طلاق پر چند اعتراضات کا جائزہ
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)
﴿الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاکٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِیْحٌ بِإِحْسَانٍ وَلاَ یَحِلُّ لَکُمْ أَن تَأْخُذُواْ مِمَّا آتَیْْتُمُوہُنَّ شَیْْئاً إِلاَّ أَن یَخَافَا أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ فَإِنْ خِفْتُمْ أَلاَّ یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہِ تِلْکَ حُدُودُ اللّہِ فَلاَ تَعْتَدُوہَا وَمَن یَتَعَدَّ حُدُودَ اللّہِ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الظَّالِمُونَ﴾․(سورہ بقرہ، آیت:229)
طلاق رجعی ہے دو بار تک، اس کے بعد رکھ لینا موافق دستور کے یا چھوڑ دینا بھلی طرح سے اور تم کو روا نہیں کہ لے لو کچھ اپنا دیا ہوا عورتوں سے، مگر جب کہ خاوند عورت دونوں ڈریں اس بات سے کہ قائم نہ رکھ سکیں گے الله کا حکم تو کچھ گناہ نہیں دونوں پر اس میں کہ عورت بدلہ دے کر چھوٹ جاوے، یہ الله کی باندھی ہوئی حدیں ہیں ،سو ان سے آگے مت بڑھو اور جو کوئی بڑھ چلے الله کی باندھی ہوئی حدود سے، سو وہی لوگ ہیں ظالم
تفسیر:طلاق کی تعداد اور خلع کا بیان
مذکورہ آیتوں میں دو چیزوں کی وضاحت کی گئی ہے، ایک طلاق کی تعداد کا بیان، دوسرا خلع کا بیان۔
زمانہ قدیم میں طلاق کی کوئی تعداد متعین نہیں تھی، لوگ طلاق دے کر عدت ختم ہونے سے پہلے پھر رجوع کر لیتے ،اسی طرح طلاق ورجوع کا یہ سلسلہ سینکڑوں بار ہوتا ،کبھی عورت کو اذیّت دینے کی غرض سے اسے اس طرح سے معلق رکھا جاتا۔ اسلام نے اس ظالمانہ طریقہ طلاق کو ختم کرکے طلاق کی تعداد متعین کر دی کہ صرف دو طلاقوں کے بعد رجوع کا حق ہو گا، تیسری طلاق دینے کے بعد میاں بیوی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہو جائیں گے ۔ رجوع کرنے کا حق بھی اس وقت ہے جب طلاق صریح الفاظ سے دی ہو، اگر طلاق کنائی ہو تو تجدید نکاح او رمہر ضروری ہے، اگر طلاق دینے کے بعد اصلاح احوال کی اُمید ہو تو رجوع کرنا چاہیے، بصورت دیگر خوش اُسلوبی کے ساتھ جدا ہو جانا چاہیے۔
اگر میاں بیوی میں موافقت نہ ہوتی ہو اور دونوں ایک دوسرے کے حقوق کی ا دائیگی میں کوتاہی کے مرتکب ہو رہے ہوں اور شوہر طلاق بھی نہ دے رہا ہو یا شوہر تو پورے حقوق ادا کررہا ہے لیکن بیوی کو شوہر پسند نہیں تو اس صورت میں بیوی خلع کے ذریعے جدا ہو سکتی ہے۔
خلع کسے کہتے ہیں؟
خلع لغت میں ”اتارنے“ کو کہتے ہیں۔( فتح القدیر، کتاب الطلاق باب الخلع:4/188) اصطلاح شریعت میں لفظ ”خلع“ کے ذریعے معاوضہ لے کر عقد نکاح ختم کرنے کا نام خلع ہے ۔ (ایضاً) جس کا طریقہ کاریہ ہے کہ بیوی اپنے شوہر کوپیش کش کرے کہ میں اتنا مال دے کر آپ سے ”خلع“ کرتی ہوں، شوہر اس پر رضا مندی کا اظہار کر دے تو خلع ہو جاتا ہے اورنکاح ختم ہو جاتا ہے اور طلاق بائن پڑ جاتی ہے، اگر لفظ خلع کا ذکر نہ ہو مطلقاً مال کا تذکرہ ہو، مثلاً بیوی کہے اس قدر مال لے کر مجھے طلاق دے دو اور شوہر نے قبول کر لیا، یا شوہر کی طرف سے پیش کش ہو اور عورت قبول کر لے تو طلاق بائن واقع ہو جاتی ہے، اسی قدر مال عورت کے ذمے واجب رہتا ہے۔(ہدایة کتاب الطلاق:2/387)
