شاہ ولی اللہ محدث دہلوی کی شہرہٴ آفاق تصنیف
حجة اللہ البالغہ
مفتی امانت علی قاسمی
شاہ ولی اللہ محدث دہلوی ہندوستان کی ان منتخب اور چنندہ شخصیتوں میں سے ہیں جن کے علمی وفکری نظریات کو سب سے زیادہ فروغ حاصل ہواہے، جن کی فکر ایک دبستان کی حیثیت سے آج سب سے زیادہ مقبول ہے، اور” فکر ولی اللہی“ اور ”مکتب ولی اللہی“ اہل علم کے حلقوں میں زبان زد ہے، شاہ صاحب کی تصانیف پچاس سے زائد ہیں اور ان کی تمام تصانیف حقائق ومعارف کے موتی بکھیرنے میں اپنی مثال آپ ہیں، لیکن ان کی قابل قدر تصنیف، لازوال شہرت کی حامل اور شریعت کے اسرار وحکم کو واضح کرنے والی کتاب،جن کے بارے میں تبصرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ ماضی قریب اور ماضی بعید میں اب تک کسی خامہٴ نگار کے گوہر قلم سے ایسی کتاب منصہ شہود پر نہیں آئی، یعنی ”حجة اللہ ا لبالغہ“ جس نے اشاعت کے وقت سے ہی علمی حلقوں میں ایک غلغلہ پیدا کردیا ہے اور ارباب فکر ودانش کو دعوت فکر دی ہے، شاہ صاحب کی یہ کتاب عربی زبان میں دوجلدوں پر مشتمل ہے،مختلف مطابع سے متعدد بار تصحیح وتحشیہ کے ساتھ شائع ہوچکی ہے، مختلف زبانوں میں اس کے ترجمے ہوچکے ہیں،نیز مختلف مدارس اور یونیورسٹیوں میں اس کے منتخب ابواب داخل نصاب ہیں۔
صاحب کتاب کا تعارف
شاہ صاحب رحمة الله علیہ بارہویں صدی کی ان نابغہ روزگار شخصیتوں میں سے ہیں جنہوں نے ہندوستان کی اسلامی تاریخ کو بہت زیادہ متاثر کیا ہے، آپ نے نئے عہد اور نئے دور کی بنیاد ڈالی اور ہندوستان کی اسلامی تاریخ کو نئی علمی وعقلی بنیادوں پر تعمیر کیا، اسلامی ہندکے زوال سے آج تک جو کچھ بھی علمی ودینی سرگرمیاں نظر آرہی ہیں وہ سب اسی خانوادہٴ ولی اللہی کا فیض ہے، شاہ صاحب کی ولادت عظیم مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کی وفات سے چار سال قبل 14/ شوال 1114ھ مطابق 21/ فروری 1703ء چہارشنبہ کے دن طلوع آفتاب کے وقت قصبہ ”پھلت“ ضلع مظفر نگر میں ہوئی، آپ کا نام ولی اللہ قطب الدین احمد ہے اور تاریخی نام” عظیم الدین“ہے، کنیت ”ابو عبد العزیز“ اور” ا بو الفیاض“ہے، آپ کے والد ماجد کا نام عبد الرحیم اور دادا کا نام وجیہ الدین ہے، آپ کا سلسلہ نسب والد ماجد کی طرف سے حضرت عمر فاروق تک اور والدہ ماجدہ کی طرف سے موسی کاظم تک پہنچتا ہے۔( مفتی سعید احمد پالنپوری ، رحمہ اللہ الواسعة 1/25، مکتبہ حجاز دیوبند،سن طباعت2001)
