Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ

ہ رسالہ

13 - 21
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
کیامحرم اور صفر میں نکاح کرنا باعثِ نحوست ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام درج ذیل مسئلہ کے بارے میں کہمیرے بیٹے روز گار کے سلسلے میں بیرون ملک مقیم ہیں، آئندہ ماہ محرم الحرام میں وہ سالانہ چھٹیاں گزارنے پاکستان آئیں گے، گھر والوں نے اس موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ان کی شادی کا ارادہ کیا ہے، منگنی ہو چکی ہے، لیکن ان کے خاندان میں اور خود ان کے اپنے گھر میں ماہ محرم الحرام اور ماہ صفر میں شادی کرنے کے بارے میں شدید شکوک وشبہات پائے جاتے ہیں اورخاندان تردّد کا شکار ہے۔

کیا واقعی شریعت اسلامی میں اس کی کوئی حقیقت ہے؟ شریعت مطہرہ کی روشنی میں فیصلہ فرمائیں۔

جواب… شریعت مطہرہ میں کہیں بھی محرم اور صفر کے مہینوں میں نکاح کرنے سے منع نہیں کیا گیا، کیوں کہ نکاح ایک اہم عبادت ہے اور ایک اہم عبادت سے کیوں کر منع کیا جاسکتا ہے؟ حدیث شریف میں ہے کہ ”آدمی نکاح کرکے اپنا آدھا دین محفوظ کر لیتا ہے، پس باقی کے بارے میں الله سے ڈرے۔“ ایک اور حدیث میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے نکاح کو تمام انبیاء علیہم السلام کی سُنت بتایا ہے۔

لہٰذا ان مہینوں(محرم اور صفر) میں بھی اس اہم عبادت کو سرانجام دینا چاہیے، تاکہ ایک غلط عقیدے کی تردید ہو۔

بیوی اور بچے کے خرچ، نیز منکوحہ  عورت کا دوسری جگہ نکاح کرانے کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ میری دو بیٹیاں ہیں، دونوں کی شادی ایک گھرانے میں ہوئی ہے او ران دونوں لڑکوں کے والد کا نام … ہے اور یہ چھ ماہ تک ان کے ساتھ صحیح تھے ، لیکن ا س کے بعد ان کے ساتھ لڑائی جھگڑا شروع کر دیا او ران دونوں کو آدھی رات کو گھر سے بُرا بھلا کہہ کر دو دفعہ نکالا، ان کے سسر او ران کی زوجہ دونوں آئے تھے کہ ہم ان کو لے جانے کے لیے نہیں آئے اور ان کو مورخہ 12/03/2016 سے اب تک چھ ماہ گزر گئے ہیں، نہ ان کو ماہانہ خرچ دیا ہے اور بڑی بیٹی کو یرقان ہوا، جناح ہسپتال میں آٹھ دن تک ایڈمٹ رہی، نہ اس کا شوہر اس کو دیکھنے آیا اور نہ ہی اس کے گھر والے آئے۔

اوربڑی بیٹی کے بیٹے کی پیدائش مورخہ21/08/2016 کو ہوئی، نہ تو اس کا شوہر بچے کو دیکھنے آیا اور نہ ہی اس کے گھر والے آئے اور نہ ہی پیدائش کا خرچہ دیا۔ اب ان سے کہا گیا ہے کہ ماہانہ خرچہ دیں تو کہتے ہیں کہ نکاح نامہ میں کوئی خرچے کا ذکر نہیں کیا گیا ہے، اس لیے ہم اس کا خرچہ دینے کے پابند نہیں او رجب شادی ہوئی تھی تو حق مہر میں نے ان کے ایمان پر چھوڑ دیا۔
1..ان کے بڑے بیٹے کی بیوی کا حق مہر10 تولہ سونا لکھا ہوا ہے۔
2..ان کے دوسرے بیٹے کی بیوی کا 5 تولہ سونا اور ماہانہ2000 روپے لکھا ہوا ہے۔
 3..ان کے تیسرے بیٹے اور اس کی بیوی کا حق مہر3 تولہ سونا لکھا ہوا ہے۔
 4..ان کے چوتھے بیٹے اور اس کی بیوی کا حق مہر3 تولہ سونا لکھا ہوا ہے۔
ان کے سسر اور ان کی زوجہ کہتی ہیں نہ ان کو لے کر جاتے ہیں اور نہ ہی ان کو طلاق دیتے ہیں۔ یہ ساری عمر بیٹھی رہیں۔ اور نہ ہی ہم ان کو ماہانہ خرچہ دیں گے، آپ اسلامی نقطہ نظر سے فتوی دیں:

