Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

16 - 18
امام ابو حنیفہ عبد اللہ ابن مبارک کی نظر میں

مفتی امانت علی قاسمی
	
عبد اللہ بن مبارک کا شمار امیر الموٴمنین فی الحدیث میں ہوتا ہے، محدث نووی نے ان کا ذکر ان لفظوں میں کیا ہے، وہ امام جس کی امامت وجلالت پر ہر باب میں عموما اجماع کیا گیا ہے، جس کے ذکر سے خدا کی رحمت نازل ہوتی ہے، جس کی محبت سے مغفرت کی امید کی جاتی ہے۔(نووی، محی الدین یحییٰ بن شرف، تہذیب ا لاسماء اللغات 1/285، دارالکتب العلمیہ بیروت) ان کی ولادت 118ھ میں اور وفات رمضان 181ھ میں ہوئی، ان کی پوری زندگی جہاد، حج اور تجارت سے لبریز ہے، امام ابو حنیفہ کے خاص تلامذہ میں ان کا شمار ہوتا ہے، ”الفوائد البہیہ“ میں علامہ لکھنوی نے لکھا ہے کہ امام صاحب نے عبد اللہ بن مبارک سے ان کے دین کی طرف رجوع اور علم کی طرف اشتغال کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ ہم لوگ ا پنے ساتھیوں کے ساتھ باغیچہ میں تھے اور رات تک کھاتے پیتے رہے،میں ستار وسارنگی کا بڑا گرویدہ اور عاشق تھا، اسی ستاروسارنگی کو بجاتے ہوئے ہمیں نیند آگئی اور میں نے خواب میں ایک پرندہ دیکھا جو یہ پڑھ رہا تھا:﴿ أَلَمْ یَأْنِ لِلَّذِیْنَ آمَنُوا أَن تَخْشَعَ قُلُوبُہُمْ لِذِکْرِ اللَّہِ وَمَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّ﴾․ (الحدید:16) یہ سنتے ہی میں نے کہاکیوں نہیں؟ پس میں بیدار ہوا اور اپنے ستار کو توڑ دیا، یہیں سے میرے زہد فی الدنیا کی ابتدا ہوئی۔(عبد الحی اللکھنوی،الفوائد البہیہ فی تراجم الحنفیہ ص:103، مکتبہ خیر کثیر کراچی)

عبد اللہ بن مبارک کو اللہ تعالیٰ نے علم حدیث میں بڑا اونچا مقام عطا فرمایا تھا،بڑے بڑے محدثین نے ان کی توثیق کی ہے اور علم حدیث میں ان کی خدمات اور محدثانہ جلالت شان کا اعتراف کیا ہے،امام بخاری کہتے ہیں ابن مبارک اپنے زمانے کے سب سے بڑے عالم اور محدث ہیں۔(بخاری، محمد بن اسماعیل، قرة العینین برفع الیدین، باب اذا افتتح التکبیر فی الصلاة1/35 ڈیجیٹل لائبریری) ابن مہدی کہتے ہیں: ائمہ حدیث چار ہیں: امام مالک، سفیان ثوری، حماد بن زید ،عبد اللہ بن مبارک اور ابن مہدی نے تو عبد اللہ بن مبارک کو سفیان ثوری پر بھی فوقیت دی ہے۔ ابو اسحاق فزاری کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک امام المسلمین ہیں، ابن حبان کہتے ہیں: اُن میں وہ خصلتیں تھیں جو ان کے زمانے میں روئے زمین پر کسی میں بھی وہ خصلتیں جمع نہ تھیں۔ ابن عیینہ کہتے ہیں: میں نے حضرات صحابہ کے معاملہ میں غور کیا تو مجھے عبد اللہ بن مبارک پر ان کی کوئی فضیلت نظر نہیں آئی، مگر یہ کہ حضرات صحابہ کو آپ صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ صحبت اور جہاد کا شرف حاصل ہے۔ فضیل بن عیاض کہتے ہیں: ان کے بعد ان کا کوئی مثل پیدا نہیں ہوا۔ عباس بن مصعب کہتے ہیں: عبد اللہ بن مبارک نے، حدیث، فقہ، عربیت، شجاعت، تجارت جیسے مختلف علوم وفنون کو جمع کرلیاتھا۔(الفوائد البہیہ، ص:104۔الشیخ حبیب احمد الکیرانوی، مقدمہ اعلاء السنن، ابو حنیفہ واصحابہ المحدثون 21/97، مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

