جدید میڈیکل سائنس کی بنیاد رکھنے والے مسلم معا لجین
انگریزی تحریر: ڈیوڈ بلیو شمانز
ترجمہ: حکیم مولانا عبیدالله عبید، مینگورہ، سوات
1120ء میں ایک مسلمان طبیب اپنے مریض کے معائنے کے لیے جارہاتھا۔ مریض اشبیلیہ کا حکم ران تھا۔ طبیب نے سڑک کے کنارے ایک دوسرا مفلس مریض پڑا دیکھا ،جس کے قریب پانی کا ایک گھڑا تھا ، اس کا پیٹ سوجا ہوا تھا اور سخت تکلیف میں تھا۔
”کیاتم بیمارہو؟“ طبیب نے اس سے پوچھا اور بیمار آدمی نے اقرار میں سرہلایا۔
”تم نے کیا چیز کھائی ہے ؟“
”صرف روٹی کے چند سوکھے ٹکڑے اور اس گھڑے سے پانی “
”روٹی تمھیں بیمار نہیں کرسکتی " طبیب نے کہا۔“ ہاں! پانی سے ممکن ہے۔کہاں سے پانی بھرا تھا؟"
”بستی کے کنویں سے “
طبیب نے کچھ دیر سوچا۔” بستی کا کنواں صاف ہے! لیکن گھڑے میں شاید کچھ ہو ، اسے توڑدو اور دیکھوکہ اس میں کیا ہے؟“
آدمی چلانے لگا۔” نہیں ، میرے پاس صرف یہی ایک گھڑا ہے “
”اب دیکھتے ہیں کہ اس گھڑے سے کیا برآمد ہوتا ہے ؟“ طبیب نے جواب دیا اور آدمی کے پیٹ کی طرف اشارہ کیااور کہا" کہ نیا پیٹ خریدنا ناممکن اور گھڑا خریدنا آسان ہے ۔“
آدمی نے پھر چیخنا چلانا شروع کیا ۔لیکن طبیب کے نوکروں میں سے ایک نے پتھر اٹھایا اور گھڑے پر دے مارا ، ایک مردہ مینڈک بدبودار پانی کے ہم راہ اس میں سے برآمد ہوا۔
”میرے دوست ! دیکھو تم کیا پیتے رہے ؟ یہ مینڈک اپنے ساتھ تجھے بھی مروادیتا۔ یہ اشرفی لو اور جاوٴ! نیا گھڑا خرید لو !“
کچھ دن بعد جب طبیب اس راستے سے گزررہاتھا تو اس نے مریض کو وہاں بیٹھے دیکھا۔ اس کا پیٹ صحیح سالم تھا، وزن کچھ بڑھ گیا تھا اور رنگ وروپ بھی نکل آیاتھا۔ اس نے طبیب کو دیکھ کر دعائیں دینا شروع کیں۔
ماخذ: (تیرھویں صدی عیسوی کا مشہور ادیب اور موٴرخ ابن ابی اصیبعہ)
استدلال کا یہ مذکورہ بالا فکری عمل( جس میں حقائق سے نتائج کے حصول کے لیے عمومی اصول وضع کیے جاتے ہیں) جس وقت مسلم اسپین میں اپنی جگہ بنا رہا تھا، عیسائی یورپ میں علاج کا عمل ، اس کے مقابلے میں لنگڑا لنگڑا کر اس نقطہ نظر کے مطابق چل رہا تھا کہ طبیب ،مریض کا علاج کر کے خدا کی مرضی کو للکارتا ہے۔ مریض کو علاج اور ادویات کے بجائے جھاڑ پھونک سے اچھا کرنے کی کوشش کی جاتی تھی۔
مشرق میں اسلام کی اشاعت ساتویں صدی عیسوی کے اول میں شروع ہوئی۔پہلے سے موجود علوم کا انجذاب اور ان میں ترقی کا ایک ہالہ نمودار ہوا۔جن میں علم ادویہ بھی شامل تھا۔عرب فاتحین نے نئی رعایا سے مسلسل یہ علوم اپنے اندر جذب کرلیے۔عربی زبان نے مشرق میں وہی رتبہ حاصل کیا جو مغرب میں یونانی اور لاطینی کو حاصل تھا۔عربی زبان علم و فن اور ادب کی زبان بن گئی۔نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک ِ کاشغر عربی دانش وروں کی زبان بن گئی۔ مکہ مکرّمہ میں ہر سال لاکھوں زائرین حج کے لیے ایک جگہ جمع ہوتے اور ایک دوسرے سے کتابوں، نظریات اور خیالات کا تبادلہ بھی کرتے۔
