Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ

ہ رسالہ

11 - 21
ذکر الله سیکھنے کی اہمیت اورفوائد

حضرت حکیم مولانا محمد اخترؒ
	
کسی الله والے کی صحبت میں رہ کر الله کا نام لینا سیکھ لو۔ الله کا نام لینے والا اور الله کا ذکر کرنے والا گویا الله کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ مشکوٰة کی شرح مرقاة کی عبارت ہے ”الذاکر کالواقف علی الباب“ جس کو الله الله کرنا نصیب ہو گیا، چاہے وہ ” لا الہ الا الله“ کا ذکر ہی ہو، غرض الله کا کوئی بھی ذکر کرے تو وہ الله کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ عرب میں بھی آپ جہاں جائیں گے توجگہ جگہ وقوف لکھا ہو گا، یعنی یہاں موٹر کھڑی کرو، وقوف کے معنی عربی میں کھڑے ہونے کے ہیں ۔ ” واقف علی الباب“ یعنی الله کے دروازے پر کھڑا ہو گیا۔ ایک بندہ اپنے مالک کے دروازے پر کھڑا ہو جائے تو کیا یہ معمولی انعام ہے؟ لوگ کہتے ہیں کہ ذکر سے کیا ہوتا ہے ؟ ذکر سے یہ ہوتا ہے کہ آپ الله کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں، آپ نے دروازہ کھٹکھٹانا شروع کر دیا، الله الله کی ضربیں لگا کر دل کا دروازہ کھٹکھٹا رہے ہیں کہ اے الله! اپنے دربار کا دروازہ کھول دیجیے، ہم آپ کی زیارت کرنا چاہتے ہیں۔ اب الله کی حکمت ہے کہ وہ درواز ہ کب کھولتے ہیں، ہمارا کام تو بس دروازہ کھٹکھٹا نا ہے #
        کھولیں وہ یا نہ کھولیں در اس پر ہو کیوں تیری نظر؟
        تو تو بس اپنا کام کر یعنی صدا لگائے جا

دیکھا آپ نے ذکر الله کا کتنا بڑا انعام ہے! دروازہ کھولنا نہ کھولنا ان کا کام ہے ۔ جو کام خدا کا ہے وہ آپ اپنے ہاتھ میں کیوں رکھتے ہیں؟ آپ تو بس بندے بن کر رہیں اور الله الله اور لا الہ الا الله کا ذکر شروع کر دیں۔

کلمہ طیبہ کی ایک عظیم الشان فضیلت
روزانہ پانچ سو دفعہ لا الہ الا الله پڑھیں گے تو پانچ مہینے میں پچھتر ہزار ہو جائے گا۔ حدیث پاک میں ہے کہ جو مسلمان اپنے کسی مسلمان بھائی کو ستر ہزار مرتبہ کلمہ ”لا الہ الا الله“ پڑھ کر بخش دے تو الله تعالیٰ اس کی مغفرت فرما دیتے ہیں جس کو پڑھ کر بخشا گیا ہے۔ تو ہر پانچ مہینے میں آپ کسی کی مغفرت کا سامان بطور ایصال ثواب کر سکتے ہیں، کبھی نانا کو بخش دیا، کبھی ابا کو، کبھی دادی کو، کبھی ایک کوٹہ اپنے لیے رکھ چھوڑا۔ الله اکبر! اور اس میں صرف دس منٹ لگتے ہیں۔ جب موت آئے گی پھر قدر معلوم ہو گی کہ فرشتہ ایک مرتبہ سبحان الله کہنے کا موقع بھی نہیں دے گا، چاہے اسے سلطنت دے دو، ساری زندگی کی کمائی دے دو، وہ ایک سیکنڈ کی مہلت بھی نہیں دے گا، ایک مرتبہ سبحان الله کہنا بھی نصیب نہ ہو گا، خوب یاد رکھو!

دنیا سے کیا چیز ساتھ جائے گی؟
یہ جو میں آپ کو الله کی محبت کی دعوت دے رہاہوں، اس کا مزہ پہلے خود لینے کے بعد آپ کو اس کی دعوت دے رہا ہوں، اگر مجھے مزہ نہ آتا تو آپ کو اس مزے کے بارے میں کیسے بتاتا؟ جو خود بے مزہ ہو گا وہ دوسروں کو بامزہ کیسے کرے گا؟ جو خود بے اثر ہو گا وہ دوسروں پر اثر کیسے ڈالے گا؟ اس لیے مولانا شاہ محمد احمد صاحب کا شعر ہے #
        پریت کی لذت جب سے ملی دل کا عالم ہے کچھ اور
        نگر ڈھنڈورا پیٹ رہا ہوں پریت کرو سب کو
نگر نگر، یعنی شہر شہر، بستی بستی یہی ڈھنڈورا پیٹ رہا ہوں کہ جب الله کی محبت مل جاتی ہے تو دل کا عالم کچھ اور ہی ہو جاتا ہے۔ اے دنیا والو! الله کی محبت سیکھو، دنیا میں چاہے کتنے بڑے آدمی بن جاؤ، قبر میں خالی ہاتھ صرف کفن ہی لے کر جاؤ گے۔ اس لیے الله کی محبت کا خزانہ اپنی روح میں جمع کرو، الله کا نام اگر ایک دفعہ بھی لو گے تو یہ سب نامہٴ اعمال میں چھپ جائے گا، جسے دنیا میں کوئی نہیں مٹا سکتا۔ آپ نے لا الہ الا الله کہہ دیا، سبحان الله پڑ ھ لیا، یہ سب گویا روح میں پرنٹ ہو گیا، آپ کا جسم تو قبر میں اُتر جائے گا، لیکن روح میں آپ نے جو الله کا نام لے کر اس کی محبت جمع کی ہے یہ سب انوار وبرکات روح لے کر جائے گی #
        رنگِ تقویٰ رنگِ طاعت رنگِ دیں
        تا ابد باقی بود بر عابدین
تقویٰ اور عبادت کا رنگ قیامت تک عابدوں پر باقی رہے گا اور دنیا کا رنگ کیا ہے ؟ وٹامن کھا کھا کر دوڈھائی من کے موٹے ہوگئے اور کل ٹائی فائیڈ ہو گیا تو ساری طاقت ختم ہو گئی، لیکن روح کے اندر آپ نے جو الله کا نام لیا ہے، اس کو ساری کائنات نہیں مٹا سکتی۔

