Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق صفر المظفر 1437ھ

ہ رسالہ

12 - 17
فضائل ومناقب سیدنا حضرت عثمان رضي الله عنه

مولانا محمد اقبال شاکر
	
نسب مبارک
٭... آپ کانام نامی عثمان رضي الله عنه بن عفان بن ابی العاص بن امیہ بن عبدالشمس بن عبدمناف بن قصی بن کلاب بن مرہ بن کعب بن لوی ہے۔
٭... جناب رسالت مآب حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم سے آپ کا سلسلہ نسب مرہ پر ملتا ہے۔
٭... حضرت عثمان رضي الله عنه دنیا کے واحد صحابی ہیں جنہیں رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم کی دامادی کا شرف دو مرتبہ حاصل ہوا۔ اس سے پہلے کسی نبی کے کسی صحابی کو یہ شرف دو مرتبہ حاصل نہیں ہوا اور نہ آئندہ ہوگا۔

واقعات زندگی
٭... آپ فاروق اعظم، ابوعبیدہ اور عبدالرحمن بن عوف رضي الله عنهم جیسے جلیل القدر صحابہ سے پہلے اسلام لائے۔
٭... آپ رضي الله عنه اسلام لانے سے پہلے بھی مکہ بھر میں معزز وموٴقر تھے۔
٭... آپ رضي الله عنه کے پھوپھا حکم بن العاص نے آپ کے اسلام لانے پر بہت زیادہ سختی کی، لیکن آپ کے پائے استقلال میں لغزش نہ آئی۔
٭... حضرت عثمان رضي الله عنه کے قبیلے نے فیصلہ کیا کہ آپ کو اپنے قبیلے کی کوئی لڑکی نہ دی جائے۔ شاید یہ اسی طرح اسلام سے باز آجائیں۔ لیکن فوراً حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ:کیوں کہ حضرت عثمان رضي الله عنه کے قبیلے والے انہیں اپنی کسی لڑکی کا رشتہ نہیں دیتے۔ اس لیے آپ صلی الله علیہ وسلم اپنی لڑکی کا رشتہ ان سے کردیجیے۔
٭... حضرت رقیہ رضی اللہ عنہا کے انتقال کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم کو وحی کے ذریعے دوسری صاحب زادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح آپ رضي الله عنه سے کرنے کا حکم دیا گیا۔ اس طرح حضور صلى الله عليه وسلم کی دونوں صاحب زادیوں کے نکاح حضرت عثمان رضي الله عنه سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہوئے۔
٭... حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد آپ صلى الله عليه وسلم نے فرمایاکہ: اگر میری چالیس بیٹیاں ہوتیں اور اسی طرح انتقال فرماتی جاتیں تو میں یکے بعد دیگرے چالیس بیٹیاں عثمان رضي الله عنه کے نکاح میں دے دیتا۔
٭... ایک دوسری حدیث میں ارشاد نبوی صلى الله عليه وسلم ہے کہ اگر میری سو بیٹیاں بھی ہوتیں تو یکے بعد دیگرے عثمان رضي الله عنه کے نکاح میں دیتا رہتا۔ یہ احادیث حضرت عثمان رضي الله عنه کے بہترین داماد ہونے کی دلیل ہیں۔
٭... حضرت عثمان رضي الله عنه حضرت ابوبکر صدیق رضي الله عنه کی طرح اسلام سے پہلے بھی بت پرستی سے محفوظ رہے۔
٭... آپ رضي الله عنه حضرت ابراہیم عليه السلام وحضرت لوط عليه السلام کے بعد پہلے شخص ہیں جنہوں نے گھر والوں سمیت ہجرت کا شرف حاصل کیا۔
٭... آپ رضي الله عنه نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے چار دن کے فاقے کی خبر سن کر آئے۔ گندم اور چھوہاروں کی چند بوریاں، سالم بکری کا گوشت اور تین صد روپے نقد خدمت میں پیش کیا۔ ساتھ ہی بہت سی پکی ہوئی روٹیاں اور بھنا ہوا گوشت پہنچایا۔
٭... آپ رضي الله عنه نے قحط کے دنوں میں ایک ہزار اونٹ غلہ فقرائے مدینہ میں تقسیم فرمایا، جب کہ مدینہ منورہ کے تاجروں نے آپ کو کئی گنا قیمت دینے کی پیشکش کی۔
٭...آپ رضي الله عنه نے غزوہ تبوک کے موقع پر نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی اپیل پر 100اونٹ، پھر 200اونٹ اور پھر 300(کل 600) اونٹ دینے کا وعدہ کیا۔ پھر چوتھی اپیل پر ایک ہزار اشرفیاں پیش کیں۔
٭...غزوہ تبوک میں آپ رضي الله عنه کی سخاوت پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اگر اب عثمان رضي الله عنه تمام عمر کوئی نفلی عبادت نہ کریں تو بھی یہ ان کے لیے کافی ہے۔
٭...نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: فرشتے بھی عثمان رضي الله عنه سے حیا کرتے ہیں۔
٭...دین اسلام کی خاطر سب سے پہلے اپنا گھر بار، آبائی وطن، کاروبار چھوڑ کر حبشہ کی طرف ہجرت کرنے والے ان افراد کے پہلے اسلامی قافلے میں آپ رضي الله عنه بھی شریک تھے۔
٭...جن دس خوش نصیب اصحاب رضي الله عنهم کا نام لے کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک ہی سلسلہ گفتگو میں خصوصیت سے جنت کی بشارت دی حضرت عثمان رضي الله عنه ان عشرہ مبشرہ میں شامل ہیں۔

