Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

9 - 18
الله والوں کے پاس کیوں نہیں جاتے؟

مولانا حکیم محمد اخترؒ
	
بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم اللہ والوں کے پاس اس لیے نہیں جاتے کہ وی سی آر چھوڑنا پڑے گا ۔سینما چھوڑنا پڑے گا ۔عورتوں کی نظارہ بازی اور عشق حرام کی لذتوں کی درآمدات پر پابندی عائد کردیں گے ۔ہر گناہ چھوڑنا پڑے گا، مگر حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب نے فرمایا کہ چھوڑنا نہیں پڑے گا ،خود بخود چھوٹ جائے گا۔ایسا یقین ،ایسا ایمان اللہ والوں کی صحبت سے نصیب ہو گا کہ آپ گناہ چھوڑ کر خوشی منائیں گے ۔سجدہ شکر بجا لائیں گے۔اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے کہ یا اللہ گناہوں کی گٹر لائن ،غلاظت اور نجاست کی نالیوں سے آپ نے ہم کو نکال کر تقویٰ والی زندگی نصیب فرمادی۔اور حضرت نے عجیب و غریب مثال دی کہ ایک آدمی دس ہزار رشوت لے کر بھاگا جارہا ہے اور دل میں سوچ رہا ہے کہ اپنی بیوی کے لیے فلاں فلاں چیز خریدوں گا ۔اور زمین کا فلاں پلاٹ خریدوں گا کہ اتنے میں اس کا ایک گہرا دوست آتا ہے اورکہتا ہے کہ پیچھے پولیس آرہی ہے ۔تمہارے ان نوٹوں پر پولیس کے اور رشوت دینے والے کے دستخط بھی ہیں ۔تمہیں پھنسانے کے لیے یہ رشوت دی گئی ہے ۔وہ گھبراہٹ میں ادھر ادھر دیکھتا ہے کہ ایک کھلا ہوا گٹر نظر آتا ہے۔کہتا ہے کہ خدا اس ڈھکن چور کا بھلا کرے اور اس کو بھی اللہ والا بنا دے کہ آئندہ چوری نہ کرے اور دس ہزار کی رقم فوراً گٹر میں پھینک دیتا ہے۔ بتائیے یہ نوٹ چھوڑکر وہ خوش ہوگا یا غمگین؟خوش ہوگا کہ جان بچی تو لاکھوں پائے، ورنہ دس سال قیدہوتی اور نہ جانے کتنا جرمانہ ہوتا ۔اب جتنا پولیس پر یقین ہے ،جتنا حکومت کے ڈنڈوں پر یقین ہے ،اللہ والوں کی صحبت سے جب اللہ تعالیٰ کی ناراضگی اور جہنم پر ایمان و یقین پیدا ہوجائے گا تو گناہ چھوڑنے نہیں پڑیں گے ،خود بخود چھوٹ جائیں گے اور گناہ چھوڑ کر آپ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں گے ۔

اور دوستو!اگر کوئی آپ کی جیب سے کنکر پتھر نکال کر ایک کروڑ کا موتی رکھ دے تو کیا آپ اس سے لڑیں گے ؟گناہ کنکر پتھر ہیں، بلکہ کنکر پتھر تو پاک ہوتے ہیں ۔گناہ تو ناپاک ہیں ۔بس اگر گناہ چھوڑنے سے اللہ ملتا ہے تو میں عرض کروں گا کہ ہم سب جلدی گناہ چھوڑ دیں اور اللہ کو پاکر یہ شعر پڑھیں #
        جمادے چند دادم جاں فریدم
        بحمد اللہ عجب ارزاں خریدم
”چند کنکر پتھر دے کر اے خدا میں آپ کو پا گیا ۔الحمد للہ کہ بہت سستا پایا میں نے آپ کو“۔

میرے شیخ شاہ عبد الغنی صاحب رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ایک ولی اللہ جارہا تھا ۔اس نے دل ہی دل میں اللہ تعالیٰ سے پوچھا کہ اے خدا! میں کیا قیمت ادا کروں جس سے آپ مل جاتے ہیں ؟آسمان سے آواز آئی کہ مجھ پر دونوں جہاں فدا کر دے، تب میں ملتا ہوں ۔اس اللہ والے نے کہا #
        قیمت خود ہر دو عالم گفتنی