عباسی خلیفہ ہارون الرشید اور اس کے بیٹے مامون الرشید نے عربی زبان میں یونانی علوم و فنون کے ترجمہ کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے اور اسے سہل الحصول بنانے کے لیے بغداد میں ایک دارالترجمہ (Translation Bureau)، بیت الحکمت کے نام سے قائم کیا۔ بیت الحکمت کا مطلب ہے ” دانائی کا گھر“۔ جس نے آٹھویں صدی عیسوی کے آخر میں ابتدا کی۔اس ادارے نے مسلمانوں کے مقبوضہ اور باہر علاقوں میں اپنے نمائندے بھیجے، تاکہ ہر زبان کے علم و دانش کے مخطوطات کو تلاش کریں۔عربی میں ترجمہ شدہ ان قیمتی کتابوں نے اْس دور میں مسلم سائنس کی ،مضبوط بنیاد قائم کی، جو صرف علم العلاج پر مبنی نہیں تھا۔
یونان کی طرح مسلم دنیا میں بھی علم ِ طب کی بنیاد چار عناصر والے نظریے (اخلاطِ اربعہ ) پر تھی، جسے دوسری صدی عیسوی کے یونانی طبیب جالینوس نے پیش کیا تھا۔ جب بدن میں چاروں اخلاط تناسب کے ساتھ موجود ہوں گے تو آدمی تندرست ہوگا اور جب طبعی تناسب سے باہر ہوں گے تو وہ بیمار ہوگا۔ جالینوس لکھتا ہے کہ معالج کی ذمہ داری ان اخلاط کے توازن کو غذا،ورزش اور حتمی سرگرمیوں یا دیگر اقدامات کے ذریعے بحال کرنا ہے۔مثال کے طور پر ، بخار خون کی کثرت کے سبب لاحق ہوتا ہے۔اس کے لیے وہ فصد تجویز کرتا ہے، تا کہ خون کی زیادتی رک جائے۔
تاہم مشرق میں ، غلط طور پر، جالینوس کے صحت اور امراض کے بارے میں عقلی تناظر نے اپنی جگہ بنالی، جب کہ قرآن کریم میں یہ یقین دہانی موجود تھی کہ ”ہر بیماری کے لیے علاج ہے“۔ مسلمان معالجین اپنے آپ کو علاج کرنے والا اور صحت کا محافظ سمجھتے تھے نہ کہ امراض کو مافوق الفطرت ہستی کے اسباب کانتیجہ۔
اس وقت جب کہ مترجمین، بیت الحکمت میں سخت محنت کررہے تھے، مسلمان معالجین نے جدید ہسپتالوں کی ابتدائی شکل ”بیمارستان“ کو ترقی دی، جو بعدازاں صرف ”مارستان“ کہلایا جانے لگا۔جس کے دروازے سب کے لیے بلاتفریق کھلے رہتے ، جس میں بیماروں کو علاج کے لیے خوش آمدید کہا جاتا اور چھوٹی موٹی تکالیف ،زخموں اور ذہنی امراض سے نجات دلائی جاتی تھی۔ بڑے بڑے ” مارستان“ طبی کالجوں اور کتب خانوں سے ملحق ہوتے تھے، جہاں نامور معا لجین پڑھاتے ،تشخیص کرتے اورآج کل کی طرح پریکٹس کی اجازت دیتے تھے۔
