Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1437ھ

ہ رسالہ

3 - 17
موجودہ توریت و انجیل کا تاریخی پس منظر

مفتی سمیع الرحمن
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی

حضرت عزیرعلیہ السلام کی مرتب کردہ ”توریت “بھی نذر آتش
حضرت عزیر علیہ السلام کے بعد شاہ انطاکیہ 198ق م انیٹوکس ثالث نے اسرائیلی ریاست پر حملہ کرکے اس پر قبضہ کر لیا، یہودیوں کا قتل عام کیا، تورات کے جس قدر نسخے جہاں ملے نذر آتش کرا دیے اور اعلان کر دیا کہ جس کے پاس تورا ت ملی یا کوئی شخص شریعت کے احکام پر عمل کرتا ہوا پایا گیا اسے قتل کر دیا جائے گا، یہودیوں کے سابقہ باہمی اختلاف و انتشار کی وجہ سے ایک گروہ مکمل اس ظالم بادشاہ کا ساتھ دیتا رہا، 175ق م اینٹوکس چہارم نے بیت المقدس میں بت رکھوا کر یہودیوں سے بت پرستی کرائی، اس کی ظالمانہ کارروائیوں کے رد عمل میں باغی تحریک اٹھی، جس نے دیکھتے ہی دیکھتے فلسطین کو یونانی قبضے سے آزاد کرالیا، ایک بار پھر اسرائیلی سلطنت قائم ہو گئی، جو 67ق م تک قائم رہی ۔

اسرائیلیوں کے باہمی اختلاف و افتراق نے ایک بار پھر رومیوں کو حملے کی دعوت دی ایک گروہ نے اس کی خفیہ مدد کی چناں چہ 63ق م میں رومی سردار پومپی نے فلسطین پر حملہ کر کے اسے اپنی سلطنت کا حصے بنا دیا، لیکن انتظامی امور مقامی لوگوں کے سپردکر دیے اور ہیرود یہودی کو ان پر علامتی بادشاہ مقرر کیا ،اسی بادشاہ نے اپنی فاحشہ محبوبہ کی فرمائش پر حضرت یحییٰ علیہ السلام کا سر قلم کرایا، محض اس لیے کہ وہ احکام الہٰی سے روگردانی کرنے پر سرزنش کرتے رہتے تھے، حضرت زکریا علیہ السلام پر جھوٹا الزام لگا کر بیت المقدس کے اندر انہیں سنگسار کیا، حضرت عیسیٰ  کو کنواری ماں کی ناجائز اولاد قرار دے کر انہیں بزعم خود لعنتی سزا، یعنی صلیب پر موت دلوانے کی کوششوں کو کام یابی سے ہم کنار کیا ۔

انبیاء علیہم السلام کی تکذیب وقتل ،فحاشی ،عریانی ،ظاہر پرستی، فسق وعصیا ن میں سرتاپا مبتلا اس قوم پر اللہ کا عذاب نازل ہوا، پہلے ان کی سلطنت کے تین ٹکڑے ہوئے ،پھر خود اسرائیلی اور رومی ملی بھگت کے نتیجے میں 70ء میں رومی بادشاہ ٹائٹس نے ان کی سلطنت کو تہہ و بالا کر ڈالا، یہودیوں کے قتل عام میں سوا لاکھ سے زیادہ یہودی مارے گئے اور بقیہ آوارہ جہاں ہو گئے، یہاں تک کہ عالم کفر نے اپنے مفادات کو تحفظ دینے کے لیے قائم کردہ اپنے ادارے ،اقوام متحدہ کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں بانٹ کر اس کے مرکزی مقامات یہودیوں کے حوالے کر کے اسے اسرائیلی مملکت کا نام دے دیا۔

اسرائیلیوں کے قومی حادثات کا تاریخی تسلسل دیکھ کر تاریخ کے طالب علم کے ذہن میں کئی سوالات جنم لیتے ہیں، مثلاً؛
1-ان پر آشوب حالات اور دربدری کے عہد میں مرتب کردہ کتابوں کو جو خود یہودی ،ربیوں ،کاہنوں کے نوشتہ ہیں ، انہیں آسمانی کتاب یا ان کے ہم پلہ کتاب کیسے قرار دیا جا سکتا ہے ؟
2-ان حالات میں تحریر کردہ کتابوں کی استنادی حیثیت کوتاریخ کس حد تک تسلیم کرتی ہے ؟
3-نیز ان کاتبوں کے ذاتی احوال کے متعلق ہمیں تاریخ کیا معلومات دے سکتی ہے ؟
4-اپنی شرارتو ں کے رد عمل میں مسلسل انتقام کا شکار ہونے والی قوم سے کیا غیر جانب دارانہ موقف کی امید رکھی جا سکتی ہے ؟!

