قران و حدیث کے روشنی میں
میاں بیوی کے حقوق اور ذمے داریاں
مولانا محمدنجیب قاسمی
اسلام نے جو معاشرتی نظام قائم کیا ہے اس کی بنیاد آپسی بھائی چارہ، میل جول اور باہمی محبت و الفت پر ہے اور معاشرتی نظام میں بنیادی اہمیت زوجین، یعنی میاں بیوی، کے تعلقات پر ہے ۔میاں بیوی کے تعلقات کی درستگی ہی کے باعث کوئی بھی معاشرہ مضبوط و مستحکم رہ سکتا ہے ۔
انسان صرف انفرادی زندگی نہیں رکھتاہے، بلکہ وہ فطرتاً معاشرتی مزاج رکھنے والی مخلوق ہے ،اس کا وجود خاندان کے ایک رکن اور معاشرہ کے ایک فرد کی حیثیت سے ہی پایا جاتا ہے ۔معاشرہ اور خاندان کی تشکیل میں بنیادی اکائی میاں بیوی ہیں، جن کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں:
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: اور (مردوں)عورتوں کا حق ایسا ہے جیسا کہ (مردوں کا)عورتوں پر حق ہے معروف طریقہ پر۔(سورة البقرة:228)اس آیت میں میاں بیوی کے تعلقات کا ایسا جامع دستور پیش کیا گیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہو سکتا اور اگر اس جامع ہدایت کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی ان شاء اللہ۔واقعی یہ قرآن کریم کا اعجاز ہے کہ الفاظ کے اختصار کے باوجود معانی کا سمندر گویا کہ ایک کوزے میں سمودیا گیا ہے۔ یہ آیت بتا رہی ہے کہ بیوی کو محض نوکرانی اور خادمہ مت سمجھنا، بلکہ یہ یاد رکھنا کہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں، جن کی پاس داری شریعت میں ضروری ہے ۔ان حقوق میں جہاں نان و نفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے، وہیں اس کی دل داری اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے ۔اسی لیے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم میں سب سے اچھا آدمی وہ ہے، جو اپنے گھر والوں (یعنی بیوی بچوں)کی نظر میں اچھا ہو ۔اور ظاہر ہے کہ ان کی نظر میں اچھا وہی ہوگا جو ان کے حقوق کی ادائیگی کرنے والا ہو۔دوسری طرف اس آیت میں بیوی کو بھی آگاہ کیا کہ اس پر بھی حقوق کی ادائیگی لازم ہے ۔کوئی بیوی اس وقت تک پسندیدہ نہیں ہو سکتی جب تک کہ وہ اپنے شوہر کے حقوق ادا کر کے اس کو خوش نہ کرے ۔
شوہر کی چند اہم ذمے داریاں، یعنی بیوی کے حقوق شوہر پر
مکمل مہر کی ادائیگی :اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:عورتوں کو ان کا مہر راضی و خوشی سے ادا کردو ۔(سورةالنساء:4)نکاح کے وقت مہر کی تعیین اور شب زفاف سے قبل اس کی ادائیگی ہونی چاہیے ،اگر چہ طرفین اتفاق سے مہر کی ادائیگی کو موٴخر بھی کر سکتے ہیں۔
بیوی کے تمام اخراجات :اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :بچوں کے باپ (یعنی شوہر )پر عورتوں (یعنی بیوی )کا کھانا اور کپڑا لازم ہے دستور کے مطابق۔(سورة البقرہ 232)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:عورتوں کے سلسلہ میں اللہ تعالیٰ سے ڈرو، کیوں کہ اللہ کی امان میں تم نے ان کو لیا ہے ۔(مسلم)
بیوی کے لیے رہائش کا انتظام:اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :تم اپنی طاقت کے مطابق جہاں تم رہتے ہو وہاں ان عورتوں کو رکھو۔(سورة الطلاق:6)اس آیت میں مطلقہ عورتوں کا حکم بیان کیا جارہا ہے کہ عدت کے دوران ان کی رہائش کا انتظام بھی شوہر کے ذمہ ہے ۔جب شریعت نے مطلقہ عورتوں کی رہائش کا انتظام شوہر کے ذمہ رکھا ہے تو حسب استطاعت بیوی کی مناسب رہائش کی ذمہ داری بدرجہ اولیٰ شوہرکے ذمہ ہوگی۔
بیوی کے ساتھ حسن معاشرت:شوہر کو چاہیے کہ وہ بیوی کے ساتھ اچھا سلوک کرے ۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :ان کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آؤ، یعنی عورتوں کے ساتھ گفتگو اور معاملات میں حسن اخلاق کے ساتھ معاملہ رکھو، گو تم انہیں پسند کرو، لیکن بہت ممکن ہے کہ تم کسی چیز کو برا جانو اور اللہ تعالیٰ اس میں بہت ہی بھلائی کردے ۔(سورة النساء:19)
بیوی کی چند اہم ذمے داریاں، یعنی شوہرکے حقوق بیوی پر
شوہر کی اطاعت :اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا :مرد عورتوں پر محافظ متنظم ہیں، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے ان میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اور اس وجہ سے (بھی)کہ مرد (ان پر)اپنے مال خرچ کرتے ہیں ،پس نیک بیویاں اطاعت شعار ہوتی ہیں، شوہروں کی عدم موجودگی میں اللہ کی حفاظت کے ساتھ (اپنی عزت کی)حفاظت کرنے والی ہوتی ہے۔ (سورة النساء :34)
رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا؛اگر عورت نے (خاص طور پر)پانچ نمازوں کی پابندی کی ،ماہ رمضان کے روزے اہتمام سے رکھے ،اپنی شرم گاہ کی حفاظت کی اور اپنے شوہر کی اطاعت کی تو گویا وہ جنت میں داخل ہوگئی۔
ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ مجھے عورتوں کی ایک جماعت نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک سوال کرنے کے لیے بھیجا ہے اوروہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے جہاد کاحکم مردوں کو دیا ہے، چناں چہ اگر ان کو جہاد میں تکلیف پہنچتی ہے تو اس پر ان کو اجر دیا جاتا ہے اور اگر وہ شہید ہوجاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ کے خصوصی بندوں میں شمار ہو جاتے ہیں کہ مرنے کے باوجود وہ زندہ رہتے ہیں اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے خصوصی رزق ان کو دیا جاتا ہے (جیسا کہ سورہ آل عمران 169 میں مذکور ہے) ہم عورتیں ان کی خدمت کرتی ہیں ،ہمارے لیے کیا اجر ہے ؟
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :جن عورتوں کی طرف سے تم بھیجی گئی ہو ،ان کو اطلاع کردو کہ شوہر کی اطاعت اور اس کے حق کا اعتراف تمہارے لیے اللہ کے راستے میں جہاد کے برابر ہے ،لیکن تم میں سے کم ہی عورتیں اس ذمے داری کو بخوبی انجام دیتیہیں ۔(بزاز طبرانی)
شوہر کے مال و آبرو کی حفاظت:اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: جو عورتیں نیک ہیں وہ اپنے شوہروں کی تابع داری کرتی ہیں اور اللہ کے حکم موافق نیک عورتیں شوہر کی عدم موجودگی میں اپنے نفس اور شوہر کے مال کی حفاظت کرتی ہیں ،یعنی اپنے نفس اور شوہر کے مال میں کسی قسم کی خیانت نہیں کرتی ہیں۔ (سورة النساء:34)
رسول اللہ انے ارشاد فرمایا:میں تمہیں مرد کا سب سے بہترین خزانہ نہ بتاؤں؟وہ نیک عورت ہے ،جب شوہر اس کی طرف دیکھے تو وہ شوہر کو خوش کردے ،جب شوہر اس کو کوئی حکم کرے تو شوہر کا کہنا مانے ۔اگر شوہر کہیں باہر سفر میں چلا جائے تو اس کے مال اور اپنے نفس کی حفاطت کرے ۔(ابو داؤد ،نسائی)
شوہر کے مال کی حفاظت میں یہ ہے کہ عورت شوہر کی اجازت کے بغیر شوہر کے مال میں سے کچھ نہ لے اور اس کی اجازت کے بغیر کسی کو نہ دے۔ ہاں! اگر شوہر واقعی بیوی کے اخراجات میں کمی کرتا ہے تو بیوی اپنے اور اولادکے خرچے کو پورا کرنے کے لیے شوہر کی اجازت کے بغیر مال لے سکتی ہے۔ جیسا کہ نبی اکرم ا نے ہند بنت عتبہ سے کہا تھا جب انہوں نے اپنے شوہر ابو سفیان کے زیادہ بخیل ہونے کی شکایت کی تھی :اتنا مال لے لیاکرو جو تمہارے اور تمہاری اولاد کے متوسط خرچہ کے لیے کافی ہو۔(بخاری مسلم)
گھر کے اندرونی نظام کو چلانا اور بچوں کی تربیت کرنا:یہ عورتوں کی بنیادی ذمہ داری ہے، جس کی ادائیگی ان پر لازم ہے ۔عورتوں کو اس ذمہ داری کے انجام دینے میں کوئی کمی نہیں چھوڑنی چاہیے، کیوں کہ اسی ذمہ داری کو صحیح طریقہ پر انجام دینے سے خاندان میں آرام و سکون پیدا ہو گا، نیز اولاد دونوں جہاں کی کام یابی و کام رانی سے سرفراز ہوگی ۔حضرت انس فرماتے ہین کہ جب صحابہ کرام اپنی بیٹی یا بہن کو رخصت کرتے تھے تو اس کو شوہر کی خدمت اور بچوں کی بہترین تربیت کی خصوصی تاکید کرتے تھے ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:عورت اپنے شوہر کے گھر میں نگہبان اور ذمہ دار ہے اور اس سے اس کے بچوں کی تربیت وغیرہ کے متعلق سوال کیا جائے گا۔(بخاری مسلم)
چند مشترکہ حقوق اور ذمہ داریاں
حتی الامکان خوشی و راحت و سکون کو حاصل کرنے اور رنج و غم کو دور کرنے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کرنا چاہیے ۔ایک دوسرے کے راز لوگوں کے سامنے ذکر نہ کیے جائیں ۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:قیامت کے دن اللہ کی نظروں میں سب سے بد بخت انسان وہ ہوگا جو میای بیوی کے آپسی راز کو دوسرے کے سامنے بیان کرے۔(مسلم)
اپنے اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچانے کے لیے مشترکہ فکر وکوششیں کریں ۔اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:اے ایمان والو! تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو اس آگ سے بچاؤ جس کا ایندھن انسان ہیں اور پتھر، جس پر سخت دل مضبوط فرشتے مقرر ہیں، جنہیں جو حکم اللہ تعالیٰ دیتا ہے اس کی نافرمانی نہیں کرتے، بلکہ جو حکم دیا جائے بجالاتے ہیں ۔(سورہ التحریم:6)
جب مذکورہ آیت نازل ہوئی تو حضرت عمر فاروق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تشریف لائے او ر فرمایا کہ ہم اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچا سکتے ہیں، مگر گھر والوں کا کیا کریں؟تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا:تم ان کو برائیوں سے روکتے رہو اور اچھائیوں کا حکم کرتے رہو،ان شاء اللہ یہ عمل ان کو جہنم کی آگے سے بچانے والا بنے گا ۔