اے اللہ! آپ نے اپنی قیمت دونوں عالم بتائی ہے #
        نرخ بالا کن کہ ارزانی ہنوز

ابھی دام اور بڑھائیے، ابھی تو آپ سستے معلوم ہوتے ہیں ۔اللہ تعالیٰ ہم سب کو ایسی ہی محبت کی توفیق عطا فرما ئے۔

دوستو! ایک دن تو مرنا ہے ۔ایک دن ساری جائیداد چھوڑ کر، زمین و مکان چھوڑ کر ،اہل و عیال چھوڑ کر جانا ہے ۔اس دن ہاتھوں سے گھڑیاں اتار لی جائیں گی ۔جسم کے کپڑے اتار لیے جائیں گے ۔کفن لپیٹ کر جب قبر میں ڈالا جائے گا، اس وقت مردہ بزبان حال یہ شعر پڑھتا ہے #
        شکریہ اے قبر تک پہنچانے والو شکریہ
        اب اکیلے ہی چلے جائیں گے اس منزل سے ہم

اور یہ دوسرا شعر بھی بزبان حال پڑھتا ہے #
        دبا کے قبر میں سب چل دیے دعا نہ سلام
        ذرا سی دیر میں کیا ہو گیا زمانے کو

جب ایک دن جانا ہے تو کیوں نہ جان جاناں بن کر جاؤ؟! جیسا کہ خواجہ صاحب نے اپنے شیخ حضرت حکیم الامت تھانوی  سے عرض کیا تھا جب نسبت عطا ہوئی #
        تو نے مجھ کو کیا سے کیا شوق فراواں کر دیا
        پہلے جاں پھر جان جاں پھر جان جاناں کر دیا

اے حکیم الامت!آپ کی صحبت سے آپ کی تربیت سے مسٹر کی ٹرمس ہوئی ۔اخلاق رذیلہ اخلاق حمیدہ سے تبدیل ہوگئے۔آج وہ علماء کا شیخ بنا ہوا ہے۔ مولانا شاہ ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم نے ان کو اپنا شیخ بنایا۔مفتی جمیل احمد تھانوی  نے ان کو اپنا مصلح اور شیخ بنایا۔یہ کیا بات ہے کہ مسٹر تو شیخ العلماء ہوجائے اور علماء کو اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلنے کا اہتمام نہ ہو؟!جن بزرگوں کے نام پر ہم جامعات قائم کر رہے ہیں ۔جامعہ رشیدیہ ،جامعہ قاسمیہ ،جامعہ اشرفیہ ،ان بزرگوں کے طریقہ پر ہمیں اہل اللہ کی صحبت کا بھی اہتمام ہوناچاہیے اور الحمد للہ ہورہا ہے ۔یہاں تو سب حضرات اللہ والوں سے جڑے ہوئے ہیں ۔بات کہہ دیتا ہوں تا کہ جو نہ جڑے ہوں ان کو توفیق ہو جائے ۔اب اگر کوئی کہے کہ اللہ والوں سے جڑنے سے کیا ہوتا ہے ؟اس پر دو واقعات سناتا ہوں ۔