ذکر الله قرب الہٰی حاصل کرنے کا راستہ ہے
تو جو شخص الله کا ذکر کرنے لگے گویا وہ الله کے دروازے پر کھڑا ہو گیا ہے، دستک دے رہا ہے کہ الله میاں! ہم آپ کا قرب چاہتے ہیں، بس کسی نہ کسی دن رحم آجائے گا اور کیسے رحم آئے گا؟ اس کو مولانا رومی فرماتے ہیں #
        گفت پیغمبر کہ چوں کوبی درے
        عاقبت بینی ازاں درہم سرے

پیغمبر صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ کسی کا دروازہ ہمیشہ کھٹکھٹاتے رہو گے تو ایک دن کوئی نہ کوئی سر ضرور نمودار ہو گا، ایک دن اس کو رحم آجائے گا۔ مولانا کا کمال دیکھو کیاعجیبشخص تھے، مولانا رومی بہت بڑے عاشق تھے، الله کے عاشقوں میں ان کے عشق کا جھنڈا سب سے اونچا ہے، ان چھ سوبرسوں میں اتنا بڑا عاشق کوئی نہیں پیدا ہوا، ساری دنیا کے عاشقین مولانا کی مثنوی سے فیض حاصل کررہے ہیں۔ تو الله کا ذکر کرتے رہو، ان شاء الله ایک دن اس دروازے سے سر ضرور ظاہر ہو گا، ایسا محسوس ہو گا کہ الله میاں کہہ رہے ہیں کہ” آجاؤ“ محسوس ہو جائے گا کہ دل میں الله آگیا ہے او رجب دل میں الله آتا ہے تو کیا محسوس ہوتا ہے ؟ اس کو خواجہ صاحب فرماتے ہیں #
        یہ کون آیا کہ دھیمی پڑگئی لو شمع محفل کی
        پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی
جب الله دل میں آئیں گے تو ساری کائنات پھیکی نظر آئے گی، سورج اور چاند آپ کو پھیکے نظر آئیں گے، جب خالقِ سورج دل میں آئے گا تو سورج کی کیا حقیقت ؟ خواجہ صاحب بھی کیا کمال کے شاعر تھے، الله کی محبت کو شعر میں کیا عمدہ طریقے سے بیان کر گئے!!! بہرحال الله کے ذکر کو بہت بڑی نعمت سمجھو۔

بیویوں سے حسن سلوک عین دین ہے
بیویوں سے حسن سلوک کے بارے میں حضرت مرزا مظہر جانِ جاناں رحمة الله علیہ کا واقعہ بارہا سنا چکا ہوں کہ اتنے نازک مزاج تھے کہ ایک دفعہ بادشاہ نے پانی پی کر صراحی پر پیالہ ترچھا رکھ دیا تو حضرت کے سر میں درد ہو گیا۔ بادشاہ نے ان سے کہا کہ آپ کی خدمت کے لیے کوئی خادم بھیج دوں؟ کہنے لگے کہ ابھی تک تو صبر کیا، اب بولنا ہی پڑا کہ جب آپ کو پیالہ رکھنے کا سلیقہ نہیں ہے تو آپ کے خادم کا کیا حال ہو گا؟ آپ معاف کیجیے اور رہنے دیجیے۔ دہلی کی جامع مسجد جاتے ہوئے راستے میں کسی کی چارپائی ٹیڑھی رکھی دیکھی تو سر میں درد ہو جاتا، رضائی کی سلائی اگر ذرا سی ٹیڑھی ہو جاتی تو سر میں درد ہو جاتا ، تو اتنے نازک مزاج تھے۔ ان کو الہام ہوا کہ اے مرزا مظہر جانِ جاناں! تو اگر چاہتا ہے کہ میرے یہاں تیرا کچھ درجہ ہو، میرا کچھ قرب ملے تو فلاں محلے میں ایک بد مزاج، بد خو او ربہت تلخ زبان عورت ہے، اس سے شادی کر لو۔ چوں کہ الله کو انہیں چمکانا تھا اور سارے عالم میں ان کاڈنکا پٹوانا تھا، تفسیر روح المعانی کے مصنف علامہ سید محمود آلوسی او رمشہور فقہی کتاب شامی کے مصنف علامہ شامی جیسے بڑے عالم ان کے سلسلے میں بیعت ہیں، ان کی شہرت خالی ہندستان تک نہیں رہی، بلکہ عراق تک ان کا ڈنکا پٹ گیا۔

