Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ

ہ رسالہ

6 - 21
اچھی صحبت کے مبارک اثرات

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الحمدلله نحمدہ، ونستعینہ، ونستغفرہ، ونؤمن بہ، ونتوکل علیہ، ونعوذ بالله من شرور أنفسنا، ومن سیئات أعمالنا، من یھدہ الله فلا مضل لہ، ومن یضللہ فلاھادي لہ، ونشھد أن لا إلہ إلا الله وحدہ لاشریک لہ، ونشھد أن سیدنا وسندنا ومولانا محمداً عبدہ ورسولہ، أرسلہ بالحق بشیرا ونذیرا، وداعیاً إلی الله بإذنہ وسراجاً منیرا․

أما بعد! فأعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم، بسم الله الرحمن الرحیم ﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْن﴾․

وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من تشبہ بقوم فھو منھم صدق الله مولانا العظیم وصدق رسولہ النبی الکریم، ونحن علی ذلک لمن الشٰھدین والشکرین والحمدلله رب العلمٰین․

میرے محترم بھائیو، بزرگو اور دوستو! الله تعالیٰ کا ارشاد ہے﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ اتَّقُواْ اللّہَ﴾ اے ایمان والو! الله سے ڈرو، اس کا تقویٰ اختیار کرو، ﴿وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْن﴾(سورة التوبہ: 119) اور سچائی اختیار کرنے والوں کے ساتھ ہوجاؤ۔

اسی طرح، سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جو کوئی کسی قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ انہی میں شمار کیا جاتا ہے۔ (مشکوٰة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثانی، رقم الحدیث:4347)

یہ آیت قرآن کی آیت ہے، الله تعالیٰ کا کلام ہے اور الله کا کلام حق اور سچ ہے اس میں ذرہ برابر تردد اورشک کی گنجائش نہیں۔ الله تعالیٰ ارشاد فرمارہے ہیں: اے ایمان والو! تقویٰ اختیار کرو، اور صادقین کی صحبت اور معیت اختیار کرو، اس سے دین آئے گا، اس سے تقویٰ آئے گا، اس سے الله تعالیٰ کا قرب اور الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت آئے گی۔ آج آپ پوری دنیا کا جائزہ لیں تو علم کی کمی نہیں۔ علم بہت ہے․․․ اتنا ہے کہ ہم اور آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔

عیسائیوں نے جب بغداد فتح کیا تو مؤرخین نے لکھا ہے کہ انہوں نے ایک کمیشن قائم کیا بغداد میں موجود کتب خانوں کا جائرہ لے۔ چناں چہ ایک انگریز مورخ نے لکھا ہے کہ بغداد کا ایک کتب خانہ جب دریائے دجلہ میں ڈالا گیا تو پل بن گیا اور کئی مہینے تک اس دریا کا رنگ سیاہ رہا۔ گویا، اتنی کتابیں تھیں اس کتب خانے میں۔ یہ تو بہت پرانی بات ہے۔ آج تو پرنٹنگ پریس ہیں۔ قرآن بھی چھپ رہا ہے۔ حدیث بھی چھپ رہی ہے۔ فقہ بھی چھپ رہا ہے۔ ایک ایک کتاب سو سو، ڈیڑھ ڈیڑھ سو جلدوں کی ہے۔علم ترقی کر رہا ہے اور دین کی اشاعت کے تمام تر ممکنہ ذرائع استعمال ہو رہے ہیں۔

پہلے زمانے میں لاؤڈ اسپیکر بھی نہیں ہوتا تھا۔ لوگ بیان کرتے تھے تو کبھی چار آدمی بیٹھے ہیں، کبھی سات آدمی بیٹھے ہیں۔ اب تو دین کی اشاعت کے لیے لاؤڈاسپیکر کا بھی استعمال ہو رہا ہے۔ بے شمار لوگ دین کی بات سن رہے ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ پوری دنیا جلسہ گاہ بن گئی ہے تو درست ہوگا۔

