Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ

ہ رسالہ

19 - 21
اپنے داخلی بگاڑ پر بھی غور کیجیے

مولانا شمس الحق ندوی
	
اس وقت پوری دنیا میں ظلم وزیادتی کا جو بازار گرم ہے، ہم اس کا تو بار بار ذکر کرتے ہیں او رخود اپنی مظلومیت کا بھی رونا روتے ہیں، لیکن خود ہمارے اپنے مسلم معاشرہ میں ، گھر وخاندان میں بگاڑ وفساد نے پنجے گاڑ رکھے ہیں، اس کی طرف ہماری نظر نہیں جاتی، حالاں کہ اس وقت مسلمانوں میں ذلت ورسوائی کی جو شرم ناک صورت پائی جائی ہے وہ ان کے اپنے داخلی بگاڑی ہی کا نتیجہ ہے، کیا مسلمانوں کو یہ تعلیم نہیں دی گئی ہے کہ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے؟ کیا یہ نہیں بتایا گیا کہ جس نے چھوٹوں پر رحم نہ کیا اور بڑوں کا احترام نہ کیا وہ ہم میں ( یعنی امت مسلمہ) سے نہیں؟ کیا ہم کو یہ نہیں بتایا گیا کہ رحم کرنے والوں پر رحمن رحم کرتا ہے ، زمین والوں پر رحم کرو، آسمان والا تم پر رحم کرے گا، پڑوسیوں کے حقوق ایسے بتائے گئے کہ صحابہ کرام  کو خیال ہوا کہ کہیں یہ وراثت میں حصہ دارنہ قرار دے دئیے جائیں، ماں باپ کے حقوق کا یہ عالم ہے کہ الله تعالیٰ خود فرماتا ہے:﴿وَقُلْ رَّبِّ ارْحَمْھُمَا کَمَا رَبَّیَانِي صَغِیْراً﴾ ( اے الله تو ان کے ساتھ اپنے لطف وکرم کا ایسا معاملہ فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں ہم کو لاڈ پیار سے پالا)، بڑے بھائی کے بارے میں بتایا گیا کہ : بڑا بھائی باپ کا درجہ رکھتا ہے، خالہ کے بارے میں کہا گیا ہے کہ: وہ ماں کے برابر ہے، پھوپھا، پھوپھی، خُسر خوش دامن کے کیسے حقوق بیان کیے گئے ہیں اور صلہ رحمی کی کتنی سخت تاکید ہے!!! آخری درجہ کی بات یہ ہے کہ الله تعالیٰ نے فرمایا کہ : ” جو رشتوں کو توڑے گا، میں اس سے قطع تعلق کر لوں گا۔“

حد یہ ہے کہ اچھے خاصے دین دار قطع رحمی کا شکار ہیں، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ گھر گھر میں لڑائی، باپ بیٹے میں اختلاف، بلکہ قتل تک کے واقعات پیش آجاتے ہیں، بھائی بھائی کا حق ما ررہا ہے، رشتے ناتے توڑے جارہے ہیں۔ ہم یورپ کے گھریلو نظام کی تباہی، بداخلاقی، بے مروتی، باپ بیٹے میں تاجرو گاہک جیسے تعلق، بہن بھائی کی محبت کے فقدان کا بڑے زوروں سے ذکر کرتے ہیں، جن کا نہ کوئی دین وعقیدہ ہے، نہ ہی اخلاقیات وتعلقات اور چھوٹے بڑے کے ادب واحترام کی کوئی تعلیم، لیکن ہم جو کتاب ربانی پڑھنے والے اور تعلیمات رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو دل سے ماننے والے ہیں، وہ کس بے راہ روی کے شکار ہیں؟!

ایک شخص نے بارگاہِ رسالت میں حاضر ہو کر عرض کیا: ” یا رسول الله! مجھ سے ایک بڑا گناہ ہو گیا ہے، میری توبہ کیسے قبول ہو گی؟ “ آپ صلی الله علیہ وسلم نے پوچھا کہ :”تیری ماں زندہ ہے؟“ اس نے کہا: ”نہیں!“ فرمایا: ”خالہ؟“ اس نے کہا: ”جی ہاں!“ فرمایا کہ : ” تو اس کے ساتھ حسن سلوک کر۔“

ایک بار سرکار دو عالم حضرت محمدصلی الله علیہ وسلم نے مجمع میں یہ ارشاد فرمایا کہ : ”جو رشتہ داری کا پاس ولحاظ نہ کرتا ہو، وہ ہمارے پاس نہ بیٹھے“، یہ سن کر ایک شخص مجمع سے اٹھا اور اپنی خالہ کے گھر گیا، جس سے کچھ بگاڑ تھا، وہاں جاکر اس نے اپنی خالہ سے معذرت کی اور قصور معاف کرایا، پھر دربارنبوت میں شریک ہو گیا، جب وہ واپس آگیا تو سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:”اس قوم پر خدا کی رحمت نہیں نازل ہوتی جس میں ایسا شخص موجود ہو جو اپنے رشتہ داروں سے بگاڑ رکھتا ہو۔“ اب ہم غور کریں کہ اس وقت ہمارے مسلم معاشرہ کا کیا حال ہے؟

