دینی مدارس اسلام کے قلعے ہیں
مولاناعبدالرزاق قاسمی
تعلیم کسی بھی قوم کی تہذیبی اور تمدنی روایات کی آئینہ دار ہوتی ہے، کسی ملت کی تہذیب کے گیسو سنوارنے اور کسی ملک کی تہذیب کو پروان چڑھانے کے لیے ایک ہمہ گیر نصاب تعلیم ہی کو معیار قرار دیا جاسکتا ہے، اس لیے ہر زندہ قوم اپنے تشخص اور ملی وجود کو برقراررکھنے کے لیے اپنے نظام تعلیم کو ایسے رنگ ڈھنگ سے مرتب کرتی ہے کہ اس میں اپنی ثقافت کی روح بھی پھونک دیتی ہے اور اپنے مزاج کو بھی سمو دیتی ہے، تاکہ معاشرہ میں ہر فرد کی عملی وفکری تعمیر اس کی ثقافت اور اقدار پر پختگی کے ساتھ ہو، تاکہ نئی نسل جب مستقبل میں ملک وملت کی باگ ڈور سنبھالے یا کسی بھی سطح کی عملی زندگی میں قدم رکھے تو اپنے بنیادی عقائد ونظریات اور اساسی افکار وخیالات کی اس خوش اسلوبی سے خدمت کرے کہ وہ اپنا تشخص اور وجود برقرار رکھ سکے۔
بعثتِ نبوی سے پہلے انسانی معاشرہ کرب انگیزحالات سے دور چار تھا، علم ومعرفت سے دور ہو کر جہالت کے اندھیروں میں پڑا سسک رہا تھا، انسانیت، شرافت، مروت، ہم دردی وغم خواری جیسی صفات معاشرہ میں ناپید ہو گئی تھیں، ہر سو ظلمت وتاریکی چھائی ہوئی تھی، ایسے پر خطر حالات میں نبی امی، محمد مصطفیٰ، احمد مجتبیٰ صلی الله علیہ وسلم کو کوہِ حرا سے یہ پیغام سنایا جاتا ہے کہ پڑھیے اپنے رب کے نام سے، جس نے انسان کو جمے ہوئے خون سے پیداکیا۔ پھر دوبارہ حکم ملا پڑھیے، آپ کا پروردگار بڑا باعزت ہے، جس نے انسان کو قلم کے ذریعہ تعلیم دی اور وہ تمام باتیں سکھلائیں جو وہ نہیں جانتا تھا۔ دیکھیے! ایسے بگڑے ہوئے معاشرہ کی درستگی کے لیے جس چیز کو بنیاد بنایا گیا وہ تعلیم ہے، چناں چہ اس بات پر زور دیا گیا کہ خدائی تعلیمات اور آسمانی ہدایات کو حاصل کیا جائے، کیوں کہ ان کے ذریعہ انسان علم ومعرفت، انسانیت، شرافت، تہذیب واخلاق سے آراستہ ہو کر اپنے کھوئے ہوئے مقام کو حاصل کرسکے گا اور انسانی خوبیوں سے متصف ہو کر دنیا کے لیے رحمت کا سبب بنے گا۔ دنیا نے دیکھا کہ قرآن وحدیث کی حامل شخصیت محمد عربی صلی الله علیہ وسلم کی ذات بابرکت سے براہِ راست اکتسابِ فیض کرکے مصلحین امت کی وہ شان دار اور بے نظیر جماعت منصہ شہود پر آئی کہ رہتی دنیا تک لوگ ان کی مثال اور نظیر پیش کرنے سے قاصر ہیں۔ اس کے بعد جس مبارک جماعت نے ان کے نقش قدم پر چل کر امت کی راہ بری کا فریضہ انجام دیا وہ بھی اس امت کے قائدین میں نہایت اعلیٰ مقام رکھتے ہیں، امتِ مسلمہ نے ان کو تابعین کے باوقار لقب کے ساتھ موسوم کیا۔ یہ سلسلہ چلتا رہا اور بڑے بڑے مفسرین، محدثین، فقہاء اور مجتہدین پیدا ہوئے ،درجہ بہ بدرجہ اسلامی تعلیمات وہدایات کی پاسبانی کے لیے افراد تیار ہوتے رہے۔ اس کے بعد افراد سازی کے لیے اسلامی مملکت کے سربراہوں کی نگرانی میں ادارے وجود میں آئے، جہاں نہایت باصلاحیت علماء کو تدریس کے لیے مقرر کیا گیا۔ یہ طریقہٴ کار امت کے سامنے پائیدار نمونہ کی شکل میں وجود میں آیا اور اسلامی معاشرہ کے درمیان پوری آب وتاب کے ساتھ باقی رہا۔