ایک آدمی آسٹریلیا سے کوئی بات کرتا ہے تو وہ پوری دنیا میں نشر ہوتی ہے۔ ایک آدمی امریکا سے کوئی بات کرتا ہے تو وہ پوری دنیا میں نشر ہوتی ہے۔ اسی طرح، آپ یہ دیکھیں کہ جتنے وسائل ہیں، سب استعمال ہو رہے ہیں۔

لیکن بہت عجیب بات ہے کہ عمل میں کمی ہے۔ ایمان کا پیمانہ اوپر جانے کی بجائے نیچے ہو رہا ہے۔ الله تعالیٰ کے ساتھ تعلق او راس کے رسول صلی الله علیہ وسلم سے تعلق میں کمی آگئی ہے اور بڑی تیزی کے ساتھ آئی ہے۔ وسائل کی کمی نہیں۔ علم ہر آدمی کے پاس ہے۔ شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہو جو یہ نہ جانتا ہو کہ نماز فرض ہے اور ایسا فرض کہ جس میں کوئی گنجائش نہیں۔ آپ اگر کھڑے ہو کر نماز پڑھ سکتے ہیں تو کھڑے ہو کر پڑھیں، اگر کھڑے ہو کر نہیں پڑھ سکتے تو بیٹھ کرپڑھیں، بیٹھ کے بھی نہیں پڑھ سکتے لیٹ کر پڑھیں۔(الدر مع الرد، کتاب الصلوٰة، باب صفة الصلوٰة، 2/164، دارالمعرفہ)

نماز ہر حال میں فرض ہے اور یہ بات ہر آدمی جانتا ہے۔ اسی طرح، روزہ اور حج فرض ہے۔ لیکن اگر آپ جائزہ لیں تو آپ کو بہت خوف ناک صورتِ حال کا سامنا ہو گا۔ شاہ فیصل کالونی پولیس اسٹیشن کی حدود (جہاں جامعہ فاروقیہ کراچی واقع ہے) میں آبادی بارہ لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ الحمدلله، غالب اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ مسلمان جانتے ہیں کہ نماز فرض ہے۔ لیکن مسجدوں میں مسلمانوں کی آمد کتنے فیصد ہے؟ آپ حیران ہوں گے او رمجھ سے زیادہ آپ جانتے ہیں کہ مسلمانوں کا کتنا بڑا طبقہ کسی بھی نماز میں مسجد نہیں آتا۔ علم کی کمی نہیں ہے، عمل کی کمی ہے۔

اس کا علاج کیا ہے؟ اس کا علاج ہے: ”وکونوا مع الصادقین“ جو اہل صدق ہیں، الله والے ہیں ، ان کی صحبت اختیار کرو۔“ بے عملی کا یہ یقینی علاج ہے۔ جب آدمی اچھی صحبت اختیار کرتا ہے، تو اس صحبت کے نتیجے میں خود بخود اچھائی کی طرف آتا ہے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله بہت بڑے بزرگ گزرے ہیں۔ وہ بہت بڑے عالم تھے۔ تھانہ بھون ایک شادی میں تشریف لے گئے۔ اُن دنوں حضرت حاجی امدادالله مہاجر مکی رحمہ الله کا قیام تھانہ بھون میں تھا، اس لیے خیال تھا کہ حضرت سے بھی ملاقات کر لیں گے۔ حضرت حاجی صاحب رحمہ الله عالم نہیں تھے او رحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله علم کے پہاڑ ہیں۔ حضرت حاجی صاحب مہاجر مکی رحمہ الله عالم نہیں تھے، لیکن صاحب نسبت تھے، اُن کی زندگی میں عمل تھا۔