شاہ صاحب کا خاندان قدیم زمانے سے اسلامی وسیاسی علم وفضل کاجامع چلا آتا ہے، ان کے خاندان میں شجاعت، سخاوت اور علم فضل کی بلند پایہ شخصیتیں پیدا ہوئیں، آپ کے خاندان کے سب سے پہلے شیخ شمس الدین مفتی ہندوستان تشریف لائے، آپ کے جد امجد شیخ وجیہ الدین زندگی بھر کفار ہند کے خلاف نبردآزما رہے اور دنیائے شجاعت میں محیر العقول کارنامے چھوڑے، آخر کار سلطان محی الدین محمد عالمگیر کے عہد میں شہادت پائی، شیخ وجیہ الدین کے تین لڑکے تھے شیخ ابو رضاء محمد شیخ عبد الحکیم شیخ عبد الرحیم، جن کی ولادت 1054ھ ہے۔
تعلیم
پانچ سال کی عمر میں آپ کو مکتب میں داخل کیا گیا، ابھی آپ کی عمر سات برس کی نہیں ہوئی تھی کہ قرآن مجید حفظ کرلیا، چناں چہ اسی سال آپ کے والد ماجد نے روزہ رکھنے اور تمام ارکان اسلام کی پابندی کرنے کی وصیت کی، ساتویں سال میں آپ نے فارسی شروع کی، ایک سال میں فارسی کی تعلیم سے فارغ ہوکر صرف ونحو کی درسی کتابیں شروع کیں، دس برس کی عمر میں آپ شرح ملا جامی پڑھنے لگے، آپ نے لغت، تفسیر، حدیث، فقہ، اصول، تصوف، عقائد، منطق، طب، فلسفہ، ہیئت اور حساب کی بیشتر کتابیں اپنے والد ماجد سے پڑھیں ا ور پندرہ برس کی عمر میں یہ کتابیں ختم کرلیں۔( محمد منظور الوحیدی، مترجم حجة اللہ ا لبالغہ1/9، مکتبہ تھانوی دیوبند، سن طباعت 1986ء)
1131ھ میں آپ نے اپنے والد بزرگوار کی وفات کے بعد ان کے قائم کردہ مدرسہ رحیمیہ میں پڑھانا شروع کیا اور بارہ برس تک اپنے فکروفن کو عام کرتے رہے اور علم ومعرفت کے روشن چراغ سے مغلیہ سلطنت کے تاریک دور میں شمع فروزاں کرتے رہے، بارہ سال بعد 1143ھ میں حرمین کی زیارت اور حج کے ارادے سے حجاز تشریف لے گئے، دو سال حجاز میں رہ کر وہاں کے علماء سے سند حدیث حاصل کی، حجازکے اساتذہ میں شیخ ابو طاہر محمد بن ابراہیم الکردی سب سے ا ہم ہیں ، علماء حرمین سے علوم ظاہری وباطنی میں بھر پور استفادہ کے بعد شاہ صاحب 14/ رجب 1145ھ کو دہلی پہنچے اور دوبارہ مدرسہ رحیمیہ میں مسند درس پر جلوہ افروز ہو کر کتاب وسنت کے علوم پھیلانے میں مشغول ہوگئے،بڑے بڑے ماہرین فن آپ کی شاگردی کو مایہٴ فخر سمجھتے تھے، شاہ صاحب کے عہد میں حدیث سے بے اعتنائی بہت زیادہ تھی اور فقہی تصلب پوری شدت سے تھا،اسی لیے شاہ صاحب نے حدیث کی اہمیت واضح کی اور لوگوں کو کتاب وسنت کے مطالعہ کرنے اور ان کو سب سے پہلا مقام دینے اور ہر اختلافی امر میں کتاب وسنت کو مرجع تسلیم کرنے کی طرف توجہ دلائی، 63/ سال کی عمر میں 1176ھ میں علم وحکمت کا آفتاب نیر تاباں ہمیشہ کے لیے غروب ہوگیا، لیکن ان کی تصنیف وتالیف کی برقی قمقموں سے آج بھی علم وفن کے مدرسے روشنی ہیں۔
