Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

8 - 18
محرم الحرام میں شادی بیاہ کا حکم

مفتی محمد راشد ڈسکوی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچی

اسلامی سال کے پہلے مہینے محرم الحرام کو سال کے بارہ مہینوں میں خاص طرح کا امتیاز حاصل ہے، صحیح البخاری میں ایک حدیث مبارکہ ہے، جس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجة الوداع کے موقع پر ایک طویل اور نہایت ہی قیمتی نصائح پر مشتمل خطبہ ارشاد فرمایا، اس میں یہ بات بھی تھی کہ

”(اس وقت) زمانہ اسی رفتار اور ہیئت پر آ چکا ہے، جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین وآسمان کو پیدا فرمایا تھا، ایک سال بارہ مہینے کا ہوتا ہے ، ان میں سے چار مہینے حرمت والے ہیں، جن میں سے تین مہینے یعنی: ذوالقعدہ ذوالحجہ اور محرم الحرام تو مسلسل ہیں اور ایک ”رجب“ کا مہینہ ہے، جو جمادی الاخری اور شعبان کے درمیان آتا ہے۔(صحیح بخاری، رقم الحدیث:4294)

نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف فرامین کے مطابق اس ماہ مبارک میں کیے جانے والے اعمال کا اجر بنسبت دیگر ایام یا مہینوں کے زیادہ ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے اس مہینے میں روزے رکھنے کے بارے میں ارشاد فرمایا: ”رمضان المبارک کے بعد افضل ترین روزے اللہ تعالیٰ کے یہاں محرم الحرام کے روزے ہیں“۔(صحیح مسلم، رقم الحدیث: 1163)

علمائے کرام فرماتے ہیں کہ اس مہینے میں فضیلت محض روزے رکھنے کی ہی نہیں ہے، بلکہ ہر نیک عمل بہت بڑھا ہوا ہے، چناں چہ اعمال میں سے ایک بڑا اور اہم عمل نکاح کا بھی ہے، معاشرے میں ماہِ محرم الحرام سے متعلق کچھ ایسا تصور اور رجحان عام ہو چکا ہے کہ اس مہینے میں نہ نکاح کرنا ہے اور نہ ہی شادی، حالاں کہ شریعت کا مزاج اور احکامات اس کی صریح نفی کرتے ہیں۔

”عمل ِ نکاح“ چاہے کسی مہینے میں ہو، یہ اپنی اصل کے اعتبار سے مباح ہے اور مباح کام کا ناجائز ہونا کسی واضح ممانعت سے ممکن ہوتا ہے۔ لیکن اس مہینے میں ، یا اس کے علاوہ کسی اور بھی مہینے میں شریعت کی طرف کسی قسم کی کوئی ممانعت نہیں ملتی، نہ کتاب وسنت میں، نہ اجماع امت سے اور نہ ہی قیاس وغیرہ سے۔ چناں چہ جب ایسا ہے تو نکاح اپنی اصل (مباح ہونے) کے اعتبار سے جائز ہی رہے گا۔

بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ کہا جا سکتا ہے کہ فقہائے کرام کا اس بات پر (کہ محرم یا اس کے علاوہ کسی بھی مہینے میں نکاح کرنا ناجائز نہیں ہے۔ ) کم از کم اجماعِ سکوتی ہے۔ کیوں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم ، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم، تابعین وتبع تابعین اور متقدمین یا متاخرین فقہاء میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہیں ہے جو اس ماہ مبارک میں شادی، بیاہ وغیرہ کو ناجائز قرار دیتا ہو۔ لہٰذا اگر کوئی اس کو منع بھی کرتا ہو گا تو اس کا منع کرنا بغیر دلیل کے ہو گا اور کسی بھی درجہ قابل اعتبار نہیں ہو گا۔

اس ماہ میں نکاح سے منع کرنے کی بنیاد کیا ہے ؟ چناں چہ تتبع سے عقلاً اس کی بنیاد اس مہینے کا منحوس ہونا ہو سکتی ہے، یا غم والا مہینہ ہونا(جس کی بنا پر سوگ کو لازم سمجھا جاتا ہے اور سوگ والے دنوں یا مہینوں میں شادی کونا جائز سمجھا جاتا ہے)۔ ذیل میں ہر دو امر کا جائز لیا جاتا ہے۔

