Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

6 - 18
امت مسلمہ کے عروج وزوال کا سبب

ضبط و تحریر: ابوعکاشہ مفتی ثناء الله ڈیروی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف جامعہ فاروقیہ کراچیس

حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ العالیٰ ہر جمعہ جامعہ فاروقیہ کراچی کی مسجد میں بیان فرماتے ہیں۔ حضرت کے بیانات ماہ نامہ ”الفاروق“ میں شائع کرنے کا اہتمام کیا گیا ہے ،تاکہ”الفاروق“ کے قارئین بھی مستفید ہو سکیں۔ (ادارہ)

الله تعالیٰ کا ارشاد ہے:
﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّةً﴾
اے ایمان والو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ۔

﴿وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ﴾ اور شیطان کے نقش ہائے قدم کی اتباع نہ کرو۔

﴿إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْن﴾ بے شک وہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔
یہ سورہ بقرہ کی آیت نمبر دو سو آٹھ ہے۔ الله تعالیٰ کے اس ارشاد میں مضمون بہت واضح ہے۔ الله تعالیٰ اہل ایمان سے خطاب فرمارہے ہیں او رارشاد فرمارہے ہیں کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کی اتباع نہ کرو، اس لیے کہ شیطان تمہارا کھلا دشمن ہے۔ شیطان تمھارا بہت واضح دشمن ہے۔

ہم سب جانتے ہیں کہ الله تعالیٰ پر، اس کی ذات صفات پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر، اس کے رسولوں پر اور اچھی بُری تقدیر پر اور مرنے کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اب جو آدمی ایمان لاتا ہے، اس کا ایمان بظاہر نظر نہیں آتا، اس لیے کہ ایمان اندر کی چیز ہے۔ ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے اور ایمان میں ضعف یا قوت آتی جاتی رہتی ہے۔ یہ اللہ کا نظام ہے کہ اگر آدمی ایمان کو مضبوط اور قوی کرنے، زیادہ کرنے کی کوشش کرتا ہے تو ایمان بڑھتا ہے اور اگر خدانخواستہ، خدانخواستہ وہ ایمان کی طرف سے غافل ہو جاتا ہے تو اس کا ایمان گھٹتا اور کمزور ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”الإیمان یزید وینقص․“ (المصنف لابن أبی شیبہ، کتاب الإیمان، رقم الحدیث:30327)

ایمان گھٹتا بڑھتا رہتا ہے۔ اس کی سطح اوپر نیچے ہوتی رہتی ہے۔ چناں چہ جب ایمان بڑھتا ہے تو اعمال کی طرف رغبت اور شوق بڑھتا ہے۔جب ایمان گھٹتا ہے تو ایمان کے گھٹنے کی وجہ سے ایمان کے ضعف اورکمزوری کی وجہ سے اعمال کی طرف رغبت نہیں ہوتی۔

صبح شام ہم اس کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کبھی نماز پڑھنے کو جی چاہتا ہے، کبھی دعا مانگنے کو جی چاہتا ہے، کبھی تلاوت کرنے کوجی چاہتا ہے، کبھی خیر کے کاموں میں دل لگتا ہے۔ یہ اس بات کی علامت ہے کہ ایمان کی سطح بلند ہے۔ اس کے برخلاف، کبھی خیر کے کاموں میں دل نہیں لگتا، کبھی نماز میں دل نہیں لگتا، قرآن میں دل نہیں لگتا۔ یہ اس چیز کی پہچان اور علامت ہے کہ ایمان کی سطح نیچے ہوگئی۔

یہ بھی جان لیجیے کہ ایمان کیوں گھٹتا اور کمزور ہوتا ہے؟ جیسے جسم بیمار ہوتا ہے تو کمزور ہو جاتا ہے، آدمی کو چند روز بخار ہو جائے تو کمزور پڑجاتا ہے، اسی طرح ایمان بھی بیمار ہوتا ہے اور ایمان کی بیماری ”گناہ“ ہے۔ جب انسان گنا ہ کرتا ہے تو ایمان کی سطح نیچے ہوجاتی ہے۔