ایک کابلی پٹھان ان سے مرید ہو گیا ، وہ ایک مرتبہ کسی کام سے ان کے گھر گیا تو ان کی بیوی نے کہا کہ کیا تم لوگ اتنی دور دور سے آتے ہو؟ کیا رکھا ہے ان میں ؟ارے ان کو تو ہم جانتے ہیں، ایسے ہی مکار آدمی ہیں، ان میں کوئی خاص بات نہیں۔ اس نے دو چار ایسی خطرناک باتیں سنائی تو کابلی پٹھان نے چاقو نکال لیا، پھر اس کو خیال آیا کہ یہ تو ہمارے شیخ کی بیوی ہے، بس رک گیا، لیکن واپس جا کر شیخ سے بہت لڑا کہ تم ایسا بیوی رکھتا ہے؟ ارے ہم نے تو چاقو نکال لیا تھا ،پھر خیال آیا کہ شیخ کابیوی ہے، اس لیے معاف کر دیا، تمہارا خلاف اتنا بولتا ہے، کیسا معذور بیوی تم نے رکھا ہے؟ حضرت نے فرمایا کہ ارے بے وقوف! اس کی بد مزاجی پر صبر کرنے کی وجہ ہی سے آج مرزا کا ڈنکاپٹ رہا ہے، یہ درجہ اسی صبر کرنے کی وجہ سے ملا ہے۔

غیر عورتوں سے بدنظری کا وبال
آج کل لوگ اپنی بیویوں کے ساتھ کیا کیا ظلم کر رہے ہیں؟ آنکھوں دیکھا قصہ سنا رہا ہوں کہ بد نظری اور غیرعورتوں سے ملنے جلنے کے گناہ کی نحوست سے ایک صاحب کا دل کسی عورت پر آگیا، انہوں نے اس سے شادی کرنے کے لیے اپنی بیوی کو طلاق دے دی۔ اب اس بے چاری غریب کے دل سے کتنی آہ نکلی ہو گی! اگر اس کا کوئی قصور ہوتا، بدتمیز ہوتی، لڑائی کرتی… پھر تو کوئی بات تھی، اگر حسن میں کم تھی تو حسن تو غیر اختیاری چیز ہے، شکل انسان خود تھوڑی بناتاہے؟! شکل تو الله نے بنائی ہے، یہ تو شادی سے پہلے سوچنا تھا، اب یہ کیا ہے کہ شادی ہوگئی، بچے ہوگئے تو ان کی نظر کسی اور پر جم گئی؟ وہ عورت پسند آگئی، اس سے شادی کر لی اور اپنی بیوی کو چھوڑ دیا۔ میں نے آنکھوں سے دیکھا، اسی عورت کو، جس کے حسن پر مرے تھے، اس کے گال میں کینسر پیدا ہو گیا، آدھا آدھا پاؤ پس نکلتا تھا ،آرپار سوراخ ہو گیا تھا، تین چار گز سے بدبو آتی تھی اور مروان گالوں پر ! ارے دوستو، یہ دنیا کچھ نہیں ہے، سڑی ہوئی چیز ہے، خدا کے لیے اپنی زندگی کو الله پر فدا کر دو اور اگر کبھی اچانک کسی حسین شکل پر نظر پڑ جائے تو میرا شعر یاد کرلو #
        کسی خاکی پہ مت کر خاک اپنی زندگانی کو
        جوانی کر فدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو
مٹی کے ہو کر مٹی پر جان دیتے ہو، مٹی پلس مٹی کا حاصل بھی بس مٹی ہو گا۔

خدا کے دروازے تک پہنچنے کا راز
تو میں عرض کر رہا تھا کہ محدث عظیم ملا علی قاری رحمة الله علیہ لکھتے ہیں کہ جس کو الله نے ذکر کی توفیق دے دی، وہ الله کے دروازے تک پہنچ گیا، بندہ زمین پر رہتے ہوئے عرش پر پہنچ گیا، اب دروازہ کب کھلے گااس پر نظر نہ ہو، بس اپنا کام کیے جاؤ، ایک دن دروازہ ضرور کھلے گا۔ اگر کسی دروازے کو مسلسل کھٹکھٹاتے رہو گے تو ایک دن ضرور کوئی سر نمودار ہو گا، ان شاء الله ایک دن الله کا تعلق ضرور عطا ہو جائے گا، نسبت مع الله نصیب ہو جائے گی، آپ کے قلب میں الله ضرور آئیں گے ایک دن، دروازہ کھٹکھٹاتے رہو، ذکر کرتے رہو، ان شاء الله ایک دن دروازہ کھل جائے گا، آپ محسوس کریں گے کہ آپ کے قلب میں کوئی چیز آگئی، پھر خود ہی کہنے لگیں گے #
        یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمع محفل کی
        پتنگوں کے عوض اڑنے لگیں چنگاریاں دل کی
خواجہ صاحب نے یہ شعر ایسے ہی نہیں کہا تھا۔ یہ قصے افسانے نہیں ہیں، حقائق ہیں، الله تعالیٰ کی ذات حقیقت ہے اور ان کا ذکر بھی حقیقت ہے، باقی سب افسانے ہیں، جن کو تم سمجھ رہے ہو کہ یہ بہت اچھاکام کررہے ہیں، یہ سب خواب ہو جائیں گے، یہ سب افسانے بن جائیں گے۔ دیکھو اپنی زندگی کو کہ کیسے کیسے موڑ سے گزرے ہو، اپنا ماضی سوچو کہ کیا کھایا تھا، کیا پیا تھا، کیا بویا تھا تو سب خواب معلوم ہو گا۔