کیا ماہ محرم نحوست والا مہینہ ہے؟
مزاج شریعت سے معمولی سوجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی اس مہینے کی نحوست کا قائل نہیں ہو سکتا۔ کیوں کہ شریعت محمدیہ علی صاحبہا الف الف صلوات سے بہت پہلے سے ہی اس مہینے کا معزز ومکرم اور صاحب شرف ہونا مشہور ومعروف چلا آ رہا ہے، حتی کہ زمانے کی ابتدا سے اب تک ہر ذی شان کام کا اسی مہینے میں وقوع پذیر ہونا زبان زد عام ہے۔ بلکہ روایات کے مطابق تو وقوع قیامت کا عظیم الشان واقعہ بھی اس مہینے میں ہو گا۔

چناں چہ اتنا سب کچھ ہوتے ہوئے اس مہینہ کو نحوست والا قرار دینا ممکن ہی نہیں، لہٰذا اس بنا پر تو اس مہینے میں نکاح سے روکنا عقلا بھی ممکن نہیں ہے۔

کیا ماہ محرم غم والا مہینہ ہے؟
اس مہینے میں شادی سے روکنے والے اگر اس بنیاد پر شادی سے روکتے ہیں کہ یہ غم اور سوگ کا مہینہ ہے، لہٰذا اس مہینے میں خوشی نہیں منانی چاہیے، کیوں؟! اس لیے کہ اس مہینے میں نواسہٴ رسول حضرت حسین رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان کے چھوٹوں اور بڑوں کو ظالمانہ طور پر نہایت بے دردی سے شہید کر دیا گیا، ان کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لیے غم منانا، سوگ کرنا اور ہر خوشی والے کام سے گریز کرنا ضروری ہے، تو یہ انتہا درجے کی جہالت اور احکامات دینیہ سے ناواقفیت کی علامت ہے، اس لیے کہ ”شہادت“ جیسی نعمتِ بے بہا کسی بھی طور پر غم کی چیز نہیں ہے، یہ تو سعادت اورفخر کی چیز ہے۔ یہاں سوچنا تو یہ ہے کہ ہمیں اس بارے میں شریعت کی طرف سے کیا راہ نمائی ملتی ہے؟؟!!تعلیماتِ نبویہ علی صاحبہا الف تحیہ سے تو یہ سبق ملتا ہے کہ شہادت کا حصول تو بے انتہا سعادت کی بات ہے۔

حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت
یہی وجہ تھی حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ مستقل حصولِ شہادت کی دعا مانگا کرتے تھے، (صحیح البخاری، کتاب فضائل المدینہ، باب کراہیة النبي ﷺ أن تعری المدینة، رقم الحدیث: 1890، 3/23، دارطوق النجاة)

حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کا شوق شہادت
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ جنہیں بارگاہِ رسالت سے سیف اللہ کا خطاب ملا تھا، وہ ساری زندگی شہادت کے حصول کی تڑپ لیے ہوئے قتال فی سبیل اللہ میں مصروف رہے، لیکن اللہ کی شان کہ انہیں شہادت نہ مل سکی، چناں چہ جب ان کی وفات کا وقت آیا تو پھوٹ پھوٹ کے رو پڑے کہ میں آج بستر پر پڑا ہوا اونٹ کے مرنے کی طرح اپنی موت کا منتظر ہوں۔ (البدایہ والنھایہ، سنة احدی وعشرین، ذکر من توفی احدی وعشرین: 7/114، مکتبة المعارف، بیروت)

جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کا شوق شہادت
شہادت تو ایسی عظیم سعادت اور دولت ہے، جس کی تمنا خود جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے لیے کی اور امت کو بھی اس کی ترغیب دی، حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت ہے، جس میں حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں چاہتا ہوں کہ میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں، پھر شہید کر دیا جاوٴں، (پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اور شہید کر دیا جاوٴں،(پھر مجھے زندہ کر دیا جائے) پھر میں اللہ کے راستے میں جہاد کروں اورپھر شہید کر دیا جاوٴں“۔ (صحیح مسلم، کتاب الامارة، باب: فضل الجھاد والخروج في سبیل اللہ، رقم الحدیث: 4967)