حدیث میں ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ آدمی جب اپنی نظر کی حفاظت کرتا ہے، مثلاً گھر سے بازار جاتا ہے تو قدم قدم پر بدنظری کے مواقع موجود ہیں۔ لیکن یہ آدمی اپنی نظر کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ میری نظر محفوظ رہے تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ الله تعالیٰ اسے ایمان کی حلاوت اور ایمان کی شیرینی عطا فرماتے ہیں۔”قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم: من نظر إلی محاسن امرأة فغض طرفہ فی أول نظرة رزقہ الله تعالیٰ عبادة یجد حلاوتھا فی قلبہ․“(نوادر الأصول فی أحادیث الرسول للترمذی، فی فضیلة غض البصر3/115)

اب یہ شخص بازار گیا اور اس نے اپنی نظروں کی حفاظت کی تو اس عمل کی وجہ سے اس کے ایمان نے ترقی کی۔ اگر اس کا الٹ ہو یعنی اس نے اپنی نظروں کی حفاظت نہیں کی… تو اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس نے ایمان کی حفاظت نہیں کی۔ تب ایمان کمزور ہو گیا۔ اب اس کا دل نماز میں نہیں لگے گا۔ اس کا دل دعا میں نہیں لگے گا۔ اس کا دل خیر کے کاموں میں نہیں لگے گا۔ چونکہ بدنظری گناہ ہے اور اس گناہ سے ایمان کی سطح نیچے آجاتی ہے۔ اسی طرح، کان ہے۔ اگر ہم نے کان کی حفاظت نہیں کی تو ایمان کی سطح نیچے آجائے گی۔ اسی طرح، ہماری زبان ہے۔ ہم نے اس کی حفاظت نہیں کی تو ایمان کی سطح نیچے ہوجائے گی۔

اگر ہم اپنے آپ کو گناہوں سے بچائیں گے تو ہمارے ایمان کی سطح بلندہوگی اور اگر ہم گناہوں میں مبتلا ہوں گے تو ہمارے ایمان کی سطح نیچے ہو گی۔

میں عرض کر رہا تھا کہ الله تعالیٰ فرما رہے ہیں:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ ادْخُلُواْ فِیْ السِّلْمِ کَآفَّةً﴾ کہ اسلام میں پورے کے پورے داخل ہو جاؤ۔ اسلام کیا ہے؟ اگر مختصر انداز میں بیان کیا جائے تو ”محمد رسول الله“ کا نام ہے؟ یعنی آپ صلی الله علیہ وسلم جو دین، جو شریعت، جو سنت، جو طریقے لے کر آئے ہیں انھیں مضبوطی کے ساتھ اختیار کرنا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم جو دین لائے، آج پوری دنیا میں جو حق اور باطل کا معرکہ ہے اور حق اور باطل کی جو جنگ ہے، اس کا نکتہ یہی ایک ہے․․ دو نہیں۔ وہ کیا ہے؟ محمد رسول الله!

باطل کو آپ کی نماز سے تکلیف نہیں۔ باطل کو آپ کے وضو سے تکلیف نہیں۔ آپ کے حج سے تکلیف نہیں۔ باطل کو آپ کی زکوٰة سے تکلیف نہیں۔ اس کو اگر تکلیف ہے تو وہ ہے، محمد رسول الله!