دل صرف خدا کو دینے کے لیے بنا ہے
اس لیے قالب یعنی جسم بے شک ساری کائنات کو دے دو، لیکن مومن کو اپنا قلب کسی کو دینا جائز نہیں۔ دوستوں میں قالب کے ساتھ بیٹھیں، لیکن قلب الله کے ساتھ مشغول رہنا چاہیے۔ قلب جسم کا بادشاہ ہے، سب سے بڑا ، بڑا ہے تو اپنے سے بڑے ہی کو پیش کرنا ہو گا، جو بڑا افسر ہوتا ہے وہ اپنے سے بڑے افسر کا اسسٹنٹ بنتا ہے۔ دل چوں کہ بادشاہ ہے، جسم میں سب سے بڑا ہے، لہٰذا آپ کے لیے جائز نہیں کہ قلب کسی گھٹیا چیز کو دے دیں، قلب کو حسینوں کے قوالب پر عاشق نہیں ہونا چاہیے، قلب کو خالق قالب پر عاشق ہونا چاہیے، لہٰذا دل الله کے ساتھ رکھو، چاہے باہرکار بھی ہو، خوب کاروبار بھی ہو، لیکن دل میں یار ہو۔ اگر الله تعالیٰ کا تعلق نہیں ہے تو سب مردہ ہے، وہ شخص نہایت محروم ہے ”الذی لا یذکر الله“ جو شخص الله کو یاد نہیں کرتا، وہ ”کالمیت“ ہے اور جو ذاکر ہے وہ ”کالحی“ ہے، اصل زندگی اسی کی ہے۔

حیات روحانی عطا ہونے کی ایک مثال
میرے شیخ شاہ عبدالغنی صاحب رحمة الله علیہ اتنے بڑے عالم تھے کہ شمس بازغہ، صدرا، ملّا حسن،سارے فلسفے اور منطق کے حاشیے تک یاد تھے۔ جس وقت عربی کے حوالے اور دلائل پیش کرتے تھے تو مفتی رشید احمد کہتے تھے کہ الله اکبر! اسّی سال کی عمر میں ان کو حمد الله کا حاشیہ، قاضی، بیضاوی اور شمس بازغہ سارا فلسفہ زبانی یاد ہے۔ حضرت نے مولانا اصغر میاں صاحب دیوبندی رحمة الله علیہ کے ساتھ پڑھا ہے۔ مفتی محمد شفیع صاحب رحمة لله علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ بھائی ! تمہارے شیخ میرے پیر بھائی تو ہیں، مگر میرے استاد کے درجے میں ہیں، کیوں کہ انہوں نے اور میرے استاد مولانا اصغر میاں صاحب نے ایک ساتھ پڑھا ہے۔

تو حضرت شاہ عبدالغنی صاحب رحمة الله علیہ نے مجھ سے فرمایا کہ حکیم اختر! میں یہاں پیدا ہوا ہوں اور یہ کون سی جگہ تھی؟ عید گاہ کی محراب، سرائے میر۔ حضرت نے ایک دن مغرب کی نماز پڑھائی، پھر اوّابین پڑھی ، وہ چاندنی رات تھی، چاند کی چاندنی درختوں کے پتوں سے چھن چھن کر آرہی تھی، اس وقت وہاں سوائے حضرت کے اور اس فقیر کے کوئی نہیں تھا، ان کا سجدے میں رونا اور الله کی محبت کا مزہ، عجیب سماں تھا۔ جب حضرت نماز سے فارغ ہوئے تو عید گاہ کی محراب میں مجھ سے فرمایا کہ حکیم اختر! میں یہیں پیدا ہوا تھا، پھر خود ہی فرمایا کہ تم کو تعجب ہو گا کہ میں یہاں کیسے پیدا ہوا؟ فرمایا کہ حکیم الامت یہاں تشریف لائے تھے، اس گاؤں میں ان کا بیان ہوا تھا، اس کے بعد حکیم الامت نے اپنے ہاتھوں پر مجھے یہاں بیعت فرمایا، جب انسان کسی ولی الله کے ہاتھ پر بیعت ہوتا ہے تو اسے روحانی حیات عطا ہوتی ہے #
        مجھے سہل ہو گئیں منزلیں کہ ہوا کے رخ بھی بدل گئے
        تیرا ہاتھ ہاتھ میں آلگا تو چراغ راہ کے جل گئے
 
