Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

4 - 18
اسلامی تقویم تاریخ و اہمیت

مولانا عبدالله خالد قاسمی
	
تقویم کی تحقیق اور اس کی ضرورت
گزشتہ زمانے کے واقعات و حادثات کو محفوظ رکھنے کے لیے اور آئندہ زمانہ کے لین دین ،معاملات وغیر ہ کی تاریخ متعین کرنے کے لیے تقویم کی نہایت ضرورت ہے ،کیوں کہ کیلنڈر کے بغیر ماضی کی تاریخ معلوم ہو سکتی ہے ،نہ مستقبل کی تاریخ کا تعین کیا جاسکتا ہے۔

تقویم کی اقسام
واضح ہو کہ دنیا میں کئی اقسام کی تقاویم چلتی ہیں ،جن کا دارومدار تین چیزیں ہیں ۔سورج ،چاند،ستارے ۔اس لیے بنیادی تقاویم تین ہیں ۔شمسی، قمری ،نجومی ۔پھر شمسی کیلنڈر کی تین قسمیں ہیں ۔ایک عیسوی،جس کو انگریزی اور میلادی بھی کہتے ہیں ،دوم بکرمی، جس کو ہندی بھی کہتے ہیں ،سوم تاریخ فصلی،ان کے علاوہ اور بھی تقاویم ہیں ،جیسے تاریخ رومی ،تاریخ الہی۔

تاریخ کے ماخذ کو عموما تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے :
آثا ر مضبوط:یعنی تمام لکھی ہوئی چیزیں ،مثلا کتابیں ، یادداشتیں، دفاتر، کاغذات ،پرانے فیصلے ،دستاویز وغیرہ۔

آثار منقولہ :یعنی زبان زدعام باتیں، مثلا کہانیاں ،نظمیں ،ضرب الامثال وغیرہ۔

آثار قدیمہ :یعنی پرانے زمانے کی نشانیاں ،مثلا شہروں کے خراب قلعے ،مکانات ،کتبے ،تصویریں وغیرہ۔

تاریخ کے فوائد پر نظر ڈالتے ہوئے علامہ ابن خلدون لکھتے ہیں کہ تاریخ ایک ایسی چیز ہے اور ایک ایسا فن ہے جو کثیر الفوائد اور بہترین نتائج پر مشتمل ہے اور تاریخ کا علم ہم کو سابق امتوں کے اخلاق ،حالات ،انبیاء کی پاک سیرتوں اور سلاطین کی حکومتوں اور ان کی سیاستوں سے روشناس کرتا ہے، تاکہ جو شخص دینی و دنیوی معاملات میں ان میں سے کسی کی پیروی کرنا چاہے تو کر سکے ۔(مقدمہ ابن خلدون)

تاریخ کا مقصد اور فائدہ بیان کرتے ہوئے مولانا محمد میاں مصنف تاریخ اسلام لکھتے ہیں کہ جو حالات موجودہ زمانہ میں پیش آرہے ہیں ان کو گزرے ہوئے زمانے کی حالتوں سے ملا کر نتیجہ نکالنا اور اس پر عمل کرنا تاریخ کا مقصد اور فائدہ ہے ۔

