Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ

ہ رسالہ

2 - 21
معاشرہٴ انسانی کی تعمیر میں دل کا کردار

مولانا سعید الرحمن اعظمی
	
دنیا میں کتنے لوگ ایسے ہیں جنہیں ہر وقت اپنے دل کو غلط خیالات سے پاک صاف رکھنے کی فکر دامن گیر رہتی ہے، اگر انسان کا دل غلط تصورات اور عیوب ونقائص سے پاک ہوتا ہے تو وہ عین فطرت انسانی کے مطابق کام کرتا ہے اور اس سے کوتاہی اور غلط کام کا ظہور نہیں ہوتا۔ اس کی مثال اس صحیح مشین (Working order) سے دی جاتی ہے جس کے تمام کل پرزے برابر کام کرتے رہتے ہیں او رمالک کو ان پر اعتماد ہوتا ہے، اگر یہ مشین یوں ہی چھوڑ دی جائے، اس سے پرانے تیل کو نکال کر نیا تیل نہ ڈالا جائے اور خراب پرزوں کو بدلانہ جائے تو مالک کو اس سے کم منافع حاصل ہوں گے اورناگاہ وہ اپنا کام کرنا بھی چھوڑ دے گی، جس کی وجہ سے جملہ سرگرمیاں ٹھپ پڑ جائیں گی۔

دل انسان کے جسم میں طاقت وقوت کا سرچشمہ ہے، رگوں تک خون پہنچانے کا آلہ ہے، جب وہ درست ہوتا ہے تو پورا نظام جسمانی اپنا کام صحیح ڈھنگ پر انجام دیتا رہتا ہے اور داخلی امراض سے وہ محفوظ رہتا ہے، دل جس طرح سے انسان کے جسمانی نظام کا مرکز ہوتا ہے اسی طرح اس کے روحانی نظام کا تعلق بھی دل ہی سے ہوتا ہے، جب دل پاک ہوتا ہے تو انسان کا ہر عمل درست وپاکیزہ ہوتا ہے، اس کے ذریعہ ہر پاکیزہ انسانی ضرورت کی تکمیل ہوتی ہے، یہی دل جب الله کے ذکر سے رطب اللسان رہتا ہے تو اس کے حامل کو روحانی غذا ملتی رہتی ہے، جس کی وجہ سے وہ نرمی کے مقام پر نرمی اور سختی کے مقام پر سختی کا رویہ اختیار کرتا ہے۔

اس کے برعکس ایک گنہگار اور فاجر وفاسق شخص کے دل میں ارتکاب گناہ کے بعد ذرا کسک پیدا نہیں ہوتی، وہ برے کام میں منہمک ومصروف رہتا ہے ،اقوال رسول صلی الله علیہ وسلم اور نفس کی شیطنت کے درمیان تمیز پیدا نہیں کرتا، وہ گناہ کا اتنا عادی اور رسیا ہو جاتا ہے کہ فطرت بھی اس سے پناہ مانگتی ہے اور وہ شرافت ونجابت ، زہد وقناعت اور صلاح وتقوی کے لبادہ کو اتار کر پھینک دیتا ہے اور قرآن کریم میں ایسے ہی لوگوں کا تذکرہ ہے۔ ﴿کَلاَّ بَلْ رَانَ عَلَی قُلُوْبِھِمْ مَاکَانُوْا یَکْسِبُوْن﴾(سورہٴ مطففین:83) (ہر گز ایسا نہیں! بلکہ ان کے دلوں پر ان کے اعمال بد کا زنگ بیٹھ گیا ہے)۔