الغرض یہاں تو صرف یہ دکھلانا مقصود ہے کہ شہادت تو ایسی نعمت ہے کہ جس کے حصول کی شدت سے تمنا کی جاتی تھی، یہ کوئی ایسی چیز نہیں ہے جس پر افسوس اور غم منایا جائے، اگر اس عمل کو صحیح تسلیم کر لیا جائے توپھر غور کر لیا جائے کہ پورے سال کا ایسا کون سا مہینہ یا دن ہے جس میں کسی نہ کسی صحابیٴ رسول کی شہادت نہ ہوئی ہو، کتب تاریخ اور سیر کو دیکھ لیا جائے، ہر دن میں کسی نہ کسی کی شہادت مل جائے گی، مثلاً:

صفر: 3ھ میں مقام رجیع میں 8/ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو شہید کیا گیا۔ صفر: 4 ھ میں بئر معونہ کے واقعے میں کئی اصحاب صفہ کو شہید کیا گیا۔صفر: 52 ھ میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

ربیع الاول: 18ھ میں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ ربیع الاول: 20ھ میں ام الموٴمنین حضرت زینب بن جحش رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔

ربیع الثانی: 21ھ میں مقام نہاوند میں ایرانی کفار سے لڑائی کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے دو لاکھ ایرانیوں کے مقابلے کے لیے چالیس ہزار مسلمانوں کی فوج بھیجی جس میں تقریباتین ہزار مسلمان شہید ہوئے اور کفار کے تقریباًایک لاکھ افراد واصل جہنم ہوئے اور مسلمانوں کو فتح ہوئی۔ربیع الثانی: 21ھ میں مشہور صحابی رسول حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔ ربیع الثانی: 50ھ میں حضرت کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

جمادی الاولی:8ھ میں حضرت سراقہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔ اور اسی سال ، اسی مہینے حضرت عبادہ بن قیس رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔

جمادی الاولی: 8ھ میں ہی غزوہ موتہ ہوا، جس میں کئی جلیل القدر اصحاب رسول رضی اللہ عنہم شہید ہوئے۔

جمادی الاخری: 4ھ میں حضرت ابو سلمہ عبد اللہ بن عبد الاسد رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

جمادی الاخری: 13ھ میں صحابی رسول حضرت ابو کبشہ ص کی وفات ہوئی۔ جمادی الاخری: 21ھ میں حضرت خالد بن ولید ص کی وفات ہوئی۔

جمادی الاخری: 50ھ میں حضرت عبد الرحمن بن سمرہ کی وفات ہوئی۔

رجب المرجب:15ھ میں حضرت سعد بن عبادہ ص کی وفات ہوئی۔

رجب المرجب: 20ھ میں حضرت اُسید بن حضیر ص کی وفات ہوئی۔

رجب المرجب:45ھ میں حضرت زید بن ثابتص کی وفات ہوئی۔

شعبان : 9ھ میں بنت ِ رسول حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔

شعبان :50ھ میں حضرت مغیرہ بن شعبہ رضی اللہ عنہ کاانتقال ہوا۔ شعبان : 93ھ میں حضرت انس رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

رمضان:10نبوی میں حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔

رمضان:2ھ میں بنت رسول حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کی وفات ہوئی۔

رمضان:11ھ میں بنت رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔

رمضان:32ھ میں حضرت عباس رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا۔

شوال: 3ھ میں حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ کی شہادت ہوئی۔

شوال: 38ھ میں حضرت صہیب رومی رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

ذوالقعدہ: 62ھ میں مشہور تابعی حضرت مسلمہ بن مخلد کا انتقال ہوا۔

ذوالقعدہ: 106ھ میں حضرت سالم بن عبد اللہ بن عمر بن خطاب کا انتقال ہوا۔

ذو الحجہ: 5ھ میں حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔ ذو الحجہ: 6ھ میں حضرت ام رومان رضی اللہ عنہا کا انتقال ہوا۔

ذو الحجہ: 12 ھ میں حضرت ابو العاص رضی اللہ عنہ کی وفات ہوئی۔

اس پوری تاریخ کا مقتضا تو یہ ہے کہ ان میں سے ہر دن کو اظہارِ غم اور افسوس بنایا جائے۔اور شادی وغیرہ ہر خوشی اور اظہار خوشی سے گریز کیا جائے۔ لیکن ظاہر ہے کہ کوئی بھی ذی شعور اس کو تسلیم نہیں کر سکتا۔

