فقہ اسلامی -امتیازات وخصوصیات
مفتی محمد عبدالله قاسمی
فقہ اسلامی ایک جامع نظام حیات ہے ،ایک معتدل ،متوازن اورعقل انسانی سے ہم آہنگ قانون ہے ،ایک جامع اورہمہ گیر ضابطہ زندگی ہے ،یہ وہ زندہ جاوید دستور ہے جو ہر شعبہ حیات میں انسان کی راہ نمائی کرتاہے، مصائب وپریشانیوں کے لیے نسخہ اکسیر کی حیثیت رکھتاہے، آقاوغلام ، حاکم ومحکوم ، امیر وغریب ہر ایک کے ساتھ مساویانہ سلوک پر یقین رکھتاہے ،رنگ ونسل اورجنس کی بنیاد پرامتیاز و تفریق سے بیر رکھتاہے ،یہ وہ شجر طوبی ہے جس نے اپنے راحت بخش سایوں اورروح پرور پھلوں سے پورے عالم کو مستفید کیا ہے اورتہذیب وتمدن کی تعمیر وترقی میں قابل لحاظ کرداراداکیاہے ،یہ وہ دستور العمل ہے جو چودہ سوسال سے لے کر آج تک اپنی ساری خصوصیات وامتیازات کے ساتھ برقرارہے اورانشاء اللہ تاقیامت برقرار رہے گا۔
اس وقت جب کہ سائنس وٹیکنالوجی کی حیرت انگیز ترقی اوروسائل زندگی میں غیر معمولی تغیر آجانے کی وجہ سے انسانوں کے وضع کردہ اصول وقوانین فرسودہ ہوچکے ہیں اورمحض کتابوں کی زینت بن کررہ گئے ہیں ،لیکن فقہ اسلامی آج بھی اپنی وسعت وہمہ گیری اورگوناگوں خصوصیات وامتیازات کی وجہ سے زندہ وتابندہ ہے اوردنیاکے ہر خطہ اورہر قوم کے لیے قابل عمل ہے ،ظاہر ہے کہ فقہ اسلامی کو بے شمار خصوصیات وامتیازات نے دوام اوراستحکام بخشاہے ،ذیل میں ان ہی خصوصیات کا اجمالا تذکرہ کرنا مقصود ہے :
عدل وانصاف
فقہ اسلامی کی بہت سی خصوصیات وامتیازات ہیں جو انسانوں کے خود ساختہ قوانین سے اس کو ممتاز کرتی ہیں ،فقہ اسلامی کا اولین امتیاز عدل وانصاف ہے ،فقہ اسلامی نوع انسانی کے ہر طبقہ ،ہر جنس اورہر فرد کے ساتھ عدل وانصاف پر زور دیتی ہے ،امیروغریب اورحاکم ومحکوم ہردوکے ساتھ مساویانہ سلوک پریقین رکھتی ہے ،اس کے برخلاف دنیا میں انسانوں کے وضع کردہ جواصول وقوانین ہیں اس کی بنیادہی ایک گروہ کے تفوق وبرتری اوردوسرے گروہ کی تذلیل اوراس کی حق تلفی پر ہے ،امریکہ اوریورپ جو اپنے آپ کو مساوات کا علم بردارکہتے ہیں وہاں نسلی امتیاز پر مبنی قوانین موجو د ہیں، اورشہریت کے مختلف درجات ہیں اوراسی نسبت سے ان کو رعایتیں اور سہولتیں فراہم کی جاتی ہیں ،یورپ کی بعض ریاستوں میں گوری اورکالی نسل کے مابین شادی نہیں ہوسکتی ،اگر کرلی جائے تو شادی قانونی لحاظ سے غیر معتبر ہوتی ہے اورپانچ سو ڈالر یا چھ مہینے کی قید یا دونوں سزائیں اس کا ارتکاب کرنے والوں کو دی جاتی ہیں۔
جامعیت وہمہ گیری
فقہ اسلامی کا ایک امتیازی وصف جامعیت اورہم گیریت ہے، چناں چہ اس میں ایک طرف عقائد وعبادات کے بارے میں ہدایا ت ہیں تودوسری طرف معاملات اورخاندانی تعلقات کے اصول وقوانین بھی ہیں ،اس میں بین الاقوامی روابط کے متعلق راہ نمائی بھی ہے اورسیاسی ومعاشی نظام کی صورت گری بھی ،دنیاکے وضعی قوانین میں اتنی جامعیت وہمہ گیریت نہیں ہے،عقائد واخلاق اورعبادات کے لیے ان قوانین میں کوئی جگہ نہیں ہے ،عابد ومعبود کے درمیان ارتباط وتعلق اورانسان پر خالق کائنات کے حقوق وفرائض کے بارے میں دنیاوی قانون میں کوئی راہ نمائی نہیں ہے ،جب کہ فقہ اسلامی ایک جامع ومکمل قانون ہے،جو انسان کے تمام شعبہ ہائے حیات کو محیط ہے اورقدم قدم پہ یہ انسان کی راہ نمائی کرتاہے اوراس کے لیے چراغ راہ کا کام دیتاہے ۔
