Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق محرم الحرام 1437ھ

ہ رسالہ

17 - 18
موبائل انٹرنیٹ اور فیس بک… شیطانی تحفہ

محمد کاشف، متعلم جامعہ فاروقیہ کراچی
	
”زمانہٴ طالب علمی“ الله تعالیٰ کی طرف سے بہت بڑا انعام… اورر وشن مستقبل کا پیش خیمہ ہے، شیطان لعین ہمارے ایمان کا ڈاکو۔ اسے کیسے یہ گوارا ہو کہ ایک مسلمان اس مقام رفعت پر رہے ۔ جہاں چرند وپرند اور حجر وشجر اس کے لیے محوِ دعا ہوں… اور فرشتے اپنے پیروں کو اس کے قدموں تلے بچھا رہے ہوں … یقینا شیطان کو یہ خبر بھی ہے کہ یہی طالب علم فقاہت کے اس درجہ تک جا پہنچتا ہے … جہاں وہ ہزار عابدوں سے بھی زیادہ مضبوط ایمان والا بن جاتا ہے … یہی و جہ ہے کہ شیطان، حضرات طلبائے کرام پر ہر حربہ استعمال کر تا ہے … تاکہ یہ بہک جائیں اور بھٹک کر رہ جائیں … کل تک شیطان جو ”جال“ بچھاتا تھا… وہ باہمی حسد اور بغض کی صورت میں تھا… مگر زمانہ کی رفتار کچھ بڑھی … کچھ جدت نے سر اٹھایا… تو شیطان کے ہتھکنڈوں میں بھی ترقی آتی گئی… اب وہ جن طریقوں سے طلباء کو گم راہ کرنا چاہتا تھا… انہیں کے متعلق ”صاحبِ“ متاع وقت اور کاروان علم“ رقم طراز ہیں:

”جامعات ومدارس میں پڑھنے والے نوجواں، جو قوم کا مستقبل اور سرمایہ ہیں، ان کے اوقات کا ایک بڑا حصہ ہوٹلوں اور قہوہ خانوں میں فصول مجلسوں کی نذر ہو جاتاہے، محفل سجا کر گھنٹوں گپ بازی کالا یعنی مشغلہ ان کی محبوب عادت بن گیا ہے، تعطیلات کا طویل زمانہ بغیر کسی نظام الاوقات اور مفید مشورے کے یونہی گزر جاتا ہے اور تعلیم کا زمانہ پورا کرکے جب نکلتے ہیں تو پھر زبان حال سے پکار کر کہتے ہیں #
        اٹھا میں مدرسہ وخانقاہ سے غمناک
        نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت، نہ نگاہ“

یہ تو کچھ عرصہ پہلے تک کا معاملہ تھا… اب موبائل نے شیطان کا کام بہت آسان کر دیا ہے … اب ضیا ع وقت کے لیے نہ ہوٹلوں اور قہوہ خانوں تک جانے کی کچھ خاص ضرورت ہے اور ہی محفلیں سجانے کی… بلکہ اب حلقہٴ یاراں تک پہنچنے کے لیے بس ایک بٹن ہی آن کرنے کی دیر لگتی ہے… پہلے تعطیلات کا زمانہ یونہی گزرتاتھا… تو اب بات بے کاری سے بد کاری تک آن پہنچی … موبائل ،انٹرنیٹ اور فیس بک نے صرف ہمارے اوقات کو برباد نہیں کیا، بلکہ ہمارے ”ایمان“ پربھی کاری وار کیا ہے، آہ! صرف زیاں کا غم نہیں، بلکہ احساس زیاں کے فقدان پر بھی دل دکھی ہوتا ہے …

آج سے دو سال قبل ایک عالمی رپورٹ نظر سے گزری تھی، جس کے مطابق انٹرنیٹ استعمال کرنے میں پاکستان پہلے نمبر پر تھا … اور یہ اعزاز دوسری مرتبہ پاکستان کے حصہ میں آیا تھا … جس ملک میں افلاس زدہ بچوں کی حالت یہ ہو #
        سہمے سہمے رہتے ہیں، شرارت نہیں کرتے

وہاں کی عوام کا اس قدر گہرا انٹرنیٹ میں انہماک عذاب الہٰی نہیں تو کیا ہے ؟؟؟

جب کہ آپ یہ بھی بخوبی جانتے ہیں کہ اکثر یورپی ممالک میں انٹرنیٹ استعمال کرنے کے مخصوص شرائط ہیں، جن میں سے ایک عمر کی حد بھی ہے … ،مگر ہمارا ہر بچہ، ہر بوڑھا اور نوجوان بس اسی کا ہو کر رہ گیا ہے ۔