آقائے مدنی جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی بعثت سے پہلے لوگوں کے قلوب پر غفلت ونسیان کا غلبہ تھا، ان پر کفر وشرک کا دبیز زنگ بیٹھ گیا تھا، ایمان وعمل کی کوئی جھلک بھی نہیں دکھائی دیتی تھی، شراب نوشی اور بے حیائی نے وہاں کے باشندوں کو سنجیدگی سے سوچنے کا موقع ہی فراہم نہیں کیا، ان کے نظامہائے حیات بھی اتھل پتھل کے شکار تھے، ان کی زندگی شقاوت وقساوت سے عبارت تھی، ضلالت وگم راہی عام تھی اور ظلم وزیادتی کا بازار ان کے اندر گرم رہتا تھا، ایسے پر آشوب حالات میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ہوئی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے دوشِ ناتواں پر نبوت کی عظیم ذمے داری ڈالی گئی اور تعلیم وتربیت، تزکیہ واحسان اور لوگوں کے قلوب کی صفائی کی تاکید فرمائی گئی، غرض یہ کہ نبوت کے چہارگانہصداقت سے متصف ہونے کو کہا گیا۔

قرآن کریم میں ارشاد باری ہے:﴿لَقَدْ مَنَّ اللّہُ عَلَی الْمُؤمِنِیْنَ إِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُولاً مِّنْ أَنفُسِہِمْ یَتْلُو عَلَیْْہِمْ آیَاتِہِ وَیُزَکِّیْہِمْ وَیُعَلِّمُہُمُ الْکِتَابَ وَالْحِکْمَةَ وَإِن کَانُواْ مِن قَبْلُ لَفِیْ ضَلالٍ مُّبِیْن﴾․(سورہ آل عمران:164)
ترجمہ:” الله تعالیٰ نے مومنوں پر بڑا احسان کیا ہے کہ ان میں انہیں میں سے ایک پیغمبر بھیجا، جو ان کو خدا کی آیتیں پڑھ پڑھ کر سناتے اور ان کو پاک کرتے ہیں اور (خدا کی) کتاب اور دانائی سکھاتے ہیں اور پہلے تویہ لوگ صریح گم راہی میں تھے۔“

آج اگر ہم معاشرہ انسانی پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہیں تو لوگوں کو فواحش ومنکرات میں مبتلا پاتے ہیں ، عیاری، مکاری اور جعل سازی میں وہ اتنے بڑھ چکے ہیں کہ اس کی کوئی مثال نہیں ملتی، معلوم ہوتا ہے کہ ان کے دلوں پر مہر لگ گئی ہے، ایسے موقع پر حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی وہ حدیث ہمیں یاد آتی ہے جس میں آپ نے فرمایا کہ : خبردار! جسم انسانی میں گوشت کا ایک لوتھڑا ہے، اگر وہ درست رہتا ہے تو پورا جسم درست رہتا ہے اور اگر وہ بگڑ جاتا ہے تو پورے جسم کا نظام بگڑ جاتا ہے، سن لو ! وہ دل ہے۔

درحقیقت قلب ہی ایک انسان کے افکار وخیالات کا سر چشمہ ہے، وہ خوشی وناراضگی، صلاح و فساد، نیکی کا حکم دینے اور بدی سے روکنے اور محبت وعداوت کے اظہار کا مرکز ہے، اسی وجہ سے اس کی طہارت ونظافت کا خیال رکھنا، اس کو اطمینان وسکون بہم پہنچانا بے حد ضروری ہے، اس حقیقت سے دنیا کے اکثر انسان نا آشناہیں، حتی کہ عالمی فلسفوں او رمختلف تہذیبوں کے متوالے بھی اس سے ناواقف ہیں، انہیں اس کی بھی خبر نہیں کہ تہذیب کی تعمیر وتخریب میں اس کا کیا کردار رہا ہے ، اس کردار سے عدم واقفیت ہی نے یورپ کے باشندوں کو دل کا مریض بنا دیا ہے، جس کی وجہ سے وہاں کثرت سے دل کے دورے پڑتے ہیں، بالآخر وہ اس کی سرجری کرتے ہیں، اور فطری طریقے سے اس کو خون فراہم کرنے کا راستہ بناتے ہیں۔