شاہ صاحب کی تصنیفات ایک سو سے زائد ہیں، جن میں سے پچاس کے قریب تالیفات کا پتہ چلتا ہے، شاہ صاحب کی تفسیر، حدیث، تصوف اور دوسرے اسلامی موضوعات پر ایسی تالیفات ہیں جن کو دیکھ کر علوم ظاہر وباطن میں شاہ صاحب کی امامت کا اعتراف کیے بغیر چارہ نہیں، شاہ صاحب کی تصنیفات میں ”فتح ا لرحمن ترجمة القرآن“ سب سے اہم ہے، یہ قرآن کریم کا فارسی زبان میں ترجمہ ہے اور یہ قرآن کریم کا کسی دوسری زبان میں پہلا ترجمہ ہے، اس پر شاہ صاحب کو بہت مخالفت کا سامنا بھی کرنا پڑاتھااور مصائب وآلام کی پرخار وادیوں سے بھی گزرنا پڑا تھا، اصول تفسیر میں” الفوز الکبیر“ اور حدیث میں ”المسوی من احادیث الموطا“ اور” ا لمصفی شرح موطا“ اور” تراجم ابواب بخاری“ تصوف میں سطعات، ہمعات، لمعات، انتہائی قابل قدر اورغیر معمولی شہرت کی حامل تصانیف ہیں۔
کتاب کا تعارف
حجة اللہ البالغہ ،شاہ صاحب کی ایک منفرد، یگانہ اور مہتم بالشان تصنیف ہے، جس میں شاہ صاحب نے اسرار شریعت اور اس کے رموز وحکم سے بحث کی ہے اور عصر جدید میں اسلام پر ہونے والے اعتراضات کا دنداں شکن جواب دیا ہے، اگر چہ یہ کتاب اسرار شریعت کے موضوع پر لکھی گئی ہے؛ لیکن شاہ صاحب نے اس میں حدیث ،فقہ، اخلاق، تصوف اور فلسفہ پانچوں مضامین کا عطر کشید کردیا ہے، شاہ صاحب اس سلسلے میں فرد فرید ہیں، جنہوں نے علوم شریعت کے اسرار بیان کرنے میں علمی تحقیقات کی بنیاد رکھی ہے اور کتاب کے ہر حکم کی ایسی مستحکم علت بیان کی ہے کہ کسی دور کا کوئی فلسفہ اس کو رد نہیں کرسکتا ہے، بہت سے تبصرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ یہ اس موضوع پر پہلی تصنیف ہے، اس کے بعد اگر چہ اس موضوع پر دیگر اہل علم نے خامہ فرسائی کی، اپنی علمی وفکری صلاحیت کو استعمال کیا، لیکن شاہ صاحب کی یہ کتاب اپنے موضوع اور جامعیت کے اعتبار سے آخری کتاب ہے، یہ کتاب شاہ صاحب نے انتہائی استغراقی کیفیت میں بالہام ربانی تحریر فرمائی ہے، اس لیے کتاب میں جگہ جگہ لکھتے ہیں: ”علّمني ربي، الہمني ربي“ یہ کتاب عربی زبان میں دو جلد میں ہے اور جوامع الکلم کے طرز پر شاہ صاحب کی تحریر ایجاز واختصار کے ساتھ جامعیت ومعنویت کا بہترین نمونہ ہے، اب تک اردو، فارسی اور انگریزی کے علاوہ متعدد زبانوں میں اس کے ترجمے ہوچکے ہیں، اردو میں اس کی مفصل شرح بھی آچکی ہے، بعض لوگوں نے اس کی تلخیص بھی کی ہے، ہندوستان اور عالم اسلام کے مختلف مطابع سے متعدد بار شائع ہوتی آرہی ہے، اصل کتاب پر بعض علمائے ہند کے گراں قدر حواشی بھی ہیں، دارالعلوم دیوبند کے شیخ ا لحدیث مفتی سعید احمد پالنپوری نے متعدد نسخوں سے مقابلہ کرکے قیمتی اور مفید حواشی کے ساتھ اس کو دو جلدوں میں ایڈٹ کیا ہے، جو اس وقت حجة اللہ البالغہ کا غالبا سب سے بہتر نسخہ ثابت ہوگا۔