توازن واعتدال
فقہ اسلامی کا ایک اامتیازی وصف توازن واعتدال ہے ،چناں چہ فقہ اسلامی مادیت اورروحانیت کا حسین امتزاج ہے ،فقہ اسلامی میں جہاں مادی اورجسمانی ضرورتوں کی تکمیل کے تعلق سے ہدایات ہیں وہیں خالق کائنات کے ساتھ عشق ومحبت اوراس کے ساتھ دائمی وابستگی پر بھی توجہ دی گئی ہے ،اسی طرح مردوعورت انسانی سماج کے دوبنیادی جز ہیں ،اسلام کا آفتاب طلوع ہونے سے پہلے دنیا میں ایسے قوانین تشکیل دیے گئے تھے جس کی رو سے عورت کی حیثیت جانور اوربے جان سی املاک کی ہوکر رہ گئی تھی ،نہ وہ کسی چیزکی مالک ہوسکتی تھی اورنہ وہ کوئی آزادانہ تصرف کرسکتی تھی ،یہاں تک کہ اہل علم کے درمیان یہ بحث جاری تھی کہ عورت انسان بھی ہے یا نہیں ؟اس کے بالمقابل اہل یورپ نے عورتوں کوتمام ذمہ داریوں میں مرد کے مساوی قرار دے دیا،عورتوں کی جسمانی کمزوری اوران کی طبیعت ومزاج کو یکسر نظر انداز کردیا ،اس کا نتیجہ یہ ہواکہ بہ ظاہر اسے عورت کی حمایت سمجھاگیا ؛لیکن انجام کار آزادانہ اختلاط مردوزن نے سماج اورمعاشرہ کو بے حیائی وبدکاری اور اخلاقی انارکی کا تحفہ دیا ،جس کے جاں بلب درد سے پورامغربی سماج کراہ رہاہے اورجس کے تباہ خیز نقصانات نے پورے مغربی معاشرے کو اپنے لپیٹ میں لے لیا ہے ،اسلام نے مرد وں اورعورتوں کے متعلق نہایت متوازن اورمعتدل قانون دیا ہے ،انسانی حقوق میں مرد وعورت کو مساوی درجہ دیا گیا ہے ؛لیکن تقسیم کار میں دونوں کے قویٰ اورصلاحیت کے لحاظ سے فرق کیاگیا ہے ،چناں چہ بچوں کی نگہ داشت اوران کی دینی تربیت کی ذمہ داری عورتوں پر اورکسب معاش کی ذمہ داری مردوں پر رکھی گئی ہے،یہ اسلام کا نہایت زریں اصول ہے ،اس سے خاندانی نظام مضبوط اورمستحکم ہوتاہے ،اخلاقی اقدار کی حفاظت ہوتی ہے ،اچھے اوصاف پر معاشرہ استوار ہوتاہے ۔
عقل وحکمت سے مطابقت
فقہ اسلامی کاایک امتیازی وصف یہ ہے کہ اس کے احکا م عقل وحکمت کے عین مطابق ہیں ،اس میں انسانی مصالح ومنافع کا پورالحاظ کیا گیاہے ،حتی کہ علامہ عزالدین بن عبد السلام فرماتے ہیں کہ پوری شریعت مصلحت سے ہی عبارت ہے اورہر حکم شرعی کا مقصد یاتو کسی مصلحت کو پانا ہے یاکسی نقصان کا ازالہ ہے ۔(قواعد الاحکام :1/9)اس کے برخلاف انسانی قوانین میں انسانی مصلحتوں کو یکسر نظرانداز کردیا گیاہے ،چناں چہ آج دنیا کے ان تمام ملکوں میں جو انسانی قانون کے زیر سایہ زندگی بسر کررہے ہیں ان میں شراب نوشی کی عام اجازت ہے ،حالاں کہ شراب انسان کے لیے نہایت نقصان دہ اورصحت وتن درستی کے لیے تباہ کن ہے ،اسی طرح میڈیکل ماہرین کا اس بات پر اتفاق ہے کہ غیرقانونی جنسی تعلق اورہم جنس پرستی نہایت مہلک فعل ہے اورنہ صرف اخلاقی لحاظ سے گھناؤنااورتباہ کن ہے ؛بلکہ طبی لحاظ سے بھی زہر ہلاہل سے کم نہیں ہے ،اس کے باوجو د تقریبا پوری دنیا میں ان خلاف فطرت امور کی قانونااجازت دے دی گئی ہے ۔