ہسپتالوں کی طرح علم الادویہ کو بطور پیشہ متعارف کروانا بھی اسلامی ایجاد ہے۔مارستان میں تربیت یافتہ ماہرین، ادویات کی تیاری اور تجویز ماضی کی نسبت بہتر انداز میں کرتے ، ان کے فارماکوپیا (قرابادین) میں ہر چیز کی جغرافیائی نوعیت ، طبعی خواص اورجن امراض کے استعمال میں وہ برتے جاتے ہیں، تفصیلی طورپر موجود ہے۔مامون کے عہد تک اطبا کی طرح ادویہ سازوں سے بھی امتحان لے کر دواسازی کی اجازت دی جانے لگی اور عوام کو غلطی اور نقصان سے بچانے کے لیے سرکاری انسپکٹر دواسازوں کے مرہموں ، گولیوں ، شربتوں ، مربوں ، ٹنکچروں ، شافوں اور inhalants کی نگرانی کرتے تھے۔ مارستان میں دواسازی کے شعبے کا سربراہ علاج کے شعبے کے برابر عہدے کا حامل ہوتا تھا۔
عباسی خلفاء ، بیت الحکمت اور ابتدائی بیمارستانوں (اسپتالوں ) کے ساتھ ساتھ اسلامی طریقہ علاج کے سنہرے دور کی ابتدا کرچکے تھے۔علم کا مرکز اور ترقی کا سفر آٹھویں صدی عیسوی میں مغرب کی جانب، جو آج کل جنوبی اسپین اور اس وقت اندلس کہلاتا تھا ،کو منتقل ہونا شروع ہوگیا تھا۔
عباسیوں نے اقتدار، دمشق کے حکم ران خاندان بنو امیہ سے چھینا تھا۔758ء میں بنو اْمیہ کے دسویں خلیفہ کا پوتا عبدالرحمٰن اپنے رشتہ داروں کے قتل عام کے وقت فرار ہونے میں کامیاب ہوا اورا سپین میں پناہ حاصل کرلی۔چند سالوں میں یہ نڈر حکم ران اپنے دارالحکومت قرطبہ میں بنو عباس کے مقابلے میں ایک متوازی خلافت قائم کرنے میں کام یاب ہوااور دسویں صدی عیسویں کے آخر تک قرطبہ علمی اور سائنسی سرگرمیوں میں بغداد کو پیچھے چھوڑ گیا۔
قرطبہ کی ستر لائبریریاں ، نوسو عوامی حمام، تین سو مساجداور پچاس اسپتال اس کے لاکھوں باشندگان کے لیے ہر وقت کھلے رہتے۔ اولین علمی مرکز قرطبہ یونیورسٹی کی بنیاد آٹھویں صدی عیسویں میں رکھی گئی اور اس کی لائبریری میں کم از کم دو لاکھ پچیس ہزار کتا بوں کی جلدیں موجود تھیں ( یاد رہے کہ اس وقت یونیورسٹی آف پیرس کی لائبریری میں کتابوں کی چارسو جلدیں تھیں )۔ اس علمی ذخیرے نے پورے یورپ سے علم وہنر کے دلدادوں کو اپنی طرف متوجہ کیا، جن میں فرانس کے گربرٹ (Gerbert) ، جو بعد میں کلیسا کے اسقفِ اعظم قرار پائے اور سلویسٹر دوم (Sylvester ii) کے نام سے شہرت پائی ، بھی شامل تھا۔اسی سلویسٹر دوم نے پیچیدہ رومن اعداد کی بجائے عربی اعداد کو رواج دیا۔اندلس جلد ہی تخلیقی اور ہنر مند فلسفیوں ، جغرافیہ دانوں ، انجینئروں ، ماہرینِ تعمیرات اور ڈاکٹروں کا مرکز بن گیا۔