ابواب کا تعارف
شاہ صاحب نے اس کو دو جلدوں میں مکمل کیا ہے، پہلی جلد میں سات مباحث ہیں اور ہر مبحث کو کئی کئی ابواب پر ختم کیا ہے، سب سے پہلے شاہ صاحب نے ان قواعد کلیہ کو ذکر کیا ہے جس کے ذریعہ شرعی احکام میں ملحوظ مصلحتوں کو ان قواعد کے ذریعہ استنباط وتخریج کیا جاتا ہے۔
پہلی بحث: اس میں یہ بتایا ہے کہ انسان کو کیوں مکلف بنایا گیا ہے اور اس پر جزا وسزا مرتب ہونے کی کیا وجوہات ہیں؟اس بحث میں تیرہ ابواب ہیں، پہلا مسئلہ ابداع وخلق وتدبیر کا ہے، چوں کہ تخلیق کائنات سب سے پہلا مسئلہ ہے، لہٰذا ایک جامع کتاب میں سب سے پہلے یہی مسئلہ زیر بحث آنا چاہیے۔
دوسری بحث: اس بحث میں شاہ صاحب نے موت کے بعد مجازات کی کیفیت بیان کی ہے ،اس میں چار ابواب ہیں، جس میں موت کی حقیقت، مرنے کے بعد کی زندگی کے احکام اورحشر کے کچھ واقعات کو بیان کیا ہے۔
تیسری بحث: اس میں زندگی کے اہم ترین مسئلہ یعنی ارتفاقات کو بیان کیا ہے کہ زندگی کے مختلف شعبوں میں کن اصولوں پر گام زن ہوکر ہم دنیا میں عروج حاصل کرسکتے ہیں، اپنی زندگی کو خوش گوار بناسکتے ہیں اور اپنی اجتماعی وانفرادی زندگی کو کامرانی سے دوچار کرسکتے ہیں، اسی طرح سربراہ مملکت کے ضروری اوصاف، نظام حکومت، سرکاری عملہ کے نظم وانتظام اور خلافت کبری کو بہت تفصیل سے بیان کیا ہے۔
چوتھی بحث: اس میں سعادت پر بحث کی ہے کہ سعادت کیا ہے؟ لوگوں میں سعادت کے اعتبار سے اختلاف اور حصول سعادت کے طریقوں پر مفصل بحث کی ہے۔اور طہات (پاکی) اخبات(اللہ کے حضور میں نیاز مندی) سماحت(فیاضی) اور عدالت (انصاف) جیسی صفات اور اس کی تحصیل وتکمیل کے متعلق کلام کیا ہے۔
پانچویں بحث: اس میں نیکی اور بدی پر بحث کی ہے اور اس کو سترہ ابواب پر تقسیم کیا ہے اور زیادہ تر توحید، شرک اور ایمان پر کلام کیا ہے، اسی طرح شعائر اللہ کی تعظیم، وضو، نماز، روزہ، زکوٰة اور حج کے اسراراور حکمتوں کو بیان کیا ہے۔
چھٹی بحث: اس میں سیاسیات ملیہ پر کلام کیا ہے اور اس کو اکیس (21) ابواب پر منقسم کیا ہے، جس میں ملت کے مختلف امور، ہادیانِ قوم، ادیانِ سابقہ، اسلام اور دورِ جاہلیت پر قیمتی بحث ہے۔
ساتویں بحث: جلد اول کی یہ آخری بحث ہے، جس میں علوم نبوت،کتب حدیث، صحابہ وتابعین اور فقہاء کے اختلافات پر پرمغز کلام کیاہے،اخیر میں طہارت ونماز کے مسائل بالتفصیل بیان کرکے جلد اول کو ختم کیاہے۔
