فتنے کے اسباب
حکیم الامت مولانا اشرف علی تھانویؒ کے ایک بیان کی تسہیل
تسہیل: محترم سید عروہ عرفان
اب اگر آپ سے کوئی پوچھے کہ پھر کیا کرنا چاہیے؟ تو آپ عاقل بن کر یہ رائے دیں گے کہ یہ عدالت کو تحقیق کرنا چاہیے کہ مدعی اور مدعا علیہ میں جو آپسی مخالفت اور نااتفاقی ہے، ان میں سے حق پر کون ہے اور ناحق کون ہے؟ جو حق پر ہوتا، اس کی حمایت کی جاتی اور جو ناحق ہوتا، اسے سزا دی جاتی۔ لیجیے، آپ ہی کے فیصلے سے ثابت ہوگیا کہ نااتفاقی علی الاطلاق جرم نہیں ہے۔ بلکہ نا اتفاقی وہ جرم ہے جو ناحق ہو اور جو نااتفاقی بہ حق ہو، وہ جرم نہیں ہے۔ اگر کسی معاملے میں دو فریق ہوجائیں تو ہر فریق کو مجرم نہیں کہا جاسکتا،بلکہ جس کی مخالفت نا حق ہو، وہ مجرم ہے اور جو بہ حق ہو وہ مجرم نہیں ہے۔ پس علما کی آپسی نااتفاقی اور اختلاف سے آپ کا سبھی کو مجرم بنادینا اور ہر فریق سے یہ کہنا کہ دوسرے سے اتفاق کرلو، غلط ہے۔ اول ، آپ کو تحقیق کرنی چاہیے کہ کون حق پر ہے اور کون ناحق پر ہے۔ پھر جو ناحق پر ہو، اسے مجرم بنائیے اور اسے اہل حق کے ساتھ اتفاق کرنے پر مجبور کیجیے، ورنہ اہل حق کو دوسروں کے ساتھ اتفاق پر مجبور کرنے کا مطلب یہ ہوگا کہ وہ حق کو چھوڑ کر ناحق کا طریقہ اختیار کرلیں۔ کوئی عقل مند اسے درست تسلیم نہیں کرسکتا۔
اگر یہ کہا جائے کہ صاحب، دوسرا فریق بھی اتفاق سے مجبور ہے، کیوں کہ ان کی سمجھ میں یوں ہی آیا ہے، وہ اسی کو حق سمجھتے ہیں جو اُن کی سمجھ میں آیا ہے تو جناب ایسا اختلاف تو ”اختلافِ رحمت“ ہے۔ اس اختلاف سے فتنے اور فساد کی نوبت نہیں آتی۔ دیکھیے، ائمہ اربعہ یعنی ہمارے چار اماموں میں سمجھ ہی کا اختلاف ہے۔ مگر اس کے باوجود سب متفق ہیں۔ کوئی ایک دوسرے پر ملامت اور طعن نہیں کرتا، بلکہ ہر ایک سب کو حق پر سمجھتے ہیں۔ اگر ایسا ہی اختلاف رہتا تو مسلمانوں کو آج یہ پریشانی نہ ہوتی۔ کیوں کہ یہ اختلاف تو روٹیوں کا ہے۔
میں کہا کرتا ہوں کہ اگر اہل حق کے پاس کافی روپیہ ہو اور وہ ان سب فرقوں کی تنخواہ مقرر کردیں تو سارا اختلاف ایک دن میں مٹ جائے۔ یہ سارا اختلاف پیٹ کی وجہ سے ہے کہ کوئی مولود پر زور دیتا ہے تو کوئی فاتحہ، کوئی تیجا ودسویں پر۔
ایک عالم سے، جو بدعات کے بڑے حامی ہیں، کسی نے سوال کیا کہ تم تو مولود اور فاتحہ کو سنت کہتے ہو اور ان پر بہت زور دیتے ہو اور جو اُن سے منع کرے تو اسے برا بھلا کہتے ہو، پھر یہ کیا وجہ ہے کہ تمہاری خواتین بہشتی زیور پڑھتی ہیں؟ (ان عالم صاحب کی مستورات بھی بہشتی زیور پڑھتی تھیں۔) تو انھوں نے اپنے پیٹ کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ یہ سارا اختلاف تو اس کی خرابی ہے، ورنہ حق وہی ہے جو بہشتی زیور میں لکھا ہے۔