عبد اللہ بن مبارک کے فضل وکمال، زہدتقویٰ نے اس قدر لوگوں کو مسخر کرلیا تھا کہ بڑے بڑے امراء وسلاطین کو و ہ رتبہ حاصل نہ تھا، ایک دفعہ خلیفہ ہارون رشید کا رقہ آنا ہوا، اسی زمانے میں عبد اللہ بن مبارک بھی رقہ پہنچے، ان کے آنے کی خبر مشہور ہوئی تو ہر طرف سے لوگ دوڑے اور اس قدر کش مکش ہوئی کہ لوگوں کی جوتیاں ٹوٹ گئیں، ہزاروں آدمی ساتھ ہوئے اور ہر طرف گرد چھاگئی، ہارون رشید کی ایک حرم نے جو برج کے غرفے سے تماشا دیکھ رہی تھی، حیرت زدہ ہوکر پوچھا کہ یہ کیا حال ہے؟ لوگوں نے کہا ”خراسان کا عالم آیا ہے، جس کا نام عبد اللہ بن مبارک ہے“ بولی حقیقت میں سلطنت اس کا نام ہے، ہارون رشید کی حکومت بھی کوئی حکومت ہے کہ پولیس اور سپاہیوں کے بغیر ایک آدمی بھی حاضر نہیں ہوسکتا۔(ذہبی ، شمس الدین، سیراعلام النبلاء، باب عبد اللہ بن مبارک7/366)

علم حدیث کے لیے مختلف ملکوں کا سفر کیا، بخاری اور مسلم میں ان کی روایت سے سیکڑوں حدیثیں مروی ہیں، امام احمد بن حنبل کا بیان ہے کہ عبد اللہ بن مبارک کے زمانے میں ان سے بڑھ کر کسی نے حدیث کی تحصیل کی کوشش نہیں کی، خود عبد اللہ بن مبارک کا بیان ہے: میں نے چار ہزار شیوخ سے حدیث سیکھی، جن میں سے ایک ہزار سے روایت کی۔(تہذیب الاسماء واللغات1/286) عبد اللہ بن مبارک فن روایت کے بڑے ارکان میں سے ہیں، علم حدیث وفقہ میں کئی کتابیں تصنیف کیں ، لیکن جب امام صاحب کی شاگردی اختیار کی تو زندگی کے آخری لمحہ تک آپ کی شاگردی سے وابستہ رہے، آپ کی شاگردی میں حدیث کے ساتھ ساتھ فقہ میں بھی کمال پیدا کیا، ان کو اعتراف تھا جو کچھ مجھ کو حاصل ہوا وہ امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کے فیض سے حاصل ہوا، ان کا مشہور مقولہ ہے، اگر اللہ تعالیٰ ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کے ذریعہ میری دست گیری نہ کرتا تو میں ایک عام آدمی سے بڑھ کر نہ ہوتا(خطیب بغدادی،تاریخ بغداد 13/337، دارالکتب العلمیہ بیروت 1997ء)

عبد اللہ بن مبارک سے امام صاحب کے متعلق مختلف مدحیہ اقوال اور آپ کے فضل وکمال کے مختلف گوشے منقول ہیں،عبد اللہ بن مبارک کو ا مام صاحب سے بہت عقیدت تھی، اس لیے مختلف حالات اور مواقع میں وہ امام صاحب کی تعریف کیا کرتے تھے، یحییٰ بن معین کا قول ہے امام ابو حنیفہ بڑے عقل مند تھے، جھوٹ نہیں بول سکتے تھے، ان کی جیسی تعریف اورذکرخیر عبد اللہ بن مبارک کرتے تھے ویسی تعریف کرتے ہوئے کسی کو نہیں سنا۔(تذکرة النعمان ترجمہ عقودالجمان ص:215) عبد اللہ بن مبارک کے اس بیان کو ایک شاگرد کی استاذ کے شان میں مبالغہ آرائی نہیں کہہ سکتے ہیں،اس لیے کہ عبد اللہ بن مبارک خود علم وفضل کے بلند مقام پر فائز ہیں، بڑے بڑے محدثین نے ان کی ثقاہت کا اعتراف کیا ہے، وہ اپنی زبان سے نکلے ہوئے کلمات کی اہمیت سے واقف تھے، اس لیے امام صاحب کے فضائل ومناقب کے سلسلے میں ان کے اقوال کو مبالغہ پر نہیں، بلکہ حقیقت پر محمول کرنا چاہیے، ہم یہاں پرامام صاحب کے فضائل ومناقب سے متعلق ان کے چند اقوال کو نقل کرتے ہیں:

امام ابو حنیفہ فقہ کے آفتاب ہیں
محمد بن مزاحم کہتے ہیں کہ میں نے عبد اللہ بن مبارک کو کہتے ہوئے سنا :میں نے لوگوں میں سب سے بڑے عبادت گذار، سب سے زیادہ متقی، سب سے بڑا عالم اور سب سے بڑا فقیہ دیکھا ہے، سب سے بڑے عابد عبد العزیز بن روّاد ہیں، سب سے بڑے متقی فضیل بن عیاض ہیں، سب سے بڑے عالم سفیان ثوری ہیں اور سب سے بڑے فقیہ امام ابو حنیفہ ہیں، پھر انہوں نے فرمایا کہ میں نے ابو حنیفہ کا مثل فقہ میں نہیں دیکھا۔(سیوطی، تبییض الصحیفہ ص۱۷،تاریخ بغداد 13/342) عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں اگر کسی کے لیے اپنی رائے سے دین کی بابت کچھ کہنا مناسب ہوتا توا بو حنیفہ اس مرتبہ کے ہیں کہ ان کو اپنی رائے سے کچھ کہنا مناسب ہونا چاہیے۔(تاریخ بغداد 13/343) عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: میں نے مسعر بن کدام کو امام صاحب کے حلقے میں بیٹھے ہوئے دیکھا، وہ امام صاحب سے مسئلہ پوچھ رہے تھے اور استفادہ کررہے تھے، میں نے امام ابو حنیفہ سے زیادہ بہتر فقہ میں کسی کو گفتگو کرتے ہوئے نہیں دیکھا۔(تاریخ بغداد13/343)

عبد اللہ بن مبارک کا بیان ہے : اگر حدیث اور اثر میں فقہ کی ضرورت پیش آئے تو اس میں ا مام مالک ،سفیان ثوری اور ابوحنیفہ کی رائے معتبر ہوگی اور ابو حنیفہ ان سب میں عمدہ اور باریک سمجھ کے مالک اور فقہ کی باریکیوں پر غائر نگاہ رکھنے والے اور تینوں میں بڑے فقیہ ہیں۔(تاریخ بغداد 13/342)

مدحیہ اشعار
عبد اللہ بن مبارک نے امام صاحب کی شان میں کئی مدحیہ ا شعار بھی کہے ہیں، چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:
رأیتُ أبَا حَنِیفَةَ کُلَّ یَوْمٍ
یَزِیْدُ نُبَالَةً ویَزِیْدُ خَیْرًا
میں نے امام ابو حنیفہ کو دیکھا کہ وہ علم وذہانت میں ہر روز ترقی کرتے تھے اور خیر میں بڑھتے جاتے تھے۔
ویَنْطِقُ بالصوابِ ویَصْطَفِیہِ
إذا مَا قَالَ أہلُ الجَوْرِ جَوْرًا
اور درست بات کرتے ہیں اور درستگی کے متلاشی رہتے ہیں، جب کہ جھوٹے لوگ جھوٹ بولتے ہیں۔
یُقَایِسُ من یُقَایِسُہ بُلّبٍ
فَمَن ذا یَجْعَلُونَ لہ نَظِیرَا؟!
جو قیاس میں ان کا مقابلہ کرتا ہے وہ عقل مندی کے ساتھ ان کا مقابلہ کرتے ہیں، وہ کون ہے جس کو لوگ ان کا نظیر بنائیں گے؟!
کَفَانَا فَقْدُ حَمَّادٍ وَکَانَتْ
مُصِیْبَتُنَا بہ أمرًا کبیرًا
حماد بن سلیمان کی موت امر عظیم تھی، مگر ابو حنیفہ ہمارے لیے ان کے بدل ہوگئے۔
فَرَدَّ شَمَاتَةَ الأعداءِ عَنَّا
وأَنْشأ بَعْدَہُ عِلمًا کثیراً
ابو حنیفہ نے شماتت اعدا کو ختم کردیا اور حماد بن سلیمان کے بعد علم کثیر کو رواج دیا۔
رَأیتُ أبَا حَنِیفةَ حین یُوْتی
ویُطْلُبُ عِلْمُہ بحرًا غَزِیرًا
میں نے ابو حنیفہ کو دیکھا جب ان کے سامنے مسائل پیش کیے جاتے اور امام ابوحنیفہ ہی ان کے واقف کار پائے جاتے ۔