اسلام میں سب سے پہلا خلع
حضرت ابی بن کعب رضي الله عنه کی صاحبزادی حضرت جمیلہ رضی الله عنہا حضرت ثابت بن قیس رضي الله عنه کے عقد نکاح میں تھیں، حضرت ثابت بن قیس معمولی اور واجبی شکل وصورت کے مالک تھے، حضرت جمیلہ رضی الله عنہا نے آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ حضرت ثابت بن قیس اگرچہ عمدہ اخلاق کے مالک ہیں ،لیکن ان کی شکل وصورت مجھے پسند نہیں، ہم اکھٹے نہیں رہ سکتے۔ آپ نے فرمایا کیا تم ثابت کو وہ باغ واپس کردوگی جو انہوں نے تمہیں دیا ہے؟ حضرت جمیلہ رضی الله عنہا نے رضا مندی کا اظہار کیا، چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت ثابت کو بلاکر فرمایا تم اس سے باغ واپس لے کر اس کے بدلے میں اسے طلاق دے دو، یہ اسلام میں سب سے پہلا خلع تھا۔ مذکورہ آیت اسی موقع پر نازل ہوئی۔ ( صحیح البخاری، کتاب الطلاق، باب الخلع، رقم الحدیث:5273)
خلع سے متعلّقہ فقہی مسائل
1...اگر خلع کی نوبت بیوی کی زیادتیوں کی وجہ سے آئی ہے او رخلع کی پیش کش بھی اسی کی طرف سے ہے تو گناہ گار ہو گی ، شوہر کو مال لینے میں کوئی گناہ نہیں، البتہ مہر سے زیادہ کا مطالبہ نہ کرے، کیوں کہ یہ مکروہ ہے ۔ (فتاوی عالمگیری، کتاب الطلاق، باب الخلع:2/508)
2...اگر خلع کی نوبت لانے میں سارا ہاتھ مرد کا ہے، وہ بیوی کے حقوق شرعیہ اداکرنے میں کوتاہی کا مرتکب تھا تو اس صورت میں شوہر کے لیے مہر لینا بھی جائز نہیں ہو گا، اگر لیا تو گناہ گار ہو گا ، عورت مال دینے سے گناہ گار نہیں ہو گی ۔ (ایضاً)
3...اگر مرد عورت کو قصور وار سمجھتا ہے او رعور ت مرد کو قصور وار سمجھتی ہے، ہر فریق اپنی رائے میں خود کو مظلوم اور دوسرے کو ظالم سمجھتا ہے، تو پھر نہ مرد کو مال لینے میں گناہ ہو گا او رنہ عورت کو خلع کی پیشکش کرنے میں گناہ ہو گا۔(ملخص از بیان القرآن، البقرة تحت آیة رقم:229)
4...خلع کے ذریعے ہونی والی طلاق طلاق بائن شمار ہوتی ہے ۔ (ہدایة ، کتاب الطلاق:2/384) اگر دونوں دوبارہ ازدواجی زندگی بحال کرنا چاہیں تو تجدید نکاح اور مہر کے ذریعے اکٹھے ہو سکتے ہیں ۔ بشرطیکہ تین طلاقیں نہ ہو چکی ہوں ۔
5...خلع کی عدّت میں نان ونفقہ شوہر کے ذمے واجب ہے ،البتہ اگر عورت خود کہہ دے کہ میں نان ونفقہ بھی نہیں لوں گی تو کچھ ذمے نہیں۔ (ردّالمحتار، کتاب الطلاق:2/276)
6...عدالت کی طرف سے شوہر کی رضا مندی کے بغیر دی جانے والی خلع کی ڈگری سے نکاح پر کوئی اثر نہیں پڑتا،نکاح برقرار ہی رہتا ہے، کیوں کہ خلع کی صحت کے لیے شوہر کی رضا مندی ضروری ہے۔ ( تبیین الحقائق، کتاب الطلاق:2/271)
ایک مجلس میں تین طلاقوں کا شرعی حکم
