محبوب صلی الله علیہ وسلم کے تابندہ ماہ وایام
شفیق الدین الصلاح
اس سے کس کو انکار ہو سکتا ہے کہ نبی صلی الله علیہ وسلم کے اوصاف جمیلہ کا ذکر خواہ کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہو ؛ اس کے لیے بڑے سے بڑے دفتر بھی کم ہیں، آپ کے اخلاق، عبادات، معاملات، کمالات،معجزات، غرض کون سا باب ایسا ہے کہ جس کا کافی ذکر کیا جاسکے، یا اس کا احصاء کسی کے امکان میں ہو؟! اسی لیے اس بحر ذخار کے چند قطروں پر اکتفا کرتا ہوں… لیکن… #
زبان قلم میں یہ جوہر کہاں
کہ ہو صفتِ پیمبر میں گوہر فشاں
ذاتِ اقدس کا نسب مبارک
خدائے تعالیٰ نے تمام انساب میں سے اپنے محبوب کا نسب شروع ہی سے افضل ارفع اور افضل بنایا ہے، حتی کہ کفار ومشرکین نے بھی اس کی تصدیق وتوثیق کی ہے۔
والد کی طرف سے نسب
محمد بن عبدالله بن عبدالمطلب بن ہاشم بن عبد مناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی بن غالب بن فھر بن مالک بن نضر بن کنانہ بن خزیمہ بن مدرکہ بن الیاس بن مضر بن نزار بن معد بن عدنان۔ ( سیرة ابن ہشام1/10)
والدہ کی طرف سے نسب
محمد بن آمنہ بنت وھب بن عبد مناف بن زھرہ بن کلاب ”کلاب “ پر آکر دونوں نسب مل جاتے ہیں : عدنان تک آپ کا نسب متفق علیہ ہے اور ”عدنان“ کے بعد ”حضرت آدم“ تک کا نسب مختلف فیہ ہے۔ (سیرة ابن ہشام 1/10 وذکر مبارک:3)
ولادت سے قبل
ولادت سے پہلے ہی برکات کاظہور شروع ہو گیا تھا، جب یہ آفتاب نبوت طلوع ہونے کے قریب ہوا، تو اطرافِ عالم میں بہت سے ایسے واقعات رو نما کیے گئے، جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی تشریف آوری کی خبر دے رہے تھے، جن کو محدثین کی اصطلاح میں ارھاصات کہا جاتا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:
1..خواب میں بشارت ، یہ حمل (یعنی بچہ) پیداہو کر امت کا سردار بنے گا۔
2..حمل ٹھہرنے کے بعد والدہ ماجدہ نے ایک نور دیکھا، جس سے شام کے محلات سامنے آگئے۔ (سیرت رسول مفتی شفیع:26)
3..حالت حمل میں کوئی گرانی محسوس نہیں ہوئی اور نہ ہی کوئی متلی، قے وغیرہ آئی۔ جو کہ عموماً حاملہ عورتوں کو آتی ہے وغیرہ وغیرہ۔
تاریخ ولادت
مؤرخین نے آپ کی تاریخ پیدائش میں شدید اختلاف کیا ہے، سوائے اس کے کہ وہ سال عام الفیل تھا اور پیر کا دن تھا، باقی سال، مہینہ اور تاریخ میں اختلاف ہے۔ (سیرت ابن ہشام1/226)
سال… بعض نے 570ء اور بعض نے 571ء کہا ہے، لیکن راجحدوسرا قول ہے:
ماہ: بعض کے نزدیک آپ کی پیدائش کا مہینہ”رمضان“ ہے، جب کہ اکثر کے نزدیک ”ربیع الاول“ ہے اور یہی راجح ہے ۔(الروض الانف1/245)
تاریخ… اس میں چار پانچ اقوال ملتے ہیں، چناں چہ کسی نے 2،کسی نے3،8،10 اور12 کا ذکر کیا ہے، مشہور اس میں سے 12 ربیع الاول ہے، لیکن تحقیق کے زیادہ قریب 8 ربیع الاول ہے۔ (حاشیہ تاریخ اسلام میاں محمد:17)
جائے ولادت
وہ مکان ہے جو بعد میں حجاج بن یوسف کے بھائی محمد بن یوسف کے ہاتھ آیا۔ ( سیرت رسول:36)
تحقیق ختنہ
آپ صلی الله علیہ مختون پیدا ہوئے تھے۔ زاد المعاد نے اس کے بارے میں تین اقوال ذکر کیے ہیں:
1..آپ مختون ہی پیدا ہوئے تھے۔
2..حضرت حلیمہ کے ہاں جب آپ کا شق صدر کیا گیا تو ساتھ ہی ختنہ کر دیا گیا۔
3..آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب نے آپ کا ختنہ ساتویں دن کر دیا، ساتویں دن آپ کا عقیقہ بھی ہوا۔ (زاد المعاد1/99)
رضاعت
تین عورتوں نے آپ کو دودھ پلایا ہے:
1..حضرت آمنہ والدہ ماجدہ، سات دن تک۔
2..حضرت ثویبہ نے۔
3..اور پھر اس کے بعد پر حضرت حلیمہ نے۔ (زادالمعاد:90)
آپ کی نشوونما
آپ کی نشو نما عام بچوں کی طرح نہیں تھی، دوسرے مہینہ میں ہاتھ سے اشارہ کرنے لگے اور چوتھے ماہ میں آپ بذات خود اپنے پاؤں پر کھڑے ہوچکے تھے اور سال کے اختتام پر چلنا شروع کر دیا تھا او رباتیں بھی کرنے لگ گئے تھے۔ (ذکر مبارک، افادات زکریا :26)
والدین کی وفات
آپ کے والد حضرت عبدالله کے انتقال میں مؤرخین کا اختلاف ہے، مشہور قول کے مطابق آپ کے والد کا انتقال اسی وقت ہوا تھا، جب آپ حالت حمل میں تھے اور بعض لکھتے ہیں کہ آپ گود میں تھے، جب کہ بعض کے نزدیک حضرت عبدالله کا انتقال اس وقت ہوا، جب آپ کی عمر7 ماہ کی تھی اور بعض نے کہا کہ18 ماہ کی تھی، لیکن زاد المعاد نے اول الذکر قول کو ترجیح دی ہے۔
آپ کی والدہ اپنے یتیم بچے کو لے کر حضرت عبدالله کی قبر کی زیارت کے لیے روانہہوئیں، او رکچھ دن قیام فرمایا، واپسی پر آتے ہوئے مقام ابواء میں حضرت آمنہ بھی انتقال کرگئیں، اس وقت آپ کی عمر کچھ برس کی تھی (تاریخ اسلام، ڈاکٹر شریفی صاحب)
اسم مبارک
آپ کا”محمد“ نام جدا مجد عبدالمطلب نے رکھا تھا، اول ”احمد“ نام والدہ ماجدہ نے رکھا تھا، آپ کے القاب واسماء علامہ قسطلانی کے نزدیک400 سے زیادہ ہیں، جب کہ ابن دحیہ نے بعض صوفیاء سے ایک ہزار تک نقل کیے ہیں۔ (ذکرآقا:25)
شقِ صدر
چار مرتبہ آپ کا سینہ چاک کیا گیا۔
1..جس وقت آپ حضرت حلیمہ کے پاس تھے، تقریباً چار سال کی عمر میں۔
2..ایک صحراء میں، دس سال کی عمر تھی۔
3..بعثت کے وقت، ماہ رمضان یا ماہ ربیع الاول، غار حراء میں۔
4..معراج کے لیے جب تشریف لے گئے تھے۔ (تاریخ اسلام:18)
چچا پھوپھیاں
آپ کے چچوں کے بارے میں مختلف اقوال منقول ہیں:
1..بعض نے10 تعداد بتائی ہے۔
2..بعض نے 11 کی تعداد بتائی ہے۔
3..بعض نے9 یا 12 بتلائی ہے۔
اور چھ پھوپھیاں تھیں۔ جو سب کی سب مشرف باسلام ہوئیں۔(الروض الانف:245)
ازواج مطہرات واولاد
آپ کی ازواج مطہرات، جوآپ کی صحبت میں رہی ہیں، ان کی تعداد گیارہ ہے او رجن سے صرف نکاح ہوا، شرفِ صحبت حاصل نہیں ہوا تو ان کی تعداد اس کے علاوہ ہے۔ (زادالمعاد:138 سیرت الرسول:63)
اولاد میں چا ربیٹیاں اور تین یا چار بیٹے (علی اختلاف الاقوال) ہیں، لیکن راجح قول تین کا ہے۔
ترتیب ولادت میں بھی مختلف اقوال منقول ہیں،بعض کے نزدیک ترتیب یوں ہے قاسم، حضرت زینب ، حضرت رقیہ، ام کلثوم، حضرت فاطمہ۔ اور بعض نے ذکر کیا ہے کہ حضرت رقیہ ان تینوں میں بڑی تھیں اور ام کلثوم سب سے چھوٹی تھیں اور پھر حضرت عبدالله مشہور قول کے مطابق طیب اور طاہر دونوں ان کے القاب تھے اور بعض کے نزدیک طیب اور طاہر دونوں علیحدہ علیحدہ صاحبزادے ہیں، یہی وجہ ہے کہ یہ چار کے قائل ہیں اور پھر حضرت ابراہیم کی ولادت ہوئی۔ (الروض الانف:361)