موجود ہ توریت کے محرف ہونے کے عقلی شواہد
موجودہ بائبل ہو یا اس کا پہلا حصہ تورات ہو،ان کے مندرجات خود محرف ہونے کی گواہی دیتے ہیں جن میں اللہ تعالی کی گستاخیاں، انبیا علیہم السلام پر شراب نوشی ،بدکاری و اور بت پرستی کی تہمتیں، کتابوں کے مضامین میں باہمی اختلاف اور تضادات کی بھرمار ہے، مثلا کتاب پیدائش کے انیسویں باب میں حضرت لوط پر شرا ب نوشی اور سگی بیٹیوں کے ساتھ زنا کرنے کا واقعہ مذکور ہے، اسی کتاب کے نویں باب کی آیت نمبر بیس تا پچیس میں حضرت نوح علیہ السلام پر شراب نوشی کا الزام عائد ہے، اسی کتاب میں حضرت یعقوب علیہ السلام کو ناشکرا، بے صبرا،جلد باز ٹھہرایا گیا ہے، بلکہ اللہ تعالی سے رات بھر کشتی کا ذکر بھی اسی میں ہے ،اسی طرح اسی کتاب میں حضرت یوسف علیہ السلام پر بھائیوں کی چغل خوری کا الزام عائد کیا گیا ہے ، کتاب خروج میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر قتل عمد اور مقتول کو ریت میں دبا کر چلے جانے کا الزام عائد کیا گیا ہے ،اسی کتاب کے تینتیسویں باب میں حضرت ہارون علیہ السلام پر شرک و کفر ،بچھڑا بنا کر اس کی عبادت میں پیش پیش رہنے کا الزام دھر دیا ہے ، تالمود جو تورات کی معتبر تفسیر ہے، اس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام پر خفیہ عشق بازی اور بدکاری کی تہمت دھر دی ہے، کتاب سموئیل کے گیارہویں بارہویں باب میں حضرت داوٴد علیہ السلام پر اپنے فوجی جوان کی بیوی کو قصر شاہی کی چھت سے عریاں نہاتے ہوئے دیکھ کر فریفتہ ہونے ،پھر اسی شاہی محل میں بلا کر بدکاری کرنے، اس کے شوہر کو جنگ میں مروا کر اس کی بیوی کو مستقل ہتھیا لینے کا بھونڈا اور شرمناک الزام مزے لے لے کر بیان کیا گیا ہے ، حضرت سلیمان علیہ السلام پر بت پرست اور مشرکہ عورتوں کے دام فریب میں پھنسنے اور پھر ان کو اپنے نکاح میں لانے اور ان کی محبت میں بت پرستی کا میلان رکھنے کا الزام سلاطین کے باب نمبر گیارہ میں مذکور ہے ،خدا کے غضب کی ماری اس قوم نے اپنی بدکاریوں کو ہلکا بنانے اور انہیں وجہ جواز بخشنے کے لیے ان سب الزامات کا نشانہ ایسی مقدس جماعت کو بنا ڈالا جو اس سے بری تھے۔ ایک شریف انسان سے کبھی ایسی حرکتیں سرزد نہیں ہوسکتی جو انہوں نے اللہ کے برگزیدہ بندوں انبیا کے متعلق بیان کی ہیں۔