میں نے ایک دفعہ لکھنو میں دیکھا کہ ہر کھانے پر الگ الگ فاتحہ دی جارہی ہے۔ پھر وہاں بیان کی فرمائش ہوئی تو میں نے اس بیان میں کہا کہ مولود اور فاتحہ کے سنت اور بدعت ہونے کا امتحان بہت آسانی سے اس طرح ہوسکتاہے کہ جو مولوی صاحب مولود پڑھیں یا فاتحہ دیں، انھیں کچھ نہ دیا جائے۔ ان سے خوب مولود پڑھواؤ، الگ الگ رکابی پر فاتحہ دلواؤ، مگر نذرانہ کچھ نہ دو۔ پھر دیکھنا، وہ خود ہی اس رسم کو فضول اور بدعت کہنے لگیں گے۔ چناں چہ بعض لوگوں نے اس مشورے پر عمل کیا تو اسی روز شام کو آکر ایک فاتحہ خواں صاحب کہنے لگے کہ واقعی یہ تو ایک فضول سا قصہ معلوم ہوتا ہے کہ الگ الگ فاتحہ ہو؛ ایک ہی کافی ہے۔ میں نے دل میں کہا کہ اب تو معلوم ہوہی گیا صاحبو!
میں سچ کہتا ہوں کہ ان کی آمدن بند کردو تو وہ خود ہی کہنے لگیں گے کہ سب فضول چیزیں ہیں۔ یہ ساری باتیں روٹیاں کھانے کی ہیں۔
جب ایک سال طاعون کا بہت زور ہوا تو میں دیکھ رہا تھا کہ چنے پڑھوانا اور فاتحہ دلوانا اور تیجا دسواں سب موقوف تھا۔ میں نے دیکھا کہ جب طاعون کا زور ختم ہوگیا تو میں نے لوگوں سے کہا کہ کیوں جناب، وہ چنے اور فاتحہ کہاں گئے؟ اور وہ تیجے دسویں کیوں نہ کیے؟ تو کہنے لگے: اجی، ان باتوں کی کسے فرصت تھی؟ میں نے کہا، بھلا اس عدیم الفرصتی (مصروفیت) میں کسی نے جنازہ بھی چھوڑا؟ کسی نے کفن دفن بھی چھوڑا؟ کہا گیا، نہیں۔ میں نے کہا، خوب سمجھ لو جو کام ختم ہوگئے وہ دین کے کام نہ تھے، بلکہ فرصت کی باتیں تھیں اور جو کام نہیں چھوٹے وہی دین کے اصل کام تھے، لہٰذا یہ مصروفیت میں بھی ترک نہیں ہوئے۔
ایک صاحب کہنے لگے کہ فاتحہ میں کیا حرج ہے؟ بلکہ فائدہ ہی ہے کہ اس سے مُردوں کو سورتوں کا ثواب پہنچ جاتا ہے۔ میں نے کہا کہ یہ فائدہ تو کھانے کے ساتھ مخصوص نہیں ہے، روپے پیسے اور کپڑے میں بھی ہوسکتاہے۔ کیا کبھی اللہ نام کے روپے پیسے اور کپڑے پر بھی فاتحہ پڑھی؟ کہنے لگے، کبھی نہیں۔ میں نے پوچھا، کیوں نہیں پڑھی کہ مُردے کو فائدہ ہوتا اور سورتوں کا ثواب الگ پہنچ جاتا؟
یہ بالکل واضح باتیں ہیں۔ یہ سارے قصے محض آمدنی کے لیے نکالے گئے ہیں۔ اگر ان فاتحہ مولود پڑھنے والوں کی آمدنی بند کردی جائے تو پھر دیکھیے وہ بھی وہی کہیں گے جو ہم کہتے ہیں۔