ہندوپاک میں مدارس کا تاریخی پس منظر
برصغیر ہند وپاک میں مسلمانوں کا فاتحانہ داخلہ پہلی صدی ہجری، یعنی ساتویں صدی عیسوی (93ہجری) میں ہوا ،محمد بنقاسم نے جس وقت سندھ پر حملہ کیا اس وقت مسلمان سندھ پہنچ چکے تھے۔ ان فتوحات کے بعد مزید ترقی ہوئی، اس سلسلہ میں کتب رجال میں ایسے متعدد علماء، محدثین اور ادیبوں کے نام ملتے ہیں، جنہوں نے حجاز وعراق کے علماء سے سند قبولیت حاصل کی تھی۔برصغیر میں اسلامی حکومت کی بنیاد سلطان محمود غزنوی اور سلطان شہاب الدین غوری کی مجاہدانہ مساعی کی مرہونِ منت ہے، لیکن ایک علمی فاتح البیرونی اس سے قبل یہاں آچکا تھا، جس نے اس ملک کے علوم کو اپنی زبان میں منتقل کیا۔ محمود غزنوی کے جانشین شہاب الدین مسعود کے عہد میں بہ کثرت مساجد کی بنیاد پڑی اور ان کے ساتھ مدارس کا بھی انتظام کیا گیا۔ شہاب الدین غوری کی فتوحات کے بعد اجمیر میں متعدد مدارس قائم کیے گئے اور غالباً وہیں اس ملک کی قدیم درس گاہیں ہیں۔ سلطان محمد غوری کے غلام اور نائب السلطنت قطب الدین ایبک نے بھی ترویجِ علم کی طرف توجہ دی اور ملک کے مختلف حصوں میں بے شمار مساجد تعمیر کیں اور مدارس قائم کیے۔ برصغیر کے اس قدیم عہد میں مدارس کے لیے الگ عمارتیں بنانے کا سلسلہ نہ تھا، بلکہ یہ کام عموماً مساجد سے لیا جاتا تھا۔ مساجد کے علاوہ بزرگانِ دین کی خانقاہیں بھی مدارس کا کام دیتی تھیں، اس عہد کے مشائخِ عظام مشائخِ طریقت ہی نہ تھے ، بلکہ وہ مدرس شریعت بھی تھے، بڑے بڑے متبحر علما کے گھر او رمکان بھی دارالعلوم کی حیثیت رکھتے تھے، حکومت نے ان علماء کو فکر معیشت سے آزاد کر دیا تھا اور علم وحکمت کے پیاسے ان کی خدمت میں حاضر ہو کر اپنی علمی پیاس بجھاتے تھے، برصغیر کی علمی زبان فارسی تھی اور اسی میں درس و تدریس ہوتی تھی، صرف قرآن وحدیث کی تعلیم عربی میں دی جاتی تھی، ابتدائی جماعتوں میں قرآن پاک کے علاوہ لکھنا پڑھنا، حساب وکتاب اور خوش نویسی کی بنیادی تعلیم بھی دی جاتی تھی ، درمیانی تعلیم کے لیے طلبا قصبات اور شہروں کے فارسی مکتب میں داخل ہوتے تھے، جس کے بعد فارسی پڑھ کر سرکاری ملازمت سے منسلک ہو جاتے تھے او راعلی تعلیم کا شوق رکھنے والے طلباء بڑے شہروں اور بڑے مدارس میں اخلاقیات، ریاضیات ، زراعت، طب، الہیات او رتاریخ کی تعلیم حاصل کرتے تھے۔
شہاب الدین غوری کے ہاتھوں ہندوستان میں 589ہجری بمطابق1192 عیسوی کو اسلامی حکومت قائم ہوئی اور سلطنت کے قائم ہوتے ہی درس وتدریس کا چرچا بھی ہندوستان بھر میں پھیل گیا، اس آغاز سے مدارس کا سلسلہ چل نکلا، امراء وسلاطین اور علماء وفضلاء کی کوششوں سے ہندوستان کے ہر کونے میں مدارس قائم ہوتے چلے گئے۔ سلطان محمدغوری کے عہد میں دہلی میں ایک ہزار اسلامی مدارس قائم تھے، جن میں ایک مدرسہ شوافع کا بھی تھا، مدرسین کے لیے شاہی خزانہ سے وظیفہ مقرر تھا، مدارس میں علوم دینیہ کے ساتھ ساتھ ریاضی اور معقولات کی تعلیم بھی دی جاتی تھی۔ مسلم حکم رانوں کی جانب سے مدرسوں اور علماء کی سرپرستی بدستور جاری رہی، دہلی کی مرکزی حکومت کے کم زور پڑ جانے کے بعد بھی صرف اضلاع روہیل کھنڈ میں جو دہلی سے قریب تر تھے، پانچ ہزار علماء مختلف مدارس میں درس دیتے تھے او رنواب رحمت خان کی ریاست سے تنخواہیں پاتے تھے۔ مغلیہ بادشاہوں کے دور حکومت میں بھی دینی مدارس کی بھرپور سرپرستی کی گئی۔
انگریزوں کے دور میں دینی مدارس کا قیام
اوررنگ زیب عالم گیر کی وفات کے بعد سلطنت مغلیہ کا زوال شروع ہو گیا تھا اور اشاعت تعلیم دینیہ کے لیے حکومت کی سرپرستی بھی کم ہو گئی تھی سلاطین دہلی اور سلاطین مغلیہ کے عہد میں قائم ہونے والے دینی مدارس اور ان کے مصارف واخراجات کے لیے قائم کردہ اوقاف اور وظائف کو انگریزوں نے سوچی سمجھی اسکیم کے تحت ختم کر دیا اور ان کی جگہ انگریزی تعلیم کو رواج دیا۔ مسلمانوں کے پاس نہ حکومت تھی نہ سلطنت، نہ دولت تھی نہ ذرائع دولت ، مزید یہ کہ انگریز حکم ران وقت کے دشمنوں میں بھی مسلمان سر فہرست تھے۔
ان حالات میں مسلمانوں کا واحد سہارا الله تعالیٰ کی ذات اور اس کی بھیجی ہوئی تعلیمات تھیں، چناں چہ مسلمانوں نے اسی ذاتِ لازوال پر بھروسہ کرکے اس کے دین حق کی حفاظت کی او رمسلمانوں میں اس کی تبلیغ واشاعت کے لیے نئے سرے سے دینی مدارس کے قیام کا آغاز کیا۔ علمائے اسلام اور دینی علوم کے اساتذہ نے توکل علی الله کرکے درختوں اور دیواروں کے سایہ تلے الله اور اس کے رسول کی تعلیمات کو جاری ساری رکھا، ان پیکرانِ علم وعرفان اور زہد وتقویٰ کے حلقہٴ تلامذہ میں صرف ونحو، قرآن وحدیث اور فقہ وکلام کا سلسلہ شروع ہوا، آگے چل کر یہ حلقہ ہائے تعلیم وتعلم دینی مدارس کی شکل اختیار کرنے لگے۔ دینی مدارس کے لیے نئے دور کی بنیاد علماء کے علم وزہد، مخیر حضرات کے عطیات ، دین دار مسلمان زمین داروں او رتاجروں کے دیہی وشہری اوقاف پر رکھی گئی اور یہ دینی مدارس حکومتِ وقت کی امداد اور سرپرستی کے بغیر ہی اسلام کی اشاعت وترویج میں مصروف رہے اور مسلمانوں کا ملی تشخص انہی کی بدولت قائم ودائم رہا۔
مغلیہ سلطنت کے خاتمہ کے بعد تعلیم کی سرپرستی ختم ہوگئی، لیکن اس کے باد جو شاہ عبدالرحیم، حضرت شاہ ولی الله او ران کے خاندان نے علم کی تدریس وتبلیغ کا کام جاری رکھا، اسی طرح لکھنو میں علمائے فرنگی محل نے بھی تعلیم وتدریس کو آگے بڑھایا۔ اس کے بعد 1857ء کے ہنگامے نے جب دہلی کی سیاسی مرکزیت کو ختم کر دیا تو اس کی علمی اور تعلیمی مرکزیت بھی ختم ہو گئی، انگریز دہلی کی حکومت پر قابض ہو گئے، وہ متحدہ ہندوستان کے باشندوں کو جسمانی طور پر اپنا غلام بنانے میں کام یاب ہو چکے تھے او راب ان کو ذہنی غلامی کے شکنجے میں جکڑنا چاہتے تھے، تاکہ ان کی حکومت میں مزید استحکام پیدا ہو جائے، اس مقصد کو پایہٴ تکمیل تک پہنچانے کے لیے انہوں نے مختلف جگہوں پر مشنری اسکول قائم کیے، جہاں انگریزی زبان کے ساتھ ساتھ عیسائیت ، انگریری تہذیب وتمدن اور افکار وخیالات کی تعلیم دی جاتی تھی، انگریزوں کو اپنے مقصد میں کام یابی اس وقت خطرے میں پڑتی محسوس ہوئی جب انہوں نے دیکھا کہ سر زمین ہند پر ایک جماعت ایسی بھی ہے جو ان کے دام فریب میں آنے کے بجائے برٹش حکومت اور خاص طور پر اس کی ماتحتی میں قائم کیے گئے مشنری اسکولوں کے خلاف صدائے احتجاج بلند کر رہی ہے۔ یہ جماعت بوریہ نشین علماء کی تھی، جن کا احتجاج روز افزوں ترقی کر رہا تھا۔ انگریزوں کو اس بات کا احساس ہو چکا تھا کہ اگر چنگاری کو بروقت نہیں بجھایا گیا تو کل یہی چنگاری آگ بن کر ان کے مشن او ران کی حکومت کو راکھ کے ڈھیر میں تبدیل کر سکتی ہے، چناں چہ انہوں نے علمائے کرام کو نشانہ بنانا شروع کیا، نتیجہ یہ نکلا کہ علمائے کر ام پر طرح طرح کی زیادتیاں شروع ہوگئیں ، ان پر ظلم وستم کے پہاڑ توڑے گئے، تشدد کے نئے نئے طریقے آزمائے گئے، اتنا ہی نہیں بلکہ ہزاروں علماء کو سولی پر چڑھا کر یا آگ میں ڈال کر یا پھر گولیوں کا نشانہ بنا کر شہید کر دیا گیا او راتنی ہی بڑی تعداد کو جیل میں ڈال دیا گیا۔ ایسے پر آشوب حالات میں خاندان ولی الله سے فیض یافتہ تین علمائے کرام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی، حضرت مولانا محمد یعقوب نانوتوی اور حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نے دوسرے علماء سے مل کر اسلامی تعلیم اورد ینی تبلیغ کا ایک نیا سلسلہ شروع کیا اور مسلمانوں کے دین ومذہب، علوم وفنون، تہذیب وتمدن، اخلاق واعمال اور معاشرت وکلچر کی بقا کے لیے، نیز انگریزوں کی دینی وفکری یورش کا کام یابی سے مقابلہ کرنے کے لیے مدارس اسلامیہ کے قیام کی باقاعدہ جدوجہد کی او رمتحدہ ہندوستان میں مدارس کا جال بچھایا، جن میں سے چند مشہور مدرسوں کے نام درج ذیل ہیں۔
دارالعلوم دیوبند، مظاہر العلوم سہارن پور، دارلعلوم ندوة العلماء لکھنو، جامعہ قاسمیہ دارالعلوم شاہی مراد آباد، مدرسة الاصلاح سرائے میر، جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن۔ ان کے علاوہ اور بھی متعدد علمی مراکز وجود میں آئے اوراس طرح برصغیر ہند میں علوم اسلامیہ دینیہ کی ترویج واشاعت میں علماء کی خدمات کا سلسلہ جاری رہا۔ آج ہندوپاک کے جس گوشے میں بھی اسلام کی روشنی نظر آرہی ہے اور قال الله وقال الرسول کی آواز سنائی دے رہی ہے وہ انہیں مدارس کی بدولت ہے۔
جدید تعلیم کا احیا