شاولی اللہ صاحب  کے بیٹے ،تفسیر موضح القرآن کے مصنف شاہ عبد القادر صاحب  مسجد فتح پوری دہلی میں کئی گھنٹے ذکر و تلاوت میں مصروف رہے ۔تلاوت اور ذکر اللہ کا نور دل سے چھلک کر آنکھوں میں آرہا تھا ۔جب نور سے دل بھر جاتا ہے تو چہرہ سے جھلکنے لگتا ہے ۔آنکھوں سے چھلکنے لگتا ہے۔ یہ ہے ﴿سیماہم فی وجوہم من اثر السجود﴾ ۔سیما کیا چیز ہے؟ علامہ آلوسی فرماتے ہیں ۔ھونور یظھر علی العابدین یبدا ومن باطنھم الی ظاہرھم اللہ والوں کا باطن جب نور سے بھر جاتا ہے تو ان کے ظاہر سے جھلکنے لگتا ہے ۔عبادت کا نور ،اللہ کی محبت و معرفت کا نور ان کی آنکھوں میں آگیا تھا۔جیسے ہی مسجد سے باہر نکلے تو سامنے ایک کتا بیٹھا ہوا تھا، اس پر نظر پڑگئی ۔وہ قلب جو انورا لٰہیہ سے بھرا ہوا تھا اور جس کے انوار آنکھوں سے چھلک رہے تھے وہ اس کتے پر پڑگئے ۔اس کا اثر یہ ہوا کہ جہاں جہاں وہ کتا جاتا تھا دہلی کے سارے کتے اس کے سامنے ادب سے بیٹھ جاتے تھے ۔حکیم الامت  نے ہنس کر فرمایاکہ ظالم تمام کتوں کا پیر بن گیا ۔پھر حضرت نے ایک آہ کھینچی اور فرمایا کہ ہائے جن کی نگاہوں سے جانور بھی محروم نہیں رہتے تو انسان کیسے محروم رہ سکتے ہیں ؟!شرط یہ ہے کہ دل سے اللہ والوں کی محبت میں رہے تو ان شاء اللہ تعالیٰ کوئی محروم نہیں رہ سکتا اور اگر کسی کے اندر اللہ تعالیٰ کی طلب اور پیاس بھی نہ ہو تو مولانا رومی فرماتے ہیں کہ تب بھی اللہ والوں کے پاس جاؤ ،وہ پیاس بھی دینا جانتے ہیں #
        مر تو طالب نیستی تو ہم بیا
        تا طلب یابی ازیں یار وفا
اگر تمہارے اندر اللہ کی طلب اور پیاس اور درد محبت نہیں ہے تب بھی تم اللہ والوں کے پاس جاؤ، ان کے صدقہ میں تمہیں طلب اور پیاس بھی عطا ہو جائے گی۔

اس فارسی شعر کے مفہوم کو اختر نے ایک ہندی شعر میں عرض کیا ہے ،مگر وہ ایسی ہندی ہے جو آپ سمجھ لیں گے #
        پیاسے کو پانی ملے اور بن پیاسے کو پیاس
        اختر ان کے در سے ہے کوئی نہیں بے آس

اللہ والوں کے دروازہ سے ان شاء اللہ محرومی نہیں ہو گی، مگر شرط یہ ہے کہ دل میں بغض و عنا دنہ ہو ۔ملا علی قاری شرح مشکوٰة میں فرماتے ہیں:” من اعترض علی شیخہ ونظرالیہ احتقاراً فلا یفلح ابدا“ جس نے اپنے شیخ پر اعتراض کیا اور ان کو حقارت کی نظر سے دیکھا وہ کبھی فلاح نہیں پاسکتا ۔حضرت مولانا ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم نے فرمایا کہ ایک مرید نے میرے ساتھ سفر کیا ۔رات کو تقریر کی تھی ۔دماغ تھکا ہوا تھا حضرت نے آرام فرمایا ۔اہل اللہ اور علمائے دین کی نیند کو بھی اللہ تعالیٰ عبادت لکھتا ہے ۔مولانا گنگوہی  فرماتے ہیں کہ اگر آپ کا دروازہ بناتے ہوئے بڑھئی کے اوزار و آلات گھس جائیں اور وہ ان کو ایک گھنٹہ تک تیز کرے تو آپ کو اس وقت کی مزدور ی بھی دینی پڑتی ہے، کیوں کہ آپ ہی کے کام میں اس کے آلات گھسے ہیں ۔پس جو علماءِ دین ،اللہ کے دین کے کام میں اپنے دماغ کو تھکا رہے ہیں، ان کا سونا بھی عبادت ہے ۔ان کے سونے پر بھی اللہ اجر دے گا ان شاء اللہ۔ تو حضرت نے فرمایاکہ اس نے مجھے خط لکھا کہ چوں کہ آپ نے رات ریل میں تہجد نہیں پڑھی اور میں نے پڑھی، حالاں کہ میں مرید ہوں ،آپ کی عبادت سے تو میری عبادت زیادہ ہے… لہٰذا میں آپ سے بیعت فسخ کرتا ہوں۔ کاش کہ یہ ظالم سمجھتا کہ مولانا ابرارالحق صاحب دامت برکاتہم اور جملہ اہل اللہ کی دو رکعات ہماری لاکھ رکعات سے افضل ہیں ۔ان کا سونا ہمارے جاگنے سے بہتر ہے، ہمارے تہجد و اشراق واوابین سے افضل ہے ۔حضرت حاجی صاحب  فرماتے تھے کہ عارف کی دو رکعات غیر عارف کی لاکھ رکعات سے افضل ہیں ۔اللہ والوں پر اعتراض کرنے والے محروم ہی رہتے ہیں۔