قاضی ابو عبد اللہ حسین بن علی صیمری نے امام صاحب کے متعلق عبد اللہ بن مبارک کے ان اشعار کو نقل کیا ہے:
لقد زان البِلادَ ومَنْ عَلَیْہَا
إمامُ المسلمینَ أبو حَنِیْفَةَ
مسلمانوں کے امام ابو حنیفہ نے تمام شہروں اور جو کچھ ان میں ہے سب کو مزین کردیا ہے۔
بآثارٍ وفقہٍ في حدیثٍ
کآثارِ الزَبُوْرِ علی الصَحِیْفَةَ
ان کی حدیث اور فقہ نے صفحات ایسے مزین کردیے جیسے زبور کی آیات نے صفحات کو مزین کردیا تھا۔
فَمَا في المَشْرِقَیْنِ لہ نظیرٌ
ولا بالمَغْرِبَیْنِ ولا بکوفَةَ
امام ابو حنیفہ جیسے نہ مشرق میں ہیں اور نہ مغرب میں اور نہ ہی کوفہ میں ان جیسا پیدا ہوا۔
رأیتُ العَائِبِیْنَ لہ سفَاہَا
خلافُ الحَقِّ مع حججٍ ضعیفة
میں نے امام صاحب پر عیب لگانے والوں کو بے و قوف دیکھا، جنہوں نے ضعیف دلائل سے ان کا مقابلہ کیا ہے۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ85)

امام ابو حنیفہ خوش اخلاق تھے
عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں، امام صاحب کی مجلس سب سے زیادہ باوقار ہوا کرتی تھی،آپ خوش رو اور خوش اخلاق تھے، کپڑا صاف ستھرا زیب تن فرماتے تھے، ایک دن ہم لوگ جامع مسجد میں تھے، ایک سانپ امام صاحب کی گود میں گر گیا، لوگ بھاگ پڑے، لیکن امام صاحب سنجیدگی کے ساتھ اپنی جگہ بیٹھے رہے اور سانپ کو جھٹک دیا۔(تاریخ بغداد 13/337)

امام اوزاعی کی تنبیہ
عبداللہ بن مبارک فرماتے ہیں: میں امام اوزاعی کے پاس ملک شام گیا تو انہوں نے مجھ سے کہا اے خراسانی! یہ کون بدعتی کوفہ میں پیدا ہوگیا ہے، جس کی کنیت ابو حنیفہ ہے؟ عبد اللہ ابن مبارک فرماتے ہیں: میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں واپس گھر گیا اور امام ا بو حنیفہ کی کتاب لے کر اس میں سے عمدہ عمدہ مسائل منتخب کرکے تیسرے دن واپس امام اوزاعی کے پاس آیا، امام اوزاعی اپنی مسجد کے موٴذن اور امام تھے، میرے ہاتھ میں کتاب دیکھ کر امام اوزاعی نے کہا: یہ کونسی کتاب ہے؟ چناں چہ مجھ سے کتاب لے کر دیکھنا شروع کیا، جس میں تھا : قال النعمان، اذان کے بعد کھڑے کھڑے کتاب کے کچھ حصہ کو انہوں نے پڑھا، اس کے بعد ا پنے پاس رکھ لی اور نماز کے بعد پوری کتاب پڑھ لی اورفرمایا اے خراسانی! یہ کون نعمان بن ثابت ہیں؟ میں نے کہا: یہ ایک شیخ ہیں، جن سے میں نے عراق میں ملاقات کی تھی، تو اوزاعی نے کہا یہ بڑے عالی وقار شیخ ہیں، ان کی خدمت میں جاوٴ اور کثرت سے استفادہ کرو، اس وقت میں نے کہا یہ وہی ابو حنیفہ ہیں ، جن سے آپ منع کرتے ہیں۔(تاریخ بغداد13/338) علامہ صیمری نے اس پر اضافہ کیا ہے کہ اس کے بعد امام اوزاعی نے فرمایا میرے اوپر حرام ہے کہ میں تمہیں اس جیسے شخص سے علم حاصل کرنے سے روکوں، تم ان کو لازم پکڑ لو اور خوب استفادہ کرو، اس لیے کہ یہ علم کے سلسلے میں بہت عمدہ کلام کرتے ہیں۔(اخبار ابی حنیفہ واصحابہ 78)