بہ ہر کیف، میں کہہ رہا تھا کہ اختلاف علی الاطلاق شکایت کا سبب نہیں بن سکتا، بلکہ پہلے آپ حق کا تعین کرلیجیے، اس کے بعد دیکھیے کہ علما میں سے کون حق پر ہیں اور کون ناحق ہیں؟ اس طرح محقق اور غیر محقق کی پہچان ہوجائے گی۔ اس کی ایک آسان ترکیب بتاتا ہوں۔ وہ یہ کہ دو قسم کے لوگ ہیں۔ ایک وہ جو پڑھے ہوئے ہیں، خواہ اُردو ہی پڑھے ہوئے ہوں او ربعض اَن پڑھ ہیں۔ پہلے طبقے کے لیے تو حق کی تحقیق کا طریقہ یہ ہے کہ وہ سب علما کی کتابیں دیکھیں،مگر دونوں طرف کے علما کی کتابیں خالی الذہن ہوکر انصاف سے دیکھیں۔ کتابیں دیکھنے پڑھنے سے پہلے کسی کی طرف داری یا حمایت کا خیال دل میں نہ لائیں۔ کیوں کہ اعتقاد کے بعد ہر بات اچھی معلوم ہوگی اور کوئی عیب نظر نہیں آئے گا۔ لہٰذا، تحقیق حق کا طریقہ یہی ہے کہ دونوں طرف کے علما کی کتابوں کا مطالعہ خالی الذہن ہوکر انصاف سے کیا جائے۔
کتاب کا تحقیقی مطالعہ تبھی ممکن ہے کہ کتاب دیکھے بغیر کسی کی طرف داری اور حمایت کا خیال دل میں نہ لائیں کیوں کہ اعتقاد کے بعد اس کی ہر بات اچھی معلوم ہوگی اور عیب نظر نہ آئے گا۔ تحقیق کا حق طریقہ یہی ہے کہ خالی الذہن ہوکر دونوں کی کتابوں کا مطالعہ انصاف سے کیا جائے۔ خدا کے ساتھ معاملہ ہے، اسے پیش نظر رکھنا چاہیے۔ اِن شاء اللہ، اگر طلب حق ہے تو بہت جلد آپ کے ذہن میں خود بہ خود حق واضح ہوجائے گا۔ اور جب ایک کا حق پر ہونا معلوم ہوجائے تو بس اسی سے تعلق رکھیے۔ اسی سے دین کی باتیں معلوم کیجیے، البتہ دوسرے کو برا نہ کہیے، کیوں کہ برا بھلا کہنے سے تمہارا کیا بھلا ہوجائے گا؟
کان پور میں ایک شخص نے مجھ سے پوچھا کہ کیا یزید کو برا کہنا جائز ہے یا نہیں؟ میں نے کہا، جائز ہے اگر یہ اطمینا ن ہو کہ تم اس سے اچھی حالت میں مرو گے۔ اور ظاہرہے، مرنے سے پہلے یہ اطمینان ہو ہی نہیں سکتا۔ پس اپنے انجام کو دیکھنے سے پہلے اسے برا نہ کہنا چاہیے۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ یزید ہی ہم پر ملامت کرے کہ تم مجھے کس منھ سے برا کہتے تھے، ذرا اپنی حالت تو دیکھو۔ ظاہر ہے کہ زندگی میں خاتمے کا حال کسی کو معلوم نہیں ہے۔ اب تو یہ حالت ہے کہ #
گہ رشک برو فرشتہ بر پاکی ما
گہ خندہ زندد بو زناپاکی ما
ایمان چو سلامت بلب گور بریم
احسنت بریں چستی وچالاکی ما
کہ کبھی فرشتہ ہماری پاکی پر رشک کرتاہے، کبھی ہماری ناپاکی پر ہنستا ہے۔ ایمان جب قبر کے کنارے پر سلامت لے جائیں تو ہماری چستی و چالاکی پر آفریں ہے۔ جب اپنی یہ حالت ہے تو کسی کو برا کیوں کہیں؟ کیا تبرا کرنے سے کچھ ثواب ملتا ہے؟ اپنی خیر مناؤ، کسی سے تم کو کیا لینا؟یاد رکھو، کسی کو برا بھلا وہی کہے گا جسے کوئی کام نہ ہو اور جو کام میں لگا ہوا ہوتا ہے، اس کو فرصت ہی نہیں ملتی۔