1..کیا بڑا بیٹا اپنی بیوی اور اپنے بچے کا خرچہ دینے کا پابند ہے؟ اور یہ بچی اس کے ساتھ رہنا چاہتی ہے او رلڑکی کے والد کا مطالبہ ہے کہ جس مکان میں لڑکی رہے گی اس مکان کو اسی کے نام کیا جائے۔
2..چھوٹی بیٹی اپنے شوہر کے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔
3..اگر یہ میرے مطالبات نہیں مانتے تو کیا میں اپنی دونوں بیٹیوں کی شادی دوسری جگہ کر سکتا ہوں؟ اسلامی نقطہ نظر سے فتوی دیں۔

جواب…دین اسلام میں نکاح کے بعد مرد اورعورت کے درمیان زوجیت کا جو اہم رشتہ قائم ہوتا ہے ا س کا بنیادی مقصد دونوں کا ایک پرسکون زندگی گزارنا ہے، جس میں ایک طرف خاوند کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ اپنی طرف سے پوری کوشش کرکے بیوی کی بنیادی ضروریات اور حقوق کو ادا کرے، تو دوسری طرف بیوی کی یہ ذمے داری ہے کہ وہ خاوند کی جائز کاموں میں اطاعت اور اس کا دِل جیتنے میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کرے۔

جب خاوند اور بیوی دونوں ایک دوسرے کے حقوق اور عزت نفس کا خیال کرتے ہوئے زندگی گزاریں گے تو یقینی طور پر دونوں کی زندگی خوش گوار اور پُرسکون گزرے گی اور ساتھ ہی ساتھ دونوں کی اولاد کی تربیت بھی اچھی ہو گی۔

لیکن اگر خدانخواستہ معاملہ اس کے برعکس ہو اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق ادا نہ کر رہے ہوں ، جس کی وجہ سے دونوں کا آپس میں نباہ کرنا مشکل ہو رہا ہو تو ایسی صورت میں دونوں خاندانوں کے سربراہوں کو چاہیے کہ آپس میں مل بیٹھ کر، باہمی مفاہمت سے میاں بیوی کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں، تاکہ دونوں کے درمیان صلح جوئی ہو او رپھر سے دونوں خوش حال زندگی گزارسکیں۔

لہٰذا ذکر کردہ صورت حال میں اولاً آپ اوران کے سسر مل بیٹھ کر اپنے بچوں کے مسائل کو حل کرنے کی کوشش کریں، الله تعالیٰ کی ذات سے امید ہے کہ جب آپ دونوں منصف بن کر اصلاح کی نیت سے کوشش کریں گے تو بہت سے مسائل حل ہو جائیں گے۔

آپ کے سوالات کے جوابات مندرجہ ذیل ہیں:
1..جو عورت خاوند کے ساتھ رہے گی اس کا نان ونفقہ (خرچ، رہائش وغیرہ) خاوند کے ذمے لازم ہے، اسی طرح بچے کا خرچ بھی باپ کے ذمے ہے ،عورت کو نکاح کے بعد خاوند سے ایک ایسے الگ کمرے کا مطالبہ کرنے کا حق حاصل ہے جس کا مکمل انتظام عورت کے ہاتھ میں ہو۔

2..جب تک آپ کی بچیاں اپنے خاوندوں کے نکاح میں ہیں تب تک آپ ان کا نکاح دوسری جگہ نہیں کر سکتے، اگرچہ وہ آپ کے مطالبات پورے نہ کر رہے ہوں، تاہم اگر ان کے خاوند ان کو طلاق دے دیں، یا باہمی رضامندی سے خلع کے لیے تیار ہو جائیں تو پھر بچیوں کی عدت پوری ہونے کے بعد آپ ان کا نکاح دوسری جگہ کر سکتے ہیں۔

چَھٹی،بہات وغیرہ رسومات کا شرعی حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام کہ میری چھ بہنیں ہیں ،جو کہ سب شادی شدہ ہیں اور ہم سات بھائی ہیں۔ ہمارے علاقے میں شادی کے موقع پر چند رسومات ہوتیہیں، اپنے گھر والوں کو کئی بار ان رسومات سے منع کیا گیا ہے، مگر حجت تام کرنے کے لیے فتویٰ طلب کیا جارہا ہے:

چھٹی …بہن یا بیٹی کے ہاں بچہ پیدا ہوتا ہے تو کافی سازوسامان دیا جاتا ہے، بچوں کے سوٹ، بڑوں کے سوٹ، کھلونے، سونے کا لاکٹ وغیرہ وغیرہ، تقریباً ستر، اسی ہزار کی ملکیت کا سامان ہوتا ہے، اگر مال دار ہو تو لاکھوں روپیہ اس پر صرف ہو جاتا ہے۔

اس کے علاوہ خاص خاص افراد کو مدعو کیا جاتا ہے، کرتے کرتے شادی بیاہ کی صورت اختیار کر جاتا ہے، کچھ لوگ سادگی کا نام دے کر کم افراد میں اس رسم کو ادا کرتے ہیں۔

یہ رسم لڑکا اور لڑکی ہونے کی صورت میں برابر ہے، اگر پہلا بچہ لڑکا ہے تو اتنا ہی سامان دیا جاتا ہے، اگر دوسرا بھی لڑکا ہو تو اس سے کم سامان دیا جاتا ہے، پھر اگر تیسرا بھی لڑکا ہوا تو برائے نام سامان دیا جاتا ہے، پھر اگر چوتھی بار لڑکی ہو جائے تو اتنا ہی سامان دیا جاتا ہے جتنا پہلی مرتبہ دیا گیا تھا۔اگر پہلی لڑکی ہے علیٰ ہذاالقیاس صورت مسئلہ پہلے کی طرح ہے، صرف لڑکوں کی جگہ لڑکی ہو گی۔

بہات… اگر بہن/ بیٹی کے بچوں کی شادی ہے تو تقریباً جہیز جتنا سامان دیا جاتا ہے، بہن/ بیٹی کے گھر کے تمام افراد کو سوٹ دیے جاتے ہیں، کافی سازوسامان دیا جاتا ہے، صرف فرنیچر نہیں دیا جاتا، باقی ہر چیز دی جاتی ہے، بہن/ بیٹی کے سر پر ایک چادر ڈالی جاتی ہے اور اڈار کے نام سے رسم شروع ہوتی ہے، جس میں خاندان کے بڑے افراد جمع ہوتے ہیں تھیلی میں رقم پیش کرتے ہیں، لڑکی والوں کو دی ہوئی چیزیں نام پڑھ پڑھ کر سب لوگوں میں بلند آواز سے سنایا جاتا ہے، یعنی خوب دکھلاوا ہوتاہے، اسی میں بہاتیوں کا ذکر ہوتا ہے، یعنی تقریباً دو، ڈھائی لاکھ کا خرچہ ہوتا ہے، جو بہن/ بیٹی کے گھر والوں کی طرف سے ہوتا ہے۔

اگر بعد میں کسی دوسرے بچے کی شادی ہو تو اس کو پہلے والے مسئلے پر قیاس کرتے جائیں۔

رسومات تو بہت ہیں، جو کہ تفصیل کا تقاضا کرتی ہیں، البتہ ان رسومات کو بہن/بیٹی کا حق تصور کیا جاتا ہے، اگر ان رسومات کو نہیں کیا جائے تو خاندان میں اس کا نام اچھالا جاتا ہے، رشتے ناطے ختم کرنے کی دھمکیاں بھی دی جاتی ہیں اور بعض اوقات رشتے ناطے ختم بھی کیے جاتے ہیں، خاندان میں اس کی عزت بھی نہیں کی جاتی ہے۔

ان تمام رسومات کو کرنا لازمی ہے، چاہے قرض لے کر ہی کیوں نہ کیے جائیں!! جس کا شکار میں خود بھی ہوا ہوں، سال ہونے کو آرہا ہے، اب تک قرض اتار رہاہوں، لوگ بہن/بیٹی کو میراث میں سے حصہ دینے کو اتنا لازمی قرار نہیں دیتے، بعض لوگ ان رسومات کو میراث کا بدلہ قرار دیتے ہیں، بعض لڑکیاں جن کو کچھ عقل وشعور ہے وہ میراث میں سے حق مانگتے ہوئے شرماتی ہیں، آج تک میں نے نہیں سنا کہ انہوں نے میراث کے حق کا مطالبہ کیا ہو، بلکہ میں نے اپنے کانوں سے سنا ہے میری بہن کہہ رہی تھی کہ ان رسومات کو کرو، بے شک میراث میں سے کوئی حصہ نہ دو، تاکہ خاندان میں نام اونچا ہو۔