مغربی خلافت میں ، معالجین اپنے ان ہم منصبوں سے جو مشرقی خلافت میں موجود تھے ، امتیازی حیثیت رکھتے تھے۔اگرچہ قرطبہ اور بغداد تعقل میں ایک دوسرے سے قریب تھے، لیکن مغربی خلافت کے معالجین نے یونان سے بندھے مشرقی خلافت کے معالجین کی نسبت زیادہ فکری آزادی کا مظاہرہ کیا۔ انہوں نے جالینوس کی اندھی تقلید کی اور نہ ہی ابن سینا کی۔ اگرچہ ابن سینا کا رتبہ عرب دنیا میں ارسطو اور لیونارڈو کے برابر تھا۔اس کی بجائے انہوں نے جب کسی چیز کو اپنے تجربات میں درست پایا تو ان دونوں (جالینوس اور ابن سینا) کے نظریات کو للکارا یا مسترد کردیا۔ان کی تحریروں اور تحقیقات سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ بلیغ، مختصر اور ٹھیک ٹھیک عقلی موازنہ کرنے والے ، اکثر علمی تحقیق میں بال کی کھال اتارنے والے اور باریک بین تھے۔
مغربی اسلامی دنیا نے نویں اور پندرھویں صدی عیسوی کے درمیان، دقتِ نظر کے حامل، سینکڑوں طبی ماہرین پیدا کیے۔ ان میں سے پانچ طبی ماہرین اپنے دور کے علم طب کے مینار تھے اورایک ہزار سال سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ان کے طبی اثرات محسوس کیے جاتے ہیں۔
سرجری(جراحت) کا باوا آدم
ابوالقاسم خلف ابن العباس جو اپنے ہم عصروں میں " الزہراوی " کے نام سے معروف ہے ،عبدالرحمٰن سوم کے دار الحکومت قرطبہ کے شمال میں شاہی شہر الزہرا میں 938 ء میں پیدا ہوا۔ لاطینی میں اسے Albucasis کے نام سے پکارا جاتا ہے۔ اس کی ذاتی زندگی کے بارے میں بہت ہی کم معلومات موجود ہیں، لیکن اس کی جراحتی (سرجیکل) مہارت بے مثال تھی۔
الزہراوی نے صرف ایک کتاب چھوڑی ہے، جس کا نام ”التصریف لمن عجز عن التالیف “ ہے۔اس کتاب کے نام کا ترجمہ یوں کیا جاسکتا ہے: ” اس شخص کے لیے علمِ طب کی موزوں ترتیب جو اپنے لیے کوئی کتاب تالیف نہ کرسکتا ہو“۔اس نے اپنے پچاس سالہ پیشہ وارانہ عہد میں تیس جلدوں پر مشتمل ایسا جامع خلاصہ تیار کیا ہے، جس میں طب ، جراحت ، علم الادویہ اور صحت سے متعلق دوسرے موضوعات موجود ہیں۔ اس کتاب کی آخری جلد، جو تین سو صفحات پر مشتمل ہے، صرف سرجری سے متعلق ہے اور یہ پہلی کتاب تھی جو علم جراحت کو باتصویر اورعلیحدہ مضمون کے طور پر پیش کرتی تھی۔
اس میں علمِ امراضِ چشم(ophthalmology)، بچہ جنائی کا فن(obstetrics)، علمِ امراضِ نسواں(gynecology)، میدانِ جنگ میں کام آنے والی ادویات(military medicine)،علم البول(urology)، علمِ تقویم الاعضاء (orthopedics) وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ یہ کتاب سولہویں صدی عیسوی تک یورپ میں علمِ جراحت کے موضوع پر حوالے کی کتاب (ریفرنس بک) سمجھی جاتی رہی۔
الزہراوی نے بے شمار جراحتی طریقوں کی ایک فہرست دی ہے، جس میں سرجیکل ایجادات ، تکنیکیں جس میں thyroidectomy (غدہ درقیہ کی سرجری ) ، آپریشن کے ذریعے آنکھ کا موتیا نکالنا اور ایک جدید طریقے سے گردوں کی پتھریوں کا رخ امعائے مستقیم کے طرف پھیرتے ہوئے نکالنے کا عمل شامل ہے،جو جالینوس کے تجویز کردہ طریقہ کی نسبت آپریشن کے دوران شرح اموات میں ڈرامائی کمی لاتی تھی۔
