Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1437ھ

ہ رسالہ

4 - 17
اسلام میں قتل کی سنگینی اور اس کی سزا

مولانا محمدنجیب قاسمی
	
قتل کی حرمت قرآن کریم میں
شریعت اسلامیہ میں جتنی تاکید کے ساتھ انسان کے قتل کی حرمت کو بیان کیا گیا ہے، عصر حاضر میں اس کی اتنی ہی بے حرمتی ہور ہی ہے، چناں چہ معمولی معمولی باتوں پر قتل کے واقعات روزانہ اخباروں کی سرخیاں بنتے ہیں۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان دنوں بعض مسلمان بھی اس جرم کا ارتکاب کر جاتے ہیں، حالاں کہ قرآن وحدیث میں کسی انسان کو ناحق قتل کرنے پر ایسی سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں جو کسی اور جرم پر بیان نہیں ہوئیں۔ اسلامی تعلیمات کے مطابق کسی انسان کو ناحق قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے، بلکہ بعض علماء نے سورة النساء آیت نمبر93 کی روشنی میں فرمایا ہے کہ کسی مسلمان کو ناحق قتل کرنے والا ملت اسلامیہ سے ہی نکل جاتا ہے۔ ﴿وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْما﴾ اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور الله اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کرر کھا ہے۔اگرچہ جمہور علماء نے قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر کیا ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنے والا بہت بڑے گناہ کا مرتکب تو ضرور ہے، مگر وہ اس جرم کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا ہے اور ایک طویل عرصہ تک جہنم میں درد ناک عذاب کی سزا پا کر آخر کار وہ جہنم سے نکل جائے گا، کیوں کہ مذکورہ آیت میں ﴿خَالِداً فِیْہَا﴾ سے مراد ایک طویل مدت ہے۔ نیز قرآن وحدیث کی روشنی میں علمائے امت کا اتفاق ہے کہ کسی کو ناحق قتل کرنے والے کی آخرت میں بظاہر معافی نہیں ہے او راسے اپنے جرم کی سزا آخرت میں ضرور ملے گی، اگرچہ مقتول کے ورثاء قاتل سے قصاص نہ لیں کہ دیت وصول کر لیں یا اسے معاف کر دیں۔

قرآن کریم میں د وسری جگہ الله تعالیٰ نے ایک شخص کے قتل کو تمام انسانوں کا قتل قرار دیا ہے :﴿مِنْ أَجْلِ ذَلِکَ کَتَبْنَا عَلَی بَنِیْ إِسْرَائِیْلَ أَنَّہُ مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً﴾․(سورہ المائدہ، آیت:32)

اسی وجہ سے بنی اسرائیل کو یہ فرمان لکھ دیاتھا کہ جو کوئی کسی کو قتل کرے جب کہ یہ قتل نہ کسی اور جان کا بدلے لینے کے لیے ہو اور نہ کسی کے زمین میں فساد پھیلانے کی وجہ سے ہو تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کو قتل کر دیا او رجو شخص کسی کی جان بچالے تو یہ ایسا ہے جیسے اس نے تمام انسانوں کی جان بچالی۔ غرض کہ الله تعالیٰ نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا، کیوں کہ کوئی شخص قتل ناحق کا ارتکاب اسی وقت کرتا ہے جب اس کے دل سے انسان کی حرمت کا حساس مٹ جائے، نیز اگر کسی کو ناحق قتل کرنے کا چلن عام ہو جائے تو تمام انسان غیر محفوظ ہو جائیں گے، لہٰذا قتل ناحق کا ارتکاب، چاہے کسی کے خلاف کیا گیا ہو ، تمام انسانوں کو یہ سمجھنا چاہیے کہ یہ جرم ہم سب کے خلاف کیا گیا ہے۔