شیخ سعدی نے لکھا ہے کہ ایک حکیم نے کسی درویش کو ایک آدمی سے لڑتے ہوئے دیکھا اور فیصلہ کیا کہ اگر اس درویش کو اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل ہوتی تو اسے لڑنے کی فرصت کہاں ہوتی؟ دیکھیے، اگر ہم اپنے کسی مجازی محبوب کو دیکھ لیں تو اس وقت اس کی صورت دیکھیں گے اور اس کی خدمت میں مشغول ہوں گے یا دوسروں سے لڑنے بھڑنے لگیں گے۔
خیر، محقق کا پتا لگانے کے بعد اتباع تو اسی کا کرو جسے تم درست اور حق سمجھتے ہو، مگر دوسروں کو برا بھلا بھی نہ کہو۔ یہ پڑھے لکھے لوگوں کا طریقہ ہے۔
او رجو بے پڑھے لکھے ہوں وہ یہ کریں کہ دو مولویوں کے پاس جاکر ایک ایک ہفتہ رہیں۔ اور اُن کی فرصت کا جو وقت ہو ان کے پاس جا بیٹھ رہیں۔ ان کی باتیں سنیں اور سیکھیں کہ جو مسائل متفق علیہ ہیں، ان کی پابندی کا کس کو زیادہ اہتمام ہے۔ نیز، کس کے پاس جا کر کیا اثر ہوتا ہے۔ اگر کسی پاس جاکر آخرت کی طرف رغبت پیدا ہو، عبادت الٰہی کا شوق بڑھے اور اللہ کی نافرمانی سے دل میں نفرت اور خوف پیدا ہو اور اس کے پاس رہنے والوں میں سے زیادہ تر کی حالت اچھی ہو تو بس اس کو اختیار کرلیں۔ اسی سے ہر بات پوچھیں۔ اس کی صحبت میں گاہے گاہے جایا کریں۔
ان کی صحبت سے آپ کو اموال اور اولاد کے حقوق معلوم ہوں گے۔ اس وقت آپ کو میت کے مال میں تصرف، اس کے ورثا کی اجازت کے بغیر کرنے کی ہمت نہ ہوگی۔ تب آپ کو ان بزرگ کے واقعے پر حیرت نہ ہوگی کہ جنھوں نے اپنے دوست کے مرتے ہی چراغ گل کرکے بازارسے ایک پیسے کا تیل منگایا تھا۔ بلکہ آپ خود بھی ایسی ہی احتیاط کرنے لگیں گے۔ پھر آپ کو آم وغیرہ کی خرید و فروخت میں بھی اس طریقہ کی ضرورت معلوم ہوگی۔
میں نے جو خراب حالت ذکر کی ہے، اس کا زیادہ تر سبب مال کی محبت ہی ہے، جس سے دلوں پر پردے پڑے ہوئے ہیں۔ بزرگوں کی صحبت سے یہ پردے اٹھ جائیں گے۔ ان شاء اللہ تعالیٰ۔
مال و دولت کی محبت کی وجہ سے اول تو ہمارے اندر اختلافات پیدا ہوتے ہیں، دوسرے اس کی وجہ سے بعض لوگ دوسروں کی عزت کے درپے ہوجاتے ہیں۔ حب مال (دولت کی محبت) ہی کی وجہ سے انسان رشوت لیتا ہے اور اسی کی وجہ سے ہمارے دلوں میں اللہ کی محبت پیدا نہیں ہوتی۔
دوسرا مرض ”حب اولاد“ یعنی اولاد کی محبت ہے۔ یہ بھی بہت سے گناہوں کا سبب ہے۔ کہیں اولاد کی صحت و تن درستی کے لیے ٹونے ٹوٹکے کیے جاتے ہیں جو شرک میں داخل ہیں۔ کہیں اولاد ہونے کے لیے قبروں پر نذرانے چڑھائے جاتے ہیں۔ غیراللہ کی منت مانی جاتی ہے۔ اولاد ہی کے لیے مال کا ذخیرہ کیا جاتا ہے۔ جائدادیں خریدی جاتی ہیں، پھر اس میں حلال و حرام کی تمیز بھی نہیں کی جاتی۔ کبھی مال بڑھانے کے لیے سودلیا جاتا ہے، کبھی کسی کا حق بلاوجہ دبالیا جاتا ہے، جس سے مقدمہ بازی کی نوبت آتی ہے۔
