا اتنا پڑھنا تھاکہ حضرت طفیل فوراً کہہ اٹھے خداکی قسم! میں نے ایسا پر مغز ،موثر،شیریں کلام کبھی سنا ہی نہیں اور نہ ایسا معتدل اور اتنا میانہ رو مذہب ہی کبھی دیکھا اور سنا ہے فوراً کلمہ پڑھا اور دولت اسلام سے بہرہ ور ہوئے اور کہا! اے اللہ کے رسول ! میں اپنی قوم میں ایک مقام اور حیثیت کا حامل ہوں ،اپنی قوم میں واپس جارہا ہوں، ان کو اسلام کی دعوت دوں گا ۔آپ صلی الله علیہ وسلم رب ذوالجلال کے حضور دعا فرمائیے کہ وہ قادر مطلق مجھے کوئی نشانی مرحمت فرما دے جو دعوت الی اللہ میں مشعلِ راہ کاکام دے ،اللہ کے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی زبان مبارک سے نکلا اللہم اجل لہ آیة ․اے پالنہار!اسے کوئی نشانی دیجیو۔

وطن مالوف کی جانب واپسی اور اہل و عیال کا قبو ل اسلام
حضرت طفیل  جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا و اجازت لے کر پہاڑی راستہ سے کشاں کشاں چلے اور اپنے وطن سے قریب تر ہوتے گئے تو آپ نے اپنی دونوں آنکھوں کے بیچ و بیچ ایک نور دیکھا، جو چراغ کی مانند روشن تھا ۔حضرت طفیل  نے فوراً دعا کی ”اللہم فی غیر وجھی“کیوں کہ انھیں اندیشہ یہ تھا کہ مبادا میری قوم کے لوگ اسے آفت سماوی نہ سمجھ بیٹھیں جو تبدیلی مذہب کے باعث میرے اوپر تھوپی گئی ہے۔ اتنا کہنا تھا کہ وہ روشنی ان کے سر کی طرف منتقل ہو گئی اور ان کی قوم کے لوگ وہ روشنی بنظر غائر تعجباًدیکھنے لگے، جب اپنے قبیلہ میں آئے تو سب سے پہلے اپنے دولت کدہ پر پہنچے واضح رہے کہ ان کا خاندان چار نفر پر مشتمل تھا، ان کے والد محترم ،ان کی بیوی، لڑکا اور وہ خود۔ بس پورے گھر کی یہی کائنات تھی ۔سب سے پہلے آپ کے بوڑھے باپ آپ کے پاس آئے ،آپ نے ان سے کہا ،برائے کرم آپ مجھ سے دور ہی رہئیے۔ کیوں کہ میرے آپ کے تعلقات ختم، آپ کے والد نے پوچھا میرے بیٹے ایسا کیوں؟میں تو تمہارا باپ ہوں ،آپ نے کہا والد صاحب میں مسلمان ہو چکا ہوں،آپ کے والد نے کہا تو اس میں دور رہنے کی کیا بات ہے جو تمہارا دین وہی ہمارا دین، فوراً اسلام قبول کر لیا، پھر حضرت طفیل  کی بیوی ان کے پاس آئیں،اس سے بھی آپ نے وہی کہا کہ میرے پاس نہ آؤ، کیوں کہ میں نے اسلام قبول کر لیا ہے، میرے تمہارے درمیان اسلام کی دیوار حائل ہو چکی ہے ۔ان کی بیوی نے ان سے کہا کہ میرے ماں باپ آپ پر قربان ،ایسا کیوں؟جو تمہارا دین وہی میرا دین ۔حضرت طفیل  نے کہا نہیں ایسے نہیں، پہلے تم نہا کر، پاک و صاف ہو کر آؤ،ان کی بیوی گئیں پاک و صاف ہو کر آئیں، آپ نے ان کو کلمہ طیبہ لا الٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ پڑھایا اور وہ بھی حلقہ بگوش اسلام ہوگئیں۔اس کے بعد حضرت طفیل  اپنی قوم میں تبلیغ کرتے رہے، اسلام کی دعوت لوگوں کو دیتے رہے، لیکن لوگوں نے بے اعتنائی اور بے التفاتی کا مظاہرہ کیا اور ان کی باتوں کو نہیں مانا تو آپ اکتا کر حضرت ابو ہریرہ کی معیت میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مکہ معظمہ تشریف لائے (خیال رہے کہ حضرت ابو ہریرہ قبیلہ ،دوس ہی سے تعلق رکھتے تھے ،حضرت طفیل  کی انتھک کوشش کے بعد یہ واحد آدمی تھے جنہوں نے آپ کے دستِ حق پر ست پر اسلام قبول کیا ”الاصابہ“ )اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا نبی اللہ !میری قوم پر زنا اور ربا کا غلبہ ہے اور فسق و فجور کی فراوانی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم میری قوم کے لیے دعا فرمائیں ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم فوراً کھڑے ہوئے، وضو فرمایا اور نماز پڑھی اور آسمان کی طرف ہاتھ کو بلند کیا ۔ حضرت ابو ہریرہ  فرماتے ہیں کہ جب میں نے یہ منظر دیکھا تو مجھے ڈر لگا کہیں آپ بد دعا نہ فرما دیں، نتیجتاً پوری قوم ہلاک و برباد ہو جائے تو میں نے دل ہی دل میں کہا ، ہائے رے قوم تیرا مقدر! لیکن قربان جائیے نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر! آپ کی زبان مبارک سے یہ الفاظ نکلے ”اللہم اھد دوساً اللہم اھددوساً، اللہم اھددوساً “پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت طفیل  سے فرمایا جاؤ انہیں دین کی دعوت دو اور ان کے ساتھ نرمی کا معاملہ کرو ۔حضرت طفیل  اپنے قبیلہ میں واپس آئے اور ان کو دین کی دعوت دیتے رہے، اللہ کے بندوں کا رشتہ اللہ سے جوڑتے رہے، حتی کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ کی طرف ہجرت کی ،اس کے بعد غزوہ بدر، احد،خندق پیش آئے، بعدہ حضرت طفیل  رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس مقام خیبر میں تقریباً 80 مسلم خاندانوں کے ساتھ آئے ۔چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے خیبر کے مال غنیمت میں سے ان نو مسلم خاندانوں کا بھی حصہ متعین کیا ،اس کے بعد حضرت طفیل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مستقل قیام پذیر رہے، حتی کہ مکہ فتح ہوگیا تو حضرت طفیل  نے حضورصلی الله علیہ وسلم سے کہا کہ اے اللہ کے رسول ! مجھے عمر و بن جمحہ کے بت ”ذوالکفین“جلانے کے لیے بھیج دیجیے اللہ کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے آپ کو اجازت مرحمت فرمادی ۔حضرت طفیل گئے، بت کو آگ لگاتے تھے اور یہ پڑھتے تھے ۔
        یاذا الکفین لستُ من عبادکا                                   
        میلادنا اقدم من میلادکا
        انی حشوت النار فی فوادکا