جلد دوم: شاہ صاحب نے دوسری جلد میں زیادہ عبادات، باہمی معاملات اور سیاسیات پر بحث کی ہے، سب سے پہلے نماز، روزہ اورحج کے ابواب کو ذکر کیا ہے، اس جلد کو شاہ صاحب نے مباحث میں تقسیم نہیں کیاہے، بلکہ ہر بحث پر ا یک عنوان لگادیا ہے، عبادات بدنیہ ومالیہ کی ابحاث کے بعد کاروبار کرنے اور روزی کمانے کے آداب واحکام بیان کیے ہیں، اس کے بعد تدبیر منزل کے مباحث کو پیش کیا ہے،اسی طرح نکاح، طلاق، حقوق زوجیت اور تربیت اولاد وغیرہ جیسے ضروری امور پر مفصل بحث کی ہے اور اس کے بعد ملکی اور قومی امور پر کلام کیا ہے، خلافت، حدود، قضا، جہاد اور دوسرے قومی اہمیت کے حامل افکار پرایسے انداز سے قلم اٹھایا ہے کہ دور جدید وقدیم کے علم وفضل کے بڑے بڑے دعویدار ساکت وصامت ہوکر رہ جاتے ہیں۔
ان مباحث کے بعد شاہ صاحب نے عام زندگی کے آداب، لباس، تہذیب اور دوسرے عام اصول ہائے زندگی پر بحث کرکے آئندہ کے فتنوں اور آخر میں مناقب صحابہ پر کتاب کومکمل کیا ہے۔
اسلوب بیان وطرز استدلال
شاہ صاحب کے اسلوب بیان میں بڑی ندرت پائی جاتی ہے، شاہ صاحب کے اسلوب سے اندازہ ہوتا ہے کہ آپ نے قرآن کریم اور رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کے اقوال سے اپنے اسلوب کی تشکیل کی ہے، خاص طور پر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی احادیث کے طرز ادا کی پیروی کی ہے، مولانا گیلانی شاہ صاحب کے اسلوب اور عربی زبان میں اظہار وابلاغ کی غیر معمولی قدرت کا جائزہ لیتے ہوئے رقم طرازہیں:
”عربی میں انہوں نے جتنی کتابیں لکھیں ان میں ایک خاص قسم کی انشاء کی جوان کا مخصوص اسلوب ہے، پوری پابندی کی ہے، شاہ صاحب نے عربی انشاء وادب کا جو نیاقالب تیار کیا ہے، یہی نہیں کہ ہندوستانی مصنفین میں اس کی نظیر نہیں پائی جاتی ، بلکہ میں نہیں جانتا کہ آغاز اسلام سے اس وقت تک کسی علاقے کے ارباب تصنیف نے اس کو اختیار کیا ہے، شاہ صاحب کے اس اسلوب بدیع کی کیا خصوصیتیں ہیں مختصر لفظوں میں مشاہدہ کیا جاسکتا ہے کہ وہ پہلے آدمی ہیں جن کی عبارتوں میں زیادہ جوامع الکلم النبی الخاتم کے طرز گفتگو کی پیروی ہے۔“(حنیف گنگوہی، ظفر المحصلین 50/دارالاشاعت کراچی سن طباعت2000ء)
معراج محمد بارق حجة اللہ ا لبالغہ کے مقدمے میں شاہ صاحب کے طرز تحریر کا تجزیہ کرتے ہیں:
”شاہ ولی اللہ نے مروجہ طرز نگارش کو جو محض نامانوس اور پر شکوہ الفاظ کے طلسم اور فضائیہ قافیہ پیمائی کے لیے افسوں میں گھرا ہوا تھا، وسعت بخشی اور اس قابل کردیا کہ وہ ان لفظی گورکھ دھندوں اور بے جا ثقالت کی پابندیوں سے آزاد ہوکر حکیمانہ خیالات او رعلمی مضامین کو بطریق احسن پیش کرسکے ،زمانہ ماضی میں سب سے پہلے ابن خلدون نے یہ خدمت انجام دی تھی، پھر ابن خلدون کے بعد آپ ہی ایک ایسے مصنف ہیں جنہوں نے اس اسلوب کو زندہ کیا۔“(حجة اللہ البالغہ ایک تجزیاتی مطالعہ ص 49 شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل علی گڑھ سن طباعت2002ء)