الله کی محبت کا رنگ کیسے چڑھتا ہے؟
دوستو! دور ہی دور سے آدمی صحیح رنگ نہیں پکڑتا، اگر آپ کپڑا رنگوانا چاہیں تو رنگ ریز کہتا ہے کہ صاحب تین دن تین رات لگیں گی، لیکن آپ کہتے ہیں کہ صاحب مجھے تو لاہور جانا ہے، کشمیر جانا ہے، جلدی دے دو، تو وہ کہتا ہے کہ لے جائیے، میں رنگ پختہ ہونے کی ضمانت نہیں دیتا، لیکن میں جتنی تعداد بتارہا ہوں اتنے دن اس کو میرے پاس رکھو تو ان شاء الله! اسے جہاں چاہے لے جاؤ یہ رنگ نہیں بدلے گا۔ اس پر جگر مراد آبادی شاعر کا شعر ہے #
        میرا کمالِ عشق بس اتنا ہے اے جگر
        وہ مجھ پہ چھا گئے میں زمانے پہ چھا گیا
اگر کسی الله والے کی صحبت میں رہ کر الله کے رنگ میں پختگی سے رنگ گئے، پھر لندن وامریکا جہاں جاؤ گے ان شاء الله تعالیٰ الله ہی کے ہو کر رہوگے، وہاں غیروں کا رنگ نہیں پکڑو گے #
        جہاں جاتے ہیں ہم تیرا فسانہ چھیڑ دیتے ہیں
        کوئی رنگ ہو ترا رنگِ محفل دیکھ لیتے ہیں
لیکن اس کے لیے کچھ دن تو صحبت اٹھالیں، کم سے کم چالیس دن ، چھ مہینے کسی الله والے کے پاس رہ کر دیکھ لیں۔ بس پھر زندگی میں زندگی آجائے گی، اصلی زندگی دولت اور ایئرکنڈیشن میں نہیں ہے، بہت سے لوگ ایئرکنڈیشن میں ہیں، لیکن ان کا دل جل رہا ہے، عذاب میں مبتلا ہے، پریشان ہے، کھال کے ٹھنڈا ہونے سے دل کا ٹھنڈا ہونا لازم نہیں آتا، ایئر کنڈیشن آپ کی کھال تو ٹھنڈی کر سکتا ہے، مگر دل کی ٹھنڈک تو صرف الله ہی کی یاد میں ہے ﴿اَلاَ بِذِکرِْ اللهِ تَطْمَئِنُّ الْقُلُوبُ﴾․

تعلق مع الله کے ثمرات
ار ے ظالمو! کہاں جارہے ہو؟ تمہارے قلب کو ہم نے پیدا کیا ہے، ماں کے پیٹ میں ہم نے بنایا ہے، ورنہ ماں کے پیٹ میں امریکا روس کی کون سی مشین تھی، جو تم کو تخلیق کرتی؟ لہٰذا جس نے تمہیں بنایا ہے وہی تمہارے بارے میں سب سے بہتر جانتا ہے، صرف اسی کو معلوم ہے کہ تم چین اور اطمینان سے کیسے رہ سکتے ہو، مگر تم یہ سمجھتے ہو کہ چین واطمنیان تمہارے قبضے میں ہے، ہر گز نہیں ، مجھے یاد کرو گے تو میں کانٹوں میں تمہیں اطمینان دوں گا، چاروں طرف کانٹے ہوں گے، کانٹوں کے بیچ میں گدڑی بچھائے ہوئے الله کا ولی اطمینان سے لیٹا ہوا ہے اور اگر میں نہیں چاہوں گا تو پھولوں میں تمہارے دل میں غم کے کانٹے گھسیڑدوں گا اور تم بے چین رہو گے، تمہارے دل میں میرے تعلق کا جو پھول ہو گا وہ تمہیں گلستان میں رکھے گا #
        دل گلستاں تھا تو ہرشے سے ٹپکتی تھی بہار
        اور دل بیاباں ہو گیا عالم بیاباں ہو گیا
اور شاعر کہتا ہے #
        وہ گرمی ہجراں وہ تیری یاد کی خنکی
        جیسے کہ کہیں دھوپ میں سایہ نظر آئے
ساری دنیا میں دھوپ ہے، مگر آپ سائے میں چل رہے ہیں، الله والا مومن الله کی رحمت کے سائے میں رہتا ہے، اس کو ایسی کوئی پریشانی نہیں رہتی جو اسے بدحواس کر دے ، وہ تسلیم ورضا کی دولت سے مالا مال رہتا ہے #
        کوئی مرتا کوئی جیتا ہی رہا
        عشق اپنا کام کرتا ہی رہا

تسلیم ورضا کے مقام کی حقیقت
دنیا والے تو ذرا سی مصیبت سے بد حواس ہو جاتے ہیں ،مگر الله والے کبھی بدحواس نہیں ہوتے، ان کو الله تعالیٰ نے تسلیم ورضا کا جو مقام دیا ہے اس کی برکت سے وہ ہر وقت اپنے مالک سے راضی رہتے ہیں حکیم الامت فرماتے ہیں کہ جو حالات بھی پیش آئیں وہ مومن کے لیے خیر ہیں، یہ عقیدہ رکھنا فرض عین ہے، جیسے نماز فرض ہے ۔ ایک بزرگ سے کسی نے پوچھا کہ آپ کا مزاج کیسا ہے؟ انہوں نے جواب دیا کہ میرا مزاج کیا پوچھتے ہو؟ میرے مزاج کے مطابق ساری دنیا میں کام ہو رہا ہے۔ اس شخص نے کہا کہ آپ اتنے بڑے آدمی ہیں کہ گویا الله میاں آپ سے پوچھ کر کام کرتے ہیں، آپ کے مزاج کے مطابق سارے کام ہوتے ہیں؟! کہنے لگے کہ آپ میری بات سمجھے نہیں، میں نے اپنے مزاج کو الله تعالیٰ کی مرضی میں فنا کر دیا ہے ، اب میری مرضی اور الله کی مرضی ایک ہو گئی ہے، لہٰذا جو کام ہوتا ہے ہم یہ یقین رکھتے ہیں کہ الله کی مرضی سے ہوا ہے، چناں چہ ہم اس پر راضی رہتے ہیں اور ہر وقت چین سے رہتے ہیں ۔ تسلیم ورضا اور رضا بالقضا اسی کا نام ہے۔