قتل کی حرمت کے متعلق فرمان الہیٰ ہے﴿وَلاَ تَقْتُلُواْ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّہُ إِلاَّ بِالحَقِّ وَمَن قُتِلَ مَظْلُوماً فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہِ سُلْطَاناً فَلاَ یُسْرِف فِّیْ الْقَتْلِ إِنَّہُ کَانَ مَنْصُوراً﴾․(سورة الاسراء، آیت:33) جس جان کو الله نے حرمت عطا کی ہے اسے قتل نہ کرو مگر، یہ کہ تمہیں ( شرعاً) اس کا حق پہنچتا ہو اور جو شخص مظلومانہ طور پر قتل ہو جائے تو ہم نے اس کے ولی کو (قصاص کا) اختیار دیا ہے۔ چناں چہ اس پر لازم ہے کہ وہ قتل کرنے میں حد سے تجاوز نہ کرے۔ یقینا وہ اس لائق ہے کہ اس کی مدد کی جائے۔

اسی طرح سورة الفرقان( آیت:69-68 ) میں الله تعالیٰ فرماتا ہے:﴿وَالَّذِیْنَ لَا یَدْعُونَ مَعَ اللَّہِ إِلَہاً آخَرَ وَلَا یَقْتُلُونَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللَّہُ إِلَّا بِالْحَقِّ وَلَا یَزْنُونَ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ یَلْقَ أَثَاماً ، یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَاناً﴾اور جو الله کے ساتھ کسی بھی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے او رجس جان کو الله نے حرمت بخشی ہے اسے ناحق قتل نہیں کرتے اور نہ وہ زنا کرتے ہیں اور جو شخص بھی یہ کام کرے گا اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔قیامت کے دن اس کا عذاب بڑھا بڑھا کر دوگنا کر دیا جائے گا۔ اور وہ ذلیل ہو کر اس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔

آخر ی تینوں آیات میں صرف مسلمانوں کے قتل کی ممانعت نہیں ہے، بلکہ اُس شخص کے قتل کی ممانعت ہے جس کی جان کو الله تعالیٰ نے حرمت بخشی ہے۔

قتل پر سخت وعیدیں رحمة للعالمین صلی الله علیہ وسلم کی زبانی
حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم رحمة للعالمین بنا کر مبعوث ہوئے، مگر اس کے باوجود حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے کسی کو ناحق قتل کرنے پر سخت سے سخت وعیدیں ارشاد فرمائی ہیں اور امت کو اس سنگین گناہ سے باز رہنے کی بار بار تلقین فرمائی ہے۔ پانچ احادیث پیش خدمت ہیں:

ؤحجة الوداع کے موقع پر آپ صلی الله علیہ و سلم نے اپنے عظیم خطبہ میں اس بات پر بھی زور دیا کہ کسی کا خون نہ بہایا جائے، چناں چہ ارشاد فرمایا: تمہارے خون، تمہارے مال اور تمہاری آبروئیں ایک دوسرے کے لیے ایسی ہی حرمت رکھتی ہیں جیسے تمہارے اسی مہینے ( ذی الحجہ) میں تمہارے اس شہر ( مکہ مکرمہ) او رتمہارے اس دن کی حرمت ہے۔ تم سب اپنے پروردگار سے جاکر ملوگے، پھروہ تم سے تمہارے اعمال کے بارے میں پوچھے گا۔ لہٰذا میرے بعد پلٹ کر ایسے کافر یا گم راہ نہ ہو جانا کہ ایک دوسرے کی گردنیں مارنے لگو۔ ( صحیح بخاری، باب حجة الوداع، صحیح مسلم ، باب القیامة)یعنی کسی شخص کو ناحق قتل کرنا کافروں اور گم راہوں کا کام ہے، نیز ایک دوسرے کو کافر یا گم راہ کہہ کر قتل نہ کرنا۔

٭... حضرت انس رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کبیرہ گناہوں میں سے سب سے بڑے گناہ یہ ہیں: الله کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا، کسی انسان کو قتل کرنا ، والدین کی نافرمانی کرنا اور جھوٹی بات کہنا۔ ( صحیح بخاری، باب قول الله تعالیٰ :من احیاھا)

٭...حضرت عبدالله بن مسعود رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کسی مسلمان کو گالی دینا گناہ کبیرہ ہے اور اسے قتل کرنے کے لیے لڑنا کفر ہے۔ (صحیح بخاری، کتاب الادب)

٭...حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ایک مسلمان کو واپنے دین کے معاملے میں اس وقت تک ( معافی کی) گنجائش رہتی ہے جب تک وہ حرام طریقے سے کسی کا خون نہ بہائے۔ ( صحیح بخاری، کتاب الدیات)

