Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1437ھ

ہ رسالہ

13 - 17
خاندان تہذیب کی اولین آماج گاہ

ڈاکٹر ساجد خاکوانی
	
خاندان انسان کی پرورش کی سب سے پہلی سیڑھی ہوتا ہے، یہ خدائی قانون ہے کہ انسان ایک خاندان میں آنکھ کھولتا ہے، جب کہ متعدد مخلوقات ایسی بھی ہیں جو بغیر کسی خاندان کے پرورش پاتی ہیں، حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کے بعد جنت جیسے مقام پر قیام عطا ہوا، لیکن بغیر خاندان کے وہاں بھی آپ علیہ السلام کا دل نہ لگا اور آپ نے الله کی بارگاہ میں تنہائی کی شکایت کی جس کے نتیجے کے طور پر آپ کو ایک خاندان کی صحبت میسر آئی اور ہماری ماں حوا کا ساتھ حضرت آدم علیہ السلام کو مرحمت ہوا، جس سے پھر نسل انسانی کی، بڑھوتری بھی ممکن ہوئی، زمین پر اترنے کے بعد ہر سال ایک بیٹا او رایک بیٹی پیدا ہوتے، اسی لیے حضرت آدم علیہ السلام کی شریعت میں سگے بہن بھائیوں کا نکاح جائز تھا، کیوں کہ اس کے بغیر نسل انسانی کا چلنا ممکن ہی نہ تھا، تاہم بعد کی آنے والی شریعتوں میں یہ حکم منسوخ ہوگیا، چناں چہ پہلے سال کی بیٹی کے ساتھ اگلے سال کے بیٹے کا اور اگلے سال کی بیٹی کے ساتھ پہلے سال کے بیٹے کا نکاح کر دیا جاتا اور یوں اس کرہ ارض پر قبیلہ بنی آدم میں خاندانوں کا آغاز ہوا اورانسان کی نسل آگے کو چلنے لگی، انسان کی تاسیس کا یہی نظریہ درست اور صحیح ہے اور وحی سے ثابت ہے او راب تو حیاتیاتی علوم کی تحقیقات بھی اسی نظریہ کی حامی ہیں اور اس کو مستند مانتی ہیں، اس کے علاوہ انسان کی تاسیس کے جتنے بھی نظریے ہیں وہ مرقع جہالت اور کوتاہ نظری پر مبنی ہیں۔

الله تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب قرآن مجید میں سورة نساء کے اندر فرمایا ” لوگو! اپنے رب سے ڈروا! جس نے تم کو ایک جان سے پیدا کیا اور اسی جان سے اس کا جوڑا بنایا اور ان دونوں سے بہت سے مرد اور عورتیں دنیا میں پھیلا دیے“ یہ گویا انسانی خاندانوں کی ابتدا کا پس منظر بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح ایک آدم علیہ السلام سے الله تعالیٰ نے اپنی شان تخلیقی سے پوری دنیا کو انسانوں سے بھر دیا ہے ، یہ سلسلہ جس طرح ماضی میں ہر دور، ہروقت او رہر قسم کے حالات میں جاری رہا اسی طرح آج بھی ہے اور اسی طرح آخری انسان کی پیدائش تک جاری رہے گا کہ یہی قدرتِ خداوندی ہے اور یہی منشائے ربانی ہے، الله تعالیٰ خاندان کی ابتدا ماں باپ سے کرتا ہے، دو جانیں باہم مل کر ایک گھر کی بنیاد رکھتے ہیں، پھر ان کے ہاں اولاد جیسی نعمت پیدا ہوتی ہے، جہاں سے بہن اور بھائی کے رشتے جنم لیتے ہیں، یہ بہن بھائی بڑے ہو کر جب شادیاں کر لیتے ہیں تو بہنوئی ، داماد او ربہو جیسے سسرالی رشتے داریاں جنم لے لیتی ہیں اور خاندان اپنی وسعتوں کو چھونے لگتا ہے، یہاں تک کہ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں خوش بو کی حقیقت کے وہ استعارے ہیں جن سے انسان کا باغیچہ مہک اٹھتا ہے اور وہ اپنی لہلہاتی فصل کو دیکھ کر پھولا نہیں سماتا ہے، دادا، دادی اور نانانا نی پیار اور محبت کے وہ پیمانے ہیں جن میں الفت ومحبت کے جام چھلکنے لگتے ہیں اور دنیا کی کسی لغت کا دامن اس چھلکتے ہوئے جام کی آسودگی وتراوٹ کو اپنے اندر سمونے سے قاصر ہے۔