شریعت مطہرہ نے طلاق دینے کا احسن طریقہ یہ بتایا کہ ایک طلاق ایک پاکی ( جس میں صحبت نہ کی گئی ہو ) میں دے کر چھوڑ دیا جائے، اس کے علاوہ دوسرا طریقہ یہ ہے کہ تین طلاقیں تین پاکیوں میں الگ الگ دی جائیں اور کسی بھی پاکی میں صحبت نہ کی گئی ہو۔ اگر کوئی شخص شریعت کے بتائے ان طریقوں کو پامال کرتے ہوئے ایک ہی مجلس میں تین طلاقیں دے دے یا بیک کلمہ تین طلاقیں دے دے تو اس کی یہ طلاقیں تین ہی شمار ہوں گی ۔ قرآن کریم کی ظاہری آیت اور احادیث صحیحہ ، صحابہ کرام کے آثار ، فقہائے کرام، اور محدثین ومجتہدین کے اقوال سے یہی ثابت ہوتا ہے کہ ایک مجلس میں تین طلاقیں، یا ایک لفظ سے دی گئی تین طلاقیں تین ہی شمار ہوتی ہیں ، حضرت عمر فاروق رضي الله عنه کے زمانہ خلافت میں تو اس مسئلے پر صحابہ کرام کا اجماع ہوا، اسی بنا پر ائمہ اربعہ،، امام اعظم ابوحنیفہ ، امام مالک، امام شافعی، امام احمد بن حنبل رحمہم الله تعا لیٰ ایسی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے تھے او راسی کا فتوی دیتے تھے، اگرچہ ایسی طلاق دینے والا شخص گناہ گار ہو گا، لیکن غلط طریقہ اختیار کرنے سے وقوع طلاق پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،مندرجہ ذیل صحابہ کرام ایک مجلس اور ایک لفظ سے بیک وقت دی گئی تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے تھے۔ حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی، حضرت علی، حضرت عبدالله بن مسعود ، حضرت عبدالله بن عباس، حضرت عبدالله بن عمر، امّ المومنین حضرت عائشہ ، حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص ، حضرت ابوہریرہ ، حضرت زید بن ثابت ، حضرت انس بن مالک، امّ المؤمنین حضرت ام سلمہ ، حضرت عمران بن حصین، حضرت ابوموسی الاشعری، حضرت مغیرہ بن شعبہ ث۔(مزید تفصیلات کے لیے دیکھیے، مجموعہ مقالات ہند جلد سوم، طلاق ثلث)
تین طلاقوں کو ایک طلاق قرار دینے والوں کا تجزیہ
غیر مقلّدین، منکرین حدیث ، فرقہ اثنا عشریہ، ایک مجلس میں دی گئی او رایک لفظ سے دی گئی تین طلاقوں کو ایک ہی طلاق شمار کرتے ہیں، ان کا استدلال قرآن کریم کی اسی آیت ”الطَّلاَقُ مَرَّتَانِ“ سے ہے کہ طلاق شریعت کی نظر میں وہی معتبر ہے جویکے بعد دیگر ے واقع کی گئی ہو ،یعنی نہ بیک لفظ ہو، نہ بیک مجلس ہو، کیوں کہ ”مَرَّتَانِ“ یکے بعد دیگرے کو کہتے ہیں۔ بیک لفظ او ربیک مجلس میں تین طلاقیں دینا شریعت کے بتائے ہوئے طریقے کے موافق نہیں ہے۔ اسی لیے ایک سے زائد طلاقیں لغو شمار ہوں گی، غیر مقلدین کا یہ طرزِ استدلال کئی وجوہ سے انتہائی کمزور بنیادوں پر قائم ہے۔
1...پہلی وجہ تو یہ ہے کہ یہ آیت طلاق رجعی کی آخری حد اور طلاق کی انتہائی تعداد بیان کرنے کے لیے نازل ہوئی ہے، نہ کہ طلاق کا طریقہ بیان کرنے کے لیے ، کیوں کہ زمانہ جاہلیت میں عربوں کے ہاں طلاق ورجوع کا سلسلہ بغیر کسی قید اور عدد کے چلتا رہتا تھا، یہاں تک یہ آیت نازل ہوئی اور طلاق کی تعداد متعین کر دی گئی، چناں چہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا فرماتی ہیں:
طلاق کی کوئی حد نہیں تھی، آدمی اپنی بیوی کو طلاق دے کر عدت کے اندر رجوع کر لیا کر تا تھاتو ان کے لیے تین طلاق کی حد مقرر کردی گئی، ایک اور دو طلاقوں تک رجعت کر سکتا ہے، تیسری کے بعد حق رجوع ختم ہو جاتا ہے ۔ (تفسیر ابن کثیر ، البقرة تحت آیة رقم:229)
علامہ ابن جریر طبری (تفسیر ابن کثیر ، البقرة تحت آیة رقم:229) حافظ ابن اکثیر (ایضاً) امام رازی رحمہم الله تعالیٰ نے اسی تفسیر کو راجح قرار دیا، نیز علامہ آلوسی رحمہ الله اس تفسیر کو ”الیق بالنظم وأوفق بسبب النزول“ ( یعنی نظم قرآن سے زیادہ مناسب اور سبب نزول کے زیادہ موافق ) بتایا ہے۔ (روح المعانی، البقرة تحت آیة رقم:229)البتہ امام مجاہد کی رائے کے مطابق یہ آیت طلاق دینے کے طریقے کے بیان کے متعلق نازل ہوئی ہے۔ ( احکام القرآن للجصاص: البقرة تحت آیة رقم:299) اگر اس قول کو راجح قرار دیا جائے تو زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہو گا کہ طلاق الگ الگ الفاظ میں دینی چاہیے۔ اس پر تو کسی کا اختلاف ہی نہیں ، سب کے نزدیک طلاق ”احسن طریقے“ سے یا ”حسن طریقے“ سے دینا مسنون ہے۔ اصل سوال تو اُسی طرح قائم ہے کہ کوئی شخص مسنون طریقے کو چھوڑ کر بیک لفظ یا بیک مجلس میں تین طلاقیں دیتا ہے، اس کے متعلق کیا حکم ہے؟ آیت کریمہ اس کے متعلق خاموش ہے، بلکہ تفریق مجلس ( یعنی ہر طلاق کے لیے الگ مجلس ہو ) کے متعلق اس میں کوئی اشارہ بھی نہیں پایا جاتا۔
2...دوسری وجہ یہ ہے ”مَرَّتَانِ“ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے ،ایک معنی ہے ”یکے بعد دیگرے“ یہی معنی لے کر دعویٰ کیا جاتا ہے کہ طلاق وہی معتبر ہو گی، جو یکے بعد دیگر ے جدا جدا الفاظ کی صورت میں دی گئی ہو، غیر مقلدین اسی معنی کو حتمی قرار دیتے ہیں ، حالاں کہ ”مَرَّتَانِ“ کا دوسرا معنی ”دو چند، دگنا“ ہے، چناں چہ قرآن کریم میں کئی مقام پر ”مَرَّتَانِ“ کا لفظ انہی معنوں میں استعمال ہوا ہے ﴿أُوْلَئِکَ یُؤْتَوْنَ أَجْرَہُم مَّرَّتَیْْن﴾․ (القصص:54) ( وہ لوگ پائیں گے اپنا ثواب دُھرا)اسی طرح ازواج مطہرّات رضی الله عنہنّ کے بارے میں ارشاد ربانی ہے﴿ وَمَن یَقْنُتْ مِنکُنَّ لِلَّہِ وَرَسُولِہِ وَتَعْمَلْ صَالِحاً نُّؤْتِہَا أَجْرَہَا مَرَّتَیْْن﴾․ (الأحزاب:31) ( اور تم سے جو کوئی الله اور اس کے رسول کی تابع دار رہے گی اور نیک عمل کرے گی اسے ہم اس کا ثواب بھی دوگنا دیں گے) ان دونوں آیتوں میں ”مَرَّتَیْْن“ سے ، دوگنا اور دُھرا مراد ہے۔
”مرتان “کے ان دو معنوں کی وضاحت کے بعد یہ بات کھل کر معلوم ہوگئی کہ جس طرح طلاق پہلے معنی کے اعتبار سے یکے بعد دیگرے واقع ہو جاتی ہے، اسی طرح دوسرے معنی کے اعتبار سے بیک لفظ اور بیک مجلس میں دی گئی دو اور تین بھی واقع ہو جائیں گی۔ (اعلاء السنن:11/179)
3... بقول حضرت مولانا حبیب الرحمن اعظمی صاحب رحمہ الله کے:
یہ بات بھی کس قدر مضحکہ خیز ہے ،جو لوگ ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ممنوع اور غیر مشروع قرار دے کراسے ایک طلاق قرار دیتے ہیں، وہی لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ تین طلاقوں کی یہ ایک طلاق بھی ممنوع اور غیر مشروع ہے۔ پھر یہ ممنوع طلاق نافد بھی ہو گی۔
