Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

15 - 18
ساتھیوں کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کارحیمانہ سلوک

مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
	
قرآن کریم میں اللہ تعالی نے آپ صلی الله علیہ وسلم اورآپ صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ کی آپسی کیفیت کا بہترین انداز میں تذکرہ کیا ہے کہ” محمد صلی الله علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اوروہ لوگ جوان کے ساتھ ہیں وہ اہل کفر پر توسخت ہیں ، لیکن آپس میں ایک دوسرے کے لیے رحمت و شفقت اورخیر خواہی کا جذبہ رکھتے ہیں۔“(الفتح:29)

یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے رحیمانہ طرزِ عمل کا اثر تھا کہ صحابہ کرام آپس میں ایک دوسرے کے لیے مشفق ونرم تھے، نیز آپ صلی الله علیہ وسلم بھی اپنے صحابہ کے لیے نرمی ، محبت اوررحمت کے پہلو ہی کو ترجیح دیتے ، ساتھیوں کے ساتھ رحم وکرم کے پہلو پرآپ صلی الله علیہ وسلم کے بہت سے اقوال دال ہیں اوراس پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی عملی مثالیں بھی ملتی ہیں، اس لیے کہ رحم وکرم ہی سے آپسی محبت جنم لیتی ہے ، جب رحمت ہی رخصت ہوجائے تو محبت کا خاتمہ ہو جاتا ہے ، اب ظلم وجور کا آغاز ہوجاتا ہے ، جس سے دوستی، تعلق اورصحبت کا خاتمہ ہوجاتا ہے اوراتحاد واتفاق انتشار وافتراق میں تبدیل ہو جاتا ہے ، ایک دوسرے کے لیے بغض وعناد کا آغاز ہوجاتا ہے ۔

کسی بھی شخصیت کے خوش خلق ہو نے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اس کا برتاوٴ اس کے ہم نشینوں کے ساتھ کیسا ہے ؟ اس کے برتاوٴ سے اس کے ہم نشیں خٰوش ہیں یا نالاں؟ آیا اس کی مجلس کو وہ اپنے لیے خیر وبرکت کا باعث سمجھتے ہیں ،یا اس سے کنارہ کشی ہی میں عافیت محسوس کرتے ہیں؛بلکہ خود آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کے نزدیک بہترین لوگ وہ ہیں جو اپنے ساتھیوں کے ساتھ اچھے ہوں۔(ترمذی،حدیث نمبر:1994، باب فی حق الجوار) آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے ساتھ رہنے والے دونوں طبقے انصار صحابہ ومہاجرین دونوں کے ساتھ عمدہ طرز عمل کا مظاہر ہ فرمایا، ایک موقع پر صحابہ کے سلسلہ میں فرمایا: یہ لوگ میرے لیے دِثار یعنی بیرونی کپڑوں کے مانند ہیں اور انصار صحابہ میرے لیے شعار، یعنی ان اندرونی کپڑوں کے مانند ہیں، جو جسم سے لگے ہوئے رہتے ہیں ، یعنی میں انصار صحابہ کے ساتھ رہنے کو پسند کرتاہوں۔(بخاری ،حدیث نمبر:4330،باب غزوة الطائف)انصاریوں سے یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت تھی، ان سے قرب ان سے حسن سلوکگویا آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے لیے لازم کرلیا تھا، ایک موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم انصاریوں کی اہمیت وافضیلت ذکر کرتے ہو ئے فرماتے ہیں :اگرتمام لوگ ایک وادی کی طرف چلیں اور انصار ایک گھاٹی کی طرف چلیں تو میں انصارکی گھاٹی کی طرف چل پڑوں گا۔ (بخاری ،حدیث نمبر:4330،باب غزوة الطائف)گویا آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس بات کا اشارہ فرمادیاکہ وہ بہرصورت انصار کے ساتھ ہی رہنے کو پسند فرماتے ہیں؛چناں چہ فتح مکہ کے بعد بھی جب آپ صلی الله علیہ وسلم کے قیام کے سلسلہ میں چہ میگوئیاں شروع ہوگئیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے مدینہ ہی میں انصار کے ہمرا ہ قیام کو پسند فرمایا،نیز وہیںآ سودہ خواب ہوئے ،اسی تعلق ومیلا ن کااثرتھاکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے یہاں تک فرمادیاکہ اگر ہجرت کا معاملہ نہ ہوتاتو میں انصاریوں میں سے ایک فرد ہوتا۔ (بخاری، حدیث نمبر:3779،باب لولا الہجرة) نہ صرف یہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے انصارسے لگاوٴ ومحبت کا اظہار فرمایا؛بلکہ انصار صحابہ سے لگاوٴ ومحبت وتعلق کی تمام مسلمانوں کو وصیت کی،چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : جو شخص انصاریوں میں سے کسی بھی فرد کے کسی بھی معاملہ کاذمہ داربنے تو وہ شخص انصاریوں کے اچھے فرد سے حسن سلوک کرے اوران کے بُروں سے درگزرکرے؛بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو کسی قسم کی پہنچائی جانے والی تکلیف کو اپنی ذات کو پہنچنے والی تکلیف تک قراردیا۔ایک تو انصار مدینہ سے آپ صلی الله علیہ وسلم کا رحیمانہ طرز عمل تھا ، دوسرے عام مسلمانوں کو بھی آپ صلی الله علیہ وسلم انصاریوں سے محبت والفت ہی پرآمادہ کرتے ، ان سے محبت کے ساتھ پیش آنے کی انہیں ترغیب دیتے؛چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ پرآخرت کے دن پر ایمان رکھنے والا کوئی فرد انصار مدینہ سے ہر گز بغض نہیں رکھتا۔(مسلم،حدیث نمبر:76،باب الدلیل علی أن حب الأنصار)