ترجمے
حجة اللہ البالغہ کا متعدد زبانوں میں ترجمہ ہوا ہے، مولانا نور الحسن راشد کاندھلوی نے اپنے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ حجة اللہ البالغہ کا ایک ترجمہ فارسی میں کیا گیا ہے، لیکن اس سلسلے میں زیادہ معلومات حاصل نہیں ہوسکیں ہے اور انہوں نے چار انگریزی ترجموں کا ذکر کیا ہے، اس میں دو ترجمے مکمل ہیں اور دو ناقص ہیں، ایک انگریزی ترجمہ مولانا عبید اللہ سندھی نے کرایا تھا اور دوسرا مکمل ترجمہ محمود حسین خاں رام پوری نے کیا تھا اور اس پر حبیب اللہ غضنفر امروہوی مقیم حال کراچی نے نظر ثانی کی تھی۔(نورالحسن راشد کاندھلوی حجة اللہ البالغہ ایک تجزیاتی مطالعہ، ص 33 مطبوعہ شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل علی گڑھ سن طباعت 2002ء)
اردو میں بھی مختلف حضرات نے اس کاترجمہ کیا ہے، سب سے پہلے اس کا اردو ترجمہ مولانا فضل الرحمن عظیم آبادی کی فرمائش پر مولانا عبد الحق حقانی نے کیا ہے،1894ء میں اس کی اشاعت ہوئی، اس کا نام ”نعمة اللہ البالغة“ ہے، یہ اشاعت دو جلدوں پر مشتمل ہے، مگر اس میں متن شامل نہیں ہے، ایک اردو ترجمہ مولانا خلیل احمد اسرائیلی نے کیا ہے، آیات اللہ الکاملہ کے نام سے یہ ترجمہ پہلی مرتبہ کتب خانہ اسلامی پنجاب کے زیر اہتمام لاہور سے 1315ھ -1897ء میں چھپا تھا، تیسراترجمہ مولانا عبد الحق ہزاروی نے شموس اللہ البالغہ کے عنوان سے کیا ہے، اس میں اوپر متن ہے اور نیچے ترجمہ ہے، یہ ترجمہ بھی کئی بار چھپا ہے، اس کے علاوہ متعدد حضرات نے اس کے ترجمے کیے ہیں، ایک ترجمہ احقر کے سامنے ہے، لیکن اس پر مترجم کا نام درج نہیں ہے، یہ ترجمہ مکتبہ تھانوی دیوبند سے1986ء میں شائع ہوا ہے، اس کے مترجم نے لکھا ہے کہ مصر اور استنبول کے قدیم اور جدید نسخوں اور ہندوپاک میں مروج متعدد نسخوں کا تقابل کرکے صحیح ترین متن پیش کرنے کی کوشش کی ہے، اس ترجمہ میں متن بھی شامل ہے اور شروع میں شاہ صاحب اور حجة اللہ البالغہ کا مختصر تعارف بھی پیش کیا ہے، اس کے آخر میں محمد منظورالوجیدی کا نام درج ہے، بظاہر یہ ترجمہ انہی صاحب کا ہے۔
حواشی وشروح
حجة اللہ البالغہ کی پہلی اشاعت ہندوستان میں مطبع صدیقی بریلی سے ہوئی ہے اور مولانا احسن نانوتوی نے مختلف دستیاب نسخوں سے مقابلہ اور تصحیح کے بعد پر مغز حاشیہ سے کتاب کو مزین کرکے شائع کیا ہے، حجة اللہ کا یہ سب سے پہلا نسخہ ہے اور بعد کے نسخوں کے لیے اہم ماخذ کی حیثیت اسے حاصل ہے۔