صحیح بخاری کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے علامہ ابن حجر عسقلانی  اس حدیث کا مطلب بیان کرتے ہوئے تحریر کرتے ہیں کہ کسی کا ناحق خون بہانے کے بعد معافی کا امکان بہت دور ہو جاتا ہے۔ (فتح الباری)

٭...حضرت عبدالله بن عمر رضی الله عنہما فرماتے ہیں کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الله تعالیٰ کے نزدیک ایک مسلمان شخص کے قتل سے پوری دنیا کا ناپید ( اور تباہ) ہو جانا ہلکا(واقعہ) ہے۔ (ترمذی، باب ماجاء فی تشدید قتل المؤمن، نسائی، ابن ماجہ)

قرآن وحدیث کی روشنی میں ذکر کیا گیا کہ کسی شخص کو قتل کرنا شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے اور قاتل کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ایک طویل عرصہ تک رہے گا، الله اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله تعالیٰ نے قاتل کے لیے بڑا عذاب تیار کر رکھا ہے۔ لہٰذا ہر شخص کو چاہیے کہ وہ قتل جیسے بڑے گناہ سے ہمیشہ بچے اور وہ کسی بھی حال میں کسی بھی جان کا ضائع کرنے والا نہ بنے ،کیوں کہ بسا اوقات ایک شخص کے قتل سے نہ صرف اس کی بیوی بچوں کی زندگی، بلکہ خاندان کے مختلف افراد کی زندگی بعد میں دوبھر ہو جاتی ہے اور اس طرح خوش حال خاندان کے افراد بیوہ ، یتیم او رمحتاج بن کر تکلیفوں او رپریشانیوں میں زندگی گزارنے والے بن جاتے ہیں۔

قتل کی اقسام اور ان کی سزا
اگر کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو قتل کر دے تو آخرت میں درد ناک عذاب کے ساتھ دنیا میں بھی اسے سزا ملے گی، جس کو قرآن وحدیث کی روشنی میں اختصار سے پیش کررہاہوں۔ سب سے پہلے سمجھیں کہ قتل کی تین قسمیں ہیں:

قتل عمد
قتل عمد وہ ہے کہ ارادہ کرکے کسی شخص کو آہنی ہتھیار سے یا ایسی چیز سے جس سے عموماً قتل کیا جاتا ہے، قتل کیا جائے۔ مثلاً کسی شخص کو تلوار یا گولی سے مارا۔

قتل شبہ عمد
قتل شبہ عمد وہ ہے جو قصداً تو ہو، مگر ایسے آلہ سے نہ ہو، جس سے عموماً قتل کیا جاتا ہے۔ مثلاً کسی شخص کو ایک پتھر پھینک کر مارا اور وہ اس کی وجہ سے مر گیا۔

قتل خطاء
کوئی شخص کسی شخص کے عمل کی وجہ سے غلطی سے مر جائے۔ مثلاً جانور کا شکار کر رہا تھا، مگر وہ تیریا گولی غلطی سے کسی شخص کے لگ گئی اور وہ مر گیا۔

قتل عمد (جان بوجھ کر کسی کو ناحق قتل کرنے) کا حکم
یہ شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے، الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَمَن یَقْتُلْ مُؤْمِناً مُّتَعَمِّداً فَجَزَآؤُہُ جَہَنَّمُ خَالِداً فِیْہَا وَغَضِبَ اللّہُ عَلَیْْہِ وَلَعَنَہُ وَأَعَدَّ لَہُ عَذَاباً عَظِیْما﴾ اور جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا اور الله اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله نے اس کے لیے بڑا عذاب تیار کر کھا ہے۔ قرآن کریم میں دوسری جگہ الله تعالیٰ نے ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا ہے:﴿مَن قَتَلَ نَفْساً بِغَیْْرِ نَفْسٍ أَوْ فَسَادٍ فِیْ الأَرْضِ فَکَأَنَّمَا قَتَلَ النَّاسَ جَمِیْعاً﴾․(سورہ المائدہ:32)