نیز! اس بات کو بھی دیکھا جائے کہ جناب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ میں بھی تو کئی عظیم اور نبی صلی الله علیہ وسلم کی محبوب شخصیات کو شہادت ملی، لیکن کیا ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم نے بھی ان کی شہادت کے دن کو بطور یادگار کے منایا؟؟!! نہیں ؛بالکل نہیں، تو پھر کیا ہم اپنے نبی صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ غم محسوس کرنے والے ہیں؟! خدا را !ہم اپنے اعمال کا جائزہ لیں اور اس قسم کی شیطانی اور گم راہ کن رسومات سے بچنے کی مکمل کوشش کریں۔

شرعاًسوگ کرنے کا حکم
شرعاً سوگ کرنے کی اجازت صرف چند صورتوں میں ہے اور وہ بھی صرف عورتوں کے لیے ،نہ کہ مردوں کے لیے:

1..ایسی عورت جس کو طلاق بائن دی گئی ہو، اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔
2..جس عورت کا شوہر فوت ہو جائے، اس کے لیے صرف زمانہ عدت میں۔
3..کسی قریبی رشتے دار کی وفات پر صرف تین دن کے لیے۔ اس کے علاوہ کسی بھی موقعہ پر عورت کے لیے سوگ کرنا جائز نہیں ہے ۔

اور سوگ کا مطلب یا طریقہ یہ ہے کہ وہ اس عرصہ میں زیب وزینت اور بناوٴ سنگھار نہ کرے، زینت کی کسی بھی صورت کو اختیار نہ کرے، مثلا: خوش بو لگانا، سرمہ لگانا، مہندی لگانا اور رنگ برنگے خوش نما کپڑے وغیرہ پہننا، اس کے علاوہ کوئی صورت اپنانا، مثلا: اظہارِ غم کے لیے سیاہ لباس پہننا یا بلند آواز سے آہ وبکا اور سیاہ لباس وغیرہ پہنناجائز نہیں۔نیز! مرد وں کے لیے تو کسی صورت میں سوگ کی اجازت نہیں ہے تو پھر محرم الحرام کے شروع ہوتے ہی سوگ اور ماتم کے نام پر پورے ملک وملت کو عملی طور پر یرغمال بنا لینا کیا معنی رکھتا ہے؟؟!!

محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم
اوپر ذکر کی گئی تفصیل کے مطابق اس ماہِ مبارک میں سوگ کرنا بالکلیہ بے اصل اور دین کے نام پر دین میں زیادتی ہے، جس کا ترک لازم ہے، لہٰذا جب سوگ جائز نہیں ہے تو پھر شرعاً اس مہینے میں شادی نہ کرنے کی وجہ یہ بھی نہیں بن سکتی۔

بنت رسول حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی شادی
بلکہ عجیب بات تو یہ ہے کہ ایک معتبر قول کے مطابق امیر الموٴمنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ کی حضرت فاطمہ الزہراء رضی اللہ عنہا سے شادی اسی ماہِ مبارک میں ہوئی، اگرچہ اس قول کے علاوہ دیگر اقوال بھی ملتے ہیں۔(ملاحظہ ہو: تاریخ مدینة الدمشق لابن عساکر، باب ذکر بنیہ وبناتہ علیہ الصلاة والسلام وأزواجہ: 3/128، دار الفکر۔ تاریخ الرسل والملوک للطبري، ذکر ما کان من الأمور في السنة الثانیة، غزوة ذات العشیرة، 2/410، دار المعارف بمصر)

محرم الحرام کے دنوں میں ایک پیغام بہت زیادہ گردش کرتا ہے، جس میں تین شخصیات کے نکاح کا محرم الحرام میں ہونا مذکور ہوتا ہے: زوجہ رسول حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا کا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا سے۔

تو اس پیغام کا تحقیقی رُخ یہ ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ اور حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا نکاح سنہ 2/ ہجری میں ہوا، البتہ اس میں اختلاف ہے کہ مہینہ کون سا تھا؟ توا س میں تین طرح کے اقوال ملتے ہیں، محرم الحرام، صفر المظفر اور ذوالحجہ۔ ابن عساکر اور طبری رحمہما اللہ نے محرم الحرام کے مہینے میں نکاح ہونے کی روایت کو ترجیح دی ہے۔