ان مندرجات کو دیکھنے کے بعد اسے اللہ کی کتاب سمجھنے والا شخص احمق ہی ہو سکتاہے ۔

علامہ ابن حزم الاندلسی  نے اپنے عہد کے ان ”دانش وروں “پر اظہار تعجب کرتے ہوئے انہیں جاہل اور قرآن و سنت کی تعلیمات سے عاری قرار دیا تھا، جو عہد عتیق و جدید کے غیر محرف ہونے کا عقیدہ رکھتے تھے ،اگر وہ آج ہمارے عہد میں ہوتے تو غامدی کے دانش کدے میں استشراقی گھاٹ میں سیراب ہونے والے ایک ایسے گروہ کی بھی وہ ”زیارت“ کر لیتے جو دروغ گوئی ،تناقض بیانی ،اللہ اور اس کے رسولوں کی گستاخیوں اور فحش قصوں پر مشتمل، پہیلیوں کے اس مجموعے کو رشدو ہدایت کا بے بہا خزانا قرار دیتا ہے، بلکہ اسے حجت قرار دے کر قرآنی اشاروں کی راہ نمائی میں کتاب مقدس کی عبارتوں سے موسیقی اور مجسمہ سازی کا جواز بھی ڈھونڈ لاتا ہے ۔فالی اللہ المشتکی۔

چناں چہ غامدی صاحب لکھتے ہیں:
”سوم یہ کہ الہامی لٹریچر کے خاص اسالیب ،یہودو نصاریٰ کی تاریخ، انبیائے بنی اسرائیل کی سرگزشتوں اور اسی طرح کے دوسرے موضوعات سے متعلق قرآن کے اسالیب واشارات کو سمجھنے اور اس کے اجمال کی تفصیل کے لیے قدیم صحیفے ہی اصل ماخذ ہوں گے ۔“(میزان ،اصول ومبادی ،ص، 47،طبع پنجم)

ان کے ایک شاگرد رقم طراز ہیں۔
”بائبل تورات، زبور، انجیل اور دیگر صحف سماوی کا مجموعہ ہے، اپنی اصل کے لحاظ سے یہ اللہ کی شریعت اور حکمت کا بیان ہے، اس کے مختلف حاملین نے اپنے مذہبی تعصبات کی بنا پر اگرچہ اس کے بعض اجزاء کو ضائع کر دیااور بعض میں تحریف کر دی، تاہم اس کے باوجود اس کے اندر رشدو وہدایت کے بے بہا خزانے موجود ہیں، اس کے مندرجات کو اگر اللہ تعالی کی آخری محفوظ کتاب قرآن مجید کی روشنی میں سمجھا جائے تو فلاح انسانی کے لیے تو اس سے بہت کچھ اخذو استفادہ کیا جا سکتا ہے ،اس کتاب مقدس میں موسیقی اور آلات موسیقی کا ذکرمتعدد مقامات پر موجود ہے ان سے بصراحت یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ پیغمبروں کے دین میں موسیقی یا آلات کو کبھی ممنوع قرار نہیں دیا گیا۔“ (منظور الحسن ،ماہنامہ اشراق، مارچ2004المورد لاہور)

توریت کے مختلف نسخے اور ان کے متعلق اہل کتاب کا باہمی اختلاف
ابھی تک جس تورات کی تاریخی حالت بیان کی گئی تھی ،اسے ”یہودی تورات “کہا جاتا ہے، اس کے مقابلے میں ایک دوسری تورات بھی ہے ،جسے ”سامری تورات “کہا جاتا ہے ۔

بخت نصر کی ستر سالہ غلامی سے آزادی پانے کے بعد جب یہ فلسطین واپس لوٹے تو ہیکل کی ازسر نو تعمیر شروع کی ،جو بخت نصر کے حملے میں بری طرح جھلس کر بے نام و نشان ہو گیا تھا، اس تعمیر میں سامری فرقے نے حصہ لینا چاہا، لیکن اسرائیلیوں نے انہیں شریک کرنے سے انکار کر دیا، کیوں کہ سامری یہودی مذہب تو رکھتا تھا، لیکن اسرائیلی خاندان سے تعلق نہیں رکھتا تھا،اس لیے اسرائیلی ان کے ساتھ نسلی تعصب رکھتے تھے، چناں چہ سامری فرقے نے اپنا الگ معبد بنایا اور الگ سے تورات مرتب کی، جسے سامری تورات کہا جاتا ہے ۔