ہر رسم میں ایک کاپی لی جاتی ہے او راس میں کس نے کیا تحفہ دیا ہے یا کتنی رقم لفافے میں رکھی ہے، سب لکھا جاتا ہے، تاکہ اس کی باری میں دیکھ کر بدلہ دیا جائے، اس میں الله کی رضا مقصود نہیں ہوتی،جواب دے کر مشکور فرمائیں

جواب…واضح رہے کہ جن چیزوں کا سوال میں ذکر کیا گیا ہے ، یہ شرعاً بہن بیٹی کا حق نہیں ، بلکہ محض رسومات ہیں اور ان رسومات سے معاشرے میں بہت ساری خرابیاں جنم لے رہی ہیں، لہٰذا ایک مسلمان کے لیے لازم ہے کہ وہ ان رسومات سے اجتناب کرے او راپنے رشتہ داروں کو نرمی سے سمجھائے، امید ہے کہ وہ ان رسومات کو ترک کر دیں گے، ہاں! اگر ایک مسلمان اپنے رشتہ داروں سے تعاون کرنا چاہتا ہو، تو یہ تعاون شرعاً ممنوع نہیں، بلکہ مستحسن امر ہے او رشریعت نے تو رشتہ داروں پر صدقہ کرنے والے کے لیے دوگنا اجر کا اعلان کیا ہے، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ اس تعاون سے اپنے رشتہ دار پر احسان جتلانا مقصود نہ ہو اور نہ ہی دکھلاوا مقصود ہو اور اس کے لیے کسی خاص موقع کی پابندی بھی ضروری نہیں۔

جادو سے بچنے کا طریقہ کار
سوال…کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ آج کل جادو کا دور چل رہا ہے، ہر کوئی کسی بھی ناجائز مقصد کے لیے کسی شخص پر بھی جادو کرواسکتا ہے، کچھ کھلایا پلا کر، اگر ہم کہیں جائیں اور وہاں کچھ کھانا پینا پڑ جائے تو کیا پڑھ کر کھائیں جس سے اس کا ناپاک ارادہ پورا نہ ہو جائے، اس چیز کا اثر نہ ہو پائے؟

مجھے کسی خاتون پر شک ہوتا ہے کہ وہ ہم سے حسد اور بغض رکھتی ہے، وہ مجھے زبردستی چائے پلاتی ہے اور اپنے گھروالوں کی طرف اشارہ کرتی ہے۔

جواب…یہ بات درست ہے کہ بعض لوگ ناجائز مقاصد حاصل کرنے کی خاطر جادو کا سہارا لیتے ہیں، لیکن ہر کھانے پینے کی چیز پر جاد و کا اثر سمجھنا اور ہر کھلانے پلانے والے کے بارے میں جاد و کرنے کی بدگمانی کرنا درست نہیں ہے، لہٰذا احتیاط کے طور پر منزل کے نام سے 33 آیاتِ قرآنی الگ چھپی ہوئی ہیں، ان کو بتائے ہوئے طریقے کے مطابق پڑھاجائے۔

قبر کے اندرونی اور بیرونی حصے کی تعمیر سے متعلق ہدایات
سوال…کیا فرماتے ہیں علمائے کرام مسئلہ ہذا کے بارے میں کہ جس پکی قبر کی احادیث مبارکہ میں ممانعت آئی ہے اس سے کیا مراد ہے؟

پکی قبر بنانے کی مختلف صورتیں ہوتی ہیں، جو ذیل میں ذکر کی جاتی ہیں ،از راہ کرم سب کا حکم شرعی واضحفرما دیجیے:
1..میت کی چاروں جانب والی اطراف کچی ہوں، پھر اس کے اوپر لکڑی کے تختے یا پتھر کی سلیب رکھ کر اوپر مٹی ڈال دی جائے، پھر مٹی کی اس ڈھیری کے چاروں اطراف میں بغرض حفاظت پتھر یا پختہ اینٹیں رکھ دی جائیں، یا ان اینٹوں کا پختہ چبوترہ سا بنا دیا جائے، اس طور پر کہ میت کی جہت میں آسمان کی طرف کا حصہ کچی مٹی کا ہی ہو۔
2..میت کے چاروں طرف والی اطراف کچی ہوں ، پھر اس کے اوپر لکڑی کے تختے یا پتھر کی سلیب رکھ کر اوپر مٹی ڈال دی جائے، پھر مٹی کی اس پوری ڈھیری کو چاروں طرف سے سیمنٹ بجری کے ساتھ پختہ کر دیا جائے۔
3..میت کے چاروں طرف کی اطراف کو کچی اینٹوں سے، یا آگ میں پکی ہوئی اینٹوں سے پلستر کرکے پختہ کر دیا جائے، عام ہے کہ ضرورت ( ریتلی زمین ہونے) کی وجہ سے ہو یا بلا ضرورت، کیا حکم ہے؟
4..قبر تو کچی ہو، لیکن قبر کے باہر، چاروں طرف ستون بلند کرکے اس کے اوپر چھت ڈالے، تاکہ اس کی چھاؤں میں آنے والے بیٹھ سکیں، چاہے وہ چھت عام چھتوں کی طرح ہو ، چاہے قبہ نما بنادی جائے، دونوں صورتوں میں کیا حکم ہے؟