”التصریف “ وہ پہلی کتاب تھی جس میں دانتوں کی جراحت کے متعلق تفصیلی بحث تھی۔اس میں نکالے ہوئے دانت کی دوبارہ تنصیب بھی شامل تھی اور اس میں حیوانی ہڈیوں سے مصنوعی دانتوں کی تراش کا تذکرہ بھی تھا۔کس طرح بدوضع دانتوں کو خوبصورت بنایا جاتا ہے ؟آج کے ماہرین دندان ، دانت کی سطح پر بننے والی تہہ کو دور کرنے کے لیے جو طریقہ کار اختیار کرتے ہیں ، وہ سب سے پہلے الزہراوی نے تفصیلا بیان کیاتھا۔
آج عالمی طور پر یہ طریقہ معیاری جانا جاتا ہے کہ آپریشن سے قبل مریض کی جلد پر شگاف ڈالنے کے لیے سیاہی استعمال کی جاتی ہے ، اس طریقہ کا موجد الزہراوی ہے۔اس نے سب سے پہلے ، اندرونی زخموں کو سینے کے لیے ،سرجری میں catgut(زخم کو سینے کا ایک مَخصْوص دھاگہ) استعمال کیا۔
اشبیلیہ کا طبیب
اس مضمون کی ابتدا میں جس طبیب کا تذکرہ کیا گیا ہے کہ اس نے سڑک کے کنارے ایک غریب مریض کا معائنہ کرکے اس کا علاج کیا تھا وہ اشبیلیہ کا طبیب ابو مروان عبد الملک ابن زہر تھا، لاطینی میں Avenzoar کے نام سے معروف ہے، 1091ء کو اشبیلیہ میں پیدا ہوا۔ بنو زہر (اندلس کے معروف طبیب خانوادے کا نام) میں علمِ طب سات پشتوں تک جاری رہا اور ابو مروان ابن زہر بھی اس خاندان کی تیسری پشت سے تعلق رکھتے تھے اور پانچ اس کے بعد پیدا ہوئے۔اس لیے ابن زہر کے پیشے کے متعلق کوئی ابہام باقی نہیں رہتا کہ وہ طب کے علاوہ کوئی دوسرا پیشہ اختیار کرتا۔
ابن زہر نے متقدمین اطبا کی نری تقلید نہیں کی، بلکہ وہ پہلا مسلمان طبیب تھا جس نے اپنے آپ کو علمِ علاج کے لیے وقف کیا۔اْس کی کتابوں میں ،اس کی کئی بڑی دریافتیں درج ہیں، جیسے التیسیر فی المداواة و التدبیر (Practical Manual of Treatments & Diets)، علم نفسیات پر ایک رسالہ جس کے نام کا ترجمہ اعضا اور ارواح کی اصلاح کے متعلق ایک معتدل راستہ تجویز کرتا ہے اور کتاب الاغذیہ نامی ایک کتاب جو صحت پر پرہیزی غذاوٴں ، مشروبات اور مسالوں کے اثرات کو بیان کرتی ہے۔
اس کی دریافتوں میں ایک چھوٹا سا، لیکن موٴثر کارنامہ اس امر کا ثبوت پہنچانا تھا کہ خارش کا سبب چھوٹے کیڑے ہیں، جو مریض کے بدن سے بغیر جلاب یا فصد کے ختم کیے جاسکتے ہیں،اسی طرح ان کیڑوں کو کسی بھی دوسرے ایسے (اذیت ناک) طریقہ علاج کے بغیر ختم کیا جا سکتا ہے، جس کا تعلق اخلاط ِ اربعہ کے نظریہ سے ہو۔
جس میڈیکل سائنس نے جالینوس اور ابن سینا پر اندھا اعتماد کیا تھا، ابن زہر کی مذکورہ دریافت نے اس پوری میڈیکل سائنس پر لرزہ طاری کیا اور نظریہ اخلاط پر غیر متزلزل یقین سے بھی نجات دلائی۔