چناچہ جی ،ٹی ،مینلی(پادری) اپنی کتاب ”ہماری کتاب مقدسہ“ میں لکھتا ہے ۔
”توریت کا سامری نسخہ عہد عتیق کے نسخوں میں اہم ترین اور صحیح ترین نسخہ ہے ،شاید اس کا آغاز آٹھویں صدی قبل از مسیح ایسے ماحول اور اسباب کے باعث ہوا جن کا ذکردوسرے سلاطین کے سترھویں باب میں ہے، اسے آسانی سے دوسرے تراجم کی صف میں شامل کر سکتے ہیں، ان میں سے کچھ اس نسخہ سے نقل کیے گئے ہیں جو فلسطین میں ”نب لوس“ میں ہے، کہا جاتا ہے کہ یہ نسخہ مسیحی صدی کے آغاز میں تیار ہوا تھا ،قریباً چھ ہزار جگہوں میں اس کا متن میسوریٹک نسخے سے مختلف ہے ان اختلافات میں سے اکثر ایسے ہیں جو غیر ضروری گرائمر کے اختلافات ہیں، چند ایسے ہی جوجان بوجھ کر عمل میں لائے گئے ہیں ۔(ہماری کتب مقدسہ :ص:42)

پادری صاحب کی تشریح کے مطابق سامری تورات میں چھے ہزار مقامات ایسے ہیں جو یہودی تورات سے مختلف ہیں ،اسرائیلی، سامری تورات کی اور سامری، اسرائیلی تورات کی تکذیب کرتے ہیں اور اسے محرف سمجھتے ہیں، ہم ان دونوں کی ایک دوسرے کے متعلق بیان کی تصدیق کرتے ہیں ،حقیقت یہ ہے کہ دونوں محرف ہیں ۔

پھر یہودی تورات کے دو نسخے ہیں، ایک اسرائیلیوں کے ہاں قابل اعتنا سمجھا جاتا ہے، اسے عبرانی نسخہ کہا جاتا ہے، دوسرا مسیحیوں کے ہا ں معتبر گردانا جاتا ہے، اسے یونانی نسخہ اور سبیعینہ کہا جاتا ہے مسیحیوں کے اس معتبر نسخے کی سات کتابیں متنازعہ ہیں، مسیحیوں کا کیتھو لک فرقہ اسے درست اور پروٹسنٹ فرقہ اسے جعلی قرار دیتا ہے ۔

بائبل کی موجودہ کتابوں میں بعض ایسی کتب کا تذکرہ ہے جن کا حوالہ تو دیا گیا ہے، مگر وہ مجموعے میں شامل اشاعت نہیں ہے ،جن کی تعداد ڈیڑھ درجن سے زائد ہے ۔

ان کتابوں کی اس ناگفتہ بہ حالت دیکھنے کے بعد ادنی عقل رکھنے والا شخص بھی اسے آسمانی نہیں کہہ سکتا اور نہ قرآن کریم ان لچر اور بے ہودہ کتابوں کی تصدیق کا حکم دیتا ہے ۔

قرآن کریم موجودہ توریت وانجیل کی تصدیق نہیں کرتا
قرآن کریم میں جہاں جہاں توریت و انجیل کی تصدیق کی بات آتی ہے وہاں مراد یہ ہے کہ اللہ تعالی کا حضرت موسیٰ  پر تورات اور حضرت عیسیٰ  پر انجیل کا نازل کرنا حق و سچ ہے ،قرآن اس نزول کی تصدیق کرتا ہے، مسلمان اس نزول پر ایمان رکھتے ہیں، نہ کہ مجہول الحال لوگوں کی کذب بیانی پر مشتمل نوشتہ کتابوں پر، اگر چہ ان کا نام تورات و انجیل رکھ لیا جائے۔ مولانا ادریس کاندھلوی  اپنے ایک رسالے ”اسلام اور نصرانیت “میں لکھتے ہیں ۔”موجودہ تورات و انجیل وہ تورات نہیں جو اللہ تعالی کی طرف سے نازل ہوئی تھیں، اصل تورات و انجیل کا کہیں نام و نشان بھی نہیں ہے، جس کا خود علمائے یہود و نصاریٰ کو اعتراف ہے اور اقرار ہے۔ “ (اسلام اور نصرانیت:47)