وہ یہ چاہتے ہیں کہ محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم جو دین لائے ہیں، جو طریقہ لائے ہیں، وہ ہم چھوڑ دیں۔ وہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں کو نہیں مانتے۔ یہ اصل جھگڑا ہے۔ اور یہ جھگڑا نیا نہیں، پرانا ہے۔ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہ کی جو تعلیم وتربیت کی، اس کا بنیادی مقصدیہی ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم کے زمانے میں بھی اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے اس دنیا سے پردہ فرمانے کے بعد بھی صحابہ نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے طریقے اور آپ کے لائے ہوئے دین کے حوالے سے کبھی بھی ادنیٰ درجے کی بے پروائی یا سستی قبول نہیں کی۔

جب آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس دنیا سے پردہ فرمایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پردہ فرمانے کے فوری بعد مختلف قسم کے فتنے شروع ہو گئے۔

خلیفہ اول حضرت ابوبکر صدیق رضی الله عنہ نے ان فتنوں کے بارے میں نہایت عزیمت و قوت اختیار فرمائی۔ صحابہ کرام رضوان الله علیہم اجمعین کا حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ کے بارے میں یہ خیال تھا کہ نرم طبیعت کے ہیں، لیکن حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین میں کسی قسم کی کمی برداشت نہیں کرسکتے تھے۔ آپ کا ارشاد ہے، ”أینقص فی الدین وأنا حیّٰ“ (التفسیر المظہری، سورة البقرة:254، 1/356) یعنی دین میں کمی ہو، نقص ہو اور ابوبکر زندہ رہے․․․ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ دونوں چیزیں جمع نہیں ہو سکتیں، ممکن ہی نہیں۔

چناں چہ حضرت صدیق اکبر رضی الله عنہ نے تلوار اٹھائی اور فرمایا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی حیاتِ مبارکہ میں جس طرح عمل ہوتا تھا، اسی طرح رہے گا۔ اگر اس میں کوئی کمی کوتاہی کرے گا تو میں اس سے اس تلوار سے حساب لوں گا۔

میں عرض کر رہا ہوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم جو دین لائے ہیں، اس دین پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنا․․․ اس امت کی کام یابی کی شان اور راز ہے۔ لہٰذا، صحابہ کرام رضو ان الله علیہم اجمعین نے نہایت مضبوطی کے ساتھ اسے اختیار کیا۔ اس کا نتیجہ کیا ہوا؟ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ الله تعالیٰ ان سے خوش ہو گئے، رضی الله عنہم ورضواعنہ۔

اس خوشی اور رضا کا اظہار اس طرح سے ہوا کہ الله تعالیٰ نے انہیں پورے عالم پر غلبہ عطا فرمایا۔ حالاں کہ ان کے پاس ظاہری اسباب نہیں تھے۔ وہ فوجیں، وہ حکومتیں، وہ ہتھیار، وہ طاقت اور قوت جو باطل کے پاس تھی، وہ ان کے پاس نہیں تھی۔ لیکن آسمان نے بھی دیکھا، زمین نے بھی دیکھا کہ الله تعالیٰ نے انہیں غلبہ عطا فرمایا۔

آج ساری دنیا پریشان ہے۔ ہم سب پریشان ہیں۔ سارے مسلمان پریشان ہیں۔ تمام مسلمان حکومتیں پریشان ہیں۔ نئے نئے طریقے، نئے نئے سلسلے شروع کیے جارہے ہیں کہ یہ پریشانی ختم ہو جائے، یہ ذلت اور رسوائی ختم ہو جائے۔ لیکن عجیب بات ہے کہ جو بہت سادہ، سہل، آسان طریقہ جسے اختیار کرنے کا حکم ہے، اسے اختیار کرنے کے لیے کوئی تیار نہیں۔

آج ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں کہ کیا مسلمان محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنت اور طریقے کو اختیار کرنے میں فخر کرتا ہے یا یہود، نصاریٰ، ہندوؤں کے طریقے اختیار کرنے میں فخر محسوس کرتا ہے؟

ہم محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی شکل وصورت اختیار کرتے ہیں یا یہود ونصاریٰ کی شکل وصورت اختیار کرتے ہیں؟

