Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ

ہ رسالہ

7 - 21
مسواک حقیقت، فضیلت

مولانا فضل الرحیم
	
”عن عائشة رضی الله عنھا قالت: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: السواک مطھرة للفم، مرضاة للرب“․ (رواہ الشافعی واحمد والدارمی والنسائی)
ترجمہ:”حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے روایت ہے، فرماتی ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، مسواک منھ کی پاکی کا سبب ہے، پروردگار کی خوش نودی کا باعث ہے۔“

لفظ”سواک“ ( سین کی زیر کے ساتھ ) عربی زبان میں مایدلک بہ الاسنان(وہ لکڑی جس سے دانتوں کو رگڑا جائے) کو کہتے ہیں۔ یہ لفظ ساک یسوک سوکا سے ماخوذ ہے، یعنی مسواک سے رگڑنا۔ عربی زبان میں لفظ”سواک“ معنی مصدری ( مسواک کرنا) اور آلہ ( مسواک) دونوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔ البتہ اردو زبان میں مصدری معنی ادا کرنے کے لیے ”مسواک کرنا“ کہتے ہیں اور دانت رگڑنے کے آلہ کے لیے لفظ ”مسواک“ استعمال کرتے ہیں، جو کہ عربی گرائمر کے اعتبار سے اسم آلہ کا صیغہ ہے۔ لفظ سواک سے جب آلہ ( مسواک) مراد ہو گا اس وقت اس کی جمع سوک آئے گی، جیسے کتاب کی جمع کتب۔ عربی لغات میں اس لفظ کی تفصیل میں لکھتے ہیں کہ لفظ سواک ماخوذ ہے تساوکت الابل سے۔ جب کہ اونٹ ضعف کی وجہ سے بہت آہستہ او رنرم چال سے چل رہے ہوں۔ لہٰذا اس میں اس بات کی طرف بھی اشارہ ہواکہ مسواک نرمی سے کرنا چاہیے۔

فقہی اصطلاح میں سواک کہتے ہیں لکڑی وغیرہ استعمال کرنا، تاکہ دانتوں کی گندگی اور پیلا پن دور ہو جائے۔ افضل یہ ہے کہ مسواک کسی کڑوے درخت کی ہو۔ افضل مسواک اراک یعنی پیلو کی ہے۔ اس کے بعد زیتون کی مسواک ہے۔ یہ دست یاب نہ ہوں تو کسی بھی درخت کی شاخ یا جڑ بطور مسواک استعمال کی جاسکتی ہے۔

ائمہ اربعہ اس بات پر متفق ہیں کہ مسواک کرنا سنت ہے۔ لیکن اس بارے میں اختلاف ہے کہ مسواک کرنا وضو کی سنت ہے یا نماز کے لیے سنت ہے۔ شافعیہ اور حنابلہ کے نزدیک سنن وضو اور سنن صلوٰة دونوں میں سے ہے۔ بعض حضرات جب حج اور عمرہ کے لیے جاتے ہیں تو وہاں اہل عرب کو دیکھتے ہیں کہ وہ نماز میں شامل ہونے سے پہلے، بلکہ کبھی کبھی صف میں کھڑے کھڑے مسواک کرتے ہیں، تو وہ حیرت سے بعد میں سوال کرتے ہیں ،اس کی وجہ یہی ہے کہ شافعی اور حنبلی حضرات کے نزدیک مسواک کرنا مستقل طور پر نماز کی بھی سنت ہے۔ البتہ احناف کے نزدیک مشہور قول کے مطابق صرف وضو کی سنتوں میں سے ہے۔ نماز کی سنتوں میں سے نہیں ہے۔ لیکن ایک قول ہمارے ہاں بھی موجود ہے، جیسا کہ شیخ ابن الہمام نے لکھا ہے کہ مسواک کرنا پانچ اوقات میں مستحب ہے:
1..عند ا صفرار الاسنان (جب دانت پیلے ہو جائیں)
2..عند تغیر الرائحہ (جب منھ میں بو پیدا ہو جائے)
3..عند القیام من النوم (نیند سے بیدار ہوتے وقت)
4..عند القیام الی الصلوٰة ( نماز کے لیے کھڑے ہوتے وقت)
5..عند الوضوء ( وضو کے وقت)