لہٰذا، حضرت گنگوہی، حضرت حاجی صاحب رحمہ الله سے ملاقات کے لیے تشریف لے گئے۔ حضرت حاجی صاحب رحمہ الله بہت خوش ہوئے اور فرمایا کہ بھئی مولانا رشید احمد! کسی سے بیعت بھی ہو ؟ حضرت مولانا رشید احمد صاحب نے فرمایا کہ میں کسی سے بیعت نہیں ہوں تو حضرت حاجی صاحب نے فرمایا کہ جب کسی سے بیعت نہیں ہو تو مجھ سے بیعت کر لو۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی صاحب نے فرمایا کہ حضرت، یہ تو بڑا مشکل کام ہے۔ میں آپ سے بیعت ہوں گا تو آپ مجھے ذکر واذکار بتائیں گے۔ میرے پاس اتنی فرصت نہیں ہے۔ پھر انہی کاموں میں لگ جاؤں گا۔ حضرت حاجی صاحب رحمہ الله نے فرمایا کہ میں نے تو آپ سے بیعت کے لیے کہا ہے، میں نے یہ تو نہیں کہا کہ پڑھانا چھوڑ دو۔

پھر حاجی صاحب نے فرمایا کہ ہم آپ کو کوئی ذکر وشغل نہیں دیں گے۔

حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمہ الله بیعت ہو گئے۔ اب وہاں الله والوں کی مجلس ہے۔ رات کے جب دو ڈھائی بجے تو لوگوں نے اٹھ اٹھ کر وضو کرنا اور تہجد پڑھنا شروع کر دیا۔ اس مجلس کے سبھی اٹھ کر وضو کر رہے ہیں، تہجد پڑھ رہے ہیں۔ تہجد سے فارغ ہو گئے تو اب دعا مانگ رہے ہیں، رو رہے ہیں، کوئی تسبیح لے کر بیٹھا ہوا ہے اور الله الله کر رہا ہے۔ چناں چہ حضرت گنگوہی رحمہ الله بھی شرما شرمی اٹھ گئے۔ جا کر وضو کیا، تہجد کی نماز پڑھی۔ جب دوسری رات آئی تو دیکھا کہ اسی طرح لوگ اٹھ رہے ہیں، تہجد پڑھ رہے ہیں، دعائیں مانگ رہے ہیں۔ حضرت مولانا گنگوہی رحمہ الله نے بھی اٹھ کر تہجد پڑھی۔ تیسری رات حضرت گنگوہی رحمہ الله خود اٹھے اورتہجد پڑھی۔ صبح کو حضرت حاجی صاحب سے ملاقات کی اور کہا کہ حضرت، آپ نے تو سارے کام کرا دیے۔ حضرت حاجی صاحب رحمہ الله نے فرمایا کہ ہم نے تو آپ سے کوئی کام نہیں کرایا۔ فرمایا کہ حضرت!رات کو سب اٹھ رہے تھے، میں بھی اٹھا۔ سب نے تہجد پڑھی، میں نے بھی پڑھی۔ سب نے ذکر کیا، میں نے بھی کیا۔

حاجی صاحب نے فرمایا کہ ہم نے تو آپ سے نہیں کہا۔ ہم نے تو آپ سے صرف بیعت کے لیے کہا تھا۔ چناں چہ حضرت مولانا گنگوہی رحمہ الله جو صرف ملاقات کے لیے آئے تھے اور بیعت کے بعد صرف تین دن رہنے کا ارادہ کیا تھا، فرمایا کہ حضرت اب تو میں چالیس دن یہیں رہوں گا۔ چناں چہ چالیس دن قیام فرمایا او رانہی ایام میں حضرت حاجی صاحب نے خلافت بھی دے دی۔

﴿وَکُونُواْ مَعَ الصَّادِقِیْن﴾ اہل الله کی صحبت اختیار کرو۔ جو اللہ والوں کی صحبت اختیا رکرتا ہے، الله تعالیٰ اس کو عمل کی توفیق عطا فرماتے ہیں اور اس صحبت کے بہت مبارک اثرات ہوتے ہیں۔