مرنے کے بعد دردناک عذاب
فرمان الہیٰ ہے ﴿ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ یَلْقَ أَثَاماً ،یُضَاعَفْ لَہُ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیَامَةِ وَیَخْلُدْ فِیْہِ مُہَاناً﴾․(سورة الفرقان، آیت:69-68) اور جو شخص بھی یہ کام ( کسی کو ناحق قتل) کرے گا اسے اپنے گناہ کے وبال کا سامنا کرنا پڑے گا۔ قیامت کے دن اس کا عذاب بڑھا بڑھا کر دوگنا کر دیا جائے گا اور وہ ذلیل ہو کر اس عذاب میں ہمیشہ ہمیشہ رہے گا۔ اسی طرح سورة النساء، آیت:93 میں ذکر کیا گیا کہ جو شخص کسی مسلمان کو جان بوجھ کر قتل کرے تو اس کی سزا جہنم ہے، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، الله اس پر غضب نازل کرے گا اور لعنت بھیجے گا اور الله نے اس کے لیے بڑا عذاب تیارکر رکھا ہے۔

یعنی حکومت قاتل کو قصاصاً قتل کرے۔ شریعت اسلامیہ نے مقتول کے ورثاء کو یہ بھی اختیار دیا ہے کہ وہ قاتل کو قصاصاً قتل نہ کراکے قاتل کے اولیاء سے دیت ،یعنی سو اونٹ کی قیمت یا اس سے کچھ کم یا زیادہ پیسہ لے لیں یا معاف کر دیں۔ قصاص یا دیت یا معافی میں مقتول کے ورثاء کے لیے جس میں زیادہ فائدہ ہو اس کو اختیار کرنا چاہیے۔

فرمان الہٰی ہے:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ کُتِبَ عَلَیْْکُمُ الْقِصَاصُ فِیْ الْقَتْلَی الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی فَمَنْ عُفِیَ لَہُ مِنْ أَخِیْہِ شَیْْء ٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوفِ وَأَدَاء إِلَیْْہِ بِإِحْسَانٍ ذَلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّن رَّبِّکُمْ وَرَحْمَةٌ فَمَنِ اعْتَدَی بَعْدَ ذَلِکَ فَلَہُ عَذَابٌ أَلِیْمٌ، وَلَکُمْ فِیْ الْقِصَاصِ حَیَاةٌ یَاْ أُولِیْْ الأَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُون﴾․(سورة البقرہ179-178) اے ایمان والو! جو لوگ (جان بوجھ کر ناحق) قتل کر دیے جائیں ان کے بارے میں تم پر قصاص (کا حکم) فرض کر دیا گیا ہے۔ آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت (ہی کو قتل کیا جائے گا) ،پھر اگر قاتل کو اس کے بھائی (یعنی مقتول کے ورثاء) کی طرف سے کچھ معافی دے دی جائے تو معروف طریقے کے مطابق ( خون بہا کا) مطالبہ کرنا( وارث کا) حق ہے اور اسے خوش اسلوبی سے ادا کرنا (قاتل کا) فرض ہے۔ یہ تمہارے پروردگار کی طرف سے ایک آسانی پیدا کی گئی ہے او رایک رحمت ہے۔ اس کے بعد بھی کوئی زیادتی کرے تو وہ درد ناک عذاب کا مستحق ہے اور اے عقل رکھنے والو! تمہارے لیے قصاص میں زندگی (کا سامان ہے)، امید ہے کہ تم (اس کی خلاف ورزی سے ) بچو گے۔