لہٰذا اس قول کی بنا پر احناف کے نزدیک مسواک کرنا وضو کے وقت سنت موکدہ ہے او رنماز کے وقت سنت غیر موکدہ، مستحب ہے اور مالکیہ کے نزدیک بھی مسواک کرنا وضوء کی سنت ہے۔ لیکن وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ اگر وضو اورنماز کے درمیان کافی زیادہ وقت کا فاصلہ ہو تو پھر نماز کے وقت بھی مسواک کرنا سنت ہے او راس اختلاف کی وجہ یہ ہے کہ روایات میں مختلف الفاظ آرہے ہیں، لہٰذا احناف علماء نے یہی لکھا ہے کہ اگر نماز سے تھوڑی دیر پہلے وضو کیا ہو تو پھر وضو میں مسواک کرنا کافی ہے او راگر وضو کیے ہوئے کافی دیر ہو چکی ہے تو پھر نماز کے وقت صرف مسواک کر لی جائے تو بہتر ہے، تاکہ تمام احادیث پر عمل ہو جائے۔

اس لیے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے مسواک کی بہت فضیلت ارشاد فرمائی ہے۔ نسائی میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا سے ارشاد نبوی مروی ہے کہ مسواک سے منھ کی پاکیزگی اور صفائی حاصل ہوتی ہے اورالله تعالیٰ کی خوش نودی حاصل ہوتی ہے او رمسند احمد کی روایت میں ہے ” صلوٰة بسواک افضل من سبعین صلوٰة بغیر سواک“ یعنی ”وہ ایک نماز جو مسواک کرکے پڑھی جائے ان ستر نمازوں سے بہتر ہے جو بغیر مسواک پڑھی جائیں۔“

علامہ ابن القیم اس قدر بڑی فضیلت کی حکمت تحریر فرماتے ہیں کہ مسواک کرکے نماز پڑھنا اہتمام پر دلالت کرتا ہے اور الله تعالیٰ کو بندہ سے عبادات میں اہتمام ہی مطلوب ہے۔ رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے مسواک کو فطری عبادات میں شمار فرمایا ہے۔

مسواک کے خواص کے سلسلہ میں ملا علی قاری نے بعض علماء سے مسواک کے ستر فوائد نقل کیے ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:”ادناھا تذکر الشھادتین عند الموت“ یعنی مسواک کا ادنیٰ فائدہ یہ ہے کہ موت کے وقت کلمہ شہادت یاد آجاتا ہے۔ علامہ شامی نے بھی یہی بات لکھی ہے،لیکن انہوں نے ادناھا کے بجائے ”اعلاھا“ لکھا ہے، یعنی یہ سب سے بڑا فائدہ ہے۔

حضرت ابوہریرہ رضی الله عنہ سے ارشاد نبی صلی الله علیہ وسلم منقول ہے کہ ”اگر میں مسلمانوں کے حق میں مشقت محسوس نہ کرتا او رمجھے مشقت کا ڈر نہ ہوتا تو میں ان کے لیے ہر نماز کے وقت مسواک کو ضروری قرار دیتا۔“ ابو سلمہ رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے زید بن خالد الجہنی کو دیکھا کہ جس وقت وہ مسجد میں نماز کے انتظار میں بیٹھے تھے تو مسواک ان کے کان کے پیچھے اس طرح لگی رہتی جس طرح لکھنے والے کے کان کے پیچھے قلم رکھا رہتا ہے۔ (جیسا کہ ہمارے معاشرے میں مستری ، بڑھئی وغیرہ کان کے پیچھے پینسل لگائے رکھتے ہیں) چناں چہ زید بن خالد جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو کان کے پیچھے سے مسواک نکال کر مسواک کرتے، اس روایت سے صحابہ کرام کے ہاں مسواک کی اہمیت معلوم ہوتی ہے۔