ابن زہر نے یہ بھی لکھا کہ کس طرح غذا اور طرزِ حیات سے گردے کی پتھری بننے کے عمل کو روکا جاسکتا ہے۔ اس نے سب سے پہلے اعصابی امراض کو درست طور پر تفصیلاً بیان کیا، جیسے سرسام، کھوپڑی کے اندر کسی نالی کا ورم جس کے ساتھ خون کی رکاوٹ بھی ہو ، حجابی رسولیاں۔ اسی طرح اس کی کچھ جدید دریافتوں نے جدید علم الادویہ کے ایسے شعبے کی بنیاد ڈالی جو اعصاب کے مخصوص امراض اور ادویات (neuropharmacology) پرمشتمل ہے۔ اس نے سب سے پہلے بڑی آنت کے سرطان کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ ابن زہر ہی وہ پہلا طبیب ہے جس نے نرخرے یا ورید کے ذریعے خوراک کی فراہمی کی وضاحت کی، جب مریض کو نارمل طریقے سے خوراک کی فراہمی ممکن نہ ہو۔ یہ تکنیک آج بھی Parental Feeding کے نام سے معروف ہے۔
ابن زہر نے سرجری میں تجرباتی طریقہ متعارف کرایا۔وہ جانوروں کے مردہ اجسام کو تجربات کے لیے بروئے کار لاتاتھا، جیسے بکری کے مردہ جسم کو وہ اس طریقہ کار کے لیے استعمال کرتے تھے جو اس نے ہوا کی نالی کی سرجری کے لیے دریافت کیا تھا۔ اپنی طبی تحقیق کے دوران ،اس نے بھیڑ پر پوسٹ مارٹم کا عمل بھی انجام دیا، تاکہ یہ معلوم کرسکے کہ زخم خوردہ پھیپھڑوں کی بیماریوں کا علاج کس طرح کیا جائے؟ ابن زہر پہلا طبیب معلوم ہوتا ہے جس نے انسانی لاش کا پس از مرگ معائنہ کرنے کے لیے اس کی چیر پھاڑ کی، تاکہ اپنے جراحتی طریقوں کی سمجھ بوجھ میں اضافہ کرسکے۔
ابن زہر نے سرجری کو بالکل ایک علیحدہ شعبہ بنایا اور اس کے لیے ایک نصاب مقرر کیا، بالخصوص مستقبل کے سرجنوں کے لیے جنہیں پریکٹس کی اجازت سے پہلے اس نصاب کی تکمیل لازمی تھی۔ اس نے عام طبیب اور سرجن دونوں کے دائرہ عمل کے درمیان ایک سرخ علامتی خطِ امتیاز کھینچا کہ ایک عام طبیب کو جراحتی کیفیت میں علاج سے دست بردار ہونا چاہیے اور اسی طرح سرجری کو ایک مخصوص طبی میدان قراردیا۔ وہ ان اولین معالجین میں سے ہے جس نے مصنوعی بے ہوشی کا استعمال کیا۔ سینکڑوں آپریشنوں میں اس نے بھنگ ، افیون اور اجوائن خراسانی کے مکسچر میں لتھڑی ہوئی روئی کو مریض کے چہرے پر رکھا۔
قابل توجہ بات یہ ہے کہ اس کی بیٹی اور نواسی دونوں نے طبی علوم حاصل کیے۔ اس امر کو دیکھتے ہوئے ، اْسے عورتوں کو طبی تعلیم دینے کا بانی قرار دیا جاسکتا ہے۔ اگر چہ ان عورتوں کی طبی تعلیم صرف دایہ گیری تک محدود تھی، لیکن ان عورتوں نے ایک ایسی روایت کی بنیاد رکھی کہ جدید مغرب کے مقابلے میں مسلمان عورتیں مسلم دنیا میں سات سو سال پہلے طب کی تعلیم حاصل کرتی رہیں جب کہ اس کے مقابلے میں پہلی امریکی خاتون نے جوھان ھاپکنز یونیورسٹی سے اس واقعے کے سات سو سال بعد میڈیکل کی تعلیم مکمل کی۔ (جاری)