Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

2 - 18
قول وعمل کا تضاد اور اسلام

حضرت علامہ سید محمدیوسف بنوریؒ
	
آسمانی وحی میں جن بڑے بڑے جرائم کو حق تعالیٰ کے شدید غضب وناراضی کا سبب قرار دیا گیا ہے ان میں سے قول وعمل کے تضاد کو بھی ذکر فرمایا گیا ہے، قرآن کریم میں سورہٴ صف میں ارشاد ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آَمَنُوا لِمَ تَقُولُونَ مَا لَا تَفْعَلُونَ ،کَبُرَ مَقْتاً عِندَ اللَّہِ أَن تَقُولُوا مَا لَا تَفْعَلُونَ﴾․ (الصّف:3-2)
ترجمہ:”اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو؟ خدا کے نزدیک یہ بہت ناراضی کی بات ہے کہ ایسی بات کہو جوکرو نہیں۔“

درحقیقت نفاق بھی یہی چیز ہے کہ زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے، منافقوں کے لیے سزا اور وعید بھی قرآن کریم میں شدید آئی ہے:﴿إِنَّ الْمُنَافِقِیْنَ فِیْ الدَّرْکِ الأَسْفَلِ مِنَ النَّارِ﴾․ (النساء:145)

” بلاشبہ منافقین دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ میں جائیں گے۔“

نفاق کی تین صورتیں
اسلام کی اصطلاح میں الحاد اور زندیقیت کا بھی یہی مفہوم ہے، چناں چہ فقہائے کرام نے زندیق اسی کو بتایا ہے جو زبان سے اسلام کا دعویٰ کرے اور دل میں کفر چھپائے، گویا قول وعمل کیتضاد کا نام نفاق ہے اور اس کی تین صورتیں ہیں:

اول یہ کہ قلبی اعتماد تو صحیح ہو، مگر عمل دعویٰ کے خلاف ہو، یہ نفاق فی العمل ہے۔

دوم یہ کہ دل سے خدا اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی بات پر سرے سے اعتقاد ہی نہ ہو، بلکہ صرف ظاہر داری کے لیے ایمان واسلام کے زبانی دعوے کیے جائیں، یہ نفاق اعتقادی کہلاتا ہے، جو کفر خالص ہے او راس کے لیے دوزخ کے سب سے نچلے طبقہ کی وعید ہے۔

سوم یہ کہ ایک شخص دل میں عقیدہٴ کفر رکھتا ہے، مگر ظاہری طور پر اسلام کا انکار نہ کرے، بلکہ بظاہر اسلام کا اقرار کرے اور قرآن وحدیث کی نصوص میں تاویل وتحریف کرکے انہیں اپنے عقائد باطلہ پر چسپاں کرے، یہ زندقہ اور الحاد کہلاتا ہے، جو نفاق فی التعبیر سے پیدا ہو اور نفاق کا یہ درجہ سب سے اشد ہے، چناں چہ منافق کی توبہ بالاتفاق مقبول ہے، لیکن زندیق کی توبہ بعض علماء کے نزدیک لائق التفات نہیں۔

ان تین مراتبِ نفاق میں فرق یہ ہے کہ نفاق عملی کی صورت میں ایمان واعتقاد باقی ہے اور عمل کے بہت شعبے بھی موجود ہیں، مگر کسی خاص شعبہٴ عمل میں نفاق ہے اور نفاقِ اعتقادی میں نہ ایمان ہے نہ اسلام، نہ عقیدہ ہے، نہ عمل۔ صرف ظاہر داری کے لیے دعویٰ ہی دعویٰ ہے، یعنی خالص کفر کے باوجود اسلام کا دعویٰ کیا جاتا ہے اور تیسرا مرتبہ اس سے بھی بدتر ہے کہ اس میں نفاق اعتقادی کے ساتھ نصوص میں تحریف کا اضافہ ہو جاتا ہے، گویا خالص کفر کو تاویلات کے ذریعے اسلام ثابت کیا جاتا ہے۔ الغرض قول وعمل کا تضاد ہو یا نفاق ہو، حق تعالیٰ کے نزدیک بدترین جرم ہے، شدید غضبِ الہیٰ کا سبب ہے۔