علامہ بدر الدین عینی رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب زمین پر انسان کی آبادی وسیع ہونے لگی تو تاریخ کی ضرورت محسوس ہوئی ،اس وقت ہبوط آدم علیہ السلام سے تاریخ شمار کی جانے لگی ،پھر طوفان نوح علیہ السلام سے اس کی ابتدا ہوئی، پھر نار خلیل سے ،پھر یوسف علیہ السلام کے مصر میں وزیر بننے سے ،پھر موسیٰ علیہ السلام کے خروج مصر سے ،پھر حضرت داؤد علیہ السلام سے،ان کے فورا بعد حضرت سلیمان  سے پھر حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ۔اس کے بعد ہر قوم اپنے اپنے علاقہ میں کسی اہم واقعہ کو سن قرار دیتی تھی ،مثلا قوم غسان نے سد سکندری کو ،اہل صنعا نے حبشہ کے یمن پر چڑھ آنے کو سن قرار دیا ،مختصر یہ کہ جس طرح ہر قوم نے اپنی تاریخ کا مدارقومی واقعات و خصائص پر رکھا،اسی طرح اہل عرب نے بھی تاریخ کے لیے عظیم واقعات کو بنیاد بنایا ،چناں چہ سب سے پہلے اہل عرب نے حرب بسوس ( وہ مشہور جنگ جو بکر بن وائل اور بنو ذہل کے درمیان ایک اونٹنی کی وجہ سے چالیس سال تک جاری رہی) سے تاریخ کی ابتدا کی، اس کے بعدجنگ داحس وہ جنگ جو ایک گھوڑے کے آگے نکل جانے پر بنی عبس اور بنی ذبیان کے درمیان نصف صدی تک جاری رہی ،پھر جنگ غبرا سے ،پھر جنگ ذی قار سے، پھر جنگ فجار سے تاریخ کی ابتدا کی۔

اس کے بعد حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اسلاف میں سے ایک بزرگ کعب کے کسی واقعہ سے سالوں اور تاریخ کاحساب لگاتے رہے ،پھر اصحاب الفیل کے واقعہ سے، یہاں تک کہ عام الفیل کی اصطلاح ان کے یہاں رائج ہوئی ۔(ملاحظہ ہو عمدة القاری للعلامہ بدر الدین عینی 17/66)

لیکن اتنی بات واضح ہے کہ رومیوں اور یونانیوں کے دور ،بالخصوص سکندر اعظم کی فتوحات سے تاریخ کا وہ حصہ شروع ہو تا ہے جس نے دنیا کے اکثر ملکوں کے حالات کو اس طرح دنیا کے سامنے پیش کیا کہ سلسلہ کے منقطع ہونے کی بہت کم نوبت آئی اور عام طور سے یہیں سے تاریخ کی ابتدا سمجھی جاتی ہے ۔

اسلامی تاریخ (ہجری) کی ابتدا
حضرت عمر کے زمانہ خلافت میں ابو موسی اشعری عراق و کوفہ کے گورنر تھے،ایک دفعہ انہوں نے حضرت عمر فاروق کے پاس خط لکھا کہ آپ کی طرف سے ہمیں جو احکامات اور ہدایتیں ملتی ہیں ان میں تاریخ نہیں ہوتی، اس لیے معلوم نہیں ہوتا کہ یہ کس تاریخ کا حکم نامہ ہے ؟جس کی بنا پر بعض دفعہ ان پر عمل کرنے میں دشواری پیش آتی ہے ۔اس پر غور کرنے کے لیے حضرت عمر نے مجلس شوری منعقد کی اور اکابر صحابہ کو جمع کیا ،جن میں حضرت عثمان اور حضرت علی بھی تھے ۔یہ بحث شروع ہوئی کہ سن کی ابتدا کب سے قرار دی جائے؟حضرت علی نے ہجرت کی رائے دی اور اس پر سب کا اتفاق ہوگیا۔

اسلامی تاریخ کے لیے ہجرت کی ترجیح کی وجوہ
ہجرت کے بعد مدینہ میں ایمان والوں کو ایک مضبوط قلعہ اور مستحکم مرکز مل گیا ۔مسلمانوں کو آزادی سے عبادت کرنے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آنے جانے کے مواقع مل گئے ۔اہل اسلام نسبتا چین سے زندگی گزار نے لگے ۔اسلامی طرز معاشرت کے خدو خال نمایاں ہوئے،اسلام کے اقتصادی و معاشی پروگراموں کے لیے عملی راہ ہموار ہو گئی ،تعلیمات اسلام کی نشرو اشاعت کے لیے پاکیزہ ماحول مہیا ہوا ،ایک اسلامی حکومت قائم ہوئی، جس کے سربراہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم تھے ۔اسلام کی اسی ظاہری او ر باطی شان شوکت کے پیش نظر ہجرت کی تاریخ سے اسلامی تقویم کا آغاز کیا گیا۔