امام ابو حنیفہ عبادت وریاضت میں یکتائے زمانہ تھے
منصور بن ہاشم کہتے ہیں: ہم لوگ عبد اللہ بن مبارک کے ساتھ قادسیہ میں تھے، کوفہ سے ایک شخص آیا اور امام صاحب کی غیبت کرنے لگا تو عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا: تعجب ہے، کیا تو اس شخص کی غیبت کرتاہے جنہوں نے پینتالیس سال تک پانچوں نمازیں ایک وضو سے پڑھی اور ایک رات میں پورا قرآن دو رکعت میں پڑھتے تھے؟ اور میں نے فقہ ان سے ہی حاصل کیا ہے۔(تاریخ بغداد 13/353) عبد ان کہتے ہیں عبد اللہ بن مبارک کی مجلس میں ایک شخص نے امام صاحب کی برائی کی تو ابن مبارک نے فرمایا خاموش ہو جاوٴ ۔اگر تم امام صاحب کو دیکھتے تو تم ان کو بہت عقل مند اور ذہین وسمجھ دار پاتے۔(الانتقاء 133)

امام ابو حنیفہ ورع وتقویٰ کے مینار ہیں
عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: میں کوفہ گیا اور لوگوں سے پوچھا سب سے زیادہ ورع وتقویٰ والے کون ہیں؟ تو لوگوں نے کہا: امام ابو حنیفہ۔(سیوطی، تبییض الصحیفہ ص:17)

عبد اللہ بن مبارک کا خود بیان ہے کہ میں نے امام صاحب سے زیادہ ورع وتقویٰ کسی میں نہیں دیکھا، جب کہ مال اور کوڑوں کے ذریعہ سے ان کو آزمایا گیا۔(تاریخ بغداد13/357)

عبد اللہ بن مبارک کے سامنے امام صاحب کا ذکر کیا گیا تو فرمایا: تم ایسے شخص کا ذکر کرتے ہو جس پر تمام دنیا پیش کی گئی تو وہ اس سے بھاگ گیا۔

امام صاحب اہل علم میں سب سے ممتاز تھے، عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں وہ شخص محروم ہے جس کو امام ابو حنیفہ کے علم سے حصہ نہیں ملا، معاملہ اتنا ہی نہیں ہے، بلکہ ابن مبارک تو امام ابو حنیفہ پر کسی دوسرے عالم اور امام کی ترجیح بھی گوارہ نہیں کرتے تھے، انہی سے یہ قول بھی منقول ہے کہ اگر مجھے افراط ِکلام کا الزام نہ دیا جائے تو میں امام ابو حنیفہ پر کسی کو ترجیح نہیں دوں گا۔(مناقب ابی حنیفہ للموفق 1/307)

امام ابو حنیفہ کی محدثانہ جلالت قدر اور فقیہانہ عظمت کے وہ اس قدر قائل تھے کہ اپنے حلقہ درس اور نجی محفل میں بے اختیار ان کے منھ سے یہ الفاظ نکل جاتے تھے اگر امام صاحب تابعین کے ابتدائی دور میں ہوتے تو وہ سب بھی ان کا اتباع کرتے۔(عبد القیوم حقانی، دفاع ابو حنیفہ ص:319، مکتبہ الریاض دیوبند)

امام صاحب غیبت سے کوسوں دور تھے
عبد اللہ بن مبارک کہتے ہیں: میں نے سفیان ثوری سے کہا ابو عبد اللہ (سفیان ثوری کی کنیت ہے) !ابو حنیفہ غیبت سے کتنا دور تھے؟ میں نے کبھی بھی ان کو دشمن کی غیبت کرتے ہوئے نہیں سنا، تو سفیان ثوری نے کہا: وہ بہت زیادہ سمجھ دار اور ذہین تھے، وہ کوئی ایسی چیز اپنے اوپر مسلط نہیں کرتے تھے جو ان کی نیکیوں کوضائع کردے۔(تاریخ بغداد13/361)