آج مسلمانوں کا بظاہر عام جرم یہی ہے کہ زبان سے اسلام کا دعوی ہے، لیکن عمل وہ ہیں جن سے کافر بھی شرمائے اور افراد واشخاص ہوں یا حکومتیں، راعی ہوں یا رعایا، سب آج اس عظیم معصیت میں مبتلا ہیں، نفاق عملی میں تو قریباً سبھی مبتلا ہیں کہ زبان سے دعوے کچھ کیے جاتے ہیں اور عمل کچھ اورہوتا ہے، لیکن بہت سے لوگ تو واقعةً نفاقِ اعتقادی کے مریض ہیں، یعنی وہ مسلمان صرف اس لیے کہلاتے ہیں کہ ان کو مسلمانوں سے واسطہ ہے، ورنہ ان کے دل میں اسلام نہیں، نہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے دین کی عظمت ہے، نہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے فرمودات کااعتقاد ہے اور بہت سے لوگ اسلام کی پیمائش نفس وشکم کے پیمانے سے کرتے ہیں، گویا انسان کو دین اسلام کی اطاعت وفرماں برداری کے لیے پیدا نہیں کیا گیا، بلکہ خود اسلام کو انسانی خواہشات کے پیچھے چلنے کے لے نازل کیا گیا ہے، وہ مسلمانوں پر یہ فرض عائد نہیں کرتے کہ وہ اپنی زندگی اسلام کے ڈھانچے میں ڈھالیں، بلکہ وہ اسلام پر یہ فرض عائد کرتے ہیں کہ وہ انسانی خواہشات کے سانچے میں ڈھلتا رہے، یہ موجودہ دور میں زندقہ کی ترقی یافتہ شکل ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ آج عمومی طور پر مسلمان نفاقِ عملی یا اعتقادی میں مبتلا ہے، آج ہمیں جو ذلت ونکبت نصیب ہو رہی ہے ، درحقیقت اس منافقانہ طرز زندگی کی سزا ہے۔

