Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1437ھ

ہ رسالہ

17 - 17
مبصر کے قلم سے

ادارہ
	
تبصرہ کے لیے کتاب کے دو نسخے ارسال کرنا ضروری ہے۔ صرف ایک کتاب کی ترسیل پر ادارہ تبصرے سے قاصر ہے۔ تبصرے کے لیے کتابیں صرف مدیر الفاروق یا ناظم شعبہ الفاروق کو بھیجی جائیں (ادارہ)

أحسن التفیہم لمسئلة التعلیم
مسئلہ تعلیم سے متعلق یہ رسالہ حضرت مولانا محمد ادریس کاندھلوی رحمة الله علیہ نے تالیف فرمایا ہے جس میں دینی تعلیم، انگریزی تعلیم اور دونوں کی مخلوط تعلیم پر مختصر مگر جامع گفت گو کی گئی ہے، چناں چہ اس میں عربی تعلیم، نصاب تعلیم، مدت تعلیم، برصغیر میں موجود مدارس کی اقسام اور ان پر مختصر تبصرہ، انگریزی تعلیم کا حکم اور عربی وانگریزی مخلوط نظام تعلیم کے مفاسد وغیرہ امور کو زیر بحث لایاگیا ہے۔ چناں چہ ایک جگہ حضرت فرماتے ہیں:

”میرا مقصد یہ نہیں کہ انگریزی تعلیم نہ دی جائے یا انگریزی کی تعلیم ناجائز ہے، اگر اسلامی سلطنت کی ضرورت کے لیے انگریزی پڑھی جائے تو وہ فقط جائز ہی نہیں بلکہ واجب کے درجہ میں ہو سکتی ہے، بشرطیکہ فقط زبان مقصود ہو، نصرانیت کے رنگ سے پاک ہو۔ میرا مقصد فقط اتنا ہے کہ عربی تعلیم کو انگریزی تعلیم کے ساتھ مشروط اور مخلوط نہ کیا جائے، عربی علیٰحدہ پڑھی جائے اور انگریزی علیٰحدہ۔ عربی اور انگریزی کی مخلوط تعلیم سے دین کا رنگ باقی نہیں رہتا۔﴿صِرَاطَ الَّذِیْنَ أَنعَمتَ عَلَیْہِمْ﴾ صراط (راستہ) ﴿مَغضُوبِ عَلَیْہِم﴾ اور﴿ضَالِّیْن﴾ کے راستہ سے بالکل مغایر اور مباین(مخالف) ہے، جو لوگ نظریہٴ امتزاج کے قائل ہیں وہ یہ نہیں خیال کرتے کہ ضدین کا امتزاج محال ہے۔“

اسی طرح ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
”انگریزی تعلیم کا حکم شرعی یہ ہے کہ انگریزی اپنی ذات سے ایک زبان ہے اور باعتبار عرف کے ایک خالص نصاب کا نام ہے ،جو مختلف علوم وفنون کا حامل ہے۔ شریعت نے کسی زبان یا کسی علم وفن کا سیکھنا ممنوع قرار نہیں دیا لیکن قبائح(برائیوں) او رمفاسد کے مل جانے کی وجہ سے ممنوع ہونے کا حکم لگایا گیا ہے۔

مشاہدہ اور تجربہ سے ثابت ہو چکا ہے کہ موجودہ انگریزی تعلیم کا یہ لازم اثر ہے کہ وضع قطع شرعی نہیں رہتی۔ عقائد بھی متزلزل ہو جاتے ہیں، مغربیت کی محبت اور عظمت نظروں میں ایسی سما جاتی ہے کہ اسلام اور خلافت راشدہ اس کے مقابلہ میں ہیچ نظر آنے لگتی ہے، حتی کہ اسلام اور مسلمانوں سے دلی ہم دردی نہیں رہتی۔ اسلامی تمدن کو حقارت اور نفرت کی نظروں سے دیکھتے ہیں، احکام شرعیہ کی قلب میں کوئی وقعت نہیں رہتی، مسجد کے بجائے سینما اور قرآن کریم کی تلاوت کے بجائے ناول ان کا محبوب بن جاتا ہے حتی کہ رفتہ رفتہ مزاج ہی بدل جاتا ہے اور بجائے اسلامی مزاج کے مغربی مزاج ہو جاتا ہے اور ظاہر ہے کہ یہ تمام امور الله اور اس کے رسول کے نزدیک مبغوض(جس سے بغض رکھا جائے) اور ملعون (جس پر لعنت کی جائے) ہیں اور دین کی بربادی اور تباہی کا پورا سامان ہیں۔ ان قبائح اور مفاسد کی بناء پر علماء نے انگریزی تعلیم کے عدم جواز کا فتوی دیا اور اگر انگریزی تعلیم ان مفاسد سے خالی ہو تو پھر ناجائز نہ ہو گی بلکہ اگر کوئی شخص دنیاوی ضرورت سے انگریزی پڑھنا چاہے تو وہ ضرورت اگر شرعاً جائز ہو تو انگریزی پڑھنا جائز ہو گا ورنہ ناجائز ہو گا۔ اور اگر کسی دینی ضرورت سے انگریزی پڑھے مثلاً مخالفین کے اعتراضات کا جواب دینے کے لیے، یا مخالفین کو دعوت اسلام دینے کے لیے پڑھے یا تاکہ کفار سے اسلامی حکومت کے معاملات میں مراسلت او رمکاتیب کرسکے تو یہ صرف جائز نہیں بلکہ عین قربت وعبادت ہے او راگر محض دنیوی ترقی کے لیے پڑھے تو اس کا یہ حکم نہیں۔“