دارالعلوم دیوبند کے شیخ الحدیث وصدر المدرسین مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری نے حجة اللہ البالغہ کو نئی کتابت اور قیمتی تعلیقات کے ساتھ شائع کیا ہے اور اس وقت موجود نسخوں میں سب سے عمدہ نسخہ ہے، اس کے علاوہ مصر اور بیروت سے بھی حجة اللہ ا لبالغہ کے متعددنسخے شائع ہوئے ہیں، بعض نسخوں میں تفصیلی مقدمہ اور احادیث کی جزوی تخریج بھی موجود ہے۔
حجة اللہ البالغہ کی سب سے قدیم، مفید اور قابل قدر شرح مولانا عبید اللہ سندھی کی ہے، انہوں نے حجة اللہ البالغہ کی تدریس کے دوران جو افادات اردو میں بیان کیے تھے ان کے شاگردوں نے اسے منضبط کرلیا تھا اور ان کے دو شاگردوں نے اسی افادات سندھی کو عربی میں منتقل کرکے اسے شائع کردیا ہے۔
اردو میں حجة اللہ ا لبالغہ کی ایک مفصل شرح حضرت مفتی سعید احمد صاحب پالنپوری شیخ الحدیث دارالعلوم دیوبند کی ”رحمة اللہ الواسعہ“ کے نام سے ہے، یہ پانچ جلدوں میں انتہائی ضخیم ہے ، اس وقت حجة اللہ البالغہ کی سب سے مفید شرح ہے، جس میں ایک عنوان قائم کرکے پہلے مسئلہ کی تقریر کی ہے، اس کے بعد عبارت با اعراب لکھ کر اس کاترجمہ لکھا گیا ہے، تصحیح متن کی بھر پور کوشش کی گئی ہے، حل لغات، ضروری نحوی ترکیب اورضمائر کے مرجع کی تعیین پر بھی خصوصی توجہ دی ہے، یہ حجة اللہ البالغہ کی انتہائی جامع شرح ہے اور حجة اللہ کے مضامین کو سجھنے کے لیے انتہائی مفید ہے، ا للہ تعالیٰ شارح دامت برکاتہم کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
حجة اللہ البالغہ کی تلخیص
حجة اللہ البالغہ کا اردو میں ایک خلاصہ بھی چھپا ہے، یہ تلخیص سید رضی الدین احمد نے مرتب فرمائی ہے، سید صاحب پاکستان کے ایک شیخ طریقت ہیں، یہ تلخیص چھوٹے سائز کے 272صفحات پر مشتمل ہے، آغاز کتاب میں شاہ صاحب کے مختصر حالات بھی ہیں اور پاکستان کے محقق عالم مولانا حبیب اللہ مختار کی تقریظ بھی ہے، یہ تو نہیں کہا جاسکتا ہے کہ یہ حجة ا للہ البالغہ کی جامع تلخیص ہے، البتہ حجة اللہ البالغہ کے بعض مضامین کو اردو میں اختصار کے ساتھ سمجھنے کے لیے مفید ہے،یہ تلخیص 1416ھ (1996ء) میں کراچی سے چھپی تھی، بعد میں اس اشاعت کا عکس دارالاشاعت دہلی سے بھی شائع ہوچکا ہے۔
حجة اللہ البالغہ اہل علم کی نظر میں
حجة اللہ ا لبالغہ تصنیف کی دنیامیں اپنی انفرادی حیثیت رکھتی ہے، اس کتاب کو پڑھنے سے اسلام کانظام حیات عقلی طور پر انتہائی متوازن معلوم ہوتا ہے اور ہر حکم کی وجہ اور علت جان کر اسلام کے حکیمانہ فلسفے کی جامعیت کا تصور کھل کر سامنے آتا ہے، ماضی قریب اور بعید میں اس جیسی کتاب وجود میں نہیں آئی ہے، اسی لیے بڑے بڑے اہل علم نے اس کتاب پر اپنی قیمتی رائے ظاہر کی ہے اور کتاب کی اہمیت و افادیت کو اجاگر کیا ہے۔