علامہ ابن کثیر نے تحریر کیا ہے کہ زمانہٴ اسلام سے کچھ پہلے دو عرب قبیلوں میں جنگ شروع ہوئی، طرفین کے بہت سے آدمی آزاد وغلام، مرد وعورت قتل ہو گئے، ابھی ان کے معاملہ کا تصفیہ ہونے نہیں پایا تھا کہ زمانہ اسلام شروع ہو گیا اور یہ دونوں قبیلے اسلام میں داخل ہوگئے، اسلام لانے کے بعد اپنے اپنے مقتولوں کا قصاص لینے کی گفت گو شروع ہوئی تو ایک قبیلہ (جو قوت وشوکت والا تھا) نے مطالبہ کیا کہ ہم اس وقت تک راضی نہ ہوں گے جب تک ہمارے غلام کے بدلے میں تمہارا آزاد اور عورت کے بدلے میں مرد قتل نہ کیا جائے۔ ان کے ظالمانہ اور جاہلانہ مطالبہ کی تردید کے لیے یہ آیت نازل ہوئی﴿الْحُرُّ بِالْحُرِّ وَالْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَالأُنثَی بِالأُنثَی﴾ جس کا حاصل ان کے مطالبہ کو رد کرنا تھا کہ غلام کے بدلے آزاد کو اور عورت کے بدلے مرد کو قتل نہیں کیا جائے گا، بلکہ صرف قاتل کو ہی قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ اسلام نے اپنا عادلانہ قانون نافذ کر دیا کہ جس نے قتل کیا ہے وہی قصاص میں قتل کیا جائے گا، اگر عورت قاتل ہے تو کسی بے گناہ مرد کو اس کے بدلے میں قتل کرنا، اسی طرح قاتل اگر غلام ہے تو اس کے بدلے میں کسی بے گناہ آزاد کو قتل کرنا بہت بڑا ظلم ہے، جو اسلام میں قطعاً برداشت نہیں ہے۔ غرض کہ اس آیت کا حاصل اس کے سوا کچھ نہیں کہ جس نے قتل کیا ہے وہی قصاص میں قتل کیا جائے گا۔

وراثت سے محرومی
اگر قاتل نے اپنی کسی قریبی رشتہ دار کو قتل کر دیا تو وہ مقتول کی وراثت سے محروم ہو جائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے اپنے والد کو قتل کر دیا تو وہ والد کی وراثت سے محروم ہو جائے گا، جیسا کہ حضرات صحابہٴ کرام کا حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں اجماع ہے۔ مشہور ومعروف واقعہ ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی الله عنہ نے ابن قتادہ المدلجی کی دیت کا پیسہ قاتل باپ کو نہ دے کر اس کے بھائی کو دیا تھا۔ (سنن کبریٰ للبیہقی) حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے کسی ناحق شخص کو قتل کیا تو قاتل، مقتول کی وراثت میں شریک نہیں ہو گا، خواہ قاتل کے علاوہ مقتول کا کوئی وارث نہ ہو۔ اگر باپ نے بیٹے یا بیٹے نے باپ کو قتل کر دیا تو قاتل کو مقتول کے مال میں کوئی وراثت نہیں۔(دارقطنی)

قتل عمد میں کفارہ( غلام کی آزادی یا 60 روزے رکھنا) نہیں ہے، اگرچہ بعض علماء نے قتل خطاپر قیاس کرکے قتل عمد میں بھی کفارہ کے وجوب کا قول اختیار کیا ہے۔ قصاص معاف ہونے کی صورت میں قاتل کی دنیا میں زندگی تو محفوظ ہو جائے گی، لیکن آخرت میں اسے اپنے جرم کی سزا ملے گی، لہٰذا موت تک اسے الله تعالیٰ سے معافی مانگتے رہناہو گا۔

قتل شبہ عمد کا حکم
اگر کسی شخص نے کسی شخص کو ایسی چیز ماری جس سے عام طور پر قتل نہیں کیا جاتا ہے، مثلاً پتھر، ڈنڈا، گھونسا، کوڑا وغیرہ، مگر وہ اس کی وجہ سے مر گیا تو یہ بھی قتل ہو گا ، اس قتل پر قصاص نہیں آئے گا، البتہ یہ بھی بڑا گناہ ہے، اگرچہ قتل عمد سے کم ہے، کیوں کہ اس میں قصد پھر بھی ہے۔ اس کے علاوہ مقتول کے ورثاء کو دیت لینے کا حق حاصل ہو گا۔ اگر فریقین راضی ہیں تو دیت سے کم یا زیادہ قیمت پر بھی صلح کرسکتے ہیں۔

قتل شبہ عمد میں بھی کفارہ ( غلام کی آزادی یا 60 روزے رکھنا) نہیں ہے، اگر چہ بعض علماء نے قتل خطا پر قیاس کرکے قتل شبہ عمد میں بھی کفارہ کے وجوب کا قول اختیار کیا ہے۔

