Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ

ہ رسالہ

5 - 21
بے راہ روی کے دریچے

مفتی محمد فیاض قاسمی
	
اسلام میں عبادت کوبنیادی حیثیت حاصل ہے۔ نظام عبادت کے تصور کے بغیر دین اپنی اصل اور صحیح شکل میں باقی نہیں رہ پاتا۔ یہ الگ حقیقت ہے کہ دین کے تمام احکام کی تکمیل لوجہ اللہ عبادت ہے، مثلا نماز، روزہ، حج، تلاوت قرآن، ذکر الہٰی، دعا، راست گوئی، امانت داری، اطاعت والدین، ایفائے عہد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، جہاد فی سبیل اللہ، پڑوسیوں، مسکینوں اور ماتحتوں کے ساتھ حسن سلوک، جانوروں کے ساتھ اچھا برتاوٴ اور اس قسم کے تمام اعمال صالحہ عبادت کے اجزا ہیں۔ اسی طرح اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت، خشیت، انابت، اخلاص، صبر وشکر، توکل اور تسلیم ورضا وغیرہ ساری اچھی صفات عبادات میں شامل ہیں؛ مگر عباداتِ مشہورہ نماز، روزہ اور حج کے اندر جو خالق کائنات سے ربط اور مناسبت پیدا کرنے کی تاثیر اور انسان کے روحانی اور ملکوتی پہلو کی ترقی اور تکمیل کی خاصیت ہے، وہ کسی دوسرے عمل میں نہیں۔

لیکن عبادت میں سب سے بڑی رکاوٹ جو انسان کی راہ میں پیش آتی ہے وہ ہے ”غفلت“۔ اس سے نکالنے کے لیے اللہ پاک نے نماز پنج گانہ فرض کی، تاکہ انسان ان اوقات میں اللہ کے حضورکھڑے ہوکر اپنے عہد ومیثاق کی تجدید کرتا رہے۔ سورہ طٰہ آیت:14 میں فرمایا گیا :”اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو“۔ نماز علامت ِ ایمان اور عبودیت الہٰی کا مظہر ہے اور یہ انسان کو نفس اور شیطان کی پیروی سے باز رکھنے کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ اس کی محافظت سے شیطان اس کے پاس پھٹکنے نہیں پاتا۔

اس کے برعکس اگر انسان ترک ِنماز کا عادی ہوگیا تو پھر خیر نہیں۔وہ نفس کا غلام اور شیطان کے ہاتھ کا کھلونا بن کر رہ جاتا ہے، حتی کہ ضلالت وگمراہی کے عمیق غار میں جاگرتا ہے۔ کیوں کہ ترک نماز گم راہی کے اسباب میں سے ہے۔ قرآن مجید میں نما ز کے ضائع کردینے کو گم راہوں کی صفت قرار دیا گیا ہے: ”پھر ان کی جگہ آئے ناخلف، کھو بیٹھے نماز اور پیچھے پڑ گئے مزوں کے، سو دیکھ لیں گے گم راہی کو“۔ (سورہ مریم آیت: 59)اسی طرح فسق وفجور بھی گم راہی کا ایک سبب ہے۔ فسق کے معنی ہیں طاعت سے نکل جانا۔ علامہ راغب فرماتے ہیں: فَسَقَ فُلاَنٌ، خَرَجَ عَنْ حَجَرِ الشَّرعِ۔ اور فاسق اس شخص کو کہتے ہیں جو حکم شرع کا قائل اور اس کا اقرار کرنے والا ہو، لیکن وہ اس کے تمام یا بعض احکام کی انجام دہی اور بجا آوری میں کوتاہی کرتا ہو۔ (مفردات القرآن:636) ایسا شخص ہدایت الہٰی سے محروم ہو جاتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:”بے شک اللہ راہ نہیں دیتا نافرمان لوگوں کو“۔ (سورہ المنافقون:6) لہٰذا دین پر استقامت اور ہدایت کے لیے انسان کو فسق وفجور خصوصا گناہ کبیرہ سے احتراز کو لازم اور ضروری سمجھنا چاہیے، اگر اس میں مبتلا ہو تو فوراً توبہ واستغفار کرنا چاہیے۔