سوئے قضا سے پناہ مانگنے کی مسنون دعا
لیکن سوئے قضا سے پناہ مانگنے کا حکم ہے، حدیث پاک کی دعا ہے ”اللھم انی اعوذ بک من جھد البلاءِ ودرک الشقاءِ وسوءِ القضاءِ وشماتة الاعداءِ“ ہمارے گناہوں کی وجہ سے آسمان سے جو فیصلے ہمارے لیے مضر نازل ہوتے ہیں ان سے پناہ مانگو، اس دعا کی برکت سے الله تعالیٰ سوئے قضا کو حسن قضا سے تبدیل کر دیں گے۔ ان شاء الله۔

جس کو الله تعالیٰ کا تعلق نصیب ہو جاتا ہے اس کو رشک جنت زندگی دنیا ہی میں مل جاتی ہے۔ الله تعالیٰ کے بارے میں سب کو یقین ہے کہ ”لیس کمثلہ شیءٌ“ ان جیسا کوئی نہیں ہے، نہ دنیا میں، نہ جنت میں، نہ آخرت میں، نہ یہاں، نہ وہاں۔ یہ عقیدہ ہر مسلمان کا ہے اور دوسری آیت ہے ﴿ ولم یکن لہ کفواً احد﴾ الله کی برابری کرنے والاکوئی نہیں ہے۔ جب ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ الله کا کوئی ہم سر، کوئی برابری کرنے والا نہیں ہے، کوئی کفو نہیں ہے، تو یہ بھی سمجھ لو کہ الله کے نام کی مٹھاس کا بھی کوئی کفو اور برابری کرنے والا نہیں ہے، چاہے وہ جنت کی حور ہو یا دنیا کے شامی کباب اور پراٹھے ہوں۔ الله کی مثل نہ دنیا میں کوئی لذت ہے نہ آخرت میں کوئی لذت ہے اور نہ جنت میں کوئی لذت ہے۔

تعلق مع الله کے حصول کے تین اعمال
دوستو! الله کے عاشقوں نے دو جہاں سے بڑھ کر الله کے نام کی بے مثل لذّت اپنی روحوں میں درآمد کر رکھی ہے، الله تعالیٰ ہم کو بھی اس لذّت کو حاصل کرنے کی توفیق عطا فرما دیں۔ لیکن کام یابی کام سے ہوتی ہے، ہم لوگ باتیں بناتے ہیں او رسمجھتے ہیں کہ اس سے تصوف آجائے گا #
        کا م یابی تو کام سے ہو گی نہ کہ حسنِ کلام سے ہو گی
        ذکر کے التزام سے ہو گی، فکر کے اہتمام سے ہو گی

الله کو حاصل کرنے لیے تین ہی باتیں ہیں: صحبت اہل الله، دوامِ ذکر الله اور تفکر فی خلق الله۔ الله والوں کی صحبت کا اختیار کرنا، ذکر الله پر دوام رکھنا ،یعنی الله تعالیٰ کے ذکر پر ہمیشہ قائم ودائم رہو اور تفکر فی خلق الله، یعنی الله کی مخلوق کے بارے میں سوچتے رہو کہ آسمان وزمین، چاند اور سورج کس لیے بنائے؟ لہٰذا غفلت سے نہ کھاؤ پیو۔ جس روٹی کے بننے میں چاند وسورج، زمین وآسمان اور سمندر وپہاڑ کی خدمات شامل ہیں آپ نے ایسے ہی کھالی۔ ” ابروباد وماہ وخورشید ہمہ درکارند ” یعنی ہوا، سورج، چاند، آسمان اور زمین تمہارے غلّے اور روٹی بنانے کی خدمات میں لگے ہوئے ہیں، لہٰذا جب تم روٹی کھاؤ تو غفلت سے نہ کھاؤ، بار بار اس کو سوچو کہ الله نے یہ دنیا کیوں بنائی اور اس دنیا کو قلب میں مت آنے دو۔ بنگلہ دیش میں ہم دریا میں سفر کر رہے تھے، ایک جگہ پانی کم ہو گیا تو کشتی زمین سے لگ گئی، لہٰذا سب کو اترنا اور کشتی کو دھکا لگانا پڑا، جب پانی گہراآگیا تو کشتی چلنے لگی تو میں نے کہا کہ دیکھو! کشتی کے لیے پانی اتنا ضروری ہے کہ اگر پانی نہ ہو تو کشتی چل نہیں سکتی، لیکن یہی پانی اگر کشتی کے اندر آجائے تو کشتی ڈبو دے گا۔ اسی طرح دنیا کما نازندگی گزارنے کے لیے ضروری تو ہے، لیکن اگر دل میں گھس گئی تو ڈوب جاؤ گے۔ مولانا رومی رحمة الله علیہ نے کیا عمدہ مثال دی ہے کہ جوکشتی اور پانی کا تعلق ہے وہی دنیا اور آخرت کا تعلق ہے، دنیا خوب کماؤ، لیکن دل میں نہ گھسنے دو اور اس کے لیے ضرورت ہے صحبتِ اہل الله کی، ورنہ دنیا کی محبت دل میں ضرور گھس جاتی ہے، جو روحانی ماہرین قلب ہیں، وہ بتاتے ہیں کہ کون سا اسکرو اور کون سا نَٹ ڈھیلا ہے؟ دنیا کاپانی کہاں سے آرہا ہے؟ جیسے ماہر کشی بان بالٹی سے پانی کو پھینکتا رہتا ہے، کشتی میں جمع نہیں ہونے دیتا، ایسے ہی شیخ، اہل الله اور صالحین کی صحبتیں اور ذکر وفکر آدمی کے قلب سے دنیا کی محبت کا پانی نکالتی رہتی ہیں، ورنہ پھر یہ ہوتا ہے کہ آہستہ آہستہ دنیا کی محبت اسے ڈبو دیتی ہے، اسے نہ نماز کی فکر رہتی ہے، نہ جماعت کی ، نہ اس کو ماں باپ کے آداب کی فکر ہے ،نہ ذکر وفکر کا مزہ، بس ہر وقت یہی فکر ہے کہ آج یہ دوکان بنالو، کل وہ مکان بنالو، آج یہ کر لو کل وہ کر لو اور ہوتے ہوتے اسکیمیں بناتے بناتے ایک دن عزرائیل علیہ السلام آگئے اور تب معلوم ہوا کہ دنیا میں تو ہمارا کچھ بھی نہیں ہے، جس کو ہم سمجھتے تھے کہ ہمارا ہسپتال اور ہماری خانقاہ اور ہماری سنگ مرمر کی مسجد ہے، معلوم ہوا کہ اختر فوت ہو گئے اور قبر میں اکیلے گئے ، اس وقت صرف الله نے جو نیک اعمال قبول کیے وہی کام آئیں گے۔ اس لیے دوستو! دنیا میں رہتے ہوئے آخرت کی تیاری سے غافل نہ ہونا۔ اس پر مجھے اپنا ایک اردو شعر یاد آیا #
        دنیا کے مشغلوں میں بھی یہ باخدا رہے
        یہ سب کے ساتھ رہ کر بھی سب سے جدا رہے