امراض قلب کے بعض ماہرین کا کہنا ہے کہ الله کے ذکر سے ہی قلب کو تمام بیماریوں سے پاک وصاف رکھا جاسکتا ہے، جو بندہ صدق دل سے الله تعالیٰ کے سامنے روتا اور گڑ گڑاتا ہے اس کو قلب کی ظاہری وباطنی کوئی بیماری نہیں لاحق ہوتی ہے۔

دینی اعتبار سے قلب ایمان وایقان کا مرکز ہے، وہ کبھی کبھی اخلاقی امراض پر بندش لگانے اور اسلامی معاشرہ کی تعمیر میں ہاتھ اور زبان کا نمائندہ ہوتا ہے، اسی طرح جناب محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ایک حدیث میں فرمایا کہ تم میں سے اگر کوئی شخص برائی دیکھے تو ہاتھ سے ختم کرنے کی کوشش کرے، اگر اس کی استطاعت نہیں رکھتا تو زبان کے ذریعہ اس کو ختم کرے، اگر اس کی بھی استطاعت نہیں رکھتا ، تو دل سے اس کوبرا سمجھے اور یہ ایمان کا آخری درجہ ہے۔

بعض لوگوں نے صرف یہ سمجھ رکھا ہے کہ دل صرف رگوں تک خون سپلائی کرنے کا آلہ ہے، اسی پر اعتماد کرکے انہوں نے قلب کی فعالیت اور تاثیر سے چشم پوشی کی اور اس کو صاف وستھرا رکھنے کے وسائل فراہم نہیں کیے، چناں چہ خسارے میں رہے، دل کو صرف رگوں اور جسم کے پورے حصے میں خون پہنچانے کا آلہ سمجھنا، ذکر واذکار سے اس کو پاک نہ کرنا اور اس کے قائدانہ کردار سے تغافل برتنا یہ سب غیر دانش مندانہ اور غیر اسلامی اعمال ہیں اور اسلام قطعاً اس کی اجازت نہیں دیتا، بلکہ وہ تو ذکر واذکار، توجہ وانابت الی الله میں مشغول رکھنے کا حکم دیتا ہے، کیوں کہ ان کے ذریعہ انسان کو فکری وروحانی غذا ملتی ہے اورایسے لوگوں کے بارے میں قرآن کریم میں فرمایا گیا ہے کہ:﴿ إِنَّ الَّذِیْنَ قَالُوا رَبُّنَا اللَّہُ ثُمَّ اسْتَقَامُوا تَتَنَزَّلُ عَلَیْْہِمُ الْمَلَائِکَةُ أَلَّا تَخَافُوا وَلَا تَحْزَنُوا وَأَبْشِرُوا بِالْجَنَّةِ الَّتِیْ کُنتُمْ تُوعَدُونَ﴾․(حم السجدة:30)
ترجمہ:”جن لوگوں نے کہا کہ ہمارا پروردگار الله ہے، پھر وہ اس پر قائم رہے، ان پر فرشتے اتریں گے ( اور کہیں گے) کہ نہ خوف کرو اور نہ غمناک ہو اور جنت کی جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا تھا اس کی خوش خبری حاصل کرو۔“