قتل خطا کا حکم
اگر کسی شخص سے غلطی سے کسی شخص کا قتل ہوجائے مثلاً جانور کا شکار کر رہا تھا ،مگر وہ تیریا گولی غلطی سے کسی شخص کے لگ گئی اور وہ مر گیا، اس میں قصاص تو نہیں، البتہ شریعت اسلامیہ نے مقتول کے ورثاء کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ قاتل اور اس کے اولیاء سے دیت یعنی سو اونٹ کی قیمت یا اس سے کچھ کم یا زیادہ پیسہ لیں یا معاف کر دیں۔ مقتول کے ورثاء دیت لیں یا معاف کر دیں، لیکن قاتل کو الله تعالیٰ سے معافی مانگنے کے ساتھ 60 دن کے مسلسل روزے بھی رکھنے ہوں گے۔ الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَمَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ أَن یَقْتُلَ مُؤْمِناً إِلاَّ خَطَئاً وَمَن قَتَلَ مُؤْمِناً خَطَئاً فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَی أَہْلِہِ إِلاَّ أَن یَصَّدَّقُواْ فَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ عَدُوٍّ لَّکُمْ وَہُوَ مْؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةٍ وَإِن کَانَ مِن قَوْمٍ بَیْْنَکُمْ وَبَیْْنَہُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیَةٌ مُّسَلَّمَةٌ إِلَی أَہْلِہِ وَتَحْرِیْرُ رَقَبَةٍ مُّؤْمِنَةً فَمَن لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَہْرَیْْنِ مُتَتَابِعَیْْنِ تَوْبَةً مِّنَ اللّہِ وَکَانَ اللّہُ عَلِیْماً حَکِیْما﴾․ (سورة النساء، آیت:92) کسی مسلمان کا یہ کام نہیں ہے کہ وہ کسی دوسرے مسلمان کو قتل کرے ، الاَّیہ کہ غلطی سے ایسا ہو جائے اور جو شخص کسی مسلمان کو غلطی سے قتل کر بیٹھے تو اس پر فرض ہے کہ وہ ایک مسلمان غلام آزاد کر ے اور دیت ( یعنی خوں بہا) مقتول کے ورثاء کو پہنچائے، الاَّیہ کہ وہ معاف کر دیں۔ اور اگر مقتول کسی ایسی قوم سے تعلق رکھتا ہو جو تمہاری دشمن ہو، مگر وہ خود مسلمان ہو، تو بس ایک مسلمان غلام کو آزاد کرنا فرض ہے (خون بہا دینا واجب نہیں)۔ اور اگر مقتول ان لوگوں میں سے ہے جو ( مسلمان نہیں، مگر) ان کے اور تمہارے درمیان کوئی معاہدہ ہے تو بھی یہ فرض ہے کہ خون بہا اس کے وارثوں تک پہنچایا جائے اور ایک مسلمان غلام کو آزاد کیا جائے۔ ہاں! اگر کسی کے پاس غلام نہ ہو تو اس پر فرض ہے کہ دو مہینے تک مسلسل روزے رکھے۔ یہ توبہ کا طریقہ ہے، جو الله نے مقرر کیا ہے اور الله علیم وحکیم ہے۔

قتل خطا میں بھی بے احتیاطی کا گناہ ہے، کفارہ کا وجوب اور توبہ کا لفظ اس پر دال ہے، اگرچہ قتل شبہ عمد کے مقابلہ میں کم ہے۔عمومی طور پر گاڑیوں کے حوادث میں مرنے والے افراد بھی قتل خطاکے ضمن میں آتے ہیں، الَّایہ کہ مرنے والی کی خود کی غلطی ہو۔

قتل سے متعلق متفرق مسائل
٭...سورة المائدہ، آیت :45﴿وَالْعَیْْنَ بِالْعَیْْنِ وَالأَنفَ بِالأَنفِ وَالأُذُنَ بِالأُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَالْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِہِ فَہُوَ کَفَّارَةٌ لَّہ﴾کی روشنی میں فقہاء وعلماء نے تحریر کیا ہے کہ اگر کسی شخص نے کسی شخص کے جسم کے کسی عضو کو تلف کر دیا، مثلاً آنکھ پھوڑ دی تو اسے اس کی سزا دی جائے گی، الاَّیہ کہ مجروح شخص اس کا معاوضہ حاصل کر لے یا وہ جارح کو معاف کر دے۔