بقیہ دو شخصیات کا نکاح بھی محرم میں نہیں ہوا، جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت صفیہ رضی اللہ عنہا سے نکاح ۷/ ہجری، ماہ صفر میں ہوا۔ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کا نکاح حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا سے ۳/ ہجری میں ربیع الاول کے مہینے میں ہوا اور رخصتی جمادی الاخری کے آخر میں ہوئی۔

خلاصہ کلام یہ کہ اپنے مدعی کے ثبوت کے لیے غیر محقق امور کو پیش کرنا مناسب نہیں ہے، معتبر اور محقق بات ہی پیش کرنا مفید ثابت ہوتا ہے۔

چند فقہی کتب کا حوالہ
اکابرین مفتیانِ عظام کے فتاوی میں اس کی تصریحات موجود ہیں، ذیل میں فتاوی رحیمیہ سے اسی مسئلے کا جواب نقل کیا جاتا ہے:
(الجواب): ماہ محرم کو ماتم اور سوگ کا مہینہ قرار دینا جائز نہیں، حدیث میں ہے کہ عورتوں کو ان کے خویش واقارب کی وفات پر تین دن ماتم اور سوگ کرنے کی اجازت ہے اور اپنے شوہر کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ منانا ضروری ہے، دوسرا کسی کی وفات پر تین دن سے زائد سوگ منانا جائز نہیں، حرام ہے، آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کا فرمان ہے:

”لا یحل لامرأة توٴمن باللہ والیوم الآخر أن تحد علی میت فوق ثلٰث لیال، إلا علٰی زوج أربعة أشھر وعشراً“․
ترجمہ: ”جو عورت خدا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھے، اس کے لیے جائز نہیں کہ کسی کی موت پر تین رات سے زیادہ سوگ کرے، مگر شوہر اس سے مستثنیٰ ہے کہ اس کی وفات پر چار ماہ دس دن سوگ کرے“۔ (بخاري، باب: تحد المتوفی عنھا أربعة أشھر وعشراً إلخ، ص: 803، ج:2، پ:22)، (صحیح مسلم، باب: وجوب الإحداد في عدة الوفات، إلخ، ص: 496، ج:1)، (مشکوٰة، باب العدة، الفصل الأول، ص:288)

ماہ مبارک محرم میں شادی وغیرہ کرنے کو نامبارک اور ناجائز سمجھنا سخت گناہ اور اہل سنت کے عقیدے کے خلاف ہے، اسلام میں جن چیزوں کو حلال اور جائز قرار دیا گیا ہو، اعتقاداً یا عملاً ان کو ناجائز اور حرام سمجھنے میں ایمان کے ضائع ہونے کا خطرہ ہے، مسلمانوں کو چاہیے کہ پوری احتیاط برتیں، اس طرح کی رسومات سے علیحدہ رہیں، ان میں شرکت حرام ہے۔

”مالابد منہ“ میں ہے: ”مسلم ر اتشبہ بہ کفار وفساق حرام است۔“ یعنی: مسلمانوں کو کفار وفساق کی مشابہت اختیار کرنی حرام ہے۔ (ص:131)

ماہ مبارک میں شادی وغیرہ کے بارے میں دیوبندی اور بریلوی میں اختلاف بھی نہیں ہے۔ مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کا فتویٰ پڑھیے:
(سوال) بعض سنی جماعت عشرہ محرم میں نہ تو دن بھر میں روٹی پکاتے ہیں اور نہ جھاڑو دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ بعد دفن تعزیہ روٹی پکائی جائے گی۔ ان دس دن میں کپڑے نہیں اتارتے۔ماہِ محرم میں کوئی بیاہ شادی نہیں کرتے، اس کا کیا حکم ہے؟
(الجواب) تینوں باتیں سوگ ہیں اور سوگ حرام ہے۔ (احکام شریعت، ص: 90، ج:1) فقط واللہ اعلم بالصواب

(فتاوی رحیمیہ، کتاب البدعة والسنة، ماہ محرم میں شادی کرے یا نہیں؟2/115، دارالاشاعت، کراچی )

اسی طرح فتاوی حقانیہ (کتاب البدعة والرسوم،محرم الحرام میں شادی کرنے کا حکم؟ 2/96، جامعہ حقانیہ، اکوڑہ خٹک)میں بھی موجود ہے۔

اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ہمیں ہر طرح کے منکرات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور افراط وتفریط سے بچتے ہوئے صراط مستقیم پر گام زن رکھے۔ آمین !

Flag Counter