اہل اللہ کی صحبت سے کیا ملتا ہے؟ اس کو ایک فقہی مسئلہ سے ثابت کرتا ہوں ۔کسی کے پاس دو ہزار روپیہ ہے ۔سال کے گیارہ مہینے گزر گئے۔ زکوٰة فرض ہونے میں ایک مہینہ رہ گیا کہ دس ہزار کی رقم اور آگئی۔ ایک ماہ بعد اب اس نئی رقم پر بھی زکوٰة فرض ہے ۔علمائے دین اس وقت موجود ہیں ان سے پوچھ لیجیے ۔دس ہزار کی اس نئی رقم پر تو ابھی سال نہیں گزرا، پھر اس پر زکوٰ ة کیوں فرض ہوئی ؟!وجہ یہ ہے کہ گیارہ مہینے سے جو رقم مجاہدہ میں تھی، اس کی صحبت میں یہ دس ہزار کی نئی رقم آگئی، جس کی برکت سے ایک ہی مہینہ میں وہ بالغ ہو گئی اور اس پر بھی اللہ نے زکوٰة فرض کر دی کہ یہ سرکاری دربار میں قبول ہوجائے گی ۔معلوم ہوا کہ جو مجاہدہ کرنے والے ہیں ان کی صحبت کی برکت سے کم مجاہدہ والوں کا بھی کام بن جاتا ہے ۔اللہ والوں کی صحبت میں جلد اللہ والا بننے کا یہی راز ہے ۔حضرت مولانا مسیح اللہ خان صاحب جلال آبادی  فرماتے ہیں کہ تھرڈ کلاس کا ڈبہ جس کی سیٹیں بھی پھٹی ہوئی ہیں ۔اسکریو ڈھیلے ہیں ۔ چوں چاں کر رہا ہے، لیکن اگر فرسٹ کلاس کے ڈبوں سے جڑا رہے تو جہاں انجن پہنچے گا وہ تھرڈ کلاس والا ڈبہ بھی وہاں پہنچ جائے گا ۔پس اگر ہم نالائق ہیں،گنہگار ہیں تو لائقوں کے پاس تو رہیں۔ان شاء اللہ تعالیٰ نجات پاجائیں گے۔مولانا جلال الدین رومی کی قبر کو اللہ نور سے بھر دے، فرماتے ہیں کہ اگر تم کانٹے ہو تو پھولوں کے دامن میں چھپے رہو۔جو کانٹے پھولوں کے دامن میں ہیں اللہ تعالیٰ کا عجب دستور ہے کہ باغبان ان کو باغ سے خارج نہیں کرتا #
        آں خار می گریست کہ اے عیب پوش خلق
ایک کانٹا رو رہا تھا کہ اے مخلوق کے عیب چھپانے والے !میرا عیب کیسے چھپے گا ؟مجھے تو آپ نے کانٹا پیدا کیا ۔
شد مستجاب دعوت او گلغدار شد
اللہ تعالیٰ نے اس کی دعا قبول کر لی اور اس پر پھول کھلا دیا، جس کے دامن میں اس خار کا عیب چھپ گیا ۔بتائیے کہ گلاب کے پھول کے نیچے کانٹے ہیں یا نہیں ؟مگر کیا کسی باغ سے وہ کانٹے نکالے جاتے ہیں؟اسی طرح اگر ہم اللہ والوں سے جڑے رہیں گے تو امید ہے کہ ان کے صدقہ میں ان شاء اللہ جہاں وہ جائیں گے مثل کانٹوں کے ہم بھی ساتھ ہوں گے محبت کی برکت سے۔