امام ابو حنیفہ اخلاقِ حسنہ کے جامع تھے
عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: میں کوفہ گیا اور وہاں کے علماء سے پوچھا کہ تمہارے شہر کے سب سے بڑے عالم کون ہیں؟ تو سبھوں نے کہا: امام ا بو حنیفہ، پھر میں نے دوسرا سوال کیا: لوگوں میں سب سے بڑے عبادت گذار اور سب سے زیادہ علم سے اشتغال رکھنے والے کون ہیں؟ تو تمام حضرات نے فرمایا: ابو حنیفہ، میں مختلف اخلاقِ حسنہ کے بارے میں ایک ایک کرکے پوچھتا رہا اور لوگ یہی کہتے رہے کہ ہم اِن اخلاق کے ساتھ امام ابو حنیفہ کے علاوہ کسی اور کو متصف نہیں جانتے ہیں۔(مقدمہ اعلاء السنن 21/12، مکتبہ اشرفیہ دیوبند)

عبد اللہ بن مبارک کا امام صاحب کو خراجِ عقیدت
عبد اللہ بن مبارک نے نہ صرف یہ کہ آپ کی شاگردی اختیار کی؛بلکہ آخری دم تک آپ کی صحبت میں رہے، بعض لوگوں نے یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی ہے کہ ابن مبارک بعد میں امام صاحب سے الگ ہوگئے تھے، حالاں کہ یہ دھوکہ ہے، ابن مبارک اخیر عمر تک آپ کی شاگردی پر فخر کرتے رہے اور وفات کے بعد آپ کی قبر پر آکر آپ کی عظمت اور رفعت شان کا اظہار کیاہے۔

بشر بن عثمان مروزی کہتے ہیں کہ عبد اللہ بن مبارک بغداد آئے تو لوگوں سے کہا: مجھے امام ابو حنیفہ کی قبر بتلاوٴ، تو لوگوں نے بتادی، تو وہ قبر کے پاس کھڑے ہوئے اور فرمایا: ابو حنیفہ!ابراہیم نخعی مرے تو انہوں نے اپنا خلیفہ چھوڑا، حماد بن سلیمان مرے تو انہوں نے بھی اپنا خلیفہ چھوڑا ابو حنیفہ ! تم اس حال میں دنیا سے گئے کہ ا پنا کوئی خلیفہ نہیں چھوڑا، اور یہ کہہ کر بہت روئے۔ (تذکرة النعمان اردو ترجمہ عقود الجمان، مترجم عبد اللہ بستوی، 333، شیخ الہند اکیڈمی دارالعلوم دیوبند)

امام ابو حنیفہ اللہ کی ایک نشانی ہیں
خطیب بغدادی نے عبد اللہ بن مبارک سے نقل کیا ہے کہ ا بو حنیفہ اللہ کی ایک آیت تھے، ایک آدمی نے کہا: ابو عبد الرحمن شرمیں آیت تھے یا خیر میں؟ تو انہوں نے فرمایا: آیت کا لفظ خیر ہی میں بولاجاتا ہے، چناں چہ کہا جاتا ہے: غایة فی الشر وآیة فی الخیر اس کے بعد قرآن کی ایک آیت تلاوت کی: ﴿وَجَعَلْنَا ابْنَ مَرْیَمَ وَأُمَّہُ آیَةً﴾ (الموٴمنون:50) ہم نے عیسیٰ بن مریم اور ان کی ماں کو قدرت کی ایک نشانی بنادیا۔(تاریخ بغداد 13/336)

امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کا کسی بات پر ا تفاق کرنا قوت کی دلیل ہے
عبد اللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے: جب کسی بات پر سفیان ثوری اور امام ابو حنیفہ اتفاق کرلیں تو وہ بات قوی ہوجاتی ہے، نیز انہوں نے فرمایا: جب امام ابو حنیفہ اور سفیان ثوری کسی فتویٰ پر متفق ہوجائیں تو پھر ان کے فتویٰ کے آگے کون ٹھہر سکتا ہے؟(تاریخ بغداد13/343) سیوطی فرماتے ہیں: ابن مبارک نے فرمایا جب یہ دونوں بزرگ کسی قول پر اتفاق کرلیں تو یہی میرا قول ہوگا،فذلک قولي․(تبییض الصحیفہ 17)