مولانا محمد منظور نعمانی لکھتے ہیں:
”میں اپنی زندگی میں کسی بشر کی کتاب سے اتنا مستفید نہیں ہوا،جس قدر کہ اس کتاب سے خدا نے مجھے فائدہ پہنچایا، میں نے اسلام کو ایک مکمل اور مرتبط الاجزاء نظام حیات کی حیثیت سے اس کتاب ہی سے جانا، دین مقدس کی ایسی بہت سی باتیں جن کو پہلے صرف تقلیدا مانتاتھا، اس جلیل القدر کتاب کے مطالعہ کے بعد الحمد للہ میں ان پر تحقیقا اور علی وجہ البصیرت یقین رکھتا ہوں۔“(رحمة اللہ الواسعہ1/28 مکتبہ حجاز دیوبند سن طباعت2001ء)
غیر مقلد عالم جناب نواب صدیق حسن خاں صاحب اتحاف النبلاء میں تحریر فرماتے ہیں:
”یہ کتاب اگر چہ فن حدیث میں نہیں ہے ،مگر اس میں بہت سی احادیث کی شرح ہے اور ان کی حکمتیں اوران کے راز بیان کیے ہیں، یہاں تک کہ یہ کتاب اپنے فن میں بے نظیر واقع ہوئی ہے اور اس جیسی کتاب ان اسلامی بارہ صدیوں میں عرب وعجم کے کسی عالم کی موجود نہیں ہے۔“( رحمة اللہ الواسعہ1/29 مکتبہ حجاز دیوبند سن طباعت 2001ء)
مفکر اسلام مولانا ابو الحسن علی ندوی لکھتے ہیں:
”یہ کتاب اپنے موضع پر بالکل منفرد یگانہ ہے اور عربی زبان اپنی وسعت کے باوجود اس کی نظیر پیش کرنے سے عاجز ہے، یہ کتاب عربیت، بیان کی قوت اور زبان کی سلامتی کا ایک ممتاز اور کام یاب نمونہ ہے۔“(ہندوستانی مسلمان بحوالہ حجة اللہ البالغہ ایک تجزیاتی مطالعہ50 شاہ ولی اللہ دہلوی ریسرچ سیل علی گڑھ سن طباعت 2002ء)
ایک دوسری جگہ مفکر اسلام ابوالحسن علی میاں ندوی تحریر فرماتے ہیں:
”شاہ صاحب کی یہ مایہ ناز تصنیف آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے معجزات میں سے ہے، جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد آپ کے امتیوں کے ہاتھ پر ظاہر ہوئے اور جن سے اپنے وقت میں رسول کریم صلی الله علیہ وسلم کا اعجاز نمایا ں اور اللہ کی حجت تمام ہوئی۔“(حنیف گنگوہی، ظفر المحصلین 180، دارالاشاعت کراچی سن طباعت 2000ء)
اعتراف: حجة اللہ البالغہ کا یہ مختصر تعارف بڑی عجلت میں ترتیب دیا گیا ہے، جس میں یہ احساس باقی ہے کہ حجة اللہ البالغہ کا جامع تعارف نہیں ہے ؛بلکہ ایک بحر بیکراں کے تعارف میں چندمنتشر باتیں چند کتابوں کے حوالے سے پیش کردی گئی ہیں، اس کا بھی افسوس ہے کہ حجة اللہ البالغہ کے مختلف نسخے اور اس پرکیے گئے تحقیقی کاموں تک رسائی نہیں ہوسکی، جس کی وجہ سے بھی تعارف میں نقص اور کمی کا احساس ہے۔