معاشرتی امور میں بندوں کے حقوق کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ اس کی رعایت کی تعلیم قرآن وحدیث سے ملتی ہے، جن میں حقوق والدین، پڑوسیوں اور رشتہ داروں کے حقوق، نیز آپسی عہد و پیمان کی پابندی پیش پیش ہیں۔

قرآن کریم کے اندر اللہ تعالیٰ نے والدین کے سا تھ صلہ رحمی، حسن سلوک، ان کی خدمت اور ان کے لیے دعائے خیر کرتے رہنے کی ہدایت فرمائی ہے اور ان کی نافرمانی و ایذا رسانی کے تمام اسباب کو حرام قرار دیا ہے۔ سورہ اسراء آیت: 27-23 اس کی ترجمانی کرتی ہے: ”اور تیرے رب نے یہ فیصلہ کیا کہ تم صرف اللہ کی عبادت کرو ۔والدین کے ساتھ اچھا برتاوٴکرو،جب وہ تمہاری موجودگی میں بوڑھے ہوجائیں تو انھیں اُف بھی نہ کہو،انھیں جھڑکو مت،بلکہ ان کے ساتھ نرمی سے بات کرو“۔ کیوں کہ اللہ تعالیٰ کے بعد اگر بندے پر کسی کا احسان ہے تو وہ والدین کا ہے، بہ ایں طور کہ وہ اولاد کے وجود کے لیے سبب ظاہری ہیں۔ولادت سے جوانی تک ان کی پرورش کرتے ہیں، ان کی تعلیم وتربیت کی ساری ذمہ داری انہی کے سر ہوتی ہے۔قرآن مقدس کی تعلیمات اور والدین کے اتنے سارے احسانات کے باوجود اگر کوئی شخص ان کی نافرمانی کرتا ہے تو اس کا یہ عمل باعث لعنت وگم راہی ہے، جسے اس آیت کریمہ سے سمجھا جاسکتا ہے: ”پھر تم سے یہ بھی توقع ہے کہ اگر تم کو حکومت مل جائے تو خرابی ڈالو ملک میں اور قطع کرو اپنی قرابتیں، ایسے لوگ ہیں جن پر لعنت کی اللہ نے، پھر کردیا ان کو بہرا اور اندھی کر دی ان کی آنکھیں“۔ (سورہ محمد آیت :23-22) اس بات میں کوئی شک نہیں کہ شرک کے بعد ظلم اعظم والدین کی نافرمانی ہے، نیز اللہ پاک نے صلہ رحمی کا حکم دیاہے اور آیت مذکورہ میں صراحت ہے کہ قطع تعلق کرنے والا لعنت اور عذاب کا مستحق ہوتا ہے۔ اب دیکھیے کہ انسان کا سب سے قریب ترین رشتہ اپنے والدین سے ہے، لہذا ان کی نافرمانی بھی اسی قدر قا بل مذمت ہوگی۔ نیز حدیث پاک میں بھی والدین کی نافرمانی اور قطع تعلق پر سخت وعید آئی ہے۔ بخاری ومسلم کی روایت حضرت جبیر بن مطعم سے ہے: ”رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ رشتہ توڑنے والا جنت میں داخل نہیں ہوگا“۔(ریاض الصالحین:166) معلوم ہوا کہ والدین کی نافرمانی اور رشتہ داروں سے قطع تعلق لعنت اور گم راہی کے اسباب ہیں، جن کی وجہ سے بندہ طاعت ِ رب سے نکل جاتا ہے اور شیطان کے دام میں جا پھنستا ہے۔

جہاں تک آپسی عہد وپیمان کی تعلیم اور اس پر کاربند رہنے کی ہدایت کا تعلق ہے ،تو اس کا ثبوت بھی کلام الہٰی اور حدیث نبوی سے ملتا ہے۔ سورہ بنی اسرائیل آیت: 34 میں ہے:”پورا کرو عہد کو، بے شک عہد کی پوچھ ہوگی“۔