یہ الله والوں کی تعریف کر رہاہوں۔ بس سب کے ساتھ رہو، مگر سب سے جدا رہو، جب ذکر کا وقت آجائے اور تسبیح اٹھاؤ، پھر کوئی یاد نہ آئے، سوائے اس کے کہ کوئی شرعی مجبوری ہو، ذکر کے بعد پھر ماں باپ، بیوی بچوں اور دوستوں کی خدمت کرو، سب کے ساتھ رہو۔ ان شاء الله رشکِ جنت زندگی رہے گی۔ جن لوگوں کو اس کا ذائقہ معلوم نہیں، والله قسم کھا کر کہتا ہوں، ایک مسلمان کی قسم کی اہمیت ہوتی ہے۔

لذتِ عظمتِ نامِ خدا
میں والله کہتا ہوں کہ آج لوگوں کو الله کے نام کی لذت اور مٹھاس کا صحیح علم نہیں ہے، ورنہ وہ اپنے تمام کاروبار بھول جاتے، ایک بزرگ فرماتے ہیں #
        شاہوں کے سروں میں تاجِ گراں سے درد سا اکثر رہتا ہے
        اور اہلِ صفا کے سینوں میں اک نور کا دریا بہتا ہے

اہلِ صفا، یعنی اہل الله کیا ولی ہیں کہ سلطنت بھی ساتھ ہے اور دل میں الله کی محبت بھی رکھتے ہیں۔ ایک صحابی کسی بادشاہ کے دربار میں دسترخوان پر بیٹھے کھانا کھارہے تھے، ایک لقمہ گر گیا، انہوں نے اس کو اٹھا کر صاف کیا اورکھانے لگے کہ ان کے برابر بیٹھے ہوئے ایک ساتھی نے کہا کہ ایسا نہ کریں، ورنہ یہ لوگ ہمیں حقیر سمجھیں گے۔ انہوں نے فرمایا کیا میں ان لوگوں کی خاطر اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم کی سنت کو چھوڑ دوں؟

دوستو! جب الله تعالیٰ اپنی عظمت عطا کرتا ہے تب آنکھیں کھل جاتی ہیں کہ میں کس کے ساتھ ہوں، مجھے کون دیکھ رہا ہے، جب الله تعالیٰ کی معرفت اور عظمت مل جاتی ہے تو اس کا ہر لمحہ، ہر سانس رشکِ جنت ہو جاتا ہے، کیوں کہ جنت کا خالق تو الله ہی ہے، جب نعمت دینے والا ساتھ ہوتا ہے تو نعمتوں سے بڑھ کر مزہ ملتا ہے۔

