عشقِ مصطفی صلی الله علیہ وسلم باقی!
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
ایک مسلمان کا حقیقی سرمایہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت وعشق ہے ، اگر کوئی دل عشقِ نبی سے خالی ہو تو وہ دل دل کہلانے کا مستحق نہیں،احادیثِ مبارکہ میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی ذات سے محبت ہی کو اِیمان کامل کی علامت قرار دیا ہے ،ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : تم میں کا کوئی شخص اس وقت تک کا مل مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نز دیک اس کی ذات سے، اس کے والدین سے، اس کی اولاد سے اور تمام لوگوں سے زیا دہ محبوب نہ ہو جاوٴں۔ (مشکوة : ص12)علّامہ قطب الدین فرماتے ہیں :اس حدیث کا حا صل یہ ہے کہ تکمیلِ ایمان کا مدار حبِّ رسول پر ہے، جس شخص میں ذاتِ رسا لت سے اس درجے کی محبت نہ ہو کہ اس کے مقابلے پر دنیا کے بڑے سے بڑے رشتے، بڑے سے بڑے تعلق اور بڑی سے بڑی چیز کی محبت بھی بے معنیٰ ہو، وہ کا مل مسلمان نہیں ہو سکتا ،اگر چہ زبان و قول سے وہ اپنے ایمان و اسلام کا کتنا ہی بڑا دعوی کرے ۔( مظا ہرِ حق جدید1/76)آپ اسے محبت کا حقیقی مفہوم تو یہی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع پر ہر چیز کو قربان کردے ،اس کے نزدیک آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع کے علاوہ دیگر تمام چیزیں ہیچ ہو ں،اتباع کے بغیر محبت کا تصور ہو ہی نہیں سکتا، اسی لیے ہر مسلمان آپ صلی الله علیہ وسلم کی اتباع ہی میں اپنی کام یابی سمجھے‘ آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت کے بے شمار واقعات ہیں ۔ صحابہ کرام کے محبت کے واقعات انتہائی قابلِ رشک ہیں۔ حضرت ابو بکر صدیق جب مسلمان ہوئے اور اپنی شہادت کا بر ملا اعلان فرمایا تو کفارِ مکہ آپ پر ٹوٹ پڑے ۔ آپکو زخمی کردیا ؛لیکن ان سب کے باوجود جب آپ کو ہو ش آیا توانہوں نے اپنے سلسلہ میں کوئی گفتگو نہیں فرمائی ؛بلکہ انہو ں نے سب سے پہلے آپ صلی الله علیہ وسلم کے متعلق دریافت کیا، اور جب تک آپ صلی الله علیہ وسلم کی خبر نہ دی گئی اس وقت تک کو ئی چیز استعمال نہ کی،آپ صلی الله علیہ وسلم سے حضرات صحابہ کرام کو کیسی محبت تھی؛بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات مبارک انہیں اپنی جانو ں سے زیادہ عزیز تھی ؛اس لیے صحابہ کرام تکالیف خو د برداشت کرتے، پریشانیاں خود اٹھا کر آپ صلی الله علیہ وسلم کو راحت پہنچانے کی فکر میں رہتے۔ حضرت ابو دجانہ کا غزؤ ہ احد میں حیرت انگیز طرز ِعمل سیر ت کی کتابوں میں لکھا ہوا ہے کہ ابو دجانہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی حفاظت کی خاطر اپنی پیٹھ کو تیروں کے لیے ڈھال بنا لیا تھا ؛ یہاں تک کہ بہت سارے تیر ان کی پیٹھ پر لگے۔(سیرة ابن اسحاق 1/328) عروہ ابن مسعودثقفی نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کرام کو دیکھا تو بے اختیار بول اٹھا کہ میں نے تو ایسا قیصر و کسریٰ کے دربار میں بھی نہیں دیکھا۔