قرآن کریم کی اس آیت سے زیادہ قوی کیا کوئی دلیل ہو سکتی ہے کہ جس میں یہ فرمایا گیا ہے کہ ایمان کے حاملین کے قلوب پر نہ دنیا میں غم کا اثر ہو گا اور نہ آخرت میں وہ پریشان ہوں گے ، وہ جنت کی سدا بہار ولازوال نعمتوں کے بیچ زندگی گزاریں گے او ران کو ایسی دائمی زندگی نصیب ہو گی جو کبھی فنا نہیں ہو گی اور ایسی خوشی حاصل ہو گی جس کا اندازہ اس دنیاوی زندگی میں نہیں لگایا جاسکتا یہی وجہ ہے کہ مذہب اسلام اطاعت وفرماں برادری میں ایک دوسرے سے سبقت کرنے او رمعاشرہٴ انسانی میں احکام الہی کے نفاذ کی ترغیب دیتا ہے اور اس دین قیم کی نشر واشاعت پر مامور کرتا ہے جس کی تمام تر توجہات قلب ہی پر مرکوز ہوتی ہیں، اسلام، اسلامی تہذیب کے ان بنیادی ستونوں کو مضبوطی کے ساتھ تھامنے کا حکم دیتا ہے جو آقائے مدنی صلی الله علیہ وسلم کی زبانی یوں بیان کیے گئے ہیں کہ اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر قائم ہے:
1..کلمہ طیبہ کی گواہی دینا۔
2..نماز قائم کرنا۔
3..زکوٰة ادا کرنا۔
4..رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔
5..بیت الله شریف کا حج کرنا۔

ان بنیادی احکامات پر عمل کرنے والے افراد ہی قلب سلیم کی دولت سے مالا مال ہوتے ہیں ، وہ زمانہ کا شکوہ نہیں کرتے، بلکہ ایمان کامل کے ہتھیار سے لیس ہو کر زمانہ کا مقابلہ کرتے ہیں اور اس سلسلہ میں ابوالانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام سے کسب فیض کرتے ہیں، جن کی زندگی کا ابتدائی مرحلہ شرک پرستی وبت پرستی سے پراگندہ ماحول میں گزرا تھا، لیکن انہوں نے لوگوں تک خدا کا حقیقی پیغام پہنچایا، نامساعدحالات کی پروا نہیں کی، بادشاہ وقت نمرود کی طرف سے آگ میں ڈالے جانے کا جومنصوبہ طے پایا تھا اس سے بھی خوف نہیں کھایا، نہ اس سے دل برداشتہ ہوئے اور نہ شرک سے سمجھوتہ کیا۔ بقول شاعر #
        بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
        عقل ہے محوِ تماشائے لب بام ابھی

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے اس قائدانہ کردار سے بنی نوع انسان کو ایک نیا راستہ دکھایا اور یہ تعلیم دی کہ اگر انسان ایسے ماحول میں ہو جہاں شرک وبت پرستی عام ہو، مجاورین اور پروہتوں کی کثرت ہو اور حالات صحیح رخ اختیار نہ کرسکے ہوں، اسلام دشمن طاقتیں برسرِ پیکار ہوں تو گھبرانے کی قطعاً ضرورت نہیں، بلکہ اپنے قلب کے اندر ایمان کی شمع روشن کرکے دعوت اسلامی کے عظیم فریضہ کو بحسن وخوبی انجام دینے کی ضرورت ہے۔

حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اس کا عملی نمونہ بھی پیش کیا، کیوں کہ وہ وسیع دماغ کے مالک تھے، قلب سلیم جیسی عظیم نعمت ان کو حاصل تھی، امن وامان اور چین وسکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے، ان پر رحمت کی گھٹائیں چھائی رہیں، ہر طرف سے خدا کا تحفظ حاصل رہا، وہ خدا کے فرماں بردار، کلمہٴ توحید کو بلند کرنے والے اور عظیم داعی الی الله تھے، بالآخر طاغوتی طاقتوں کا سر نیچا ہوا، حق کا بول بالا ہوا، ایمان کامل اور قلب سلیم جیسے ہتھیار نے اپنا کام کر دکھایا۔

اس وقت ہمیں بھی حالات حاضرہ کے پیش نظر اپنے دل ودماغ کی صلاحیتوں کو صحیح ڈھنگ سے استعمال کرکے معاشرہ کی اصلاح میں تعمیری کردار ادا کرنے کی بے حد ضرورت ہے، تاکہ دنیا سے شروفساد اور بگاڑ کا خاتمہ ہو اور لوگ فطرت کے مطابق زندگی بسر کریں اور اپنے مالک وخالق کی یاد میں لگے رہیں۔

Flag Counter