مبصر کے قلم سے
ادارہ
تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)
یاد گار ملاقاتیں
مرتب: مولانا محمد اسحاق ملتانی
صفحات:480 سائز:23x36=16
ناشر: ادارہٴ تالیفات اشرفیہ، چوک فورہ، ملتان، پاکستان
مولانا محمد اسحاق ملتانی نے یادگار باتیں، یادگار ملاقاتیں، یادگار تحریریں اور یادگار واقعات کے نام سے نصیحت وعبرت، اصلاح احوال واعمال ، فکرآخرت اور عملی جذبہ پیدا کرنے کے لیے مستند کتب سے مختلف مجموعے مرتب کیے ہیں۔ زیر نظر مجموعہ ”یادگار ملاقاتیں“ کے عنوان سے ہے جو اس سلسلے کا دوسرا مجموعہ ہے۔مرتب اس کا تعارف اور اہمیت وافادیت کو بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
”زیر نظر مجموعہ ”یادگار ملاقاتیں“ تاریخ اسلام سے منتخب انبیاء علیہم السلام… صحابہ کرام،تابعین وتبع تابعین رضی الله عنہم… حضرات فقہاء محدثین رحمہم الله اور زمانہ خیر القرون سے تاہنوز اہل الله کی یادگار ملاقاتیں… نیز سلاطین اورارباب اقتدار کی صلحائے امت سے اور صلحائے امت کی ارباب اقتدار سے ان ملاقاتوں کا مجموعہ ہے جو واقعةً یادگار ہیں اور اصلاح احوال… فکر آخرت اور عملی جذبہ بیدار کرنے میں قوی محرک ہیں، ان ملاقاتوں میں سامان عبرت بھی ہے اور ان کے ذریعے مسلمانوں کے عہد زیں کی عکاسی بھی ہے… یہ ملاقاتیں جہا ں ایک عام مسلمان کے لیے سرمہٴ بصیرت ہیں وہاں اہل اقتدار حضرات کے لیے نصیحت آموز بھی ہیں کہ اسلاف کے تاب ناک ماضی کو فراموش کرکے مستقبل روشن کرنا ایک مسلمان کا شیوہ نہیں۔
کوشش کی ہے کہ انسانی تاریخ سے وہ ملاقاتیں اس مجموعہ کا جزوبنائی جائیں جو ایک مسلمان کے لیے یادگارہوں او ران میں عبرت ونصیحت کا پہلو بھی نمایاں ہو … اس لیے کہ سعادت مندی اسی میں ہے کہ دوسروں کے حالات وواقعات پڑھ کر نصیحت حاصل کی جائے اور خود کو اعمال صالحہ سے آراستہ کیا جائے او رانفرادی اور اجتماعی زندگی میں ایسے تمام امور چھوڑ دیے جائیں جو الله تعالیٰ کی ناراضگی کا سبب بنیں… اس لیے کہ الله کی نافرمانی جہاں آخرت میں موجب ہلاکت ہے وہاں دنیاوی امور میں بھی نحوست وبے برکتی کا ذریعہ ہے … زیر نظر مجموعہ کی ہر ملاقات ہمیں یہی پیغام دیتی ہے۔ یاد رہے کہ یہ کتاب مستند کتب سے ہی استفادہ کرتے ہوئے مرتب کی گئی ہے، اکثر جگہ حوالہ بھی دے دیا گیا ہے لیکن ہر جگہ حوالہ کا التزام نہیں کیا گیا۔“
کتاب کے عنوانات کو درج ذیل سات بڑے عنوانات کے تحت تقسیم کیا گیا ہے:
1..انبیاء علیہم السلام ، اولیاء عظام اور اہل جنت کی الله تعالیٰ سے ملاقاتیں۔2..حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم سے صحابہ کرام رضی الله عنہم کی ملاقاتیں۔ 3..صحابہ کرام رضی الله عنہم کی باہم ملاقاتیں۔4..خیر القرون کے تابعین، فقہاء، محدثین عظام کی خلفائے وقت، اہل علم اور عامة المسلمین سے ملاقاتیں۔ 5..اہل علم وفضل، سلاطین وقت ، عوام الناس کی اہل الله اور مصلحین امت سے ملاقاتیں۔ 6..برصغیر پاک وہند کے اہل علم وفضل کی عوام وخواص سے ملاقاتیں۔7..اہل دانش او رعامة المسلمین کی ملاقاتیں۔
یہ کتاب ایک عمدہ اور دلچسپ علمی، فکری اور اصلاحی کاوش ہے اور واقعی اس میں ذکر کردہ یادگار ملاقاتوں کے واقعات میں موعظت، عبرت ، نصیحت، فکر آخرت اور اصلاح احوال کا سامان ہے۔ نیز یہ واقعات او رملاقاتیں اپنے اندر اس قدر دلچسپی اور دل گیری سموئے ہوئے ہیں کہ آدمی پڑھتا ہی چلا جاتا ہے اور اکتاہٹ کا احساس تک نہیں ہوتا۔ یہ کتاب اہل علم، اہل اقتدار اور عوام وخواص سب کے لیے مفید ونافع ہے اور سب کو اس کا مطالعہ کرنا چاہیے۔
کتاب کی طباعت واشاعت معیاری ہے۔
ضعیف حدیث کی شرعی حیثیت
مؤلف: مولانا محمد انور کوہستانی
صفحات:344 سائز:23x36=16
ناشر: الخلیل پبلشنگ ہاؤس، راولپنڈی
یہ کتاب جامعہ فاروقیہ کراچی کے فاضل ومتخصص فی الحدیث مولانا محمد انور کوہستانی کا تخصص فی الحدیث کا مقالہ ہے، اور جیسا کہ نام سے واضح ہے کہ اس میں ضعیف حدیث کی شرعی حیثیت پر گفت گو کی گئی ہے۔ جس میں ضعیف حدیث کے بارے میں جمہور محدثین کی آراء، ان کا تعامل، احکام وفضائل میں ضعیف حدیث سے استدلال کا حکم، جب کہ تحقیق کے نام پر ضعیف حدیث کے بارہ میں پیدا کردہ شکوک وشبہات اور منفی رویوں کا تنقیدی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔ کتاب کو تمہید، تین ابواب او رخاتمہ میں تقسیم کیا گیا ہے۔ تمہید میں حدیث، خبر، اثر اور سنت کی لغوی واصطلاحی تعریف وغیرہ پر روشنی ڈالی گئی ہے ۔ باب اول میں حدیث ضعیف، اس کی اقسام اور اسباب ضعف کو بیان کیا گیا ہے، باب دوم میں حدیث ضعیف سے احکا م وفضائل اورعقائد کے سلسلہ میں استدلال اور تعامل سلف میں اس کی حیثیت پر متقدمین ومتأخرین علماء کے اقوال کی روشنی میں بحث کی گئی ہے۔ باب سوم میں حدیث ضعیف سے متعلق پیدا کردہ شکوک وشبہات، منفی رویوں اور اعتراضات واشکالات کا دلائل کی روشنی میں جائزہ پیش کیا گیا ہے ۔ خاتمہ میں پوری بحث کے نتائج پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
چناں مؤلف لکھتے ہیں:
”اس پوری بحث وتمحیص سے مندرجہ ذیل امور ثابت ہوئے۔