حضرت ابو محذورہ رضی الله عنہ بہت چھوٹے تھے، اسلام نہیں لائے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم غزوئہ حنین سے واپس تشریف لا رہے تھے۔ ایک مقام پر لشکر نے پڑاؤ ڈالا تو مجاہدین اسلام یعنی صحابہ کرام رضی الله عنہم کا اجتماع ہوا۔ اب ہوا یہ کہ اس مجمع کو دیکھ کر اردگرد کے لوگ دیکھا دیکھی آنے لگے۔ بچے بھی تماشا دیکھنے کے لیے جمع ہو نے لگے۔ جب نماز کا وقت ہوا تو آپ صلی الله علیہ سلم نے اذان کا حکم دیا۔ چناں چہ جیسے اذان دی جاتی ہے، اذان دی گئی تو جو بچے یہاں جمع تھے، ان میں حضرت ابو محذورہ رضی الله عنہ بھی تھے۔ وہ ابھی اسلام نہیں لائے تھے۔ انہوں نے نقل اتارنا شروع کر دی۔ مؤذن جو اذان دے رہا ہے” الله اکبر ، الله اکبر“ یہ بھی نقل اتار رہے ہیں۔ کھیل تماشا ہے، کوئی سنجیدگی نہیں۔ جب انہوں نے نقالی کی اوراذان ختم ہوئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اس بچے کو پکڑکے لاؤ۔

جب انھیں پکڑنے کے لیے گئے تو باقی سب بچے بھاگ گئے۔ حضرت ابو محذورہ رضی الله عنہ کھڑے رہے۔ وہ نہیں بھاگے۔ انھیں پکڑ کر آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اُن سے پوچھا، تم کیا کر رہے تھے؟ کہا، نقل اتار رہا تھا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اب بھی نقل اتارو۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے” الله اکبر ، الله اکبر“ کہا ۔ انھوں نے بھی ”الله اکبر، الله اکبر“ کہا۔ پھر جب ”أشھد ان لا الہ الاالله “کہا تو انھوں نے ”أشھد أن لا الہ الا الله“ کہا۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”أشھد ان محمد رسول الله“ کہا۔ا اس دوران ہوا یہ کہ وہ چوں کہ مسلمان نہیں تھے، اس لیے ”أشھد ان لا الہ الا الله“ آہستہ سے کہا اور ”أشھد ان محمد رسول الله“ بھی آہستہ سے کہا۔ مشرکین مکہ الوہیت کے تو قائل تھے، لیکن اپنے طور پر اس میں شریک بھی ٹھہراتے تھے، البتہ رسالت او رنبوت کا قطعاً انکار کرتے تھے۔ جب حضرت ابو محذورہ رضی الله عنہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”أشھد أن محمد رسول الله“ کہلوایا تو انھوں نے آہستہ سے دھیمی آواز میں یہ جملے کہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ زور سے کہو۔ چناں چہ” أشھد أن محمد رسول الله“ زور سے کہا۔ اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوری اذان کہلوائی۔ یہ کیاہو رہا ہے؟ یہ نقل ہو رہی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں لایا گیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم ان سے یہ کلمات کہلوارہے ہیں۔ چناں چہ اس صحبت کا فیضان ایسا ہوا کہ جیسے ہی آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہ کلمات مکمل کرائے تو حضرت ابو محذورہ رضی الله عنہ نے کہا کہ اے الله کے رسول! اب تو میں بھی آپ کے ساتھ ہوں، میں بھی اسلام لانا چاہتا ہوں۔ (سنن الدارقطنی:1/310)

