Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1438ھ

ہ رسالہ

1 - 21
رب کی ہدایت

عبید اللہ خالد
	
انسان دنیا میں دو قسم کی زندگی گزارتا ہے: با مقصد اور بے مقصد۔ بے مقصد زندگی میں انسان اگرچہ زندہ ہوتا ہے، مگر زندوں کی سی بات نہیں ہوتی۔ بامقصد زندگی میں انسان زندہ ہوتا ہے اور زندگی کا شعور بھی رکھتا ہے۔

زندگی کا شعور انسان کی زندگی کی اصل ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ انسان اور غیر انسان کے درمیان سب سے بڑا فرق اسی شعور کا ہے۔ جو انسان اس شعور کے ساتھ زندگی گزارتا ہے، وہ حقیقی انسان ہے؛ جو انسان اس شعور سے عار ی ہے، وہ ظاہر کے اعتبار سے اگرچہ انسان کی تعریف میں آسکتا ہے، مگر عمل اور حقیقت کے اعتبار سے اس میں انسانی خصلت موجود نہیں ہے۔

قرآن انسان کو جو شعور عطا کرتا ہے، اس کے تحت انسان کو پتا چل جاتا ہے کہ وہ اس دنیا میں سیر سپاٹے اور کھیل کود کے لیے بھیجا نہیں گیا۔ آج پوری دنیا انسان کو اس بے مقصدیت کی طرف کھینچ رہی ہے کہ چند روزہ زندگی میں ”مزہ“ کرلو، نہ معلوم کب زندگی کی شام ہوجائے۔ چناں چہ دنیا کی آٹھ ارب سے زائد انسانی آبادی میں عموماًیہی وطیرہ رائج ہے اور کھانے پینے، پہننے اوڑھنے، سونے جاگنے سے لے کر زندگی کے تمام ہی کاموں میں ”مزہ“ حاوی ہے۔

یہ وہ فکر اور مزاج ہے جو قرآنی مزاج سے یکسر متصادم ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن میں واضح طور پر فرمادیا ہے کہ دنیاوی زندگی کو یوں ہی بے مقصد نہ سمجھایاجائے بلکہ اس کے اچھے اور بُرے عمل… سب کا حساب لیا جائے گا۔

قرآنی مزاج بتاتا ہے کہ یہ زندگی کھیل کود یا لطف لینے کے لیے نہیں، آزمائش کے لیے ہے۔ یہاں آدمی کی آزمائش یہ ہے کہ وہ جس مقصد حقیقی کے لیے پیدا کیا گیا ہے، آیا وہ اس مقصد کے مطابق زندگی گزارتا ہے یا بے مقصد رہتا ہے۔ قرآن کی رُو سے انسانی زندگی کا مقصد اللہ کی عبادت ہے۔ اللہ کی عبادت دراصل اللہ کی رضا کے حصول کی خواہش اور کوشش کا نام ہے۔ اللہ کی رضا، اللہ کی چاہت پورا کرنے میں ہے۔ اور اللہ کی چاہت کا دوسرا نام ”اسلام“ یا ”شریعت“ ہے۔ شریعت…اللہ کے حکم کو اس کے آخری پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کے مطابق پورا کرنا۔

گویا، ایک عقل مند انسان کے لیے زندگی کا مقصد یہ ہونا چاہیے کہ وہ اپنے رب، اپنے اللہ کی دی ہوئی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی گزارے۔ وہ اپنی زندگی کو اللہ کے حکموں کے تابع کردے۔ وہ اپنی زندگی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کے مطابق ڈھال لے۔

اپنی پوری زندگی کواللہ کی ہدایت کے مطابق تشکیل دینے کا نام ”تزکیہ“ ہے۔ تزکیہ جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے وعدہ فرمایا ہے کہ تزکیہ کرنے والے لوگ ہی کامیاب ہیں۔ ایک دو جگہ نہیں، کئی جگہ تزکیہ کا ذکر کرکے اللہ تعالیٰ نے تزکیہ کی اہمیت کو بیان فرمایا ہے۔ جب انسان اپنے اندرون کو گندگیوں سے پاک کر لیتا ہے تو اللہ کے عظیم ترین مقصد سے ہم آہنگ ہوجاتا ہے۔ جب انسان کی زندگی تزکیہ سے مرقع ہوتی ہے تو وہ اپنی خواہشات کو اللہ کی خواہشات کے تابع کردیتا ہے۔ جب انسان کی خواہشات اللہ کی خواہشات کے تابع ہوجاتی ہیں تو اللہ اپنے بندے کی خواہشات کو پورا کردیتا ہے۔

اس لیے دنیا میں سب سے اہم زندگی انھی لوگوں کی ہوتی ہے جو اپنے رب کی ہدایت کے مطابق اپنی زندگی کو تشکیل دیتے ہیں۔ زندگی گزرتی گئی اور گزر گئی۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ رب کی ہدایت کے مطابق گزری؟ نہیں․․․ تو ابھی وقت ہے کہ اپنی زندگی کو اپنے رب، اپنے اللہ کی ہدایت کے تابع کرکے، اس سے ہم آہنگ کرکے بامقصد بنالیا جائے․․․ کامیاب کرلیا جائے۔

Flag Counter