الله تعالیٰ نے سورة الحجرات میں بھی خاندانوں کا ذکر کیا اور فرمایا کہ ” لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور پھر تمہاری قومیں اور برادریاں بنا دیں، تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچانو، درحقیقت الله تعالیٰ کے نزدیک تم میں سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ تقویٰ والا ہے، یقینا الله تعالیٰ سب کچھ جاننے والا او رباخبر ہے۔ “ خاندان بعض اوقات تکبر اور فخر وغرور کی علامت ہوتا ہے او ربعض اوقات اس کے برعکس بھی ہوتا ہے، قرآن مجید نے اس کا تدارک کیا ہے کہ برہمن خاندان اس لیے عزت والا نہیں ہے کہ وہ برہمن ہے اور شودر اس لیے نیچ نہیں ہو سکتا کہ اس نے کسی شودر کے گھر میں جنم لیا ہے، یہ خالصتاً الله تعالیٰ کے فیصلے ہیں کہ کس نے کس کے ہاں پیدا ہونا ہے، کوئی بچہ اپنی مرضی سے کسی ہاں وارد ہو سکتا ہے اور نہ کوئی والدین اپنی مرضی سے بچوں کا انتخاب کر سکتے ہیں، پس ! جس الله نے اپنی مرضی سے خاندانوں کی تقسیم کی ہے، اس کا حکم ہے کہ خاندان کسی عزت وشرف کی بنیاد نہیں ہو سکتے، بلکہ یہ صرف پہچان کے لیے ہی ہیں کہ جب ایک ہی نام کے متعدد افراد ہوں گے تو وہ اپنے خاندان ، قبیلے یا نسل کی بنیاد پر پہچانے جائیں گے، خاندانی تفاخر دورِ جہالت کی یاد تازہ کرتا ہے، جب کہ عزت کا معیار صرف تقویٰ ہے کہ کوئی اپنے رب سے کس قدر قریب تر ہے، اگر بلال حبشی رضی الله عنہ میں تقویٰ موجود ہے تو وہ خاندانی کہتری کے باوجود عزت ووقار میں ابوجہل سے کہیں بڑھ کر ہیں، جس میں شاید دنیا بھر کی خاندانی وجاہت سمٹ کر جمع ہو چکی ہے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ ” تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھا ہے اور میں بھی اپنے گھر والوں کے ساتھ اچھاہوں۔“ گویا انسان کا بہتر یا بدتر ہونا دراصل اس کے گھر والوں کے ساتھ رویے پر منحصر ہے، دوستوں کے ساتھ، افسر کے ساتھ اور دکان والوں کے ساتھ تو سبھی بہتر ہوتے ہیں، لیکن اپنے خاندان، اپنے بچے، اپنی بیوی، اپنے والدین اور اپنے سسرال کے ساتھ کون اچھا ہے؟ یہ اصل سوال ہے، ایک بار حضرت عائشہ رضی الله عنہا، جو عمر میں ابھی کم سن تھیں، انہوں نے تماشا دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے انہیں جھڑکنے یا منع کرنے کی بجائے اور باپ یا بھائی سے یہ تقاضا کرنے کے بجائے آپ صلی الله علیہ وسلم نے خود ان کی یہ خواہش پوری کی اور حجاب کے باعث دروازے میں آگے کھڑے ہوگئے او رحضرت عائشہ رضی الله عنہا آپ صلی الله علیہ وسلم کے کندھے سے تماشا دیکھتی اورہیں، کافی دیر گزر چکنے کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے دریافت کیا کہ کیا تماشا دیکھ لیا؟ بی بی نے جواب دیا کہ نہیں، ابھی اور بھی دیکھنا ہے، ظاہر ہے اس عمر میں دل کہاں بھرتا ہے، یہ سب سے بڑے انسان اس وقت تک کھڑے رہے جب تک کہ بی بی کا دل نہ بھرگیا، بی بی فاطمہ  خاتون جنت سے آپ صلی الله علیہ وسلم کی محبت کسی سے ڈھکی چھپی نہیں، جب بھی وہ تشریف لاتیں تو آپ صلی الله علیہ وسلم ان کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے اور ان کے ماتھے پر بوسہ بھی دیتے اور حسنین کریمین شفیقین محترمین تو آپ صلی الله علیہ وسلم کو جان سے عزیز تر تھے، آپ صلی الله علیہ وسلم ان کو اپنے کندھوں کی سواری کراتے تھے اورانہیں جنت کے نوجوانوں کے سردار بھی قرار دیا۔