غرض، ہمارے اندر یہ دو امراض پھیلے ہوئے ہیں ،جن کی بنیاد ان دو چیزوں کی محبت ہے: مال کی محبت اور اولاد کی محبت۔ اس کو حق تعالیٰ نے اس آیت میں بیان فرمایا ہے:﴿ انما اموالکم واولادکم قتنة﴾ کہ تمہارے مال اور اولاد محض فتنہ ہیں۔ اس میں فتنہ کا لفظ ایسا ہے جس سے نفع کی طرف بھی اشارہ ہوتا ہے اور نقصان کی طرف بھی ۔ کیوں کہ فتنہ کا لفظ محاورات میں ضرر کے موقع پر بولا جاتا ہے۔ اس معنی کے لحاظ سے اموال اور اولاد کو فتنہ کہنا اُن کے نقصان دہ ہونے کی دلیل ہے کہ یہ چیزیں انسان کو مضرت یعنی نقصان میں مبتلا کرنے والی ہیں۔ جب کہ لغت کے اعتبار سے فتنہ کے معنی آزمائش اور امتحان کے ہیں، جس کا نتیجہ کبھی نفع ہوتا ہے تو کبھی نقصان ہوتا ہے۔
اس لحاظ سے اموال اور اولاد کی منفعت کی طرف بھی اشارہ ہوگا کہ یہ چیزیں تمہیں اللہ تعالیٰ نے اس لیے دی ہیں، تاکہ تمہارا امتحان ہو کہ مال کو طاعات میں خرچ کرتے ہو یا معاصی میں؟! اگر اللہ کی اطاعت میں خرچ کیا تو یہ نافع ہے، یعنی نفع دینے والا ہے۔ اگر معاصی یا گناہ میں استعمال کرتے ہو، اس کے حاصل کرنے میں حلال و حرام کی پروا نہیں کرتے تو یہ نقصان دہ ہے۔
اسی طرح، اولاد کی پرورش اور تربیت میں شرعی حدود کا لحاظ کرتے ہو یا نہیں اور ان کی وجہ سے احکام الٰہیہ میں تو سستی نہیں کرتے؟!
مال فی نفسہ بری چیز نہیں ہے، بلکہ اس میں بعض فوائد بھی ہیں، مثلاً اگر مال اپنے پاس ہو تو اس سے فراغِ قلب حاصل ہوتا ہے۔ قلب مطمئن رہتا ہے اور اس صورت میں طاعات بھی اطمینان و تسلی کے ساتھ ادا ہوتی ہیں۔ مال نہ ہو تو یہ کیفیت ہوتی ہے کہ بقول شاعر، رات کو جب نماز کی نیت باندھتا ہوں تو یہ خیالات اور وسوسے دل میں آتے ہیں کہ کل کو بچے کہاں سے کھائیں گے، کیوں کر ہوگا؟ ایک ایرانی شاعر نے تو یہ کہا کہ میں رات کو نماز کی نیت اس طرح باندھتا ہوں کہ کل کو بچے کہاں سے کھائیں گے؟ گویا، نیت کے بجائے یہ الفاظ کہے جاتے ہیں۔ غرض، تنگی اور پریشانی میں عبادات بھی اچھی طرح نہیں ہوتیں۔ مال کایہ بڑا نفع ہے کہ اس سے فراغ حاصل ہوتا ہے۔
نیز مال ہو تو دوسروں کی مدد بھی کرسکتا ہے۔ مثلاً اس وقت ترکوں کے معاملے میں مال دار ہی زیادہ مدد کرسکتے ہیں۔ (اس زمانے میں تحریک خلافت جاری تھی، اس طرف اشارہ ہے۔)
یہ تو مال کے فوائد ہیں اور اس کی مضرتیں (نقصانات) بھی ہیں جو اوپر ذکر کیے گئے ہیں۔ اس لیے مال امتحان کی چیز ہے کہ اسے حاصل کرکے احکام شرعیہ پر قائم رہنا بڑی ہمت کا کام ہے۔ اگر ذرا ہمت سے کام لیا جائے تو زیادہ دشواری نہیں ہے۔