عہد دو طرح کے ہیں: ایک وہ جو اللہ اور بندے کے درمیان ہے، جیسے ازل میں بندہ کا یہ عہد کہ بے شک اللہ تعالی ہمارا رب ہے۔ اس عہد کا لازمی اثر اس کے احکام کی اطاعت اور اس کی رضا جوئی ہے۔ دوسری قسم عہد کی وہ ہے جوانسان کسی انسان سے باہمی معاملات کی بنیاد پر کرتا ہے۔ پہلی قسم کے تمام معاہدات کا پورا کرنا انسان پر واجب ہے اور دوسری قسم میں جو معاہدات خلاف شرع نہ ہو ں ان کا پورا کرنا واجب اور جو خلاف شرع ہوں ان کا فریق ثانی کو اطلاع کرکے اس کو ختم کردینا واجب ہے۔ (معارف القرآن، ج5/ص480)

اب جب کہ قرآن کریم کی تعلیم سے ایفا ئے عہد کا وجوب ثابت ہے تو اس کی خلاف ورزی بھی لعنت وملامت کا سبب بنے گی۔ ملاحظہ ہو: ” اور جو لوگ توڑتے ہیں عہد اللہ کا مضبوط کرنے کے بعد اور قطع کرتے ہیں اس چیز کو جس کو فرمایا اللہ نے جوڑنے کا اور فساد اٹھاتے ہیں ملک میں، ایسے لوگ ان کے واسطے ہے لعنت اور ان کے لیے ہے بُرا گھر“۔(سورہ رعد آیت: 35) الغرض اس آیت میں نقض عہد کو فاسقین کی صفات میں شمار کیا ہے اور معاہدہ خواہ اللہ پاک کے ساتھ ہو یا بندوں کے ساتھ دونوں کا حکم مساوی ہے۔

احکام الہٰی کی پیروی کے ساتھ اتباع سنت کو بھی ضروری قرار دیا گیا ہے۔ لہذا سنن مصطفی سے انحراف، ان سے بے رغبتی اور غیر مسنون طریقوں کا اتباع گم راہی کے ذرائع ہیں۔ اس سلسلہ میں بھی آیت قرآنیہ کا اعلان ہے : ”اور جو کوئی مخالفت کرے رسول کی، جب کہ کھل چکی اس پر سیدھی راہ اور چلے سب مسلمانوں کے طریقہ کے خلاف، تو ہم حوالہ کر دیں گے اس کو وہی طرف جو اس نے اختیار کی اور ڈالیں گے ہم اس کو دوزخ میں اور وہ بہت بُری جگہ ہے“۔(سورہ نساء آیت :115)

دیگر سنتوں کی طرح نماز پنج گانہ باجماعت کو بھی سنت موکدہ قرار دیا گیا ہے۔ حدیث عبد اللہ بن مسعود  میں ہے :” اگر تم اپنے نبی کی سنت کو چھوڑ دوگے تو گم راہ ہو جاوٴگے“۔ الغرض جس طرح یہ حدیث نماز اور جماعت کی فضیلت کو بتاتی ہے ،اسی طرح اس بات کی بھی پوری وضاحت کرتی ہے کہ سنت نبی سے اعراض اور اس کا ترک گم راہی کا سبب ہے۔

خلاصہ یہ کہ احکام الہٰی سے رو گردانی، سنت نبوی سے دوری، عہد شکنی، قطع رحمی، ایذا رسانی وغیرہ ایسی عام خرابیاں ہیں جن کی طرف ہمارا دھیان بھی نہیں جاتا ہے اور دھیرے دھیرے یہ ایک فیشن کے طور پر شمار ہوکر معاشرہ کو تباہ اور گم راہ کرتا چلا جاتا ہے اور ہمیں خبر بھی نہیں ہوتی کہ ہم کہاں تھے اور کہاں آگئے!!!

Flag Counter