ایک صحابی حضرت زید بن دثنہ کا عجیب و غریب واقعہ ہے۔ جس پر کفار نے بھی حیرت واستعجاب کا اظہار کیا ہے۔جب حضرت زید کو تختہ دار پر چڑھا یا جارہا تھا تو اس موقع پر ابو سفیان نے کہا کہ اے زید !کیا تمہیں یہ پسند ہے کہ تم اپنے گھر والوں کے ساتھ اطمینان سے رہو اور تمہاری جگہ پر محمدصلی الله علیہ وسلم کو (نعوذباللہ) تختہ دا ر پر چڑھا یا جائے؟اس موقع پر حضرت زید نے ابو سفیان کو جو جواب دیا وہ سیرت کی کتابوں میں جلی عنوان والفاظ کے ساتھ موجود ہے۔ حضرت زید نے فرمایا: قسم بخدا! میں تواس بات کو بھی پسند نہیں کرتا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم اپنے مقام ہی پر رہیں اور انہیں کوئی کانٹا چبھ جائے اور میں اپنے گھر میں آرام سے بیٹھا رہوں۔ حضرت زید کے اس جواب سے حواس باختہ ابو سفیان نے کہا کہ کوئی انسان کسی انسان سے اتنی محبت نہیں کرتا جتنی محمدصلی الله علیہ وسلم کے ساتھی محمدصلی الله علیہ وسلم سے کرتے ہیں ۔ (شفاء2/23) حضرت زید گویا یہ کہہ رہے ہیں کہ مجھے جتنی تکالیف ہو سکے وہ سب برداشت کر لوں گا؛ لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کے لیے میں کسی ادنیٰ سی ادنیٰ تکلیف کوگوار انہیں کرسکتا۔
حضرت عبداللہ بن زید بن عبدربہ، جو صاحب اذان کے لقب سے مشہورتھے ؛اپنے باغ میں کام کر رہے تھے ،اسی حالت میں ان کے صاحب زادے نے آکر یہ اندوہ ناک خبر سنائی کہ سرور ِدو عالم صلی الله علیہ وسلم وصال فرما گئے ہیں، عشق ِ نبوی صلی الله علیہ وسلم سے سرشار ،عشق رسول صلی الله علیہ وسلم میں سرمست یہ صحابی ا س جان گداز خبر کی ضبط اورتاب نہ لا سکے، بے تابا نہ فضا میں ہاتھ بلند ہوئے اور زبان سے یہ حسرت ناک الفاظ نکلے ،خدا وند!اب مجھے بینائی کی دولت سے محروم کر دے ،تاکہ یہ آنکھیں جو سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم کے دیدار سے مشرف ہوا کرتی تھیں اب کسی دوسرے کو نہ دیکھ سکیں۔(مظاہر حق جدید1/77)مرد تو مرد تھے، انھیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم سے غایت درجے محبت تھی ہی؛ لیکن عورتیں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت کے سلسلہ میں مردوں سے کہیں پیچھے نہیں تھیں؛بلکہ عورتیں بھی آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت کے معاملے مردوں کے دوش بدوش قدم بہ قدم تھیں۔
ایک انتہائی حیرت انگیز واقعہ اس انصاری عورت کا ہے جو احد کے میدان کی طرف آپ صلی الله علیہ وسلم کی شہادت کی خبر سن کر دوڑ رہی تھی ، راستہ میں کسی خبر دینے والے نے اس خاتون کو آگاہ کیا کہ تیرے شوہر کا انتقال ہو چکا ہے، اس نے کوئی پروا نہیں کی، اس نے یہ خبر سنی ان سنی کر دی اور آگے بڑھتی چلی گئی، کسی نے اس خاتون کو دوبارہ مطلع کیا کہ تیرے بھائی کا انتقال ہوگیا اس پر بھی اس نے کوئی توجہ نہ دی اور بڑھتی ہی رہی ، پھر کسی نے اسے مطلع کیا کہ تمھارے باپ کا بھی انتقال ہو چکا ہے، یہ سن کر بھی اس نے میدان احد کی طرف اپنا سفر جاری رکھا ؛لیکن جب آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات ِگرامی کو دیکھ چکی تو بے اختیار اس کے زبان سے یہ الفاظ نکلے ” کل مصیبة بعدک جلل“ہر مصیبت آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد ہیچ ہے،یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم کے بعد ہر مصیبت کو ہم گوارا کر سکتے ہیں ؛لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم کی شہادت کی خبر ہمیں گوارا نہیں ،یہ تھا دورِنبوت کی عورتوں کا آپ صلی الله علیہ وسلم سے عشق ،یہی وہ عشق ہے جس نے ان کی ذاتوں کو بقا نصیب فرمایا ،نیز حضراتِ صحابہ کرام نے اپنی محبت و عشق کے سلسلہ میں فرما یا ہے حضرت عمر نے فرمایاتھا :آپ صلی الله علیہ وسلم مجھے میرے نفس سے زیادہ محبوب ہیں عمر بن العاص نے کہا تھا کہ کوئی چیز مجھے آپ صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ محبوب نہیں۔ (شفاء2/21) حضرت علی سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت کے سلسلہ میں سوال کیا گیا تو کہا: قسم بخدا! آپ صلی الله علیہ وسلم مجھے اپنے مال واولاد اور والدین، پیاس کے موقع پر ٹھنڈے پانی سے بھی زیادہ محبوب ہیں ۔(شفاء 2/22) بعض حضراتِ صحابہ کرام کے سلسلہ میں منقول ہے کہ وہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت کی بنا پر نگاہ کو پھیرتے بھی نہیں تھے ۔ (شفا ء2/31)