غزوہٴ حنین کے موقع پر کم وبیش چھ ہزار افراد غلام بنائے گئے تھے، اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم کی رضاعی بہن کو لایا گیا ،انہوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کی اور عرض کیا کہ بچپن میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی کمر پر دانت سے کاٹا تھا ،جس کا نشان آج بھی وہاں پر موجود ہے، اس بہن نے ان قیدیوں میں سے چند کی سفارش کی، جنہیں محسن نسوان صلی الله علیہ وسلم نے آزاد کر دیا، جب یہ بہن باہر تشریف لائیں تو چھ کے چھ ہزار قیدیوں کے رشتہ دار منت سماجت کرنے لگے کہ خدا را! ہمارے قیدیوں کو بھی چھڑالاؤ، یہ بہن اپنے عظیم بھائی صلی الله علیہ وسلم کے پاس پھر حاضر ہو گئیں اورکل قیدیوں کی رہائی کی بابت سفارش کر ڈالی، تب اس بھائی کی شان ملاحظہ ہو کہ کمالِ شفقت ومہربانی سے کل قیدیوں کو رہائی عطا کر دی، کیسا شان دار بھائی او رکتنی ہی محبت والی بہن، یہ آسمان شاید پھر کبھی نہ دیکھ سکے، یہ رضاعی خاندانی محبت کی ایک مثال ہے۔

خاندان کی پرورش الله تعالیٰ کے نزدیک بہت عمدہ عمل ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے بیٹیوں کی پرورش پر جنت کی خوش خبری دی ہے، صالح اولاد کو صدقہ جاریہ قرار دیا، حافظ قرآن وحافظہ قرآن کو والدین کی شفاعت کا مژدہ سنایا، شہید کی ماں کے دامن کو خدا کی رحمت سے بھر دیا اور سخت تاکید کی اپنی اولاد کو الله تعالیٰ کا فرماں بردار بنائیں اور انہیں سات سال کی عمر سے نماز کی تلقین شروع کر دیں اور دس سال کی عمر میں ان پر سختی کرنے لگیں، تاکہ نماز کے معاملے میں وہ سستی سے باز آجائیں، ہم میں سے ہر کوئی گلہ بان ہے اوراس کے گلے کے بارے میں ہم سے سوال ہو گا، ہمارا گلہ ہمارا خاندان ہے، ہم اس بات کے ذمے دار ہیں کہ ہمارے خاندان میں غیر شرعی رسوم ورواج جگہ تو نہیں پارہے؟ ہمارے خاندان میں دولت کے بل بوتے پر ایسی روایات تو جنم نہیں لے رہیں جنہیں غریب رشتہ دار گھر انوں کو پورا کرنا مشکل ہو جائے؟ ہمارے خاندان کا رویہ قطع رحمی کا باعث تو نہیں بن رہا؟ اور کیا ہم اپنے خاندان کو دنیا کے رنگ میں رنگ رہے ہیں یا آخرت کا طلب گار بنا کر قرب خدا وندی کا باعث بن رہے ہیں؟

یورپ اپنی سیکولر سوچ کے باعث آج اپنے خاندانی نظام کو تباہ کر بیٹھا ہے اور اس کی بہت سی وجوہات میں سے ایک بہت بڑی وجہ آزادیٴ نسواں کے نام پر آزادیٴ زنا ہے، اب عمائدین یورپ اپنی پشتوں اور نسلوں کی بقا کے لیے مجبو رہیں کہ خاندان کی اہمیت اُجاگر کرنے کے لیے سال بھر میں ایک دن اس مقصد کے لیے منائیں، تاکہ سیلاب ، زلزلوں اور طوفانوں میں وہاں کے لوگ اپنے والدین اور بزرگوں کو حالات کے سپرد کرکے اپنے کتوں اور بلیوں کے ساتھ بھاگنے کے رویے سے باز آجائیں، لیکن جب تک مشرق وایشیا میں انبیاء علیہم السلام کا آغاز کردہ ”نکاح“ کا ادارہ اپنے جملہ حدود وقیود کے ساتھ موجود ہے، دینی ومذہبی شعور کے باعث یہاں کے گھروں میں دن کا آغاز کسی بڑے کی آواز سے بے داری کے بعد شروع ہوتا ہے اور دن گھر کی بڑی بزرگ خاتون کی ہانی یا لوری سے اختتام پذیر ہوتا ہے، انسانیت بالآخر انبیاء علیہم السلام کی تعلیمات کی طرف ضرور پلٹنے لگے گی اور ہر چڑھتا ہوا سورج خاندان کی عظمت وبرتری کا سورج ہو گا اور خاندان کی اہمیت اجاگر کرنے کے لیے کسی ایک دن کے منانے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی۔

Flag Counter