مسواک کی کیفیت او رمسائل کے بارے میں مستقل کتابیں بھی لکھی گئی ہیں، جن میں شیخ احمد الزاہد کی ”تحفہ السلاک فی فضائل السواک“ کی تصنیف قابل ذکر ہے اور متفرق طور پر مسواک کی کیفیت مسائل کا ذکر تفصیلاً کتب فقہ میں موجود ہے۔ جن کا خلاصہ یہ ہے کہ مسواک سیدھی ہو، گرو دار نہ ہو۔ کم از کم چار انگل لمبی ہو اور زیادہ سے زیادہ ایک بالشت لمبی ہو، مگر باریک ہو۔ پہلے ایک مرتبہ کلی کر لیں۔ پھر مسواک کو دھو کر دائیں ہاتھ میں اس طرح پکڑیں کہ درمیانی تین انگلیاں مسواک کے اوپر چھنگلیا ( سب سے چھوٹی انگلی ) نیچے اور انگوٹھا مسواک کے نیچے اور منھ کے سامنے آجائے۔ مسواک دانتوں کی چوڑائی میں ( دائیں بائیں) کریں۔ لمبائی میں نہ کریں۔ ( جدید میڈیکل سائنس میں دانتوں کے معالج بھی مریضوں کو تلقین کرتے ہیں کہ برش یا مسواک دانتوں پر اس طرح رگڑیں کہ مسوڑھے زخمی نہ ہوں) پہلے دائیں طرف ،پھر سامنے کے دانتوں میں، پھر بائیں طرف، اسی طرح اندر کی طرف۔ تین دفعہ مسواک کرنا اور ہر دفعہ مسواک کو دھو لینا مسنون ہے، اگر وقت کم ہو تو ایک دفعہ بھی کر سکتے ہیں۔ علامہ طحطاوی حاشیہ علی مراقی الفلاح ، ص:38 میں لکھتے ہیں کہ لیٹ کر مسواک کرنا یا مٹھی سے پکڑ کر مسواک نہیں کرنی چاہیے۔ درمختاروغیرہ میں لکھا ہے کہ مسواک چوسنا، فراغت کے بعد دھوکر نہ رکھنا، مسواک کو کھڑا کرکے نہ رکھنا، الٹی کر کے رکھنا اور کسی دوسرے کی مسواک کرنا منع ہے۔

یہاں جب یہ کہا جائے کہ دوسرے کی مسواک کرنا منع ہے تو یہاں بلا اجازت دوسرے کی مسواک کرنا مراد ہے۔ اگر دوسرا اجازت دے تو پھر جائز ہے، جیساکہ ابوداؤد میں حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی روایت میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسواک فرمارہے تھے اور آپ کے پاس دو شخص حاضر تھے تو آپ نے ان کو اپنی مسواک کرنے کے لیے دی تھی۔

روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ مسواک زبان پر بھی کرنی چاہیے، جس سے زبان بھی صاف ہو جائے گی۔ جیسا کہ حضرت حذیفہ  سے منقول ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم جب رات کو بیدار ہوتے تو مسواک کے ذریعہ اپنے منھ کو صاف کرتے تھے۔

جدید دور میں برش، منجن، پیسٹ کے بارے میں سوال ابھرتا ہے کہ کیا یہ مسواک کا بدل ہو سکتا ہے۔ تو اس کا واضح جواب یہ ہے کہ مسواک کا فائدہ، یعنی دانتوں کی صفائی تو یقینا برش سے حاصل ہو سکتی ہے، لیکن سنت اسی وقت ادا ہو گی جب مسواک لکڑی کی ہو اور او راسی کیفیت میں ہو جس میں رسول الله صلی الله علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے۔

اس لیے برش، سنت مسواک کے قائم مقام نہیں ہو سکتا۔ اس جواب کو تنگ نظری یا دقیانوسیت پر محمول نہ کیا جائے، اس لیے کہ نشتر میڈیکل کالج ملتان کے پروفیسر آف میڈیسن ڈاکٹر نور احمد نور اپنے تحقیقی مقالہ ” دین فطرت“ میں لکھتے ہیں کہ ”یورپ میں اب اس بات پر ریسرچ ہو ر ہی ہے کہ دانتوں کی صفائی اور صحت کے لیے بہترین مسواک کون سی ہے؟ کیوں کہ وہاں کے ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہو چکا ہے کہ مسواک کا ریشہ اب تک دریافت ہونے والے ریشوں میں سے دانتوں کے لیے بہترین اور موزوں ترین ہے۔“

صاحب مراقی الفلاح نے ص:38 میں حضرت علی  ، حضرت عباس، حضرت عطا سے مسواک کے بہت سے فضائل تحریر فرمائے ہیں۔ جن میں سے چند ایک یہ ہیں، الله تعالیٰ کی رضا مندی حاصل ہوتی ہے، نماز کے ثواب میں اضافہ ہوتا ہے، رزق میں اضافہ، بینائی میں اضافہ، معدہ کی درستگی، بدن کی طاقت ، فصاحت میں اضافہ ، یاد داشت اور حافظہ میں اضافہ، ہضم طعام میں معاون اور اب جدید سائنس میں بھی دانتوں کی صفائی کو بہت سی بیماریوں سے بچاؤ کا طریقہ قرار دیا گیا ہے۔

لیکن ایک مسلمان تو صرف اسی لیے مسواک کرے گا کہ یہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت ہے۔ پھر اس کے نتیجہ میں الله تعالیٰ اس کو دنیا وآخرت کے فیوض وبرکات بھی ضرور نصیب فرمائے گا۔

Flag Counter