تفسیر روح المعانی میں علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ محبت کی تو لغت ہی ایسی ہے کہ بغیر دونوں ہونٹوں کے ملے ہوئے ادا نہیں ہو سکتی ۔دونوں ہونٹوں کو الگ کر کے ذرا کوئی محبت کا لفظ ادا کر کے دکھائے ۔لاکھ کوشش کرو گے محبت کا لفظ نہیں نکلے گا ۔علامہ آلوسی فرماتے ہیں کہ جب محبت کا اسم اتنا مبارک ہے کہ بغیر اتصال شفتین کے ادا نہیں ہو سکتا یعنی دونوں ہونٹوں کے ملے بغیر ادا نہیں ہو سکتا بس جس کا اسم ہی متقاضی وصل ہے تو اس کا مسمی کیسا ہوگا !!لہٰذا جو لوگ اللہ تعالیٰ سے محبت کریں گے ۔ سرور عالم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کریں گے ۔اللہ والوں سے محبت کریں گے وہ ان شاء اللہ انہیں کے ساتھ ہوں گے ۔المرء مع من احب اس حدیث کی شرح ان شاء اللہ آئندہ کبھی پیش کروں گا۔اب دوسرا واقعہ پیش کرتا ہوں۔

حضرت سلطان ابراہیم بن ادہم تشریف لے جارہے ہیں ۔یہ کون شخص ہیں؟ یہ وہ ہیں جنہوں نے سلطنت بلخ خدا پر فدا کی ۔جس وقت وہ آدھی رات کو گدڑی پہن رہے تھے اور شاہی لباس اتار رہے تھے اور خدا پر سلطنت کو فدا کر رہے تھے اس وقت کا نقشہ اختر نے مثنوی مولانا روم کی شرح میں یوں کھینچا ہے #
        جسم شاہی آج گدڑی پوش ہے
        جاہ شاہی فقر میں روپوش ہے
        فقر کی لذت سے واقف ہوگئی
        جان سلطاں جان عارف ہو گئی

یہ سلطان ابراہیم بن ادہم راستہ سے گزر رہے ہیں کہ دیکھا کہ ایک شرابی نشہ میں بے ہوش پڑا ہوا ہے ۔یہ پہچان گئے کہ کسی رئیس کا بیٹا ہے اور مسلما ن ہے ۔افسوس سے ایک آہ کھینچی کے آہ! جس زبان سے یہ کلمہ پڑھتا ہے اسی سے شراب بھی پیتا ہے ۔زیادہ پی گیا تھا ۔قے ہوگئی تھی ۔چہرہ پر مکھیا ں بھنک رہی تھیں۔ حضرت سلطان ابراہیم بن ادہم  نے آسمان کی طرف دیکھا اور دل میں کہا کہ اے خدا! اگر چہ یہ آپ کی نافرمانی کی حالت میں ہے، لیکن اس کو آپ سے نسبت ہے کہ یہ آپ کا بندہ ہے ۔اگر مجنوں لیلیٰ کی گلی کے کتے کو پیار کر رہا تھا تو یہ تو آپ کا بندہ ہے اور مسلمان ہے ۔لہٰذا انہوں نے اس کی قے کو صاف کیا ،منہ دھویا ۔منہ پر ٹھنڈا پانی لگنے سے وہ ہوش میں آگیا۔ اس نے کہاکہ حضرت آپ تو تارک سلطنت بلخ ہیں ۔اتنے بڑے ولی اللہ یہاں کیسے آگئے ۔فرمایا کہ تم بے ہوش تھے ۔میں نے تمہارا چہرہ دھویا اور یہ تمہاری قے دھوئی ہے۔وہ رونے لگا کہ آہ! میں تو سمجھتا تھا کہ اللہ والے گنہگاروں کو حقیر سمجھتے ہوں گے ،مگر آج معلوم ہوا کہ اللہ والوں سے بڑھ کر گنہگاروں سے محبت کرنے والا بھی کوئی نہیں ہو سکتا ۔اس نے کہا کہ مجھے ابھی توبہ کرائیے۔واللہ لااشرب خمرا ابدا خدا کی قسم! اب کبھی شراب نہیں پیوں گا۔اورحضرت سلطان ابراہیم بن ادہم کے ہاتھ پر اس نے توبہ کی ۔اسی وقت شاہ ابراہیم بن ادہم کو کشف ہوا کہ توبہ کرتے ہی اس شخص کو ولایت کا بلند مقام عطا ہوگیا اور اپنے وقت کے تمام اولیاء سے آگے ہو گیا ہے۔