مصالح انسانی کا خیال
انسانوں کے لیے ضابطہ حیات مرتب کرنے کا حق صرف اسی ذات کو ہوسکتاہے جو ایک طرف انسان کی مصلحتوں اوراس کے حق میں نفع بخش چیزوں کو جانتاہواوراشیاء کے خواص ونتائج سے بھی پوری طرح آگاہ ہو تو دوسری طرف انسانی جذبات واحساسات اوراس کی خواہشات وضروریات سے اچھی طرح واقف ہو ،اگر وہ ان امور کی خبر نہیں رکھتاتو عین ممکن ہے کہ اس کے دیے ہوئے بعض احکام بجائے نفع کے نقصان اوربجائے فلاح وکام یابی کے خسران وناکامی کا باعث بن جائیں ،ظاہر ہے کہ ایسی علیم وخبیر ذات صرف اللہ کی ہوسکتی ہے ،کوئی انسان ہرگز یہ دعوی نہیں کرسکتاکہ وہ کائنات کے سارے حقائق ومعارف سے باخبر ہے ،اشیاء کے نفع ونقصان اوراس کے خواص ونتائج سے آشنا ہے ؛کیوں کہ انسان کی عقل کوتاہ واقع ہوئی ہے ،اس کی سوچ وفکر کا دائرہ نہایت ہی محدود اورتنگ ہے،دوسرے انسان پر طبعی خواہشات ومیلانات کا اس شدت سے غلبہ ہوتاہے کہ بسااوقات بعض ناقابل انکار حقائق سے بھی صرف نظر کرلیتاہے ،اورکبھی محدود اور جزوقتی مادی منفعت صحیح نتیجہ تک رسائی میں سدراہ ثابت ہوتی ہے ؛اس لیے بہر صورت خدائے وحدہ لاشریک لہ کا بنایا ہواقانون لازمی طورپر انسانوں کے بنائے قوانین سے فائق وبرتر ہوگا اورفطرت انسانی سے ہم آہنگ ہونے کے ساتھ ساتھ عدل وانصاف پر مبنی ہوگا ۔
یسراورنرمی
اسلامی قانون میں قدم قدم پر یسر اورنرمی کو ملحوظ رکھاگیاہے ،فقہ اسلامی میں کوئی ایساحکم نہیں ہے جس پر عمل پیراہونے سے انسان کسی مشکل میں پھنس جائے یاایسی ناقابل برداشت صورت سے دوچارہوجائے جس کی وجہ سے وہ فرائض وواجبات سے عہدہ برآنہ ہوسکے ،اس کی بہت سی مثالیں کتب فقہ سے پیش کی جاسکتی ہیں ،مثلا نماز اسلام کا دوسراعظیم الشان رکن ہے، نماز ہر مکلف پر ہردن پانچ بارفرض ہے اورایک نماز اداکرنے میں بمشکل دس بارہ منٹ لگتے ہیں ،کوئی شخص کھڑے ہوکر نماز اداکرنے پر قادر نہیں ہے تو شریعت نے اسے بیٹھ کر پڑھنے کی اجازت دی ہے ،اسلام کا چوتھارکن روزہ ہے ،یہ سال میں صرف ایک مہینے فرض ہے، اس میں بھی بیماری اورسفر میں اللہ تبارک وتعالی نے افطار کی رخصت دی ہے ،اسلامی قانون کی روسے مردار جانور کا کھانا حرام ہے؛لیکن اگر کوئی اضطراری صور ت پیش آجائے تو شریعت نے بقدر ضرورت اسے کھانے کی اجازت دی ہے ،قرآن وحدیث میں متعدد جگہوں پر سہولت اورنرمی کو اختیارکرنے پر زور دیا گیاہے اوراعمال شاقہ سے گریز کرنے کی تاکید کی گئی ہے ،فقہ اسلامی میں چار مکاتب فکر ہیں ،ان مکاتب فکر کے مابین فروعی مسائل میں اختلافات پائے جاتے ہیں ،پھر ہر مکتب فکر کے علماء سے بعض مسائل میں متعدد اقوال ملتے ہیں ،ظاہر ہے کہ ان تمام اقوال کا منبع اور سرچشمہ کتاب ا لہی اورسنت رسول صلی الله علیہ وسلم ہے، اوران سب کا مقصد تسہیل وتیسیر ہے ۔