پاکستان کیوں حاصل کیا گیا اور اب تک کیا ہوا؟
ماضی قریب میں متحدہ ہندوستان میں ہم نے یہی نعرے لگائے کہ مسلمانوں کے لیے ایک مستقل جداگانہ سر زمین کی اس لیے ضرورت ہے کہ الله تعالیٰ کے احکام کے نفاذ کے لیے اسلام کی حکومت قائم ہو اور سر سے پیر تک اسلامی معاشرہ کی تشکیل ہو، اس موقع پر ہم نے بڑے بلند بانگ دعوے کیے تھے کہ حق تعالیٰ کے قوانینِ عدل کا اجرا ہو گا، اسلامی شعائر کا احیا ہو گا، اسلامی اتحاد کا خواب پورا ہو گا…۔ اسی مقصد کے لیے جلسے کیے، جلوس نکالے، کوششیں کیں، قرار دادیں پاس کیں، جان ومال اور عزت وآبرو کی قربانیاں دیں، جو کچھ ہوا اور جوکچھ کیا اس کی تاریخ آپ کے سامنے ہے، بہرحال جدوجہد ٹھکانے لگی، حق تعالیٰ نے غلامی کے طویل دور کے بعد آزادی کی نعمت نصیب فرمائی اور ایک بڑی عظیم سلطنت عطا فرمائی۔12/ کروڑ کی قابل قدر، اطاعت شعار، فرماں بردار رعیت عطا فرمائی، جس نے کارخانے بنائے، کاروبار کو ترقی دی، مملکت کو آباد کیا، اس کو چار چاند لگائے، باہر کی دنیا میں اس کا وقار قائم کیا، مسجدیں بنائیں، مدرسے تعمیر کرائے او راتنا کمایا کہ اپنے ٹیکسوں سے حکومت کے خزانوں کو معمور کیا اور قوم کی محنتوں سے ملک کہاں سے کہاں پہنچا، ماضی وحال کی تاریخ آپ کے سامنے ہے، غرض دین ودنیا کی سعادتوں سے مملکت کو ہم کنار بنایا، لیکن جس بنیادی مقصد کا بار بار اعلان کیا جاتا تھا کہ اسلامی حکومت قائم ہو گی اور یوں عالمِ اسلام سے اتحاد ہو گا، اس کے لیے حکم رانوں اورحکومتوں نے کیا کیا؟ اپنے وعدوں کو کہاں تک پورا کیا؟ یہاں کون کون سے اسلامی قوانین جاری ہوئے؟ کفر والحاد کو کہاں تک ختم کیا گیا؟ اسلامی معاشرت قائم کرنے کے لیے کیا کیا اقدام کیے گئے؟ ان تمام سوالات کا جواب حسرت ناک نفی میں ملے گا، آخر امتحان کا یہ عبوری دور تھا، کون سی نعمت تھی جو حق تعالیٰ نے نہ دی ہو؟ کون سی فرصت تھی جو نہ ملی ہو؟ لیکن واحسرتاہ! کہ ربع صدی سے زیادہ عرصہ گزر گیا، مگر پاکستان کے مقصدِ وجود کا خواب شرمندہٴ تعبیر نہ ہوا، کون سا وعدہ پورا کیا گیا ؟ کون سی اسلامی عدالت قائم ہوئی؟ زانی اور شرابی کو کون سی سزا دی گئی؟ بد اخلاقی کا کیا انسداد کیا گیا؟ ظلم، عدوان، رشوت ستانی، کنبہ پروری، بے حیائی وعریانی، سود خوری وبد معاشی کو ختم کرنے کے لیے کون سا قدم اٹھایا گیا؟ بلکہ اس کے برعکس یہ ہوا کہ سود خوری، شراب نوشی، بد اخلاقی اور بے حیائی کی نہ صرف حوصلہ افزائی کی گئی، بلکہ سرکاری ذرائع سے اس کی نشر واشاعت میں کوئی کسر باقی نہیں اٹھارکھی گئی۔

فسق وفجور او رگناہوں کے اثرات
آخر اس فسق وفجور کی کثرت اور خدا فراموش زندگی کی لعنت سے دشمنان اسلام ( ہندوستان، امریکا، روس) کے گٹھ جوڑ سے ایک جھٹکا لگا، اوراس بے نظیر مملکت کا ایک حصہ کاٹ دیا گیا اور بقیہ حصہ کو شروفساد، اختلاف وانتشار، ہوشرباگرانی اور قحط میں مبتلا کر دیا گیا، امن وامان ختم ہو گیا، کسی کی نہ جان محفوظ، نہ کسی کا مال محفوظ، نہ کسی کی آبرو محفوظ، بڑی بڑی صنعتیں نیشنلائز کی گئیں، مگر نتیجہ صفر، زمین داروں اور کسانوں کے درمیان باہم دست وگریباں کی فضا پیدا ہو گئی، مزدوروں او رکارخانہ داروں کے درمیان بے اعتمادی کی لہر دوڑگئی، حکم رانوں کی عزت واحترام کا جذبہ رعایا کے دلوں سے نکل گیا، آخر یہ سب کچھ کیوں ہوا اور کس لیے ہوا؟

جواب صاف او رواضح ہے کہ ہم نے نفاق سے کام لیا، اسلام سے رو گردانی کی، رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے بے وفائی کی، خدا تعالیٰ کو دھوکا دیا، قول وعمل کے تضاد کو شعار بنایا او رمنافقانہ زندگی کو اختیار کیا #
        کارہا باخلق آری جملہ راست
        باخدا تزویر وحیلہ کے روا ست

آخر حق تعالیٰ کے قانونِ عدل کا ظہور شروع ہو گیا، قرآن کریم بار بار حق تعالیٰ کے اس قانون عدل کا صاف اعلان کرتا ہے کہ جب حق تعالیٰ کی نعمتوں کی ناشکری کی جائے او رقانونِ خداوندی کی توہین کی جائے تو اس کا انجام یہی ہوتا ہے کہ وہ نعمتیں ان سے چھین لی جاتی ہیں او ران کے بدلے میں عذابِ شدید اس قوم پر مسلط کر دیا جاتا ہے ، ارشاد ہے:﴿لَئِن شَکَرْتُمْ لأَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِن کَفَرْتُمْ إِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْد﴾․(ابراہیم:7)