ملا علی قاری فرماتے ہیں کہ رات میں حضرت ابراہیم بن ادہم نے اللہ تعالیٰ کو خواب میں دیکھا اور اللہ تعالیٰ سے عرض کیا کہ اے اللہ! لوگ بڑے بڑے مجاہدے کر رہے ہیں۔تہجد و اشراق پڑھ رہے ہیں، لیکن ان کواتنا اونچا درجہ نہیں ملا اور اس شرابی نے ابھی توبہ کی اور اس کو آپ نے اتنا اونچا مقام دے دیا ۔اس کی کیا وجہ ہے ؟!اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے سلطان ابراہیم بن ادہم! میرے لیے تونے سلطنت فدا کی اور سلطنت کا عیش و آرام اور عزت و جاہ چھوڑ کر میرے لیے فقیری اختیار کی اور میرے لیے غارنیشا پور میں دس سال عبادت کی اور میری خاطر سے تو نے ایک گنہگار بندہ کا منہ دھویا اور اس کی قے صاف کی اٰنت غسلت وجھہ لاجلی تونے میری خاطر سے، میری محبت میں اس کا چہرہ دھویا کہ یہ میرا بندہ ہے ۔گناہ سے تو نفرت تھی، گنہگار سے میری نسبت کی وجہ سے نفرت نہیں کی اور اس شرابی گنہگار کا چہرہ دھویا، فغسلت قلبہ لاجلک پس میں نے تیری خاطر سے اس کا دل دھودیا اور جس کا دل خدا دھو دے اس کے دل میں رذائل کا امالہ نہیں ہوتا، ازالہ ہوجاتا ہے ۔

اس واقعہ پر علمائے دین فرماتے ہیں کہ اللہ کی راہ میں اللہ والے مجاہدہ کرتے ہیں۔جنہوں نے اپنی زندگی کو اللہ کی محبت میں جلا کر خاک کیا ہوان کے ساتھ جو رہتا ہے ،ان سے محبت کرتا ہے اس پر بھی الله تعالیٰ فضل فرمادیتے ہیں۔ جیسے مجاہدہ تو حضرت ابراہیم بن ادہم کا تھا، لیکن ان کے اکرام میں اللہ تعالیٰ نے شرابی پر بھی فضل فرمادیا ۔حضرت ابراہیم کی اس گنہگار پر تھوڑی سی عنایت و توجہ کا انعا م اللہ تعالیٰ نے عطا فرمایا کہ اس کو اس زمانہ کا بہت بڑا ولی اللہ بنادیا ۔

اور میرے شیخ مولانا شاہ ابرار الحق صاحب ایک مثال اور دیتے ہیں کہ دس لاکھ کی کار کسی نے خریدی۔اور اس کے خریدنے کے لیے کتنا مجاہدہ کیا ؟محنت سے دن رات کمایا، خون پسینہ بہا کر روپیہ جمع کیا، پھر کار خریدی اور آپ نے اس سے دوستی کرلی۔دوستی کی برکت سے کبھی آپ کو اپنی کار میں بٹھالے گا کہ کہاں جارہے ہو؟ آؤ! بیٹھ جاؤ۔محنت و مجاہدہ اس نے کیا اور آپ نے محنت نہیں کی، لیکن دس لاکھ کی کار میں آپ کو کیوں بٹھالیا؟محبت اور تعلق کی وجہ سے ۔