٭...قصاص کے لفظی معنی مماثلث یعنی برابری کے ہیں۔ اصطلاح شرع میں قصاص کہا جاتا ہے قتل کی اس سزا کو، جس میں مساوات اور مماثلث کی رعایت کی گئی ہو۔

٭...مقتول کی دیت سو اونٹ یا دس ہزار درہم یا ایک ہزار دینار یا اس کے برابر قیمت ہے، یا فریقین جو طے کر لیں۔ سعودی عرب میں فی الحال دیت کی قیمت تین لاکھ ریال متعین ہے۔

٭...اگر مقتول عورت ہے تو آدھی دیت یعنی پچاس اونٹ یا اس کی قیمت واجب ہو گی۔

٭... کفارہ میں روزے خود قاتل کو رکھنے ہوں گے، البتہ دیت قاتل کے اہل نصرت پر ضروری ہو گی، جسے شرعی اصطلاح میں عاقلہ کہتے ہیں۔ دیت کی ادائیگی کی ذمے داری تمام گھر والوں ،بلکہ تمام قریبی رشتہ داروں پر اس لیے رکھی گئی ہے، تاکہ معاشرہ کا ہر شخص قتل کرنے سے نہ صرف خود بچے، بلکہ ہر ممکن کوشش کرے کہ معاشرہ اس جرم عظیم سے پاک وصاف رہے، اسی لیے الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں ایک شخص کے قتل کو پوری انسانیت کا قتل قرار دیا اور ایک شخص کی زندگی کی حفاظت پوری انسانیت کی زندگی قرار دی۔ غرضیکہ دیت کی ادائیگی خاندان کے تمام افراد پر رکھی گئی ہے، تاکہ دیت کے خوف سے ہر شخص معاشرہ کو قتل سے محفوظ کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے۔

٭...کفارہ کے روزے میں اگرمرض کی وجہ سے تسلسل باقی نہ رہے تو از سر نو رکھنے پڑیں گے، البتہ عورت کے حیض کی وجہ سے تسلسل ختم نہیں ہو گا، یعنی اگر کسی عورت نے کسی شخص کو قتل کر دیا اور وہ 60 روزے کفارہ میں رکھ رہی ہے، 60 روزے رکھنے کے دوران ماہواری کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا وہ ماہواری سے فراغت کے بعد 60 روزوں کو جاری رکھے گی۔ اگر کوئی قاتل اپنی کم زوری کی وجہ سے 60 روزے رکھنے کی استطاعت نہیں رکھتاہے تو اسے قدرت تک توبہ کرتے رہنا ہوگا۔

٭...دیت میں حاصل شدہ مال مقتول کے ورثہ میں شرعی اعتبار سے تقسیم ہو گا۔ جو وارث اپنا حصہ معاف کر دے گا اس قدر معاف ہو جائے گا اوراگر سب نے معاف کر دیا تو سب معاف ہو جائے گا ۔ اگر کسی ایک شرعی وارث نے بھی اپنی حصہ کی دیت کا مطالبہ کر لیا یا معاف کر دیا تو پھر قصاص نہیں لیا جائے گا ۔ اب دوسرے ورثاء کے لیے دوہی اختیار ہوں گے یا تو اپنے حصہ کی دیت لیں یا پھر معاف کر دیں۔

خلاصہٴ کلام یہ ہے کہ کسی بھی انسان کو قتل کرنا تو درکنار، ہم کسی بھی حال میں کسی بھی انسان کے قتل میں کسی بھی نوعیت سے معاون ثابت نہ ہوں، تاکہ ہم آخرت میں درد ناک عذاب سے محفوظ رہیں۔ اگر کسی نے کوئی قتل کیا ہے تو حکومت وقت ہی کو اسے قصاصاً قتل کرنے کا حق حاصل ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں تمام گناہوں سے محفوظ رہ کر یہ دنیاوی فانی زندگی گزارنے والا بنائے اورہمیں دونوں جہاں میں کام یابی عطا فرمائے۔

Flag Counter