نبی اکر م صلی الله علیہ وسلم کاکافروں سے حسن سلوک
محترم محمدجاوید اشرف مدنی
حویطب بن عبد العزی یہ جلیل القدر صحابی ہیں، مگر شرف صحابیت سے پہلے کفر کے زمانہ کے کچھ احوال وہ بیا ن کرتے ہیں،جس میں ہمارے لیے بہت سی عبرت ہے ۔
حویطب کی طبیعت میں اگرچہ سلامتی تھی، مگر اسلام دشمنی کا جوماحول مکہ مکرمہ میں گرم تھا اس سے یہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکے،حویطب کا واقعہ کچھ اس طر ح امام حاکم رحمة اللہ علیہ نے ذکرکیا ہے: محمد بن سلمہ اشہلی اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ حویطب بن عبد العزی مروان بن حکم کے پاس اس وقت پہنچے جب مروان نے زمام حکومت سنبھالی،حویطب کے ساتھ دیگر چند کبار صحابہ تھے،مثل حکیم بن حزام ،مخرمہ بن نوفل وغیرہ،مروان کے پاس کچھ دیر یہ لوگ گفت گو میں مشغول تھے کہ مروان نے حویطب سے مخاطب ہوکر کہا: بزرگوار ! اسلام کے بہت سے واقعات پیش آئے، مگر تم اسلام میں پیچھے ہی رہے ؟ حویطب نے جواب دیا: جی ہاں: اللہ کی قسم بات اصل یہ ہے کہ میں نے متعدد بار اسلام لا نے کا ارادہ کیا،مگر ہرمرتبہ تمہارے والد ہی اس راہ میں رکاوٹ بنے اور وہ مجھے اسلام سے روکتے رہے اور تمہارے والد مجھ سے یہ کہتے: کیا تو اپنی قوم کی عزت کو خاک میں ملائے گا؟ کیا تو ایک نئے دین کی خاطر اپنے باپ دادا کے دین کو چھوڑے گا ؟ یہ سننا تھا کہ مروان شرم سے پانی پانی ہوگیااور اپنے سوال پر نادم ہوا․ پھر حویطب نے مروان کو مخاطب ہو کر کہا: کیا تمہیں عثمان (رضی اللہ عنہ) نے نہیں بتلایا کہ جب وہ اسلام لائے تو تمہارے والد سے ان کو کس قدر تکالیف پہنچیں ؟ اس بات پرمروان اور زیادہ رنجیدہ ہوگیا ، حویطب نے مزید کہا: قریش کے سرکردہ اور بڑے لوگوں میں جو لوگ فتح مکہ تک کفر پر قائم رہے ان میں مجھ سے زیادہ کسی شخص کو اسلام سے دوررکھنے میں مجبور نہیں کیا گیا، بہر حال یہ مقدرات میں سے ہے، بدرکے موقع پر میں جنگ میں مشرکین کے ساتھ شریک ہوا ،میں نے فرشتوں کو قتل کرتے ہوئے اور قید کرتے ہوئے دیکھا تو میں نے اپنے دل میں کہا کہ : یہ شخص (یعنی نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم حفاظت ِ خداوندی میں ہے ، ہم مشرکین شکست خوردہ مکہ واپس ہوئے، مکہ میں دھیرے دھیرے ایک ایک کرکے لوگ اسلام میں داخل ہوتے رہے، یہاں تک کہ صلح حدیبیہ کا موقع آیا تو میں اس صلح میں شریک ہوااور اسلام بڑھتا رہا ،صلح نامہ جس وقت لکھا گیا تو اس میں آخری گواہ میں ہی تھا، اور اس وقت بھی میں نے اپنے دل میں کہا: قریش کو محمد صلی الله علیہ وسلم سے تکلیف ہی پہنچے گی ۔پھر جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم عمرة القضاء کے لیے مکہ آئے اور قریش مکہ سے باہر نکلے تو میں ان لوگوں میں سے تھاجومکہ میں رہ گئے تھے ،میرے ہم راہ سہیل بن عمرو بھی تھے ،ہمیں مکہ میں اس لیے چھوڑا گیا تھا کہ ہم معاہدہ کے مطابق تین د ن بعد رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو مکہ سے باہر نکال دیں ،چناں چہ جیسے ہی تین دن پورے ہوئے، میں اور سہیل بن عمرو آئے اور ہم نے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے کہا: تمہارا وقت پوراہوچکاہے، لہٰذا یہا ں ہمارے شہر سے چلے جایئے ، یہ سن کر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے بہ زور آواز لگائی : ہمارے ساتھ جو لوگ بھی آئے ہیں ان میں سے کوئی شخص بھی آج کے سورج کے غروب ہونے سے پہلے پہلے مکہ میں نہ رہے، یہاں سے نکل جائے ۔
حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالی عنہما کی روایت میں ان حویطب کا اسلام لانے کا واقعہ کچھ اس طرح ہے، ملاحظہ فرمائیں:
حویطب کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم فتح مکہ کے موقع پر مکہ میں داخل ہوئے تو خوف کے مارے میں حواس باختہ ہوگیا اور میں گھر سے نکل کھڑا ہوا ،اپنے بیوی بچوں کو الگ الگ کچھ امن کی جگہوں پر پہنچادیا،اس سے فارغ ہوکر میں عوف کے باڑہ میں پہنچا تو اچانک ابو ذر غفاری سے سامنا ہوگیا ،ان سے میری خوب دوستی تھی اور ایسے وقت میں دوستی اگرچہ کام آتی ہے، مگر میں ان کو دیکھتے ہی بھاگ کھڑا ہوا ،ابو ذر نے مجھے آواز لگائی : ابو محمد ! میں نے کہا:لبیک ،کہنے لگے : تجھے کیا ہوا ؟ میں نے کہا مجھے ڈر لگ رہا ہے ، کہنے لگے ،لا خوف علیک : آج کوئی خوف اور ڈر کی بات نہیں ہے، تم اللہ عز وجل کی امان وحفاظت میں ہو ،یہ سن کر میں واپس ہوا اور میں نے ان کو سلام کیا ،انھوں نے مجھ سے کہا: جاؤ اپنے گھر جاؤ ،میں نے کہا : کیا میرے گھر پہنچنے کاراستہ ہے ؟ اللہ کی قسم مجھے نہیں لگتا کہ میں گھر پہنچ سکوں گا، راستہ ہی میں پکڑ کر قتل کردیا جاؤں گااور اگر گھر میں پہنچ بھی گیا تو وہاں مار دیا جاؤں گا،جب کہ میرے گھر والے بھی گھر پر نہیں ہیں، ان کو بھی میں نے مختلف جگہوں پرچھوڑ دیا ہے ، ابو ذر نے کہا : جاؤ اپنے گھر والوں کو ایک جگہ جمع کرلو، اور میں تمہیں تمہارے گھر تک پہنچاتا ہوں ، چناں چہ یہ میرے ساتھ ہولیے اور راستہ میں یہ آواز لگاتے رہے : حویطب کو امان مل چکی ہے، کوئی ان سے تعرض نہ کرے،اس کے بعد ابو ذر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس پہنچے اور اس واقعہ کی اطلاع دی ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : کیا تمام ہی لوگوں کو امن نہیں دیا گیا، سوائے ان (چار) کے جن کو میں نے قتل کاحکم دیا ہے؟!یہ سن کر مجھے اطمینا ن ہوا اور میں نے اپنے اہل وعیال کو یکجا کیا اور ان کوگھر پہنچایا،اس کے بعد ابو ذر میرے پاس آئے اور کہنے لگے:اے ابو محمد ! کب تک اور آخر کب تک ؟ تمام خیر کی جگہوں سے تم محروم رہے اور بہت سی خیر تمہیں نصیب نہ ہوئی، مگر چلو ابھی بھی کافی خیر موجود ہے، لہٰذا جاؤ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس، جاکر اسلام لے آؤ ،تاکہ تمہیں سلامتی حاصل ہوسکے ،آپ صلی الله علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ نہایت شریفانہ برتاؤفرماتے ہیں ،آپ کی عادت شریفہ لوگوں کوجوڑنے کی ہے، توڑنے کی نہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم حلیم الطبع اور برد بار ہیں،آپ صلی الله علیہ وسلم کی عزت وشرافت ہی میں تمہاری بھی عزت وشرافت ہے۔میں نے کہا: ٹھیک ہے تو میں تمہارے ساتھ چلتا ہو ں،پس میں ابو ذر کے ہم راہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت شریفہ میں بطحاء کے مقام پر حاضرہوا ،آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ ابو بکر وعمر (رضی اللہ عنہما) تھے ،میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے سرمبارک کی جانب کھڑا ہوگیا ،میں نے ابو ذر سے پوچھا کہ : میں کس طرح سلام کروں ؟ کہنے لگے یہ کہو : السلام علیک ایہا النبی ورحمة اللہ وبرکاتہ ، میں نے یہ الفا ظ کہے ،آپ صلی الله علیہ وسلم نے جواب دیا: وعلیک السلام حویطب ! میں نے کہا: اشہد ان لا الہ الا اللہ ، وانک رسول اللہ․ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الحمد للہ کہ تعریف ساری اسی ذات کے لیے ہے جس نے تمہیں ہدایت سے نوازا ۔میں نے محسوس کیا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کو میرے اسلام لانے سے مسرت وخوشی ہوئی ۔ ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے قرض طلب فرمایا تو میں نے چالیس ہزار درہم قرض دیے ،میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ حنین، طائف وغیرہ غزوات میں شریک ہوا تو مجھے مال غنیمت بھی عنایت فرمایا ،حنین کے موقع پر سو اونٹ عطافرمائے۔ یہ عظیم صحابی مدینہ میں ہجرت کرکے آئے اور یہیں ایک سو بیس سال کی عمر میں سنہ 54ھ میں وفات پائی ۔ رضی اللہ عنہ وارضاہ۔ (مستدرک حاکم رقم:6084)
آج ہر دن نت نئے طریقے سے مسلمانوں کو ہر جگہ ستانے اور ان کو اذیتیں پہچانے کے طریقے اختیار کیے جارہے ہیں ،نفرت کی لہر ساری دنیا میں گرمادی گئی ہے، مسلمانوں کو ہر جگہ مشکلات کا سامنا ہے، ہر جگہ مسلمانوں کے ساتھ سوتیلے پن کا برتاؤ برتا جارہا ہے، مسلمان اور دیگر اقوام کے درمیان نفرتوں کی آگ کو خوب سلگایا جارہا ہے ،جب کہ ہر عقل مند یہ بات جانتا ہے کہ جب آگ لگتی ہے تو وہ آگ اپنے پرائے کو نہیں دیکھتی ،بلکہ اپنی لپیٹ میں سب ہی کو جلاکر خاک کردیتی ہے ، اسلام ومسلم دشمن طاقتیں شاید یہ سوچے ہوئے ہوں کہ ہم آگ سلگادیں اور اس میں مسلمان جل کر خاک ہوجائیں گے ،مگر یہ ان کی خام خیالی اور بدھو پن ہے ،اس نفرت بھر ی آگ میں سب ہی کا نقصان ہے ،ساری قوموں کا نقصان ہے ،اس کرہ ارضی پر بسنے والے سارے اہل مذاہب کا نقصان ہے ،نفرتوں کی آگ سے ترقیاں ہرگزنہیں ہوسکتیں ،نفرتوں سے دنیا میں تباہیاں آئیں گی،ضرورت ہے اس بات کی کہ دنیا میں امن وسلامتی کے پیغام کوعام کیا جائے ،بالخصوص دین رحمت کے ماننے والے مسلمانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ دین رحمت کے پیغام کوجگہ جگہ عام کریں،بھٹکے ہوئے انسانوں کو ان کے مالک سے ملائیں،سسکتی دنیا کو اسلام کی نعمت سے روشنا س کرائیں،تاکہ یہ دنیا امن وسلامتی کا گہوارہ بن جائے، واضح رہے کہ ماضی میں بھی اور حال میں بھی اور مستقبل میں بھی تینوں زمانوں میں صرف اور صرف دعوت ِ دین کاکام ہی مشکلات کا حل رہا ہے ، اسی میں عداوتیں ودشمنیاں کافور ہوتی ہیں،یہ اصول کسی قانون دان کا نہیں بلکہ رب العالمین کا ہے کہ: ﴿َلَا تَسْتَوِیْ الْحَسَنَةُ وَلَا السَّیِّئَةُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ہِیَ أَحْسَنُ فَإِذَا الَّذِیْ بَیْْنَکَ وَبَیْْنَہُ عَدَاوَةٌ کَأَنَّہُ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ﴾ بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوتی ،لہذا برائی کا بدلہ بھلائی سے دو ،جس کانتیجہ یہ ہوگاکہ تمہاری جس سے عداوت ودشمنی ہوگی وہ تمہارا جگری دوست بن جائے گا۔
اس آیت قرآنی اور حکم ربانی کے تناظر میں آج مسلمانوں کو عمل کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ برائی کا بدلہ بھلائی سے دیں اور انسانیت کی جو امانت ان کے پاس ایمان کی شکل میں ہے اس کو اللہ تعالی کے بندوں تک پہنچائیں، تاکہ وہ بھی خیر عظیم سے نہ صرف روشناس ہوں، بلکہ اس کے ماننے والے اور اس کی دعوت دینے والے بن جائیں۔
ہے عیاں یورش تاتار کے افسانے سے
پاسباں مل گئے کعبہ کو صنم خانے سے