قارئین! عوام تو کالانعام ہیں… حیرت ہوتی ہے ان طلبائے کرام پر، جن کا اوڑھنا بچھونا سوائے :”قال الله وقال الرسول صلی الله علیہ وسلم“ کے کچھ نہ ہونا چاہیے تھا… وہ بھی اس ظالم شیطانی پھندے کا شکار نظر آرہے ہیں… اور پھر اگر کوئی دردمند ناصح انہیں نصیحت کرے تو جواب ملتا ہے … ہم ان سے دینی معلومات حاصل کرتے ہیں، کیا ان حضرات نے اپنی روزانہ پڑھی جانے والی قیمتی اور بابرکت کتب پر مکمل عبور حاصل کر لیا ہے جو اب انٹرنیٹ کی ضرورت پڑ گئی؟؟؟ نہیں، ہر گز نہیں، ایک طرف تو حالت یہ ہے کہ تعلیم برائے امتحان پاس کرنے تک محدود ہو چکی… جامعہ کی لائبریری نوحہ کناں ہے کہ نجانے علمی پیاسے کہاں گُم ہوتے جارہے ہیں … اور دوسری طرف تفسیر، حدیث اور فقہ وادب کے گھنٹوں میں اپنی تپائی کی اوٹ میں انٹرنیٹ اور فیس بک کی لعنت برس رہی ہو تو خاک دین کی خدمت ہوگی !!! بعض طلباء کافرمانا ہوتا ہے کہ یہ ہماری ضرورت ہے کہ ہم اپنے اقربا سے رابطہ رکھتے ہیں… اور اگر ان سے یہ کہا جائے کہ رابطہ تو فقط موبائل فون سے بھی تو ہو سکتا ہے تو جواب ملے گا ”کال“ مہنگی پڑتی ہے… تو گویا ہم چند روپے بچانے کی خاطر اپنا قیمتی وقت یوں برباد کر دیتے ہیں… عجب دانائی ہے ہماری !!!

انٹرنیٹ اور فیس بک کو حضرات طلبائے کرام جتنا ہی ”دین“ اور ”ضرورت“ کا لبادہ پہنانے کی کوشش کر لیں ان کی اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ ﴿قُلْ فِیْہِمَا إِثْمٌ کَبِیْرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُہُمَا أَکْبَرُ مِن نَّفْعِہِمَا﴾․(البقرة، آیت:219)

ترجمہ:” آپ فرما دیجیے کہ ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لیے منافع ہیں اور ان کا گناہ ان کے نفع سے بڑا ہے۔“ یہ آیت شراب اورجوئے کے متعلق نازل ہوئی۔ یہ بات بھی واضح رہے کہ فقہی رو سے حلت اور حرمت کے اجتماع کے وقت ترجیح حرمت کو ہوتی ہے … نیز علامہ خطابی  کا یہ قاعدہ بھی ہم پر عیاں ہے کہ ”کل امریتذرع بہ إلی محظور فھو محظور․“ (مشکوٰة، کتاب الزکوٰة) لہٰذا غلط نیت سے ان کااستعمال بطریق اولی ممنوع ہے، کیوں کہ ذرائع ، مقاصد ہی کے حکم میں ہیں۔

اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ ان میں ضرورةً جواز کا پہلو بھی ہے، مگر مستقبل کے ”راہروان قافلہٴ اسلام“ کا ان میں سوائے نقصان کے کچھ نہیں رکھا، فحاشی اور غیر اخلاقی، بلکہ ایمان سوز دعوت ان چیزوں کی اصل خلقت ہے، لہٰذا ایک بار پھر درد مندانہ التجا ہے کہ کسی قسم کے حسین دھوکے میں مت آئیے… یہ بھی عین ممکن ہے کہ آپ ہمیں جاہل اور مجنون سمجھ کر اپنے کو سمجھالیں… لیکن ہماری جہالت اور جنون آپ کی اس ہوشیاری اور ریڈی میڈ علم پر ہنستا رہے گا!!

یقینا بہت سے طلبائے کرام اس لت میں غرق ہیں… ہم نے ان کی خدمت میں دل جلا کے سرعام نہیں رکھا، بلکہ مدّعی بن کر ان کے قلب وضمیر کی عدالت میں دعویٰ دائر کر دیا ہے … اب یہ آپ پر ہے کہ آپ کے دل کا قاضی کیا حکم صادر فرماتا ہے ؟ ہمارے استہزا کا یا آپ کے فی الفور ترک انٹرنیٹ اور فیس بک کا؟؟؟

لیجیے اب فیصلہ آپ کے ہاتھ میں ہے ورنہ ہم تو #
        فقیرانہ آئے، صدا کر چلے
        میاں خوش رہو ہم دعا کر چلے

Flag Counter