مال میں دو باتیں قابل غور ہیں۔ ایک یہ کہ آمد قاعدہ کے مطابق ہو، دوسرے خرچ قاعدے کے مطابق ہو۔ بعض لوگ آمد میں تو احتیاط کا خیال رکھتے ہیں، مگر خرچ میں اس کی رعایت نہیں کرتے۔ بس، یہ سمجھتے ہیں کہ ہمارا مال ہے جس طرح چاہیں، خرچ کریں، حالاں کہ تم تو خود بھی اپنے نہیں ہو، بلکہ خدا کے ہو۔ پھر مال تمہارا کدھر سے ہوا؟ تم تو اس مال کے امین ہو اور مال تمہارے ہاتھ میں امانت ہے۔ امانت میں خیانت کرنا جرم ہے۔ لہٰذا، مال میں تم اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف خرچ کرنے کا اختیار نہیں رکھتے۔
اس طرح، مال میں نقصان بھی ہے اور فائدہ بھی ہے، اس لیے اسے فتنہ فرمایا، یعنی آزمائش کی چیز۔
اسی طرح، اولاد میں بھی فائدہ بھی ہے اور نقصان بھی ہے۔ نقصانات کا بیان تو اوپر آچکا اوراولاد کا فائدہ یہ ہے کہ اولااد کے نیک اعمال سے والدین کو فائدہ پہنچتا ہے اور وہ مرنے کے بعد دعا یا ایصالِ ثواب سے والدین کو یاد رکھیں تو والدین کے درجات بلند ہوتے ہیں۔ اس لیے وہ بھی فی نفسہ بری چیزنہیں ہے، بلکہ امتحان کی چیز ہے۔
اگر آدمی اس امتحان میں کامیاب ہوتا ہے تو مال دار ہو یا صاحب اولاد ہو، کمال ہے، خامی نہیں ہے۔ ایک صاحب نے فتنہ کے مشہور معنی سمجھ کر اعتراض کیا کہ اللہ تعالیٰ نے اولاد کوفتنہ کہا ہے اور احادیث میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے نکاح کی ترغیب دی ہے جو اولاد ہونے کے لیے ذریعہ ہے۔ پھر خود ازواج کا نفع بخش ہونا بھی اس سے ثابت ہوتا ہے۔ تو یہ دونوں ایک ساتھ کیسے ممکن ہیں؟ اور اس سے انھوں نے یہ نتیجہ نکالا کہ نکاح ہی نہ کیا جائے۔ میں نے کہا، جناب آپ کو نکاح تو یاد رہا، مال یاد نہ رہا۔اس پر بھی تو یہی اشکال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مال کو فتنہ فرمایا ہے اور حدیث میں مال کمانے کی ترغیب ہے بلکہ حکم ہے۔ چناں چہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے کسب الحلال فریضة بعد الفریضة کہ حلال مال کمانا فرض ہے دوسرے فرائض کے بعد۔ تو مال کے نہ کمانے کا نتیجہ بھی تو نکالنا چاہیے اور نوکری چھوڑ دینا چاہیے۔ (دراصل، یہ صاحب نوکری تو کرتے تھے، مگر پہلی بیوی کے مرنے پر دوسرا نکاح نہ کرتے تھے۔) پھر میں نے بتایا کہ اللہ تعالیٰ نے مال اور اولاد کو جو فتنہ فرمایا ہے، اس میں ان دونوں کی مذمت نہیں کی گئی، بلکہ انہیں امتحان کی چیز فرمایا ہے۔ اگر مذمت ہی تسلیم کرلی جائے تو علی الاطلاق نہیں، بلکہ بعض افراد کے اعتبار سے ہے، کیوں کہ اسی جگہ اوپر کی آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ﴿ان من ازواجکم و اولادکم عدواًلکم﴾کہ تمہاری بعض ازواج اور اولاد تمہارے دشمن ہیں۔ اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ سب افراد نقصان دہ نہیں، بلکہ ان میں بعض معاون اور مفید بھی ہیں۔نکاح کی ترغیب انھی افراد کے لحاظ سے ہے۔