”اگر شکر کروگے تو تمہیں زیادہ انعام دوں گا اور اگر ناشکری کروگے تو میرا عذاب بڑا سخت ہے۔“

دوسری جگہ ارشاد ہے:﴿فَلَمَّا نَسُواْ مَا ذُکِّرُواْ بِہِ فَتَحْنَا عَلَیْْہِمْ أَبْوَابَ کُلِّ شَیْْء ٍ حَتَّی إِذَا فَرِحُواْ بِمَا أُوتُواْ أَخَذْنَاہُم بَغْتَةً فَإِذَا ہُم مُّبْلِسُونَ، فَقُطِعَ دَابِرُ الْقَوْمِ الَّذِیْنَ ظَلَمُواْ وَالْحَمْدُ لِلّہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن﴾․(الانعام:45-44)
ترجمہ:”پھر جب لوگ ان چیزوں کو بھول گئے جن کی ان کو نصیحت کی جاتی تھی تو ہم نے ان پر ہر چیز کے دروازے کھول دیے، یہاں تک کہ جب ان چیزوں پر، جواُن کو ملی تھیں، خوب اتر اگئے تو ہم نے ان کو دفعتہ پکڑ لیا، پھر وہ بالکل حیرت زدہ رہ گئے، پھر ظالم لوگوں کی جڑ کٹ گئی اور الله کا شکر ہے۔“

نیز ارشاد ہے:﴿وَضَرَبَ اللّہُ مَثَلاً قَرْیَةً کَانَتْ آمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً یَأْتِیْہَا رِزْقُہَا رَغَداً مِّن کُلِّ مَکَانٍ فَکَفَرَتْ بِأَنْعُمِ اللّہِ فَأَذَاقَہَا اللّہُ لِبَاسَ الْجُوعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُواْ یَصْنَعُون﴾․(النحل:112)
ترجمہ:” اور الله تعالیٰ ایک بستی والوں کی حالتِ عجیبہ بیان فرماتے ہیں کہ وہ بڑے امن واطمینان میں تھے، ان کے کھانے پینے کی چیزیں بڑی فراغت سے ہر چہار طرف سے ان کے پاس پہنچا کرتی تھیں، سو انہوں نے خدا کی نعمتوں کی بے قدری کی، اس پر الله تعالیٰ نے ان کو ان حرکات کے سبب ایک محیط قحط اور خوف کا مزہ چکھایا۔“

کیا یہ ارشادات ہماری تنبیہ او رگو شمالی کے لیے کافی نہیں؟ کیا دن بدن ہمارا قدم نحوست وادبار کی طرف نہیں بڑھ رہا؟ کیا ہم نے خدا کی متواتر نعمتوں کی ناشکری میں کوئی کسر چھوڑی ہے؟ کہاں گئی وہ قرر دادِ مقاصد جو شیخ الاسلام حضرت عثمانی رحمہ الله کی کوشش سے پاس ہوئی تھی؟ کہاں ہے وہ تعلیمات بورڈ جس پر لاکھوں روپیہ خرچ کیا گیا تھا؟ کہاں ہے وہ اسلامی کونسل جس پر لاکھوں روپیہ سالانہ خرچ ہو رہا ہے؟ کیا یہ سب کچھ نفاق نہیں ہے؟ غضب الہٰی کو دعوت دینے والی کون سی برائی ہے کہ اس کو نہ اپنایا ہو اور نیکی فلاح وبہبود کا کون سا کام ہے جسے ہم نے نہ ٹھکرایا ہو؟ نہ معلوم کہ غفلت کے پردے کب چھٹیں گے اور بد نصیب قوم کا طالعِ سعید کب طلوع ہو گا؟

Flag Counter