امام صاحب کی فراست
عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: میں نے امام صاحب کو مکہ مکرمہ کے راستے میں دیکھا کہ ان کے لیے ایک گائے کا بچھڑا بھونا گیا، ساتھیوں کی خواہش ہوئی کہ اسے سرکہ سے کھائیں،لیکن سرکہ ڈالنے کے لیے کوئی برتن نہیں تھا، لوگ حیران تھے کہ کس طرح سرکہ نکالیں؟! اتنے میں امام ابو حنیفہ کو دیکھا کہ ریتیلی زمین میں گڈھا کھودا پھر اس پر دستر خوان بچھایا اور دسترخوان پر سرکہ ڈال دیا اور لوگوں نے سرکہ کے ساتھ بھنا ہوا، گوشت کھایا اور کہنے لگے، آپ ہر چیز کو نہایت عمدہ طور پر کرتے ہیں، امام صاحب نے فرمایا خدا کا شکر کرو، یہ ایسی چیز ہے جس کا الہام اللہ کے فضل سے ہوا ہے۔(تذکرة النعمان 228)

امام صاحب علم کے مخزن تھے
ابو محمد حارثی نے حبان بن موسیٰ سے روایت کی کہ ایک دن عبد اللہ بن مبارک بیٹھے حدیث بیان کررہے تھے، فرمانے لگے حدثنی نعمان بن ثابت… نعمان بن ثابت نے مجھ سے حدیث بیان کی، کسی نے عرض کیا ابو عبد الرحمن! آپ کس کو مراد لے رہے ہیں؟ فرمایا، ابو حنیفہ کو جو علم کے مخزن ہیں، یہ سن کر بعض لوگوں نے حدیث لکھنا بند کردیا، عبد اللہ بن مبارک تھوڑی دیر چپ رہے، اس کے بعد فرمایا اے لوگو! آپ لوگ کتنے بے ادب ہیں!!! ائمہ کرام کے مراتب سے کس قدر ناواقف ہیں، علم اور اہل علم سے آپ لوگوں کو کتنی معرفت کم ہے، کوئی بھی ابو حنیفہ سے بڑھ کر اقتدا کے لائق نہیں، اس لیے کہ وہ امام تھے، متقی تھے، صاف اور بے داغ تھے، پرہیز گار تھے، عالم تھے، فقیہ تھے، انہوں نے علم کو بصیرت، فہم وفراست اور تقویٰ کے ذریعہ اس طرح کھول کر بیان کیا جیسا کہ کسی اور نے نہیں کیا، اس کے بعد قسم کھائی کہ ایک مہینہ تک سبق نہیں پڑھاوٴں گا۔(تذکرة النعمان151)

امام صاحب جرح و تعدیل کے امام تھے
امام صاحب نہ صرف حدیث اور فقہ میں امامت کے درجے پر فائز تھے، بلکہ آپ جرح وتعدیل میں بھی ممتاز مقام رکھتے تھے، عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں محمد بن واسع خراسان آئے تو قبیصہ نے کہا تمہارے درمیان داعی اسلام تشریف رکھتے ہیں، چناں چہ ان کے ارد گرد بہت سے لوگ جمع ہوگئے اور ان سے فقہ کے مختلف سوالات کئے، اس پر محمد بن واسع نے کہا کہ فقہ تو کوفہ کے جوان امام ابو حنیفہ کا پیشہ اور ان کا ہنر ہے، اس پر لوگوں نے کہا،لیکن ان کو حدیث کی اتنی معرفت نہیں ہے اس پر عبد اللہ بن مبارک نے فرمایا تم لوگ یہ بات کیوں کہتے ہو کہ انہیں حدیث کی معرفت نہیں ہے؟ ایک مرتبہ ان سے سوال کیا گیا کہ رطب کی بیع تمرسے جائز ہے یا نہیں؟ انہوں نے فرمایا اس میں کوئی حرج نہیں ہے تو لوگوں نے کہا کہ حضرت سعد کی حدیث اس کے خلاف ہے تو امام صاحب نے فرمایا وہ حدیث شاذ ہے، زید بن عیاش کی روایت قابل قبول نہیں ہے، جو شخص حدیث اور اس کے راویوں کے معاملے میں اس طرح درک رکھتا ہو اس کے بارے میں کیسے کہا جاسکتا ہے کہ انہیں حدیث کی معرفت نہیں تھی؟ (صیمری، قاضی ابوعبد اللہ حسین بن علی، اخبار ابی حنیفہ واصحابہ ص 12، دارالکتاب العربی بیروت 1976ء)