شکر پر ذکر کو مقدم کرنے کی وجہ
اسی لیے الله تعالیٰ نے ”فاذکرونی“ یعنی اپنے ذکر کو مقدم فرمایا اور ”واشکروالی“ کو بعد میں فرمایا۔ علامہ آلوسی نے تفسیر روح المعانی میں بیان فرمایا کہ دیکھو شکر کو الله نے بعد میں بیان کیا اور اپنے ذکر کو پہلے بیان کیا، تو شکر سے ذکر افضل کیوں ہے؟ فرمایا کہ ذکر کا حاصل نعمت دینے والے کے ساتھ مشغول ہونا ہے اور شکر کا حاصل نعمتوں میں مشغول ہونا ہے”الاشتغال بالمنعم افضل من الاشتغال بالنعمة“منعم کے ساتھ مشغول رہنا نعمتوں کے ساتھ مشغولیت سے افضل ہے۔ اس لیے الله تعالیٰ نے ”فاذکرونی“ یعنی اپنے ذکر کو پہلے بیان کیااور شکرکو بعد میں، جب کھاؤ پیو توشکر کرو کہ یا الله! تیرا شکر ہے، لیکن الله کی یا د کا درجہ پہلے ہے، ورنہ یہی نعمتیں، آپ کی کمائی آپ کے بچے کھائیں گے، آپ کو کیا ملے گا؟ مان لیا کہ آپ نے بہت کما کر بچوں کو پال کر مال دار کر دیا، لیکن جب آپ قبر میں جائیں گے تو آپ نے اپنے لیے کیا کیا ؟ آپ قبر میں اپنے لیے کچھ نہیں لے جاسکتے، نہ کوئی موٹر، نہ کوئی مال ودولت ، سوائے اعمال کے، اب جب آپ قبر کے اندر جائیں گے تو بچے آپ کے کیا کام آئیں گے؟ کوئی بچہ شکریہ ادا کرے گا یا قیامت کے دن بخشوائے گا؟ اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ بیوی بچوں کی فکر مت کرو، بچے جب الله والے بن جائیں گے تو الله خود ان کے سب کام بنا دے گا، لہٰذا ان کو الله والا بنانے کی کوشش کرو، جب وہ خدا کے ہوں گے تو خدا ضرور ان کا کفیل ہو گا اور اگر نالائق ہوں گے تو تمہارا سارا مال بھی نالائقی میں صَرف کر دیں گے اور وہی مال تمہارے لیے وبال ہو جائے گا۔ بس تھوڑی سے محنت کرکے ان کو صالحین بنانے کی کوشش کرو۔

اس وقت میرا بیان کرنے کا کوئی ارادہ نہیں تھا، لیکن بعض مہمان دور سے آئے تھے، خصوصاً میرے احباب میں سے جو جنوبی افریقا سے آئے ہوئے ہیں ان کو موقع بھی کم ملتا ہے، لہٰذا میں نے کہا کہ اگر الله میری آہ کو، میری ذرا سی گزارش کو شرف قبول بخشے اور ہمارے اور آپ کے قلوب میں اثر ڈال دے تو وہ انقلابِ حیات عطا کرنے کے لیے کافی ہے، کا م تو ان کے کرم سے بنتا ہے، یہ تو وسائل ہیں کبھی دس منٹ کی تقریر اثر کر جاتی ہے او رکبھی دس گھنٹے میں بھی وہ اثر نہیں ہوتا، بس الله سے دعا کرنی چاہیے۔

دعا کرو کہ الله تعالیٰ ہمارے قلوب کو اپنی رحمت، اپنی محبت، اپنا یقین او رمعرفت سے نوازش فرما دے، الله! ہمیں اپنے مرشدین اور بڑوں کی محبت، معرفت اور ان کی توقیر کی توفیق نصیب فرما دے، یا الله! اپنی رحمت سے ہمیں اپنے نفس کو مٹانے کی توفیق عطا فرما، الله! اپنی رحمت سے اپنی محبت اورمعرفت نصیب فرما، یا الله! حضور صلی الله علیہ وسلم کی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنت کی اتباع کی توفیق نصیب فرما، یا الله! دنیا ایک عارضی اور فانی حیات ہے، وہ بے کسی میں قبرستان کے سپرد کرتی ہے، اس دنیا کو ہمارے قلوب سے اچاٹ فرما۔ الله! دنیا کو راحت، عافیت اور عزت کے ساتھ خوب نصیب فرما، لیکن اے خدا! دنیا کی محبت سے اپنے لیے اوراپنے جسمانی او روحانی دونوں اولاد کے لیے پناہ چاہتا ہوں کہ دنیا کی محبت ہمارے قلوب میں نہ گھسنے پائے، الله کسی مخلوق کا محتاج نہ اختر کو کرنا، نہ اس کی جسمانی او رروحانی ذریات کو، نہ میرے احباب کو۔

اے میرے خدا! اتنی دنیا نصیب فرما کہ کسی کے محتاج نہ ہوں، نہ ہماری اولاد اور نہ ہمارے ماں باپ۔ یا الله! اس دنیا میں رہتے ہوئے رشکِ جنت حیات نصیب فرما، اے الله! اپنے ذکر کی وہ مٹھاس نصیب فرما جو آپ اپنے اولیاء کے قلوب کو عطا کرتے ہیں، یا الله! ہمارے قلوب سے غفلت دور فرما دیجیے اور اپنے نام کی وہ لذّت عطا فرما جس کے بغیر ہم بے چین رہیں، جب تک آپ کو یاد نہ کر لیں ہمیں دنیا میں کسی چیز سے چین نہ ملے اور یا الله! ہم سب کو اپنی رحمت سے اپنا بنالے۔ آمین!
واٰخر دعوٰنا ان الحمدلله رب العلمٰین
وصلی الله تعالیٰ علی خیر خلقہ سیدنا محمدٍ وعلی اٰلہ وصحبہ اجمعین، برحمتک یا ارحم الرحمین․

Flag Counter