غزوات وسرایا
غزوات کی تعداد میں مؤرخین نے اختلاف کیا ہے، بعض نے 27، بعض نے 25 اور بعض نے 29 کا ذکر کیا ہے، اول الذکر قول راجح ہے اور سرایا کی تعداد تقریباً60 کے قریب ہے۔ (زادالمعاد:154)
63 سالہ زندگی میں مشہور واقعات
ولادت والے سال
اسی سال ابرہہ نے بیت الله پر لشکر کشی کرنے کی ناکام کوشش کی تھی۔ (ذکر مبارک:18)
قبل الولادة آپ کے والد حضرت عبدالله کا انتقال ہو گیا تھا، ان کی عمر تقریباً25 سال تھی۔ (ذکر مبارک:65)
اسی سال نور مہتاب حضرت محمد مصطفی دنیا میں تشریف لائے۔ (الرحیق المختوم:32)
ولادت کے دوسرے سال
آپ حضرت حلیمہ کے ہاں چلنے پھرنے اور بات کرنے کے قابل ہو گئے تھے۔ ( ذکر مبارک:26)
اور آپ حضرت حلیمہ کے گھر میں رہے، ان کی برکت سے خدا تعالی نے ان کو بہت خیر وبرکت سے نوازا، آپ اپنے رضاعی بہن، بھائی کے ساتھ بکریاں چرانے جایا کرتے۔ ( تاریخ اسلام:28)
ولادت کے چوتھے سال
قبیلہ بنو سعد کے محلہ میں آپ کا پہلا شق صدر کیا گیا۔ ( الرحیق المختوم:38)
پانچویں سال
بعض مورخین نے لکھا ہے کہ اس سال یعنی پانچ سال او رایک ماہ کی عمر میں حضرت حلیمہ نے اپنے لختِ جگر کو ان کی نسبی والدہ ماجدہ کے حوالہ کیا۔ (الروض الانف:340)
چھٹا سال
اس عمر میں آپ اپنی والدہ حضرت آمنہ کے پاس تھے، ایک دن حضرت آمنہ بمع اپنے بیٹے کے دیدار قبر عبدالله کے لیے گئیں اور راستہ میں انتقال فرما گئیں او رکہاگیا ہے کہ آپ کی اس وقت عمر 4 سال تھی۔ (الرحیق المختوم:38، تاریخ اسلام:36)
اسی سال والدہ کی وفات کے بعد آپ حضرت ام ایمن کی پرورش میں چنددن رہے۔ (زادالمعاد:102)
اس کے بعد آپ کا ذمہ حضرت عبدالمطلب نے اٹھایا۔(الرحیق المختوم:39)
آٹھواں سال
آپ کے دادا حضرت عبدالمطلب اس در یتیم کو داغِ مفارقت دے گئے اور آپ کی پرورش کی ذمہ داری حضرت ابو طالب نے سنبھالی۔ (البدایة والنہایة:6)
آپ لڑکپن میں بہترین اخلاق کا مجسمہ تھے، اپنی کمائی سے بسر کرنے کا شوق آپ کو شروع ہی سے تھا، بہت زیادہ باحیاء تھے۔(تاریخ اسلام:30)
دسواں سال
آپ کی عمر جب دس سال ہوئی، تو شقِ ثانی ہوا۔ (ذکر آقا:36)
بارہواں سال
آپ نے حضرت ابو طالب کے ساتھ ملکِ شام کا سفرِ اول کیا اور اسی سفر میں بحیرہ راہب سے ملاقات ہوئی او راس نے آپ کی نبوت کی خوش خبری دی۔ (البدایة والنہایة:69 الرحیق المختوم:39)
چودھواں سال
حرب الفجار واقع ہوئی، آپ نے اس جنگ میں اپنے اعمام ( دو چچوں) کی مدد کی، بعض کے نزدیک اس وقت آپ کی عمر پندرہ سال تھی اور بعض نے 20 سال کی عمر بتلائی ہے ۔(الروض الانف:350)
حرب الفجار کے بعد آپ حلف الفضول میں شریک ہوئے ۔ (الحیق المختوم:39)
آپ کی جوانی عام نوجوانوں سے کئی گنا بہتر گزری، آپ اعلیٰ صفات اور اشرف کمالات کے ساتھ متصف رہے ۔ (تاریخ اسلام:32)
(جاری)