جواب…واضح رہے کہ قبر بنانے کے دو مرحلے ہیں: ایک مٹی ڈالنے سے پہلے میت کے چاروں طرف اور اس کے اوپر کی تعمیر کا مرحلہ اور دوسرا مٹی ڈالنے کے بعد جب قبر زمین کے ساتھ برابر ہو جائے، اس کے بعد کی تعمیر کا مرحلہ، پس پہلے مرحلے کا تعلق تو متعلقہ زمین سے ہے، اگر زمین سخت ہے کہ اس میں لحد بنانے کی گنجائش ہو تو پھر لحد بنانا سنت ہے اور لحد کو کچی اینٹوں سے یا بانس کی لکڑی سے بند کیا جائے، اگر یہ دونوں دست یاب نہیں تو پھر جو چیز (پتھر، عام لکڑی یا پکی اینٹیں وغیرہ) دست یاب ہو اس سے بند کیا جائے اور اگر زمین بہت نرم یا ریتلی ہے کہ لحد بنانا مشکل ہے تو شق بنانا جائز ہے اورپہلے مرحلے کی تعمیر میں تدریجاً وہی اشیاء استعمال کی جائیں، جن کا ذکر لحد کی دیوار بنانے میں آیا ہے، إلایہ کہ اس مرحلے میں دیواروں کے اوپر چھت پر بلا کراہت لکڑی او رپتھر کی سلیب رکھے جاسکتے ہیں، اسی طرح اگر زمین بہت نرم یا ریتلی ہے کہ کچی اینٹوں کی دیوار کھڑی نہیں کی جاسکتی تو پھر پکی اینٹوں اور پتھروں سے بھی متعلقہ دیوار یں بنانا درست ہے۔

باقی جہاں تک دوسرے مرحلے کی تعمیر کا سوال ہے تو زمین کے اوپر قبر کی اونچائی ایک بالشت سے زیادہ کرنا جائز نہیں اور نہ اس مرحلے کی تعمیر کو پکا بنانے کی گنجائش ہے، بلکہ مٹی کو ایک بالشت کی اونچائی تک کوہان نما بنایا جائے، البتہ اس پر پانی چھڑکنا یا مٹی کا گارا لگانے کی گنجائش ہے او راگر کہیں قبر اکھڑ جانے کا خطرہ ہو تو حفاظت کے طور پر پتھر یا پکی اینٹیں ارد گر لگائی جاسکتی ہیں، لیکن اونچائی ایک بالشت سے زیادہ نہ ہو۔

مذکورہ بالا تمہید کے بعد تمام سوالات کے جوابات ذیل میں نمبر وار ذکر کیے جاتے ہیں:
1..پختہ چبوترہ بنانا جائز نہیں ہے، باقی صورت جائز ہے۔
2..سیمنٹ بجری کے ساتھ پختہ کرنا جائز نہیں۔
3..ضرورت (مثلاً زمین نرم یا ریتلی ہو) کے وقت کچی اینٹیں استعمال کی جائیں، البتہ اگر کچی اینٹوں سے ضرورت پوری نہ ہو تو پکی اینٹیں بھی استعمال کرنے کی گنجائش ہے، بلا ضرورت اس سے اجتناب کیا جائے۔
4..ہر دونوں طرح کی یہ تعمیر جائز نہیں، اگر چھاؤں کی ضرورت ہے تو قبروں سے ہٹ کر ایک طرف سایہ دار جگہ بنائی جائے۔