اٹھارویں صدی میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے اقتدار حاصل کرنے کے بعد کلکتہ میں مدرسہ قائم کیا اور اس کے بعد سنسکرت کالج قائم کیا۔ برصغیر میں جدید انگریزی تعلیم کی تاریخ1797ء سے شروع ہوتی ہے۔ سرچارلس گرانٹ نے کمپنی کو خط لکھ کر یہ منظوری حاصل کی کہ ابتدا میں ذریعہ تعلیم ہندوستانی زبان میں ہو اور بعد میں بتدریج انگریزی کو رواج دیا جائے۔ 1855ء میں راجہ رام موہن رائے کی شرکت سے کلکتہ میں ایک انگریز نے کالج قائم کیا، اس طرح آہستہ آہستہ انگریزی تعلیم زور پکڑتی گئی، ہندوانگریزی سے مستفیض ہو کر ملازمتیں حاصل کرتے رہے اور مسلمان انگریزی سے دور رہ کر ملازمتوں کے دروازے اپنے اوپر بند کرتے رہے۔ 1834ء میں عدالتوں سے فارسی زبان کو خارج کر دیا گیا اور اسی سال لارڈ میکالے نے اپنی کوششوں سے انگریزی تعلیم کا اجرا منظور کروایا اور کلکتہ، مدراس اور بمبئی میں یونی ورسٹیاں قائم کی گئیں، مسلمانوں کے تمام اوقاف ضبط کر لیے گئے اور ان اوقاف کی آمدنی دوسری قوموں پر صرف کی گئی، مسلمانوں کا نظام تعلیم جس کا دار ومدار انہی معاشیات پر تھاتہہ وبالا ہو گیا۔
مدارس کی تربیت کا رخ
ہندوستان کے بدلتے ہوئے حالات میں مدارس دینیہ کا سب سے بڑا کام یہ ہے کہ مسلمان کو بلحاظ دین ومذہب اور بلحاظ معاشرت موجودہ حالات کی رو میں بہنے نہیں دیا، بلکہ پختگی وعزیمت کے ساتھ انہیں اسلامی سادگی اور دینی ثقافت کے زاہدانہ ومتوکلانہ اخلاق پر قائم رکھا، جو بدلتے ہوئے تمدن ومعاشرت میں ایک مشکل امر تھا، اس طرح مسلمانوں میں اسلامی مدنیت کا عام نقشہ قائم رہا، جدید تمدن ومعاشرت میں اغیار کی نقالی کا غلبہ نہیں ہو سکا اور اسلامی غیرت وحمیت باقی رہ گئی۔ اغیار کی نقل کے بجائے سنتِ نبوی کو معیار زندگی بنانے کے جذبات عام مسلمانوں میں پیدا ہوگئے، جس سے آج تک عام تمدن ومعاشرت میں پرہیزگاری اور تقویٰ وطہارت قائم ودائم ہے اور اس طرح امکانی حد تک دین میں آزاد فکری، آزاد روشی اور بے قاعدگی کی مداخلت پر روک لگ گئی۔
قصہ مختصر یہ کہ آج برصغیر میں اسلام انہی مدارس کی وجہ سے قائم ہے، انہیں مدارس کے اہل علم سے فیض پاکر وہ علماء وفضلاء تیار ہوئے جنہوں نے تعلیم، تصنیف، خطابت ، تذکیر ، تبلیغ، تزکیہٴ اخلاق، افتاء درس وتدریس ،امامت وحکمت اور طب وغیرہ میں بیش بہا خدمات انجام دیں۔ ان علماء وفضلاء نے کسی مخصوص خطہ میں نہیں ،بلکہ ہندو پاک کے ہر صوبہ، ہر شہر، ہر قصبہ، ہر محلہ اور ہر قریہ سمیت بیرون ممالک میں بھی مذہب اسلام کی تعلیم وتبلیغ میں کارہائے نمایاں انجام دیے۔
مدارس کا نصاب تعلیم
مدارس کے نصاب تعلیم کو نہایت ہی بنیادی واساسی اہمیت حاصل ہے، جس سے یہاں کے فارغ التحصیل علماء کا دینی رخ متعین ہوتا ہے۔ درجات عربیہ میں بہت سارے علوم وفنون داخل ہیں، جن میں کچھ علوم عالیہ ہیں، جو مقاصد کا درجہ رکھتے ہیں او رکچھ علوم آلیہ ہیں جو علوم عالیہ کے لیے ممد ومعاون یا وسائل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ علوم عالیہ قرآن وحدیث، تفسیر، اصول تفسیر، حدیث، اصول حدیث، فقہ، اصول فقہ، علم عقائد وکلام وغیرہ۔ علوم آلیہ صرف ونحو، معانی وبیان، ادب عربی، منطق، فلسفہ وغیرہ۔ ان ہی کتابوں کو پڑھ کر بڑے بڑے مفسرین محدثین، علماء وفضلاء تیار ہوتے رہے ہیں، ہو رہے ہیں او رانشاء الله ہوتے رہیں گے۔