نوشتہ ٴ اجل :
فتح مکہ کے بعد غزوہ حنین پیش آیا، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہاں کا سارا انتظام و انصرام کر لیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم واپس مدینہ تشریف لائے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ حضرت طفیل بھی آئے اور حضرت طفیل  مستقلاً مدینہ منورہ میں مقیم رہے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس دنیا سے پردہ فرما کر اپنے مالک حقیقی سے جا ملے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے بعد خلافت راشدہ کے زریں دور کا آغاز ہوا اور سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے رفیق غار حضرت ابو بکر صدیق  عہدہ خلافت پر فائز ہوئے ۔دور صدیقی کا سب سے اہم فتنہ ،فتنہ ارتداد تھا، اس فتنہ نے بڑی بھیانک شکل اختیار کر لی تھی، لیکن سیدنا ابو بکر صدیق کی ذات تھی جس نے باوجود آپسی اختلاف رائے کے بڑی خوش اسلوبی، بلند ہمتی اور اولوالعزمی سے اس فتنہ کا ڈٹ کر مقابلہ کیا اور جابجا لشکروں کو روانہ کیا۔ حضرت طفیل  بھی مسلمانوں کے ساتھ مرتدین کا قلع قمع کرتے رہے، یہاں تک کہ ارتداد کا زور فرو ہوگیا۔اس کے بعد آپ نے اپنے لڑکے عمرو بن طفیل کو ساتھ لے کر مسلمانوں کی معیت میں جنگ یمامہ کا رخ کیا ۔مسلمان مجاہدین کا لشکر جرار کشاں کشاں یمامہ کی طرف رواں دواں تھا ،اثنائے سفر حضرت طفیل نے خواب دیکھا کہ میرے سر کو مونڈ دیا گیا ہے اور میرے منہ سے ایک پرندہ نکل کر فضا میں پرواز کر گیا اور میری ملاقات ایک عورت سے ہوئی اس نے مجھ کو اپنی شرم گاہ میں داخل کر لیا اور دیکھا کہ میرے لڑکے نے تلاش بسیار کے بعد بھی نہیں پایا ۔حضرت طفیل نے پورا خواب اپنے ساتھیوں سے بیان کیا اور تعبیر معلوم کرنا چاہی ،ساتھیوں نے کہا خواب کی تعبیر تو اچھی ہے، لیکن حضرت طفیل  خود اس کی تعبیر بیان کرنے لگے ،فرمایا کہ حلق راس سے مراد اس کا قتل ہونا ہے اور وہ پرندہ جو میرے منہ سے نکلا تھا اس سے مراد میری روح ہے اورا س عورت کی تعبیرجس نے مجھ کو اپنی شرم گاہ میں داخل کرایا تھا وہ زمین ہے، جو میرے لیے کھودی جائے گی اور مجھ کو اس میں دفن کیا جائے گا ،یعنی میری قبر ،رہا میرے لڑکے کا تلاش بسیار کے بعد مجھے نہ پانا تو اس کی تعبیر یہ ہے کہ میرا بیٹا میرے نقش قدم پر چلنے کی کوشش کرے گا۔بہر کیف یہ لشکر یمامہ پہنچا لڑائی کا میدان گرم ہوااورحضرت طفیل اس جنگ میں کام آئے اور ان کے لڑکے شدید زخمی ہوئے اور ان کے لڑکے اس زخم سے صحت یاب ہوئے پھر حضرت عمر فاروق کی خلافت میں جنگ یرموک کے موقع میں شہید ہوئے #
        خدا رحمت کند ایں عاشقان پاک طینت را

Flag Counter