اسی طرح عورتوں کے عشقِ نبوی صلی الله علیہ وسلم کے سلسلہ میں حضرت عبداللہ بن عبّاس فرماتے ہیں : ایک عورت آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر ہوتی اور یہ کہتی کہ میں اپنے گھر سے، اپنے شوہر سے نفرت ، عداوت ، یا بغض کی وجہ سے نہیں نکلی ہوں !بلکہ صرف اور صرف اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی محبت میں گھر سے نکل آئی ہوں۔ (سبل الھدیٰ والرشاد 11/431)حضرت عائشہ فرماتی ہیں : ایک عورت آئی اور مجھ سے درخواست کرنے لگی کہ مجھے حضور صلی الله علیہ وسلم کی قبر دکھاؤ ،حضرت عائشہ نے قبردکھا دی ،وہ عورت قبر دیکھ کر رونے لگی ،اتنا زیادہ روئی کہ وہ مر گئی۔ (شفاء 2 /23)
حضرت عمر ایک دفعہ رات میں گشت لگانے کے لیئے نکلے ،اتفاقاً ایک گھر میں چراغ کی روشنی نظر آئی تو کیا دیکھتے ہیں کہ ایک بڑ ھیا اون بننے میں مصروف ہے اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعریف میں اشعارپڑھ رہی ہے ، یہ سن کرحضرت عمر رک گئے اور اس بڑھیا کے پاس بیٹھ گئے، اس بڑھیا نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی مدحت میں کئی اشعار پڑھے، جسے سن کر حضرت عمر رونے لگے۔ (شفاء2/23) حضرات صحابہ کرام کی آپ صلی الله علیہ وسلم سے محبت کا یہ عالم تھا کہ جب کبھی وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کا نامِ مبارک لیتے ان پر کپکپی طاری ہو جاتی ، اور بہت زیادہ رونے لگتے ،یہی حال دیگر تابعین کرام کا بھی ہوتا۔ (شفاء 2/26) الغرض آپ سے محبت کے بے شمار واقعات ہیں، جن کا احاطہ انتہائی دشوار اور نا ممکن ہے ،اس مختصر سے مضمون میں صرف چند واقعات کی جانب اشارہ کیا گیا ہے کہ یہ واقعات ہمارے لیے عشقِ نبوی میں اضافہ کا ذریعہ بنیں ، ان واقعات کو پڑھ کر ہم بھی اپنے اندرون میں عشقِ نبوی کی شمع روشن کریں اور عشق کے حقیقی مقتضا اتباع ِنبوی کا راستہ اپنائیں ، آپ صلی الله علیہ وسلم کے فرمو دات کے اتباع کو اپنا نصب العین بنا لیں ، اس لیے کہ دیگر تمام چیزیں ختم اور فنا ہونے والی ہیں؛لیکن عشق مصطفی صلی الله علیہ وسلم ہی ایک ایسی عظیم اور بے بہا دولت ہے جس کو دوام ہی دوام ہے ؛ بلکہ یہ عشق رسول صلی الله علیہ وسلم جس ذات کے ساتھ مل جائے ،اس فانی ذات کو بھی بقا کی دولت سے معمورکردیتاہے ، پھر اس عاشق رسول صلی الله علیہ وسلم کے تذکرے آسمان وزمین میں ہمیشہ ہمیشہ کے لیے باقی رہ جاتے ہیں ، اس لیے ہر مومن کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے اندرون میں محبت رسول صلی الله علیہ وسلم پیدا کرنے کی حتی المقدور سعی وجد وجہد کرے، اس کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں پر عمل پیرا ہونے کی سعی پیہم کرے ؛ اسی لیے علامہ عاقل حسامی نے فرمایا تھا #
عاشقِ محمد ہے، غیر کا نہیں عاقل
عشق مصطفی باقی، عشق غیر فانی ہے
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ اللہ تعالی تمام ہی مومنین کو آپ صلی الله علیہ وسلم کی حقیقی محبت عنایت فرمائے ․ آمین !