موجودہ توریت اور یہودی ،مسیحی مفکرین کا نقطہ نظر
پہلی صدی عیسوی تک تمام یہودی و مسیحی علماء کے نزدیک پورے عہدہ قدیم کو وحی اور اسے لفظ بہ لفظ منزل من السماء سمجھا جاتا تھا، بعض عبارتوں کو معنوی طور پر غلط اور بعض عبارتوں کو اخلاقی لحاظ سے پست اور مذموم قرار دیا؟ ”پوفری“نامی مسیحی عالم (متوفی ،304ع)نے یہ ثابت کیا کہ صحیفہ دانیال بابل کی جلا وطنی کے چار سو سال بعد لکھا گیا ،اسی طرح ایک ہسپانوی یہودی عالم ابن عزرا ،متوفی 11 27ع نے تحقیق سے ثابت کیا کہ تورات حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد کی تالیف ہے، کئی محققین نہ صرف یہ عقیدہ رکھتے ہیں بلکہ اس کی تبلیغ کرتے ہیں ،بلکہ اب اکثر یہودی تورات کے متعلق تنزیل لفظی کا عقیدہ ہی نہیں رکھتے، چناں چہ مولانا دریا آبادی اپنی تفسیر ”تفسیر ماجدی“سورة آل عمران کی آیت نمبر تین کی تفسیر میں لکھتے ہیں ۔

”موجودہ بول چال میں تورات نام ہے متعدد صحیفوں کے مجموعے کا،جن میں سے ہر صحیفہ کسی نہ کسی نبی کی جانب منسوب ہے ،لیکن ان میں سے کسی ایک صحیفے کی بھی تنزیل لفظی کا دعویٰ کسی یہودی کو نہیں۔“ (انسائیکلوپیڈیا،برٹانیکا جلد نمبر 3ص:613)

موجودہ انجیل کی حقیقت
حضرت عیسیٰ علیہ السلام نبی تھے اور بنی اسرائیل کی ہدایت کے لیے مبعوث ہوئے تھے اس لیے حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکار عہدنامہ عتیق پر بھی یہود کی طرح ایمان رکھتے ہیں، مسیحی حضرات جس کتاب کو انجیل کے نام سے موسوم کرتے ہیں اسے عہد جدید اور ”نیا عہد نامہ “کہا جاتا ہے، دونوں عہد کے مجموعہ کو کیتھولک فرقے کے ہاں ”کتاب مقدس “اور پروٹسنٹ کے ہاں ”کلام مقدس“ کہا جاتاہے، اسے عربی میں ”الکتاب المقدس“اور انگریزی میں بائبل کہا جاتا ہے ،عہد نامہ انجیل سے مراد وہ چار اناجیل ہیں جو مختلف لوگوں نے تحریر کی ہیں، مسیحی ان اناجیل اربعہ کو آسمانی کتاب نہیں سمجھتے، بلکہ اس بات کا بھی اقرار کرتے ہیں کہ ان اناجیل میں سے کوئی انجیل حضرت عیسی علیہ السلام کے عہد مبارک میں نہیں پائی جاتی تھی، اس لیے علی بن احمد بن حزم اندلسی نے فرمایا ”مسیحیوں نے ان اناجیل کے متعلق انسانی تصنیف کا اقرار کرکے ہمیں اس کے انسانی تصنیف کے ثبوت پر دلائل قائم کرنے کی مشقت سے آزاد کر دیا ہے ۔“(الملل والنحل لابن حزم :ص:241)

پہلی انجیل متیٰ نامی شخص کی تصنیف ہے اور 28 ابواب پر مشتمل ہے۔

دوسری انجیل ہرقس نامی شخص کی تصنیف ہے جو12 ابواب پر مشتمل ہے اور تیسری انجیل لوقا نامی شخص کی جانب منسوب ہے، جو24 ابواب پر مشتمل ہے ،چوتھی انجیل یوحنا نامی شخص کی تصیف ہے، جو 21 ابواب پر مشتمل ہے ۔

ان چاروں اناجیل کی تصانیف کا زمانہ مختلف فیہ ہے اور اس کی تعیین پر مسیحی علماء کا اتفاق نہ ہو سکا۔

واضح رہے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دعوت پر بالاتفاق ایک سو بیس افراد ایمان لائے تھے، سب اپنا ایمان خفیہ رکھتے تھے، ظاہری اعمال میں یہود کے ساتھ موافقت کرتے تھے، یہود کے مذہبی دن ”سبت“کی پابندی کرتے تھے۔