٭… متروک او رمنکرروایت کہ ( جس میں ضعف شدیدکی تصریح ہو ) کے علاوہ باقی تمام ضعیف روایات جمہور کے ہاں فضائل میں قابلِ عمل ہیں۔٭… عقائد کے باب میں اخبارِ آحاد کا کوئی اعتبار نہیں ۔ یعنی ان اخبار سے عقیدہ کو ثابت نہیں کیا جاسکتا۔٭… احادیث ضعیفہ فضائل میں جمہور امت کے ہاں معتبر اور قابل عمل ہیں۔٭… ضعیف حدیث کو اگر تلقی بالقبول حاصل ہو جائے تو یہ تلقی اس روایت کو سند سے مستغنی کر دیتی ہے او رپھر یہ روایت احکام میں بھی مستدل بن سکتی ہے۔٭… یہ قول کہ ”احکام میں ضعیف روایت کا اعتبار نہیں“ اپنے اطلاق پر نہیں۔٭… احادیث ضعیفہ کا بغیر ضعف بتائے بیان کرنا جائز ہے۔٭… ضعیف احادیث میں جب تک ضعف شدید نہ ہو قابل عمل ہے۔٭… موضع احتیاط میں ضعیف حدیث احکام میں بھی مستدل بن سکتی ہے۔٭… ہر چھوٹی بڑی بات کے لیے صحیح الاسناد احادیث نہیں ملتیں اور نہ ہی یہ بات ضروری ہے۔٭… جن حضرات کی طرف مطلقاً عدم جواز کا قول منسوب ہے اس کی بھی تردید ہوتی ہے۔ ٭…ان حضرات کے نظریہ کی بھی تردید ہوتی ہے جو احکام اور فضائل کے درمیان تفریق کے قائل نہیں۔٭… ان حضرات کے نظریہ کی بھی تردید ہوتی ہے جو حدیث ضعیف کے بارے میں تساہل سے صرف روایت کرنا مراد لیتے ہیں نہ کہ عمل کرنا۔٭… اسی طرح ان حضرات کے نظریہ کی بھی تردید ہوتی ہے جو امام احمد بن حنبل رحمة الله علیہ کے قول ”ضعیف الحدیث أحب إلینا من الرأي“ سے حسن درجہ والی روایت مراد لیتے ہیں۔٭… اسی طرح ان حضرات کے نظریہ کی بھی تردید ہوتی ہے جو احادیث ضعیفہ کے بارے میں تشدد سے کام لیتے ہیں۔٭… اس سے یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ حضرات محققین کے ہاں آرائے شاذّہ کا کوئی اعتبار نہیں۔٭… اسی طرح یہ بات بھی ثابت ہو گئی کہ احادیث ضعیفہ ذخیرہ حدیث ہی کا ایک بڑا حصہ ہے۔“
یہ کتاب اپنے موضوع پر ایک عمدہ اورمستند علمی تحریر ہے۔ حوالہ جات کا بھی اس میں اہتمام کیا گیا ہے اور حاشیہ میں متن میں ذکر کردہ اعلام کا مختصر تعارف وترجمہ بھی شامل کیا گیا ہے۔
کتاب میں خبر واحد کے عقائد کے سلسلہ میں حجت ہونے یا نہ ہونے پر طویل بحث کی گئی ہے، یہ ایک مستقل موضوع ہے اور اس کا زیرنظر کتاب کے موضوع سے بظاہر تعلق نہیں ہے، لہٰذا یا تو عنوان کتاب اس طرح ذکر کر دیا جائے کہ وہ سب مندرجات کتاب کو شامل ہو جائے اور یا خبر واحد کی اس طویل بحث کو ذکر کرنے کے بجائے بحث مختصر کرکے اس انداز میں ذکر کر دی جائے کہ وہ موضوع کتاب سے مربوط ہو۔
نیز کمپوزنگ اور حروف خوانی کے حوالے سے بھی کتاب میں کمی اور نقص نظر آتا ہے کہ بعض جگہ الفاظ کی غلطیاں ہیں، بعض جگہ بے جا اسپیسزدیے گئے ہیں، عبارات کا ترجمہ بعض جگہ اقتباس کی صورت میں ہے اور بعض جگہ نہیں، بعض جگہ مؤلف کی اپنی عبارت اور اقتباس کو خلط ملط کر دیا گیا ہے۔
آئندہ اشاعت میں مذکورہ او راس طرح کے دیگر امور کی اصلاح کر لینا کتاب سے استفادے کو بہتر بنائے گا۔
کتاب کا ٹائٹل خوب صورت اور طباعت واشاعت معیاری ہے۔