Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1437ھ

ہ رسالہ

15 - 17
کیا زمانے میں پنپنے کے یہی انداز ہیں؟

مولانا مسعود عظمت
	
کامل دو صدیوں سے زائد کا عرصہ گزر گیا، مسلم ممالک مسلسل افتراق وانتشار کا شکار ہیں، نت نئے فتنے سر اٹھا رہے ہیں، آپس کی ریشہ دوانیاں اور باہمی لڑائی جھگڑوں نے طاقت وقوت کو ختم کر دیا ، جہاں مسلمان ایک طرف آپس میں جنگ وجدل کا شکار ہیں، وہاں دوسری طرف مغربی دنیا نے اس افتراق وانتشار کا فائدہ اٹھا کر مسلمان ممالک پر یا تو خود قبضہ کیا ہوا ہے یا ایسے لوگ مسلط کیے ہوئے ہیں جو خو دانہی کے پروردہ ہیں ،تاکہ انہی کے مفادات کے لیے یہ لوگ کام کرتے رہیں۔

اندرونی اور بیرونی خلفشارنے امت مسلمہ کو کمزور کرکے رکھ دیا ہے، روز نئی نئی تحریکوں کاسامناہے، نئے نئے نعرے اور پروپیگنڈے پھیلائے جارہے ہیں ،پھر ان کے ذریعے عوام کو بہلا پھسلا کر اپنی طرف مائل کیا جارہا ہے اور عوام ہر اس نعرے کے پیچھے چل پڑتے ہیں جہاں ان کی خواہشات وآرزؤوں کی تکمیل ہوسکے چناں چہ جب اس طرح کی صورت حال پیدا ہوتی ہے تو ایک ہی ملک کے لوگ آپس میں لڑائی کے لیے تیار ہو جاتے ہیں ،املاک کو نقصان پہنچایا جاتا ہے، سرپھٹول شروع ہو جاتا ہے، جان ومال عزت وآبرو پر حملے شروع ہو جاتے ہیں، جس کی وجہ سے نقصان سراسر مسلمانوں کا ہی ہوتا ہے۔

9/11 کے واقعہ کے بعد سے مسلم ممالک میں اس انتشا رکی کیفیت میں زیادہ تیزی واقع ہوئی ہے، اقتصادی او رمعاشی ترقی کے میدان میں مسلم ممالک بہت پیچھے ہیں اور یہ شعبہ جات کمزور ہوتے جارہے ہیں، نئی تحریکوں کے جنم لینے سے ملک کا قیمتی سرمایہ، جو نوجوانوں کی شکل میں ہے، وہ ان تحریکوں کا حصہ بن رہا ہے، جس کی وجہ سے ان کی وہ صلاحیتیں، جو ملکی وملی ترقی میں صرف ہوتیں، ختم ہو جاتی ہیں، جب ایک تحریک جس کا مقصود ومنشور نوجوانوں کے سامنے نہیں ہو گا ،اگر ہو گا بھی تو واضح نہیں ہو گا یا اتنی سی پر ملمع سازی کی گئی ہو گی کہ حقیقت حال معلوم ہی نہ ہو تو اس سے یہ نوجوان غلط راہوں پر چل نکلتے ہیں، جن سے تعمیر کی جگہ تخریب ، اصلاح کی جگہ بگاڑ اور درستگی کی جگہ غلطیاں ہوں گی ، جسسے معاشرہ مزید انتشار کی کیفیت کا شکار ہوتا چلا جائے گا۔

اس وقت مسلم ممالک پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو تقریباً ہر ایک ملک میں تصادم کی کیفیت نظر آرہی ہے، کہیں تو عوام آپس میں قومی، لسانی، طبقاتی اور فرقہ وارانہ جنگ کا شکار ہیں تو کہیں حکومت عوام کے خلاف طاقت وقوت کا مظاہرہ کر رہی ہے، اسی طرح استعماری قوتیں اپنے پنجے مسلم ممالک پر گاڑے ہوئی ہیں،9/11 کا بہانہ بنا کر پہلے امریکا نے افغانستان کو اپنی درندگی اور وحشت کا نشانہ بنایا، اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر رکھ دی، پھر جب انتقام کی پیاس نہ بجھی تو عراق پرآتش وآہن کی بارش کردی۔ جس سے لاکھوں لوگ موت کی وادی میں پہنچ گئے، دس لاکھ سے زائد لوگ زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے، سینکڑوں معذور ہو گئے۔

شہروں کے شہر بمباری کی وجہ سے کھنڈرات کا منظر پیش کرنے لگے اس حملہ کے نتیجے میں لوگوں کی معاشی سرگرمیاں رک گئیں، روز مرہ کے معمولات ختم ہو گئے جس سے بے روز گاری کی شرح انتہائی اوپر ہو گئی، نوری المالکی کی حکومت نے ملک میں ایسی پالیسی کا نفاذ کیا، جس کی وجہ سے خانہ جنگی کو مزید ہوا ملی، شیعہ سنی کے درمیان نفرتوں کی دیوار تعمیر ہوئی پھر مخصوص فرقہ کو نوازنے اور دوسری سنی کمیونٹی کو دیوار سے لگانے والی پالیسی نے سنی عوام کو آتش فشاں بنا دیا۔