امام ابوحنیفہ کی رائے یا تفسیر حدیث
ایک دفعہ سلمہ بن سلیمان نے ان سے عرض کیا، آپ نے امام ابو حنیفہ کی رائے کو اپنی کتابوں میں تو شامل کرلیا ہے، مگر امام مالک کی رائے کو نہیں کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا اس لیے کہ وہ مجھے رائے نظر نہیں آئی، علامہ ابن عبد البر نے اس واقعہ کو سلمہ بن سلیمان کے حوالے سے یوں نقل کیا ہے:

”قلت لابن المبارک: وضعت من رأي أبي حنیفة ولم تضع من رأي مالک؟ قال لم أرہ علما․“(ابن عبد البر 2/1107، دار ابن الجوزی، المملکة العربیہ السعودیہ،جامع بیان العلم وفضلہ)

آپ نہ صرف امام صاحب کی رائے کو پسند کرتے تھے ؛بلکہ ان کی رائے کو حجت تسلیم کرتے تھے، چناں چہ فرماتے تھے کہ ابو حنیفہ کی رائے کا لفظ مت کہا کرو، بلکہ (ان کی رائے کو) حدیث کی تفسیر کہو۔ یعنی آپ کی ا پنی کوئی ذاتی رائے نہیں ہوتی ہے، بلکہ بعینہ کسی حدیث کی تفسیر ہوتی ہے، سوید بن نضر کا بیان ہے:
”سمعت ابن المبارک یقول: لا تقولوا رأي أبي حنیفة، ولکن قولوا تفسیر الحدیث․“

آثار واحادیث کے معانی کے لیے امام ابو حنیفہ کی ضرورت
عبد اللہ بن مبارک فرمایا کرتے تھے آثار واحادیث کو لازم سمجھو، مگر ان کے معانی کے لیے امام ابو حنیفہ کی ضرورت ہے، کیوں کہ وہ معانی کو بہتر جانتے ہیں، موفق نے آپ کا قول نقل کیا ہے کہ تمہارے اوپر حدیث پر عمل کرنا ضروری ہے اور حدیث کے سمجھنے کے لیے امام ابو حنیفہ کا قول ضروری ہے، تاکہ اس کے ذریعہ حدیث کی صحیح تاویل اور معنی معلوم ہوجائے۔(مناقب ابی حنیفہ موفق1/307) آپ کا قول ہے جب ہمیں کسی موضوع کی کوئی حدیث نہ ملے تو ہم ابو حنیفہ کے قول کو حدیث کے قائم مقام سمجھتے ہیں، انہی کا قول ہے اگر میں ابو حنیفہ سے نہ ملتا تو علم میں مفلس رہتا۔

”لولا لم ألق أبا حنیفة لکنت من المفالیس في العلم․“(مناقب ابی حنیفہ، موفق1/307)

حافظہ میں سب پر غالب
آپ فرماتے ہیں امام ابو حنیفہ حافظہ، فقہ ،علم، پرہیزگاری، دیانت اور تقویٰ میں سب لوگوں غالب تھے، علامہ کردری نے نقل کیا ہے:
”عن ابن المبارک قال: غلب علی الناس بالحفظ والفقہ والعلم والصیانة والدیانة وشدة ا لورع․“(مناقب کردری1 /229)

امام صاحب صرف ثقہ لوگوں سے صحیح حدیث لیتے تھے
امام عبد اللہ بن مبارک فرماتے ہیں: امام ابو حنیفہ علم کے بڑے حریص تھے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی صرف صحیح حدیث لیتے تھے، آپ کو ناسخ ومنسوخ کی خوب پہچان تھی اور صرف ثقہ لوگوں کی حدیث لیتے تھے اور حضور صلی الله علیہ وسلم کے آخری عمل کو لیتے تھے۔(امام ابو حنیفہ کی محدثانہ جلالت شان ص:219) ایک دفعہ فرمایا: میں نے قاضی حسن بن عمارہ کو اس حال میں دیکھا کہ انہوں نے امام ابو حنیفہ کے گھوڑے کی لگام پکڑی تھی اور کہہ رہے تھے اللہ کی قسم! میں نے فقہ میں ان سے زیادہ فصیح وبلیغ کلام کرتے ہوئے کسی کو نہیں دیکھا اور نہ صابر اور حاضر جواب، یہ اپنے وقت کے سید الفقہاء ہیں، ان کی شان میں سوائے حاسدوں کے کوئی بکواس نہیں کرتا۔(ایضاً، ص:220)

Flag Counter