بہ ہر حال، بے نکاح ہونا کوئی خوبی نہیں ہے اور مفلس ہونا بھی کوئی خوبی نہیں ہے۔ کمال تو یہ ہے کہ سب کچھ ہو، مال بھی ہو، بیوی بھی ہو، اسباب بھی ہوں اور پھر احکام الٰہیہ کی مخالفت نہ ہو۔ جیسے سب انبیا علیہم السلام تھے کہ ان کی بیویاں تھی، سوائے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے (وہ بھی آخر میں نکاح کریں گے)۔ اسی طرح، انبیا علیہم السلام غریب نہ ہوتے تھے، البتہ زاہد ہوتے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں سب کچھ دیا تھا، مگر انھوں نے جمع نہیں کیا، بلکہ ضرورت مندوں کو بانٹ دیا کرتے تھے اور خود خالی ہاتھ رہتے تھے۔
اگر کسی کو ہمت ہوتو یہ بہت بڑا کمال ہے۔ مگر آج مسلمانوں کو خالی ہاتھ رہنے کی رائے نہیں دیتا، بلکہ وہ رائے دیتا ہوں جو حضرت سفیان ثوری نے اپنے زمانے والوں کو دی تھی۔ وہ فرمایا کرتے تھے کہ آج کل اگر کسی کے پاس کچھ دینار ہوں تو ان کی قدرکرے، کیوں کہ پہلے تو ایسا زمانہ تھا کہ روپیہ پاس ہونے سے دین پر اندیشہ ہوتا تھا اور اب وہ زمانہ ہے کہ روپیہ پاس نہ ہونے سے دین پر اندیشہ ہے اور روپیہ پاس ہوتو دین کی حفاظت رہتی ہے۔ جب حضرت سفیان ثوری کے دور میں یہ حالت ہوچلی تھی تو اب تو اس سے زیادہ اس کی ضرورت ہے، اس لیے ہمارے حضرات اپنے متعلقین کو ترک اسباب کی رائے نہ دیتے تھے۔
حضرت حاجی صاحب کی خدمت میں ایک خان صاحب کیس جائداد کے مقدمے میں دعا کرانے آیا کرتے تھے۔ ایک بار آئے اور عرض کیا کہ حضرت !اب تو فلاں بنئے نے میری زمین دبا ہی لی۔ حضرت نے فرمایا، بھائی! جانے دو اور اللہ پر نظر کرکے صبر کرو، اللہ کچھ اور سامان کردے گا۔ حضرت حافظ محمد ضامن صاحب نے اپنے حجرے میں سے سن لیا اور باہر نکل آئے اور خان صاحب سے فرمایا، ہرگزصبر نہ کرنا، جاؤ مقدمہ کرو۔ عدالت میں دعویٰ کرو، ہم دعا کریں گے۔ پھر حضرت حاجی صاحب سے فرمایا، سبحان اللہ، آپ اپنی طرح ساری مخلوق سے صبر کرانا چاہتے ہیں، چاہے کسی کو ہمت ہو یا نہ ہو۔ آپ کے تو نہ بیوی ہے ،نہ بچہ ہے۔ اکیلے تھے، صبر کرکے بیٹھ گئے۔ اس غریب کے پیچھے بیوی بچے لگے ہوئے ہیں، وہ ان کے فقر و فاقہ پر کیسے صبر کرے گا؟ انجام یہ ہوگا کہ پریشان ہوگا اور توکل کی ہمت نہیں ہے۔ پھر کسی دوسرے کے مال پر نظر مارے گا۔