دوستو!اسی طرح جو لوگ اللہ والوں سے محبت و تعلق رکھتے ہیں ان اللہ والوں کے مجاہد ات کی برکت سے اللہ تعالیٰ ان کو بھی ولایت کے بلند مقام پر پہنچا دیتے ہیں ،یہ اللہ والوں کی برکت ہوتی ہے کہ تھوڑے مجاہدہ پر ان کے تعلق کی برکت سے انعام بڑا مل جاتا ہے اور جب اللہ تعالیٰ اس کو ولایت کے لیے منتخب کر لیتے ہیں تو اعمال ولایت،جذبات ولایت،خیالات ولایت، اخلاق و لایت خود عطا فرماتے ہیں ۔دیکھیے حکومت کسی کو پہلے ڈپٹی کمشنر ی کے لیے منتخب کرتی ہے، پھر بنگلہ ملتا ہے ۔پھر سرکاری موٹر ملتی ہے۔ پھر سرکار کا جھنڈا اس کی کار پر لگایا جاتا ہے، پھر پولیس اس کی حفاظت کے لیے دی جاتی ہے ۔پہلے اللہ تعالیٰ آسمان پر فیصلہ فرماتے ہیں کہ اس بندہ کو مجھے اپنا ولی بنانا ہے ۔اس انتخاب کے بعد پھر اس کو اعمال اولیاء ،اخلاق اولیاء،جذباتِ اولیاء،لذتِ مناجات ،سجدہ کی لذت اور تمام ایسی نعمتیں خود عطا فرماتے ہیں اور بندہ بزبان حال کہتا ہے #
        نہ میں دیوانہ ہوں اصغر نہ مجھ کو ذوق عریانی
        کوئی کھنچے لیے جاتا ہے خود جیب وگریبان کو
        ہمہ تن ہستی خوابیدہ مری جاگ اٹھی
        ہر بن مو سے مرے اس نے پکارا مجھ کو

لیکن ایک بات یہ بھی عرض کرتا ہوں جس کو اللہ اپنا بنالے اس کو فانی بتوں سے، مرنے گلنے والی لاشوں سے بچاتا ہے ۔لہٰذا جو اللہ کا ہونا چاہتا ہے اسے ان حسینوں سے نظر بچانی پڑے گی۔گناہ سے اپنے کو بچانا پڑے گا۔خون تمنا پینا پڑے گا، جیساکہ خواجہ صاحب نے فرمایا #
        بہت گو ولولے دل کے ہمیں مجبور کرتے ہیں
        تری خاطر گلے کا گھونٹنا منظور کرتے ہیں
        اور جیسا کہ مولانا اصغر گونڈوی  نے فرمایا کہ #
        ہم نے لیا ہے داغ دل کھو کے بہار زندگی
        اک گل تر کے واسطے میں نے چمن لٹادیا

فانی اور مرجھانے والے پھولوں کی بہاروں کو چھوڑنے کا ہم نے غم اٹھایا ہے ،پھول جیسے چہروں سے نظر بچانے کا زخم دل پر کھایا ہے اور حق تعالیٰ کے قرب کی غیر فانی بہارکے لیے حسن فانی کے چمن کو لٹایا ہے، تب کہیں جا کر اللہ ملتا ہے ۔لہٰذا فانی اور بگڑنے والے پھولوں کو چھوڑ و، یعنی ان حسینوں سے دل نہ لگاؤ اور سوچو کہ آج ایسے ہیں، کل کیسے ہوں گے؟!
        ایسے ویسے کیسے کیسے ہوگئے
        کیسے کیسے ایسے ویسے ہوگئے

اور حسینوں کا انجام سن لو اختر کی زبان سے #
        کمر جھک کے مثل کمانی ہوئی
        کوئی نانا اور کوئی نانی ہوئی
        ان کے بالوں پہ غالب سفیدی ہوئی
        کوئی دادا ہوا کوئی دادی ہوئی
        ادھر جغرافیہ بدلا ادھر تاریخ بدلی
        نہ ان کی ہسٹری باقی نہ میری ہسٹری باقی