ایک تو آپ صلی الله علیہ وسلم کا رحیمانہ طرزِ عمل ان اصحاب کے ساتھ تھا ،جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی مدینہ میں ہر قسم کی مدد کی تھی ، اسی طرح آپ صلی الله علیہ وسلم کا حسن سلوک ان مہاجرین کے تئیں بھی تھا ، جنہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کی خاطر آپ صلی الله علیہ وسلم کے لائے ہوئے دین کی خاطر، مکہ مکرمہ کو ،اپنے گھر بار کو،اپنے عزیز واقارب کو،اپنے دوست واحباب کو، اپنی من پسند سرزمین کو خیر آباد کہا تھا ،انصار مدینہ تو پھر بھی گھر ہی میں تھے ، ان مہاجرین کا نہ تو کوئی مونس تھا، نہ کوئی غم گسار ، نہ ان کے لیے کوئی ٹھکانہ تھا نہ کوئی پناہ گاہ، ایسے میں یہ مہاجرین ان انصاریوں سے کئی گنا زیادہ رحم وکرم کے مستحق تھے ،ایسے میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان مہاجرین صحابہ کی دل جوئی وخاطرداری ایسے فرمائی کہ ان کی انصاری صحابہ سے مواخات کروادی ، یہ مواخات حقیقی برادرانہ تعلقات پر بھی کئی گنا فوقیت رکھتی تھی ، کیوں کہ حقیقی بھائیوں میں جائیداد ووراثتوں ،مالی کاروبارکے سلسلہ میں رسہ کشی کا معاملہ ہوتا ہے ، یہ کیسی مواخات تھی کہ انصاری صحابہ صرف ایمان کی بنیا دپر ،رسول کی نسبت کی بنیاد پر اپنی جائیدادوں کو ،کاروبارکومہاجرین کے حوالے تک کرنے کے لیے تیار ہورہے تھے ، اس سے آگے بڑھ کراس مواخات کا یہ اثرتھا کہ انصار ی صحابہ مہاجرین کے لیے اپنی بیویوں تک سے دست برداری کو گواراکرنے لیے آمادہ تھے؛لیکن مہاجرین نے ان سب سے صرف نظرکرتے ہوئے بازار کارخ کیا، اورتجارت کے ذریعہ مدینہ منورہ میں اپنی شناخت قائم کرلی ،الغرض آپ صلی الله علیہ وسلم نے مہاجرین کے لیے ایسا طرز عمل اپنایا کہ ان کی اجنبیت یکلخت انسیت میں تبدیل ہوگئی، انہیں اپنی سابقہ بستی سے زیادہ اچھامدینہ منورہ لگنے لگا، ان کی پریشانیاں مواخات کی بدولت آسانیوں میں تبدیل ہو گئیں ،جیسے آپ صلی الله علیہ وسلم انصارصحابہ کے لیے دعاوٴں کا اہتمام فرماتے، اسی طرح مہاجرین کے لیے بھی دعاوٴں کااہتمام فرماتے؛چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم سے غزوہٴ خندق کے موقع پر جو دعا منقول ہے ،ا س میں جہاں انصار کا تذکرہ ہے وہیں مہاجرین کا بھی تذکرہ ہے کہ اے اللہ! خیرتو آخرت کی خیر ہے تو انصار ومہاجرین کی مغفرت فرما۔(بخاری ،حدیث نمبر:428،باب تنبیش قبورالمشرکین)غزوہ ٴ خندق کے موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم سمیت مہاجرین وانصار فاقہ سے تھے؛لیکن جب کھانا آیاتوآپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کھانے سے تمام صحابہٴ کرام کی ضیافت فرمائی، جس میں مہاجرین صحابہ بھی تھے۔ ان دونوں طبقوں کے علاوہ بھی آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے صحابہٴ کرام کے ساتھ عمومی طورپر حسن سلوک کرنے کی امت محمدیہ کو تعلیم دی، اپنے اصحاب کے سلسلہ میں زبان درازی سے منع فرمایا۔کہیں اپنے صحابی کا تذکرہ برائی سے کیا جارہا ہے تووہاں زبان روکنے کی تلقین فرمائی۔ ایک موقع پر تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:میرے صحابہ کو گالی مت دو،میرے صحابہ کو گالی مت دو، قسم بخدا! اگر تم احد پہاڑ کے برابر سونا خرچ کروگے تو بھی ان کے ایک مُد کے برابر نہیں پہنچوگے۔(بخاری ،حدیث نمبر:3673،باب قول النبی صلی الله علیہ وسلم :لوکنت)