اس رسالے کے آخری میں” تحقیق تعلیم انگریزی“ کے عنوان سے حضرت تھانوی رحمة الله علیہ کا ایک مضمون بھی شامل کیا گیا ہے، جس میں حضر ت تھانوی رحمة الله علیہ نے بطور قواعد کلیہ کے ابتداء میں دس مقدمات ذکر کرکے ان کی روشنی میں انگریزی تعلیم سیکھنے کا حکم بیان فرمایا ہے۔ یہ رسالہ نہایت جان دار ،پُرمغز اور مضبوط ومدلل گفتگو پر مشتمل ہے۔

آج کل انگریزی نظام تعلیم اور خصوصاً دینی وعصری مخلوط نظام کے حق میں مختلف اطراف سے صدائیں بلند ہوتی رہتی ہیں، جب کہ مدارس کے خالص دینی نظام تعلیم کو بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے، حالاں کہ دینی وعصری مخلوط نظام تعلیم کی ناکامی اور مفاسد کے ماضی قریب وبعید میں کئی تجربے ہوچکے ہیں، حضرت مولانا محمد ادریس کا ندھلوی رحمة الله علیہ نے بھی زیر نظر رسالے میں اس کی کئی مثالیں اور متعدد مفاسد ذکر کیے ہیں، علماء ،طلبہ اور زیر بحث موضوع سے دلچسپی رکھنے والے حضرات کو اس رسالے کا ضرور مطالعہ کرنا چاہیے۔

درمیانے سائز کے چوالیس صفحات کا یہ رسالہ کارڈ ٹائٹل کے ساتھ شائع کیا گیا ہے اور ملنے کا پتہ ہے: مکتبہ سید احمد شہید، اردو بازار لاہور، مکتبہ قاسمیہ، الفضل مارکیٹ، اردو بازار، لاہور۔

الترتیب اللطیف في قصة الکلیم والحنیف
زیر نظر رسالے میں حضرت تھانوی نے حضرت موسی اور حضرت ابراہیم علیہما السلام کے واقعات کو قرآنی آیات کی روشنی میں بیان فرمایا ہے۔ ”حرف آغاز“ میں سبب تالیف کو بیان کرتے ہوئے حضرت تھانوی  فرماتے ہیں:

”ان دونوں قصوں کے اس طرح لکھنے کی وجہ یہ ہوئی کہ جب میں نے تفسیر بیان القرآن لکھنے کا ارادہ کیا، خیال آیا کہ یہ دونوں قصے قرآن مجید میں متعددمواقعمیں اس طرح وارد ہوئے ہیں کہ کوئی جزء کہیں اور کوئی جزء کہیں۔قرآن مجید کی جو غرض ہے وہ تو اس طرح بھی حاصل ہے کہ ہر جزء تذکر وتفکر کے لیے فرد اً فرداً بھی کافی ہے، مگر مفسر کو ترتیب معلوم نہ ہونے سے تفسیر کے بعض اشکالات لاحق ہو جاتے ہیں۔

اس خیال سے کہ خود کو مذکورہ قصص کی تفسیر لکھنے میں سہولت ہو، آیات میں غور کر کرکے اوّل ان دونوں قصوں کو مرتَّب لکھ لیا کہ تفسیر میں مدد ملے گی۔چناں چہ بفضلہ تعالیٰ تفسیر ختم بھی ہو گئی، چوں کہ اس ترتیب خاص سے لکھا ہوا قصہ عام شائقین کیحظ ودلچسپی کا یقیناموجب ہے، اس لیے مستحسن معلوم ہوا کہ اس کو اسی طرح مستقلاً بھی شائع کر دیا جائے کہ اخبار وحکایات کے دیکھنے والے، اوروں کو جگہ ، یا اوروں سے زیادہ، یا اقل درجہ اوروں کی طرح اس کو بھی دیکھا کریں کہ لذت کی لذت، ثواب کا ثواب ۔

چوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا قصہ قرآن میں زیادہ جگہ آیا ہے اس کو مقدم رکھا اور اس وجہ سے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کا لقب کلیم اور حضرت ابراہیم علیہ السلام کا لقب حنیف ہے او رموضوع رسالہ کا ان دو قصوں کے اجزاء میں ترتیب ہے اس کے مد نظر رسالہ کا نام ”الترتیب اللطیف فی قصة الکلیم والحنیف“ رکھا گیا ہے۔“

اس رسالے کے زیر نظر ایڈیشن میں ترتیب وتخریج کا کام صوفی محمد اقبال قریشی صاحب نے کیا ہے، چھوٹے سائز کے112 صفحات کا یہ رسالہ متوسط کاغذ پر کارڈ ٹائٹل کے ساتھ ادارہ تالیفات اشرفیہ، جامع مسجد تھانہ والی، ہارون آباد، ضلع بہاولنگر سے شائع کیا گیا ہے۔

Flag Counter