چناں چہ فقہاء میں اذان کے کلمات میں اختلاف ہے۔ شوافع کہتے ہیں کہ اذان میں شہادتین میں ترجیع ہے، ایک دفعہ”أشھد أن لا إلہ إلا الله“ آہستہ کہا جائے اور دوسری مرتبہ زور سے۔ ہمارے ہاں شہادتین چار مرتبہ ہے۔ ”أشھد أن لا إلہ إلا الله، أشھد أن لا إلہ الا الله، أشھد أن محمد رسول الله، أشھد أن محمد رسول الله“ شوافع کے نزدیک آٹھ مرتبہ ہے۔ ایک مرتبہ آہستہ، ایک مرتبہ بلند آوازسے کہتے ہیں۔ حضرت ابو محذورہ رضی الله عنہ نے اس طرح اذان دی۔(البیان فی مذہب الإمام الشافعی، کتاب الصلوٰة، باب الأذان2/63)

میں صحبت کی بات کر رہا تھا۔ جب تک یہ صحبت نہیں ہوگی، الله والوں کے ساتھ بیٹھنا نہیں ہو گا تو عمل میں ترقی نہیں ہو گی۔

علم بہت ہے، بہت اچھا ہے۔ سارے جہان میں علم پھیلا پڑا ہے۔ اتنا علم ہے کہ لوگ بتاتے ہیں کہ اب انٹرنیٹ پر ایسے ایسے نظام موجود ہیں کہ ایک ایک لائبریری میں پانچ پانچ لاکھ کتابیں موجود ہیں۔ علم کم نہیں۔ علم بہت ہے۔ سارا مسئلہ عمل کا ہے۔ اس علم پر اگر عمل نہ ہو تو اس علم کا کیا فائدہ؟ ایک آدمی جانتا ہے کہ نماز فرض ہے۔ ایک آدمی جانتا ہے کہ روزہ فرض ہے۔ ایک آدمی جانتا ہے کہ زکوٰة فرض ہے۔ ایک آدمی جانتا ہے کہ حج فرض ہے۔ لیکن وہ اس پر عمل نہیں کرتا تو ایسے علم کا کوئی فائدہ نہیں، بلکہ یہ وبال ہے۔

آپ جانتے ہیں کہ شیطان، جس کا نام عزازیل تھا، یہ فرشتوں کا استاد تھا”عن ابن عباس قال: کان ابلیس قبل أن یرکب المعصیة من الملائکة․․․ وکان من أشد الملائکة اجتھادا واکثرھم علما․“ (تفسیر ابن کثیر، سورہ کہف، آیة:50) لیکن الله تعالیٰ کی اطاعت اور فرماں برداری سے اس نے انکار کیا، تکبر کیا تو اس کے تکبر نے اس کا بیڑا غرق کردیا، اسے برباد کردیا․․․ تکبّر عزازیل را خوار کرد

اصل بات یہ ہے کہ ہم الله والوں کی صحبت اختیار کریں۔ جتنی نیک صحبتیں ہوسکتی ہیں، انھیں اختیار کریں۔ ایک مسجد کی صحبت ہے۔ آدمی کچھ نہیں کر رہا، لیکن مسجد میں بیٹھا ہوا ہے، تو اس کے بھی مبارک اثرات ہیں۔

لباس کے بھی اثرات ہیں۔ اگر ہم یہود ونصاریٰ کا لباس پہنیں گے تو اس کے بھی اثرات ہیں۔ مسلمانوں والا لباس پہنیں گے تو اس کے الگ اثرات ہیں۔ مرد اگر عورتوں کا لباس پہنیں گے تو اس کے اثرات ہیں۔ عورتیں اگر مردوں کا لباس پہنیں گی تو اس کے اثرات ہیں۔ اسی طرح، صحبت کے اپنے قوی اثرات ہیں۔