اسلامی سن کا آغاز محرم الحرام سے کیوں ہوا؟
اس کے بعد مہینے کے بارے میں مشورہ ہوا ،حضرت عبدا لرحمن بن عوف نے رجب المرجب کی رائے دی ،کیوں کہ اول شہر الحرام ہے ،حضرت طلحہ نے رمضان المبارک کی رائے دی ،بعض نے ربیع الاول کی رائے دی ۔حضرت عثمان اور حضرت علی نے محرم الحرام کی رائے دی ،اس کو فاروق اعظم نے پسند فرمایا۔

قمری تقویم کے فوائد
مروجہ تقویم میں سے جو فوائد قمری تقویم میں ہیں وہ کسی اور تقویم میں نہیں ہیں ،نہ ہوسکتے ہیں ۔اس لیے کہ رب کائنات نے روز مرہ کے کام کاج اور لین دین کی آسانی و سہولت کی خاطر چاند کا نظام اس طرح بنایا جس سے ہر انسان ہر علاقے میں آسانی سے تاریخ متعین کر سکتا ہے ۔مثلا مغر ب کی طرف سے جب چاند پتلا نظر آتا ہے تو ہر انسان عالم ،جاہل ،شہری ،دہقانی معلوم کر سکتا ہے کہ مہینہ کی پہلی تاریخ ہے ، اسی طرح چاند جب بالکل مکمل ہو تو اس سے چودھویں تاریخ کا تعین کر سکتا ہے، اسی طرح جب مشرق کی جانب سے چاند باریک طلوع ہوتا ہے،تو معلوم ہوتا ہے کہ ستائیس یا اٹھائیس تاریخ ہے ،اسی طرح روز روز واضح طور پر چاند کی صور ت تبدیل ہو جاتی ہے ،جس سے ہر انسان معمولی تدبر سے تاریخ کا تعین کرسکتا ہے۔ بخلاف شمسی تقویم کہ اس سے تاریخوں کا پتہ نہیں چل سکتا ،مثلا دسمبر کی پندرہ ہو تو کوئی آدمی آفتاب دیکھ کر یہ معلوم نہیں کر سکتا کہ آج پندرہ تاریخ ہے ،نہ اس کی ہیئت و صورت میں نمایا ں تبدیلی آتی ہے ،جس کو دیکھ کر تاریخ کا تعین ہو سکے ،نیز شمسی تاریخ آلات رصدیہ اور قواعد ریاضیہ پر موقوف ہے ،جس کو ہر شخص آسانی سے معلوم نہیں کر سکتا ۔اس لیے اللہ تعالیٰ نے احکام و عبادات کا مدار قمری حساب پر رکھا ہے ،قرآن کہتا ہے :﴿یَسْأَلُونَکَ عَنِ الأہِلَّةِ قُلْ ہِیَ مَوَاقِیْتُ لِلنَّاسِ وَالْحَج﴾(البقرہ:189)

چند اعتراضات کے جوابات
بعض لوگ یہ اعتراض کرتے ہیں کہ قمری حساب یقینی نہیں ،کیوں کہ مہینہ کبھی29 کا ہوتا ہے کبھی30 کا؟سواس کا جواب یہ ہے کہ رویت ہلال کی یقینی تاریخ متعین نہیں ہو سکتی ۔لیکن یہ اعتراض جاری ماہ کے متعلق نہیں ہو سکتا، کیوں کہ اس کی تعیین رویت ہلال سے ہو چکی ہے ،دوسری بات یہ ہے کہ عملی رویت ہلال مذہبی تقریبات کے لیے ضروری ہے، عام حساب کے لیے ضروری نہیں ۔یہ حسابی طریقہ پر متعین کیا جاسکتا ہے ۔

ایک اعتراض یہ بھی ہے کہ پوری دنیا میں چاند کا طلوع ایک دن میں نہیں ہوتا ،بلکہ مشرق وسطی میں بر صغیر سے ایک یادو دن پہلے نظر آجاتا ہے اور عرب ممالک اور برصغیر ہندوستان و پاکستان اور بنگلہ دیش کی تاریخ میں فرق ہوتا رہتا ہے تو مذہبی تقریبات کن لوگوں کی تاریخ پر منائی جائے ؟اگر ہر جگہ رویت کو معتبر کیا جائے تو عبادت بیک وقت ادا نہیں ہو سکتی ۔