دو حقیقی بھائیوں کے گھر ملے ہوئے ہیں، ایک کے گھر میں تقریب ہے، دوسرا اس میں شریک نہیں، اتنا ہی نہیں، بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی فکر میں لگے رہتے ہیں، ہزاروں خاندان ہیں، جن میں زمین وجائیداد کے سلسلہ میں برسہا برس تک جھگڑوں او رمقدمہ بازیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے، قطع تعلق تو ایک عام بات ہے، معمولی معمولی باتوں پرایسا قطع تعلق کر لیا جاتا ہے کہ ایک دوسرے کی صورت دیکھنا گوارا نہیں کرتے۔

پھر خدا کی رحمت کیسے نازل ہو گی؟ اس وقت مسلمانوں میں کھلی ہوئی نحوست، ذلت ورسوائی، بدنامی وجگ ہنسائی کی جو افسوس ناک صورت حال ہے، کیا اس میں اس کے سوا کسی اور چیز کا دخل ہے؟

ہم غور کریں، دیکھیں کہ عزیزوں میں عزیز داری باقی ہے یا نہیں؟ ماں باپ کو اپنی اولاد سے اور اولاد کو اپنے ماں باپ سے وہ تعلق ہے جو ہونا چاہیے؟ اب عام صورت حال یہ ہے کہ غیروں کے ساتھ بھولے سے اگر نیکی ہو جائے تو ممکن ہے، مگر عزیزوں کے ساتھ نیکی کرنا گناہ کبیرہ ہے، غیروں سے ہنسنا بولنا ہوتا ہے، مگر عزیزوں سے ملنے ہی میں توہین محسوس ہوتی ہے۔

الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تو صلہ رحمی کی برکات کے بارے میں یہ فرمایا ہے کہ:
٭… صلہ رحمی سے محبت بڑھتی ہے۔٭… مال بڑھتا ہے۔٭…عمر بڑھتی ہے۔٭… روزی بڑھتی ہے۔٭… آدمی بری موت نہیں مرتا۔٭… اس کی مصیبتیں اور آفتیں ٹلتی رہتی ہیں۔٭… ملک کی آبادی اور سرسبزی بڑھتی ہے۔٭… گناہ معاف کیے جاتے ہیں۔ ٭… نیکیاں قبول کی جاتی ہیں۔٭… جنت میں جانے کا استحقاق حاصل ہوتا ہے۔٭… صلہ رحمی کرنے والے سے خدا اپنا رشتہ جوڑتا ہے۔ ٭…جس قوم میں صلہ رحمی کرنے والے ہوتے ہیں اس قوم پر خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

صلہ رحمی کے علاوہ مسلمانوں کے اور دوسرے جو اندرونی حالات ہیں کیا ان کے ہوتے ہوئے خدا کی رحمت نازل ہو گی؟ عزت وسرخ روئی کی زندگی حاصل ہو گی؟ ایک ادارے والوں کا دوسرے ادارے والوں سے اختلاف، جماعت کا جماعت سے اختلاف، برادری کا برادری سے اختلاف ہے، عہدہ او رمنصب کی کشمکش، حلم وبردباری کا فقدان، حکمت ودوراندیشی سے کام نہ لینے کا مزاج، اپنے فرائض و ذمے داریوں کو ادا کرنے میں کوتاہی اوراس کی تاویل اور دوسروں کا محاسبہ اور ان پر تنقید یہ عام مزاج بن گیا ہے، مسلکی جنگ وجدال کا یہ عالم ہے کہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لیے اگر منکرین خدا سے مل کر نیچا دکھایا جاسکے تو اس میں ذرا جھجھک نہیں ہوتی۔

مسلمانوں کو اپنے آپسی میل ملاپ، محبت واکرام کے جو دنیاوی فوائد بتائے گئے ہیں وہ تو ہیں ہی، آخرت میں اس کا جو صلہ ملنے والا ہے اس کا تو ذکرہی کیا، جس کو نہ کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ کسی کان نے سنا ہے، یہ سب بھول کر ہم کو شکایت ان سے ہے جن کا نہ کوئی دین ہے ، نہ مرنے کے بعد جینے او رحساب کتاب کا تصور، بس جو کچھ ہے اس فانی دنیا ہی کا لطف ومزہ ہے، جس کو قرآن کریم نے فرمایا:﴿تَمَتَّعُوْ ا قَلِیْلاً إنَّکُمْ مُّجْرِمُوْن﴾ (تھوڑے دن مزے اڑالو، تم مجرم ہو، یعنی جن کی سزا جہنم کے بھڑکتے ہوئے شعلے ہیں)۔ ہم تو خیرامت ہیں، ہم کو تو نیکی کا حکم کرنے اور برائی سے روکنے کا حکم دیا گیا ہے ﴿کُنتُمْ خَیْْرَ أُمَّةٍ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہَوْنَ عَنِ الْمُنکَرِ﴾․ جب ہم ہی اپنی صورت بگاڑ لیں تو پھر خیر او رامن وسکون کا ماحول کیسے بن سکتا ہے؟!

Flag Counter