اصل یہی ہے کہ امت جب تک آپ صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں کو اختیار نہیں کرے گی، ممکن ہی نہیں کہ کامیاب ہوجائے۔ ممکن ہی نہیں۔ صرف ایک طریقہ ہے کام یابی کا، اور وہ ہے، محمد رسول الله آپ صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع، ہر چیز میں، رہن میں سہن میں، لباس میں ، شکل میں ، گھر میں، گھر سے باہر․․․ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقوں،سنتوں کے مطابق عمل کرنا۔

آپ مجھے بتائیے کہ اگر پاکستان کی فوج کا سپاہی ہندوستانی فوج کا لباس اورو ردی پہن لے تو کیا وہ زندہ رہے گا؟ گردن اڑا دیں گے کہ غدار ہے۔ اور محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا امتی جو یہود ونصاریٰ کا لباس اور شکل وصورت اختیار کرتاہے تو اسے کیا کہیں گے؟

آپ صلی الله علیہ وسلم فرماتے ہیں:”من تشبہ بقوم فھو منھم․“(مشکوٰة المصابیح، کتاب اللباس، الفصل الثانی، رقم الحدیث : 4347)

جو آدمی جس قوم کی مشابہت اختیار کرتا ہے، وہ ان میں شمار کیا جائے گا۔

جو یہود کا طریقہ اختیار کرے گا، وہ یہود میں شمار کیا جائے گا اور جو نصاریٰ کا طریقہ اختیار کرے گا، وہ نصاریٰ میں شمار ہو گا۔ جو ہندؤوں کا طریقہ اختیار کرے گا وہ ہندؤوں میں شمار ہو گا۔ او رجو محمد رسول الله کا طریقہ اختیار کرے گا وہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی امت میں شمار ہو گا۔ بہت واضح اور صاف بات ہے ۔

الله تعالیٰ ارشاد فرما رہے ہیں:﴿وَلاَ تَتَّبِعُواْ خُطُوَاتِ الشَّیْْطَانِ﴾ شیطان کے نقش ہائے قدم پر مت چلو، کیوں کہ ﴿إِنَّہُ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْن﴾ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے۔

یہ جنگ ہے۔ یہ جنگ شیطان کے ساتھ ہے۔ الله تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے کی نیت ہو گی، کوشش ہو گی تو الله تعالیٰ کی مدد آئے گی۔ الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں پر عمل کی نیت ہو گی، کوشش ہو گی تو الله تعالیٰ کی مدد آئے گی۔ الله تعالیٰ کی مدد اور نصرت الله تعالیٰ کے احکامات پر عمل کرنے میں ہے۔ الله تعالیٰ کی مدد و نصرت الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے طریقوں پر عمل کرنے میں ہے۔ جبکہ شکست، ذلت، رسوائی الله تعالیٰ کی نافرمانی کی وجہ سے ہے، الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کی وجہ سے ہے۔

میں نے عرض کیا کہ یہ مسئلہ امت کا ہے، امت کے ہر ہر فرد کا ہے۔ آج ہر گھر میں جو پریشانی، مشکل اور تکلیف کی فضا ہے، باپ بیٹے کے درمیان، بھائی بھائی کے درمیان، میاں بیوی کے درمیان․․․ وجہ کیا ہے؟ وجہ یہی ہے کہ ہم نے بحیثیت امتی اور فرد کے، الله تعالیٰ کی نافرمانی کی ہے، الله کے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نافرمانی کی ہے۔ اس کے نتیجے میں الله تعالیٰ خوش نہیں ہیں۔ الله تعالیٰ ناراض ہیں۔ او رجب الله تعالیٰ ناراض ہوں اور ہم یہ سوچیں کہ چین آئے گا، سکون آئے گا، اطمینان آئے گا، یہ ممکن ہی نہیں ہے۔

الله تعالیٰ ہم سب کو اپنے احکامات پر عمل کرنے کی اور اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کی کامل اتباع کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔

Flag Counter