بیعت رضوان
٭... نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کو حضرت عثمان رضي الله عنه کے سیاسی تدبر پر اعتماد تھا کہ آپ رضي الله عنه کو بیعت رضوان کے موقع پر چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے سفیر بناکر بھیجا۔
٭... بیعت رضوان کے موقع پر کفار مکہ نے حضرت عثمان رضي الله عنه کو پیشکش کی کہ اگر وہ چاہیں تو طواف کعبہ کرسکتے ہیں، لیکن حضرت عثمان رضي الله عنه نے فرمایا: یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ میں طواف کروں اور میرے محبوب حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم طواف کے انتظار میں بیٹھے رہیں۔
٭... حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں چند اصحاب نے یہ خدشہ ظاہر کیا کہ اگر عثمان رضي الله عنه کو موقع ملا تو وہ کعبہ کا طواف کرلیں گے۔ تب آپ ( صلی الله علیہ وسلم ) نے فرمایاکہ: یہ ہوہی نہیں سکتا کہ عثمان رضي الله عنه محمد صلی الله علیہ وسلم کے بغیر طواف کرلیں۔
٭... مدبر جلیل القدر صحابی حضرت عمر فاروق رضي الله عنه نے حضرت عثمان رضي الله عنه کو بطور سفیر بھیجنے کے لیے نام پیش کیا اور حضور صلی الله علیہ وسلم نے اس سے اتفاق فرماتے ہوئے آپ رضي الله عنه کو مذاکرات کے لیے سفیر بناکر بھیجا۔
٭... جب شہادت عثمان رضي الله عنه کی غلط خبر مشہور ہوئی، تب آپ صلی الله علیہ وسلم نے آپ رضي الله عنه کے قیمتی خون کا بدلہ لینے کے لیے کم وبیش چودہ سو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے مرمٹنے کی بیعت لی، جو کہ ایک ریکارڈ ہے۔ اس میں حضرت ابوبکر صدیق رضي الله عنه اور حضرت عمرفاروق رضي الله عنه جیسے جلیل القدر صحابہ بھی موجود تھے۔ باوجودیکہ حضرت عثمان رضي الله عنه موجود نہ تھے، لیکن آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس مقدس بیعت میں ان کی عدم شمولیت نہ برداشت کرتے ہوئے اپنے ایک ہاتھ کو حضرت عثمان رضي الله عنه کے ہاتھ سے تشبیہ دیتے ہوئے ان کی غائبانہ بیعت کی۔

شہادت
٭... شہادت عثمان رضي الله عنه جمعہ کے مبارک دن 18ذی الحجہ 35ھ کو واقع ہوئی۔
٭... آپ رضي الله عنه شہادت کے دن روزے سے تھے۔
٭... آپ رضي الله عنه شہادت کے وقت بھی تلاوت قرآن پاک میں مصروف تھے۔
٭... آپ رضي الله عنه کا خون مبارک قرآن کے جن الفاظ پر گرا وہ یہ تھے: ﴿فسیکفیکہم اللہ﴾․
٭... جو شخص جس جگہ شہادت پاتا ہے وہ جگہ اس کے لیے قیامت کے دن گواہی کا سامان بنے گی۔ سیدنا حضرت عثمان رضي الله عنه کی گواہی اللہ تعالیٰ کا قرآن دے گا۔

ستم ظریفی
٭... باغیوں نے چالیس دن تک آپ رضي الله عنه کے مکان کو محاصرے میں رکھا۔
٭... مسجد نبوی جس کی توسیع کے لیے حضرت عثمان رضي الله عنه نے اپنی جیب سے زمین خریدی تھی، اس زمین پر بھی آپ رضي الله عنه کو باجماعت نماز ادا نہ کرنے دی گئی۔
٭... حضرت عثمان رضي الله عنه نے جس کنویں کو خرید کر مسلمانوں کے لیے وقف کردیا تھا، اس کا پانی بھی باغیوں نے آپ رضي الله عنه تک پہنچنے نہ دیا۔ آپ رضي الله عنه پر چالیس دن تک پانی بند رہا۔
٭... وفاداروں نے پوچھا کہ مسجد نبوی صلى الله عليه وسلم پر باغیوں نے قبضہ کرلیا ہے۔ کیا ہم دوسری جماعت کرالیا کریں؟ آپ رضي الله عنه نے فرمایا: ہرگز ہرگز نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی مسجد میں دوسری جماعت نہ کروانا، بلکہ باغیوں کے پیچھے پڑھ لیا کرو۔
٭... حضرت علی رضي الله عنه نے حضرت عثمان رضي الله عنه کو محافظ رکھنے کا مشورہ دیا تو آ پ رضي الله عنه نے فرمایا کہ میرے پاس اتنی گنجائش نہیں کہ ان کو تنخواہ ادا کرسکوں اور بیت المال مسلمانوں کی امانت ہے۔ اس سے اپنی جان کے محافظوں کو تنخواہ نہیں دے سکتا۔ تب حضرت علی رضي الله عنه اپنے دونوں صاحب زادوں حضرت حسن رضي الله عنه اور حضرت حسین رضي الله عنه کو آپ کے دروازے پر محافظ مقرر فرمایا۔ رضی اللہ عنہم ورضوا عنہ۔ (رحماء بینہم، البدایہ والنہایہ، خلفائے راشدین)

Flag Counter