پھر اس وقت اپنوں کی بے جا مغرب نوازی او رمغرب سے درآمد شدہ نظام کے نفاذ نے عوام کو غلام بنا کررکھا ہوا ہے، مختلف قسم کی پابندیوں اور ظلم وتشدد کا شکار عوام کو موقع ملا تو عرب بہار کے نام سے حکم رانوں کے تختے الٹ کر رکھ دیے، اس عرب بہار کا چلنا تھا کہ لیبیا جیسے معاشی استحکام والے ملک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا، ملک کے طاقت ور حکم ران معمر قذافی بھی اس لڑائی کے بھینٹ چڑھ گئے، اس وقت لیبیا، جو تیل وگیس کی دولت سے مالا مال ہے، اندرونی طور پر مکمل افتراق کا شکار ہے وہاں کئی ناموں سے مسلح تنظیمیں موجود ہیں، جو اقتدار حاصل کرنے کی کوشش میں باہم دست وگریبان ہیں۔

2011ء میں قذافی حکومت کے خاتمہ کے بعد وہاں دو سیاسی گروہ نمو دار ہوئے، ایک طرف تو مکمل سیکولر لابی دوسری طرف اسلام پسند لوگ۔ یہ دونوں گروہ آپس کی لڑائی میں ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں، جس کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے، سینکڑوں معذور اور اپاہج ہو گئے اور یہ تعداد روز بروز بڑھتی ہی جارہی ہے۔

اسی طرح اگر یمن کے حالات کو دیکھا جائے تو وہ بھی دوسرے ممالک سے مختلف نظر نہیں آئیں گے، ارض مسلم کا ہر ہر حصہ خونِ مسلم سے رنگین ہے ،جو مسلسل رنگین تر ہوتا جارہا ہے، یمن میں بھی خانہ جنگی کی آگ بھڑکی ہوئی ہے، ستر فی صد اہل سنت سے تعلق والے لوگوں پر تیس فی صد آبادی والے حوثی قبائل غالب آنے کی کوشش میں ہیں اور ان حوثی قبائل کی کئی ایک جنگیں حکومت کے ساتھ ہو چکی ہیں حوثی قبائل نے جب دارالحکومت پر قبضہ کر لیا تو وہاں سے تمام اسلحہ اور سازوسامان اپنے ساتھ لے کر چلے گئے ان لوگوں نے ایک طرف تو کمزور حکومت کا فائدہ اٹھایا تو دوسری طرف ایرانی پشتبانی اور عسکری مدد ،جو کہ در پردہ جاری تھی، کی مدد سے حکومت پر قبضہ کر لیا، اس قبضہ کا ہونا تھا کہ ایرانی میڈیا نے اس کی حمایت شروع کر دی۔

سازشی عناصر کا ہمیشہ سے یہ وطیرہ اور شیوا رہا ہے کہ و ہ کبھی کھل کر سامنے سے اپنے پروردہ لوگوں کی مدد کرتے ہیں اور کبھی پردہ کے پیچھے رہ کر سازشوں کا جال بچھاتے ہیں اور اپنے مقاصد حاصل کرتے ہیں۔

باطل قوتیں ان ممالک میں لگی ہوئی خانہ جنگی کی آگ کو مزید بھڑکا رہی ہیں، روزانہ سینکڑوں لوگ کٹ جاتے ہیں، ہزاروں معذور ہو رہے ہیں، لیکن کسی کے سر پرجوں تک نہیں رینگتی، فتنہ وفساد، قتل وغارت کے ٹھیکیدار مسلمانوں کو گاجر ومولی کی طرح کاٹ رہے ہیں ،کبھی دہشت گردی کے ذریعے مسلمانوں کا خون بہاتے ہیں۔

امن کی مالا جپنے والے اور مسلسل امن کا گیت گانے والے بغل میں چھری منھ میں رام رام والا کردار ادا کر رہے ہیں، اگر صورت حال یہی رہی تو وہ وقت دور نہیں جب یہی آگ ان کے گھروں اور محلات کو بھی پہنچ جائے گی ،آج جن ایوانوں میں روشنیوں کے دیے جل رہے ہیں، کل وہ کھنڈرات کا منظر بھی پیش کرسکتے ہیں، آج جو طاقت وقوت کے نشہ میں چور ہو کر قتل وغارت، وعداوت کا مظاہرہ کر رہے ہیں، کل انہی کے سر پھانسی کے پھندے میں ہوں گے، مسلمانوں کو اپنے داتی مفاد چھوڑ کر امت مسلمہ کے اجتماعی مفاد کو سامنے رکھنا چاہیے کیوں کہ کام یابی اسی صورت میں ممکن ہے جب اتحاد واتفاق ہو، غیروں کی غلامی چھوڑ کر ایک خدائی غلامی اختیار کر لیں، اگر ہم نے خدائے واحد کو بھلا دیا تو خدا بھی ہمیں بھلا دے گا ،پھر وہ اسلام کی خدمت بھی ان لوگوں سے لے گا جن سے وہ چاہے گا اس سے پہلے کہ ہم خزی الدنیا والاخرة ہو جائیں، ہوش کے ناخن لے کر موجودہ حالات کو صحیح رخ پر ڈال لینا چاہیے۔ تاکہ دنیا میں ہم اپنا کھویا ہوا مقام حاصل کر سکیں۔

Flag Counter