الغرض آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ رحیمانہ طرزِ عمل ان ساتھیوں کے ساتھ ہے ، جو خلوت وجلوت میں آپ صلی الله علیہ وسلم کے ہم راہ تھے ،اسی رحیمانہ وکریمانہ پہلو کا اثر تھا کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ارد گرد ہزاروں صحابہ کرام کا اجتماع ہوگیاتھا ، ساتھیوں کے ساتھ اسی طرزِ عمل کا نتیجہ تھا کہ ہرکوئی اپنی جان سے زیادہ حضور کو عزیز رکھتا اورہمہ وقت آپ صلی الله علیہ وسلم کی ذات اقدس پرجان نچھاور کرنے لیے آمادہ تھا،اسی سلسلہ میں حضرت مفتی شفیع صاحب  فرماتے ہیں:یہ نرم خوئی ، خوش اخلاقی ، عفو ودرگزراورلطف ومہربانی والی صفات اگرآپ کے اندرنہ ہوتیں تو اصلاح ِ خلق کا جو کام آپ صلی الله علیہ وسلم کے سپرد ہے ، وہ حسب ِ منشا انجام نہ پاتا،لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذریعہ اپنی اصلاح اورتزکیہ اخلاق کا فائدہ حاصل کرنے کے بجائے آپ صلی الله علیہ وسلم سے بھاگ جاتے ،…جو شخص رشد وہدایت اوردعوت الی اللہ اوراصلاح ِخلق کا ارادہ کرے ، اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ صفات اپنے اند ر پیدا کرے؛کیوں کہ جب اللہ تعالی کے محبوب رسول صلی الله علیہ وسلم کی سختی برادشت نہیں ہوسکتی ،تو پھرکس کی مجال ہے کہ وہ تشدد وکج خلقی کے ساتھ خلق اللہ اپنے ارد گرد جمع کرے اوران کی اصلاح کا فرض انجام دے سکے ؛اس آیت میں حق تعالی نے ارشاد فرمایا کہ اگرآپ صلی الله علیہ وسلم تند خو، سخت طبیعت ہوتے تو لوگ آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس سے منتشرہوجاتے ، اس سے معلوم ہوا کہ مرشد ومبلغ کے لیے تند خوئی، سخت کلامی زہر ہے اوراس کے کام کو ضائع کرنے والی چیز ہے ۔(معارف القرآن 3/217)

الغرض صحابہ کرام کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا کیا جانے والا طرز عمل امت محمدیہ سے تقاضا کررہا ہے کہ وہ صحابہ کرام کا اکرام ملحوظ رکھیں ،ان کے سلسلہ میں زبان کو محفوظ رکھیں،ان کے سلسلہ میں ناشائستہ الفاظ کے ذریعہ ان کے احترام کو پامال نہ کریں، ان کی عزت واحترام کو دین کا بنیادی جز سمجھیں اور مبلغین ومصلحین کو چاہیے کہ وہ اپنے ساتھ رہنے والوں کے ساتھ نرمی، محبت، الفت،ہم دردی کے ساتھ پیش آئیں اورسختی ،تند خوئی اوردرشت روئی سے باز رہیں۔

Flag Counter