اب تو آپ کو معلوم ہوگیا ہوگا کہ مولوی ترکِ دنیا نہیں کراتے، بلکہ ترک بغاوت کراتے ہیں۔ دنیا کماؤ، مگر خدا کے حکم کے مطابق کماؤ۔ بغاوت کے ساتھ نہ کماؤ۔ آخر، دنیا کمانے میں سرکاری احکام کی رعایت بھی تو کرتے ہو۔ اور اگر گورنمنٹ کی بغاوت سے بچتے ہو تو اسی طرح اللہ کی بغاوت سے بھی بچتے رہو۔ اگر اللہ کے احکام کی پابندی دنیاوی ترقی کے لیے رکاوٹ ہے تو سرکاری احکام کی پابندی کیوں اس ترقی میں رکاوٹ نہیں ہے؟
بغاوت میں تو بہت ترقی ہوئی ہے کہ کچھ کمال حاصل کیے بغیر سہولت سے روپیہ مل جاتا ہے۔ چوری ڈاکے میں تو خوب دولت مل جاتی ہے۔ نوکری میں اول تو کمال کی ضرورت ہے اور پھر نوکری مشکل سے ملتی ہے اور ملے بھی تو تنخواہ سے زیادہ خرچ کرنا پڑتا ہے۔ ملازم او رخادمہ رکھنا بھی ضروری ہے۔ لباس بھی اچھا پہننا پڑتا ہے۔ آنے جانے والوں کی دعوت ضیافت بھی کرنا پڑتی ہے۔ اس لیے میں چندوں کے موقع پر کہا کرتا ہوں کہ ان امیروں کو نہ ستاؤ، جیسے ان کی آمدن زیادہ ہے ویسے ہی ان کا خرچ بھی بہت زیادہ ہے۔
غرض، بہ ظاہر ترقی کا سب سے آسان ذریعہ ڈکیتی اور چوری ہے، جسے گورنمنٹ نے جرم قرار دیا ہے۔ لیکن گورنمنٹ سے کوئی نہیں کہتا کہ آپ نے ترقی کے ذرائع بند کردیے ہیں۔ اللہ میاں تو مفت کے مل گئے ہیں کہ وہ کسی بات کو جرم قرار دیں تو کہا جاتا ہے کہ شریعت نے ترقی کا راستہ بند کردیا ہے کہ سود بھی حرام، رشوت بھی حرام، فصل سے پہلے آموں کی بیع بھی حرام۔ میں کہتا ہوں کہ گورنمنٹ سے پوچھئے کہ آپ نے ڈکیتی کو بھی ممنوع کردیا، چوری اور رشوت کو بھی ممنوع کردیا اور ترقی کا ذریعہ کیا نکالا؟ نوکری اور تجارت۔ اب تجارت کے لیے تو سب کے پاس روپیہ نہیں اور نوکری میں خرچ زیادہ ہے۔ سب سے آسان ذریعہ ترقی کا چوری اور ڈکیتی تھا، اسے آپ نے منع کردیا۔ کیا کسی کو ہمت ہے کہ گورنمنٹ سے یہ سوال کرے؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہاں تو سب یہ کہتے ہیں کہ گورنمنٹ نے ترقی کے ذرائع بند نہیں کیے، بلکہ ناجائز وسائل سے روکا ہے۔ تو اسی طرح، شریعت نے بھی ترقی کے ذرائع کو بند نہیں کیا، بلکہ ناجائز وسائل سے منع کیا ہے او ترکِ بغاوت کی تعلیم دی ہے کہ اللہ تعالیٰ کی نافرمانی کرکے دنیا نہ کماؤ،خواہ ایک ہی معاملے میں نافرمانی ہو۔ شریعت کے تابع ہو کر رہو، پھر چاہے رئیس ہوجاؤ یا نواب یا بادشاہ بن جاؤ، تمہیں ترقی مبارک ہے۔ اس سے کوئی نہیں روکتا۔ اگر دین کھوکر دنیا کمائی تو میں یوں کہوں گا کہ
مبادا دل آں فرومایہ شاد
کہ از بہر دنیا دہد دیں بباد
کہ اس کمینے کا دل کبھی خوش نہ ہو جو دنیا کی خاطر دین کو برباد کردے۔