مغصوبہ چیز کے منافع استعمال کرنے کی وجہ سے غاصب پر ضمان ہو گا یا نہیں؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ ایک شخص نے کسی سے کوئی قیمتی چیز غصب کی اور اس کے بعد کافی عرصہ تک اسے استعمال کرتا رہا، اس کے بعد اس نے اس مغصوبہ چیز کی قیمت مغصوب منہ کو ادا کر دی، اب پوچھنا یہ ہے کہ اتنے عرصہ اس نے وہ چیز استعمال کی ہے وہ استعمال درست ہو جائے گا؟ اور اس سے جو منافع حاصل کیے ہیں ان منافع کا استعمال اس کے لیے درست ہو گا؟ تفصیلی جواب چاہیے۔

جواب…واضح رہے کہ جب کسی شخص نے کوئی چیز غصب کر لی، تو اس کا حکم یہ ہے کہ جب تک مغصوبہ چیز باقی ہو، تو بعینہ اسی چیز کا واپس کرنا ضروری ہوتا ہے، یعنی مغصوبہ چیز کے ہوتے ہوئے قیمت دینا کافی نہیں ہو گا، الایہ کہ مالک کی رضا مندی سے ہو، البتہ اگر مغصوبہ چیز ہلاک ہو جائے تو پھر اگر مغصوبہ چیز ذواتِ مثل میں سے ہو تو مثل دینا ضروری ہو گا، ورنہ قیمت دینی پڑے گی۔

باقی رہا کہ غاصب کے لیے منافع کا استعمال جائز ہے یا نہیں؟ تو اس میں قدرے تفصیل ہے: وہ یہ کہ بعض منافع ایسے ہوتے ہیں جو عین کی شکل میں باقی نہیں رہتے، مثلاً: غاصب نے مغصوبہ گاڑی کو ایک ماہ تک خود استعمال کرکے فائدہ حاصل کیا، ان منافع کا حکم یہ ہے کہ غاصب پر ان کا ضمان نہیں ہو گا، یعنی ایک ماہ کا کرایہ وغیرہ نہیں دینا پڑ ے گا، صرف مغصوبہ گاڑی واپس کرنا پڑے گی، الایہ کہ استعمال کی وجہ سے گاڑی کا اگر کوئی نقصان ہو جائے، تو اس نقصان کا ضامن ہو گا۔

اور بعض منافع ایسے ہوتے ہیں جو عین کی شکل میں باقی رہتے ہیں اور وہ بھی دو طرح کے ہوتے ہیں، ایک وہ جو مغصوبہ چیز کی عین سے حاصل ہوتے ہیں، مثلاً :مغصوبہ چیز گائے تھی اور اس نے غاصب کے پاس بچہ جَن دیا، اس کا حکم یہ ہے کہ یہ بچہ غاصب کے پاس امانت کے حکم میں ہو گا، لہٰذا اگر غاصب کے فعل سے ہلاک ہو گیا یا مالک کے مطالبہ پر غاصب نے دینے سے انکار کر دیا تو اس پر ضمان آئے گا ،ورنہ ضامن نہیں ہو گا، یا وہ گائے غاصب کے پاس بہت موٹی تازہ ہو گئی، جس کی وجہ سے اس کی قیمت میں زیادتی ہو گئی، تو یہ زیادتی بھی غاصب کے پاس امانت کے حکم میں ہو گی، لہٰذا اگر گائے غاصب کے پاس ہلاک ہو گئی تو غاصب گائے کی اصل قیمت کا ضامن ہو گا، زیادتی والی قیمت کا ضامن نہیں ہو گا، لیکن جب عین گائے مالک کو لوٹائے گا تو زیادتی کا مطالبہ نہیں کرے گا۔

دوسرے منافع وہ ہوتے ہیں جو مغصوبہ چیز کی ذات سے حاصل نہیں ہوتے، بلکہ مغصوبہ چیز کو استعمال کرکے حاصل کیے جاتے ہیں، لیکن عین کی شکل میں باقی رہتے ہیں، مثلاً :غاصب نے مغصوبہ گاڑی کو کرایہ پر دے کر اس سے منافع حاصل کیے، ان منافع کا حکم یہ ہے کہ غاصب ان منافع کا مالک تو بن جاتا ہے، لیکن سبب خبیث ہونے کی وجہ سے ملک بھی خبیث ہوتی ہے، جس کا حکم یہ ہے کہ ایسے منافع واجب التصدق ہوتے ہیں، البتہ اگر مغصوبہ چیز کے ساتھ منافع بھی مالک کو لوٹا دیے تو بریٴ الذمہ ہو جائے گا۔

Flag Counter