اس کا جواب یہ ہے کہ عبادت کے لیے ہر جگہ کی رویت کو مستند قرار دیا جائے گا ،کیوں کہ اسلام ایک آفاقی مذہب ہے ،سارے انسانوں کے لیے تمام مقامات اور تمام زمانوں کے لیے ہے تو ساری دنیا میں بیک وقت عبادات ادا کرنا ممکن ہی نہیں ہے۔

مثلا مکہ مکرمہ کی اذان صبح کے مطابق انڈونیشیا میں نماز فجر ادا کرنا ممکن نہیں ہے ،اسی طرح مکہ مکرمہ کے آفاق و مطالع کے موافق آسٹریلیا میں عید منانا ممکن نہیں ہے ۔تو مسجد حرام کی نماز اپنے وقت پر ادا ہوگی ،انڈونیشیا کی نمازیں اپنے وقت پر ،نیز حج ،جو مقامی عبادت ہے ،وہ مکہ ہی کے افق کے مطابق ادا ہوگی اور مشرق بعید کے ممالک میں عید وغیرہ اپنے اپنے مطلع کے مطابق ادا ہوں گی اور یہ کوئی نقص نہیں ہے ،یہ فرق تو عیسائیوں اور ہندؤوں کے شمسی حساب میں بھی ہے ،مثلا جس وقت ویٹی کن میں کرسمس کا گھنٹہ بجتا ہے ا س سے تقریبا گیارہ گھنٹے قبل جزیزہ سخالین میں کرسمس کی عبادت ہو چکی ہوتی ہے اور جس وقت بنارس میں بسنگ پنجمی کا اعلان ہوتا ہے، ٹھیک اس وقت ماریشس میں نہیں ہوتا۔تو یہ بات کہ تقریبات بیک وقت ادا نہیں ہو سکتیں ،قمری ہجری تقویم کے سلسلے میں بطور اعتراض پیش کرنا صحیح نہیں ہے ۔

اصل بات یہ ہے کہ تقویم قمری ہجری اختیار کرنے کی صورت میں جن دقتوں اور پریشانیوں کا ذکر کیا جاتا ہے وہ سب و اہمہ ہیں ،عرب ممالک بالخصوص سعودی عرب ،جہان اسلامی ہجری تقویم نافذ ہے ، کے کیلنڈر اور حساب کتاب میں کبھی ابہام نہیں پایا گیا اور کسی کو کوئی دقت اور اعتراض بھی نہیں۔

شمسی اور قمری تاریخ کے متعلق آخری اور اہم بات حضرت مفتی اعظم کے اس اقتباس میں ہے کہ مفتی اعظم پاکستا ن مولانا محمد شفیع صاحب لکھتے ہیں کہ اس کے یہ معنی نہیں کہ شمسی حساب رکھنا یا استعمال کرناناجائز ہے ،بلکہ اس کا اختیار ہے کہ کوئی شخص نماز ،روزہ ،زکوٰة اور عدت کے معاملہمیں تو قمری حساب شریعت کے مطابق استعمال کرے ،مگر اپنے کاروبار تجارت وغیرہ میں شمسی استعمال کرے ۔شرط یہ ہے کہ مجموعی طور پر مسلمانوں میں قمری حساب جاری رہے ،تاکہ رمضان اور حج وغیرہ کے اوقات معلوم ہوتے رہیں ،ایسا نہ ہو کہ اسے جنوری فروری کے سوا کوئی مہینے ہی معلوم نہ ہوں ،فقہانے قمری حساب باقی رکھنے کو مسلمانوں کے ذمہفرض کفایہ قرار دیا ہے ۔ہاں !اس میں شبہ نہیں ہے کہ سنت انبیاء اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفائے راشدین میں قمری حساب استعمال کیا گیا ہے ،اس کا اتباع موجب برکت و ثواب ہے اور شمسی حساب سے بھی اسلام منع نہیں کرتا۔

Flag Counter