دوام وتسلسل
کسی بھی قانون کے مفید اورفعال رہنے کے لیے جہاں یہ ضروری ہے کہ اس میں حالات اورمواقع کے لحاظ سے تبدیلی قبول کرنے کی گنجائش ہو وہیں ایک گونہ ثبا ت ودوام اوربقا واستمرار بھی ضروری ہے ؛کیوں کہ جوقانون بے لچک اورتغیر ناآشناہو ،جمود وٹھہراؤ اس کی طبیعت ہو تو وہ عصرجدید کے تقاضوں کو پورانہیں کرسکتا،نئے پیش آمدہ مسائل کے سامنے وہ ہتھیارڈال دیتاہے ،شریعت کے احکام میں ان دونوں پہلوؤں کی رعایت کی گئی ہے، چناں چہ شریعت نے جہاں تغیر کو تسلیم کیا ہے اورعرف کا لحاظ کرنے کی اجازت دی ہے ،وہیں دوام وتسلسل کی بھی ضمانت دی ہے ۔
فطرت انسانی سے ہم آہنگ
اسلامی قانون کے تمام احکام وہدایا ت فطرت انسانی سے ہم آہنگ ہیں ،اس میں انسان کے مزاج ومذاق اوراس کے طبعی رجحانات ومیلانات کی رعایت کی گئی ہے ،فطرت سے بغاوت وسرکشی انسان کے لیے ہمیشہ ہلاکت وبربادی کا پیش خیمہ ثابت ہوئی ہے،انسان کے بنائے ہوئے اصول وقوانین میں فطرت سے بغاوت کا رجحان قدم قدم پر ملتاہے ،مثلا زنا، ہم جنس پرستی غیر فطری عمل ہے ،اس کے باوجود وضعی قوانین کے زیرسایہ جو ممالک زندگی بسرکررہے ہیں ان میں قانونا اس کی اجازت ہے؛ جس کی وجہ سے بے حیائی ،بوالہوسی اوراخلاقی انارکی ان ممالک میں عام ہے ،فسق وفجور اوربے راہ روی ان میں روز افزوں ہے ، اسلام ہمیشہ سے ان افعال سے برسر پیکار رہاہے جو انسانی مصلحت ومفاد کے خلاف ہیں اوران سے کسی قیمت پر سمجھوتہ نہیں کیا ہے ۔
تنفیذکی قوت
اورایک چیز جو فقہ اسلامی کو وضعی قوانین سے ممتاز کرتی ہے وہ تنفیذکی قوت ہے ،قانون کے نفاذ کے لیے عموما دو طریقے اختیارکیے جاتے ہیں ،ایک تو سماج کے اندر قبول وطاعت کا جذبہ پید ا کیا جاتاہے اورترغیب وتحریض کے ذریعہ اصول وضوابط کاپابند بنا یا جاتاہے ،دوسرے قانون سے بغاوت کرنے والوں کے خلاف طاقت وقوت کا استعمال کیا جاتاہے، اورپولیس وعدلیہ کے ذریعہ انسان کو جرائم اورقانون شکنی سے باز رکھاجاتاہے؛ لیکن فقہ اسلامی میں اس سے آگے ایک اورعقید ہ ”آخرت کے عذ۱ب وثواب ” کاہے ،اسی لیے قرآن وحدیث اورتمام فقہی کتابوں میں ہر حکم شرعی ماننے کے ساتھ ثواب اوراس سے منھ موڑنے پر اللہ کی پکڑ کا ذکر موجود ہے ،یہ ایساانقلاب انگیز عقیدہ ہے جو طاقت ور سے طاقت ور انسان کو جرم سے باز رکھتاہے اورعادی سے عادی مجرم کو قانون کے سامنے سرتسلیم خم کرنے پر مجبور کردیتاہے،جب کوئی آنکھ دیکھنے والی نہیں ہوتی اورکوئی زبان ٹوکنے والی نہیں ہوتی اس وقت یہ عقیدہ اس کے ہاتھوں کی ہتھکڑی اورپاؤں کی زنجیر بن جاتاہے ،یہی وجہ ہے کہ اس پرفتن اورمہیب دور میں بھی مسلم سماج شراب کی لعنت سے نسبتا محفوظ ہے ،زنا اورہم جنس پرستی کے معاملہ میں بھی مسلم معاشرہ دوسری قوموں سے بدرجہا غنیمت ہے ،یقینا یہ ثواب وعذاب کا ہی عقیدہ ہے جو مسلم سماج کی نگرانی اورچوکسی کرتاہے اورجرائم ، بے حیائیوں اوربرائیوں سے اسے باز رکھتاہے ۔