اس لیے ہمیں نیک صحبت اختیار کرنی چاہیے۔ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین نے سرورکائنات جناب رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی صحبت اختیار کی اور یہ صحبت اختیار کرنے کا نتیجہ یہ تھا کہ قیامت تک ان کے جیسا کوئی نہیں ہو سکتا۔ ایسا مقام الله تعالیٰ نے ان کو عطا فرمایا کہ اب ان کا مقابل نہیں بن سکتا۔ چناں چہ انہوں نے جو سیکھااس پر عمل کیا۔ صحبت کا اثر تھا کہ جو سیکھتے جاتے، اس پر عمل کرتے جاتے۔ ہم اچھی صحبت اختیار کریں گے، بری صحبت سے بچیں گے، خود بھی اس کا اہتمام کریں گے، اپنے گھروں میں بھی اس کا اہتمام کرائیں گے، اپنی اولاد سے بھی اس کا اہتمام کرائیں گے، تو اس کے مبارک اثرات مرتب ہوں گے۔

پہلے یہ ہوتا تھا کہ والداپنے چھوٹے چھوٹے بچوں کے ہاتھ پکڑ کر الله والوں سے ملاقات کراتے تھے۔ وہ ان کے سر پر ہاتھ رکھتے اور ان کے لیے دعا کرتے تھے۔ اس کا اثر ہوتا تھا، اس کا فائدہ ہوتا ہے۔ آج یہ روایت ختم ہوگئی۔

پہلے گھروں میں تلاوت کا اہتمام تھا۔ عورتیں بھی تلاوت کر رہی ہیں، مرد بھی تلاوت کر رہے ہیں، بچے بھی تلاوت کر رہے ہیں۔ گھروں میں نماز کا اہتمام تھا۔ مرد جماعت کی نماز مسجد میں اور نوافل گھر میں جا کر پڑھتے تھے۔ عورتیں بھی دیکھ رہی ہیں، بچے بھی دیکھ رہے ہیں۔

گھروں میں الله کی رحمت تھی۔ شیاطین گھر میں داخل نہیں ہو سکتے تھے، آج گھروں میں شیاطین ہی شیاطین ہیں۔ تصویریں ہمارے گھروں میں ہیں، گانا بجانا ہمارے گھروں میں ہے، بلکہ اب تو مسجدوں کے اندر آگیا ہے، مسلمان کلمہ گو ہے، مسجد کا تقدس بھی وہ سمجھتا ہے، لیکن موبائل جیب میں ہے اور اس میں طرح طرح کی موسیقیاں اور گانے لگائے ہوئے ہیں، حالاں کہ فون سننے کے لیے، اطلاع کے لیے ضروری نہیں کہ میوزک لگایا جائے۔ اسی حالت میں مسجد میں آگئے۔ اب مسجد میں جماعت کھڑی ہو گئی اور موبائل کی گھنٹی بجنا شروع ہوگئی۔ بہت سے دوست ان کو کہتے ہیں،لیکن ان کو اس کا احساس ہی نہیں ہوتا کہ میری نماز، میرے برابر والوں کی نماز، مسجد کا تقدس سب برباد ہو گیا اور احساس ہی نہیں ہے۔ ہم نے بڑوں سے سنا کہ ہندوستان میں اگر کوئی ہندو مسجد کے سامنے گانا بجانا شروع کردیتا تو لڑپڑتے کہ اس نے مسجد کی توہین کی ہے اور آج مسلمان الله کے گھر میں آکر خود گانا بجارہا ہے۔

یہ چھوٹی چھوٹی چیز یں سمجھنے کی ہیں اور عمل کرنے کی ہیں۔ ہم اپنے گھروں کا ماحول صاف کریں۔ ہم جب تک اس کو ٹھیک نہیں کریں گے، ان شیاطین سے اپنے گھروں کو صاف نہیں کریں گے، اپنے بچے بچیوں کو نیک صحبت فراہم نہیں کریں گے تو علم چاہے جتنا ہو جائے، آگاہی چاہے جتنی ہو جائے، فائدہ نہیں۔ الله تعالیٰ ہم سب کو عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Flag Counter