اگر کسی کا ایمان ظاہر ہوتا تو شہید کر دیا جاتا، کئی مسیحی مومن افشا ایمان کے بعد شہادت سے سرفراز ہوئے ،حضرت مسیح عیسیٰ علیہ السلام کے رفع سماوی کے تین سو سال تک مسیحیوں کی یہی حالت رہی ، اسی دوران حقیقی انجیل ،جو اللہ تعالی نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر نازل فرمائی تھی، ان کے درمیان سے جاتی رہی اس کے نام پر کئی انسانی تصانیف انجیل کے نام پر مروج ہو گئیں، جو کذب بیانی اور اللہ تعالی کی بے ادبی و گستاخی ،انبیاء علیہم السلام پر بہتان بازی اور فحش بیانی میں تورات سے بھی سبقت لے گئیں ،پھر ان مروج انجیل میں چار اناجیل ،انجیل متی ،انجیل مرقس۔انجیل لوقا، انجیل یوحنا کا طریقہ انتخاب کسی داستاں سے کم نہیں اس کا بیان ایک مستقل مضمون کا متقاضی ہے۔

خلاصہ کلام
مسیحی تاریخ کا مدار اور ماخذمذکورہ اناجیل اربعہ ہیں ،اس لیے ان سے بحث و تمحیص کرتے ہوئے ان باتو ں کو ذہن نشین رکھیں ۔
1-یہ انجیلیں حضرت عیسی علیہ السلام کی املا کردہ نہیں ہیں ،بلکہ حضرت مسیح نے انہیں دیکھا تک نہیں ۔
2-اس کے لکھنے والے لوگ مجہول اور غیر معروف ہیں ،کسی کی حیات پردے میں ہے ،کسی کی خدمات اور مذکورہ انجیلوں سے ان کا تفصیلی تعلق بھی واضح نہیں ہے ۔
3-ان کی تصانیف مخصوص لوگوں کی قیادت ،مختلف حالات ، اور زبانوں کے موافق ہوئی ہے ۔
4-اصل انجیلوں کی گمشدگی پر تمام مسیحی علماء کا اتفاق ہے ۔

چور الٹا کوتوال کو ڈانٹے
وعظ و شفا کے نا م پر علم و دین سے لا تعلق غریب مسلمانوں کو ورغلانے کے لیے مسیحی مشنریوں نے مختلف طریقہائے واردات اختیار کر رکھے ہیں، ان میں سے ایک طریقہ یہ ہے کہ مسلمانوں سے سوال کیا جاتا ہے کہ تمہارے عقیدے کے موافق حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا ضروری ہے یا نہیں؟ مسلمان اس کا جواب ہاں میں دیتے ہیں ۔پھر دوسرا سوال یہ کیا جاتا ہے کہ مسلمان قرآن کریم پر ایمان رکھتے ہیں اور قرآن کریم تورات وانجیل پر ایمان لانے کا حکم دیتا ہے یا نہیں ؟مسلمان اس کا جواب بھی ہاں میں دیتے ہیں ۔ اس کے بعد موجودہ انجیل کی روشنی میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ”ابن اللہ “کے حق میں وعظ شروع کر دیا جاتا ہے ۔

اس دوران اگر کوئی مسلمان موجودہ انجیل کو محرف قرار دے یا اس کی تعلیمات پر نقطہ اعتراض اٹھائے تو اس سے مطالبہ شروع کر دیا جاتا ہے کہ اگر یہ اصلی انجیل نہیں ہے تو قرآن مجید میں جس انجیل کی تصدیق کی گئی ہے وہ لا کر دکھاوٴ۔

پادری حضرا ت کے اس مطالبے پر تعجب ہوتا ہے، قرآن کریم نے کب موجودہ تورات وانجیل کی تصدیق کی ہے یا اس پر ایمان لانے کا حکم دیا ہے ؟نیز اللہ تعالی کی نازل کردہ کتاب انجیل مقدس کی حفاظت کی ذمے داری، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے پیروکاروں کی تھی یا امت محمدیہ علی صاحبہا الف تحیہ کی ؟ان کی حقیقی کتابوں اور تعلیمات سے غفلت برتنے کا نا قابل معافی جرم کا طوق تم نے اپنے گلے میں ڈالا یا ہم نے ؟اپنے مذکورہ جرائم پر اظہار ندامت کرتے ہوئے اسلام کے دامن رحمت سے وابستہ ہونے کے بجائے الٹا مسلمانوں سے اصلی انجیل دکھانے کا مطالبہ کس منہ سے کرتے ہو؟

اللھم ارنا الحق حقاً وارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ

Flag Counter