اور بعض لوگ کہتے ہیں کہ صاحب آج کل رات بھر نیند نہیں آرہی ہے، کسی سے دل لگا ہوا ہے ۔میں کہتاہوں کہ کیوں دل لگایا غیر اللہ سے؟غیروں سے تو یہی اضطراب ،بے چینی اور پریشانی ملتی ہے ۔پریشانی میں لفظ پری موجو دہے ۔پری آئی کہ شانی خود لائے گی ۔میرا ایک اور شعر سنیے #
        ہتھوڑے دل پہ ہیں مغز دماغ میں کھونٹے
        بتاؤ عشق مجازی کے مزے کی لوٹے

جتنے لوگ دنیوی عشق میں لگے ہیں یہی کہتے ہیں کہ دل پریشان ہے ۔اللہ تعالیٰ تو فرماتے ہیں کہ تم کو چین ہماری ہی یاد سے ملے گا الا بذکر اللہ تطمئن القلوب اور تم اللہ کو چھوڑ کر غیر اللہ سے چین لینا چاہتے ہو ۔خالق حیات کا اعلان ہے کہ جو ایمان اور تقویٰ سے رہے گا اس کی زندگی کو پاکیزہ اور بالطف کر دیں گے اور جو چوروں کی طرح نافرمانی سے حرام لذت کو درآمد کرے گا ہم اس کی زندگی کو دنیا میں تلخ کر دیں گے اور وہ خالق حیات جس کی حیات تلخ کرے ساری کائنات کی لذتیں اس کو شیرینی عطا نہیں کر سکتیں #
        خاک ہوجائیں گے قبروں میں حسینوں کے بدن
        ان کے ڈسٹمپر کی خاطر راہ پیغمبر نہ چھوڑ

یہ بھی مٹی کا تو بھی مٹی کا،مٹی کو مٹی مت کر و، ورنہ میزان میں مٹی ہی آئے گی اور قیامت کے دن کوئی قیمت نہیں لگے گی اور اگر اللہ پر فدا ہوئے تو مٹی کے ساتھ ان شاء اللہ تعالیٰ اللہ کی رضا ثابت ہوگی ۔پھرکیا قیمت ہو گی اس خاک کی !سبحان اللہ
        کسی خاکی پہ مت کر خاک اپنی زندگانی کو
        جوانی کر فدا اس پر کہ جس نے دی جوانی کو

بس تین عمل کرلیں ہم سب ان شاء اللہ تعالیٰ والے ہو جائیں گے :
1..اللہ والوں سے تعلق، یعنی صحبت اہل اللہ کا التزام۔2..ذکر اللہ اور دوام۔ 3..گناہوں سے بچنے کا اہتمام ۔

دعاکیجیے کہ اللہ تعالیٰ اس اجتماع کو قبول فرمائے، اپنی رحمت سے بغیر استحقاق کے ہماری جانوں کو جذب فرما یا کہ اللہ ہم سب کو اولیا صدیقین نصیب فرما دیجیے اور اے اللہ! یہ دعا اپنے استحقاق اور صلاحیت کی وجہ سے نہیں آپ کے کرم کے سہارے مانگ رہے ہیں ،کیوں آپ کریم ہیں اور کریم کی تعریف محدثین نے یہ کی ہے کہ الذی یعطی بدون الاستحقاق جو نالائقوں پر بھی کرم فرمادے ۔اور ہم جن جن گناہوں میں مبتلا ہیں یا رب العالمین ان سے ہمیں نکال لیجیے اپنے کرم سے ۔اپنے کر م سے نکال لیجیے ۔اے اللہ! ہم کو نفس و شیطان نے گناہوں میں اغوا کیا ہوا ہے، اپنی رحمت خاص سے ہم کو جذب فرما کر نفس و شیطان کے چنگل سے چھڑا کر ،نفس و شیطان کی غلامی سے چھڑا کر اے !اللہ سو فیصد اپنی غلامی اور فرماں برداری کی حیات نصیب فرما دیجیے۔

Flag Counter