حالاں کہ ان کے مفروضے کے مطابق وہ بھی نافذ نہیں ہونی چاہیے ۔ ملاحظہ فرمائیں غیر مقلدین کے رئیس اعظم نواب صدیق حسن خان کے فرزند نواب میر نور الحسن کی حسب ذیل عبارت:
واذ أدلة باشد اگرچہ بدعی بود ایں صورت منجملہ صور طلاق بدعی واقع است بانکہ فاعلش آثم باشد نہ سائر صور بدعی کہ درآنہا طلاق واقع نمی شود۔ (عرف الجادی من جنان ہدی الہادی ، ص:121، مطبع صدیقی بھوپال)
سوال یہ ہے کہ جب ممنوع اور غیر مشروع ہونے میں ایک مجلس کی تین طلاق اور تیں طلاقوں کی یہ ایک طلاق برابر اور یکساں ہیں یا دونوں کی ممنوعیت وغیر مشروعیت میں تفاوت ہے؟ اگر دونوں میں تفاوت اور کمی بیشی ہے تو اس تفاوت پر شرعی نص در کار ہے، بالخصوص جو لوگ دوسروں سے ہر بات پر کتاب وسنت کی نص کا مطالبہ کرتے رہتے ہیں، ان پر یہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اپنے اس دعوے پر قرآن وحدیث سے کوئی واضح دلیل پیش کریں اور اگر دونوں کی ممانعت یکساں ہے اور یہی بات جناب میر نور الحسن مرحوم کی عبارت سے ظاہر ہے تو اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ یہ مفروضہ خود ان لوگوں کے نزدیک بھی مسلّم او رقابل عمل نہیں ہے، بلکہ مغالطہ اندازی کے لیے ایک ایسی بات چلتا کر دی ہے جو واقعیت سے یکسر بے بہرہ او رمحروم ہے۔ ( مجموعہ مقالات ہند، طلاق ثلاث صحیح ماخذ کی روشنی میں :3/439)
عموماً ایک مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ شریعت میں اکھٹی تین طلاقیں دینا ممنوع ہے ۔ اب اگر ان ممنوع طلاقوں کو ”الطلاق مرتان“ آیت کریمہ کے عموم میں داخل مان لیں، ان کے نفاذ کو تسلیم کر لیا جائے تو شریعت کی ممانعت کا کوئی معنی ہی نہ ہو گا۔
بظاہر یہ بات بڑی وزنی معلوم ہوتی ہے، لیکن اس کی حیثیت ایک بے بنیاد مفروضے سے زیادہ نہیں، اس لیے کہ اس جواب میں ”سبب “اوراس پر مرتب ہونے والے ”حکم“ کو خلط ملط کر دیا گیا ہے ۔ اسباب اور ان پر مرتب ہونے والے احکام دو الگ الگ حقیقتیں ہیں، اسباب کے استعمال کا مکلف بندہ ہے ، اس پر احکام کا مرتب کرنا الله تعالیٰ کا کام ہے، لہٰذا جب شریعت کی طرف سے معلوم ہو جائے کہ فلاں کام کا فلاں حکم ہے تو بندہ جب بھی وہ فعل سر انجام دے گا، تو لامحالہ اس کا حکم بھی ظہور پذیر ہو گا۔ اگر وہ فعل شریعت کی طرف سے دی گئی اجازت اور طریقے کے موافق نہ ہواتو کرنے والاگناہ گارہو گا ،لیکن اس ناجائز فعل کے اختیار کرنے سے اس فعل کے حکم پر کوئی اثر نہیں پڑے گا ،وہ لا محالہ مرتب ہو کر رہے گا ۔ اسے ایک مثال سے سمجھیے، الله تعالیٰ نے عورت کے ساتھ ہم بستری کو وجوبِ غسل کا سبب بنایا ،اب اگر کوئی شخص اپنی بیوی سے ہم بستری کرے تو جائز فعل ہے، غسل فرض ہو جائے گا ،لیکن اگر کسی اجنبی عورت کے ساتھ ہم بستری کا ارتکاب کیا تو اس فعل کے حرام اور ممنوع ہونے کے باوجود اس پر شرعاً غسل بھی فرض ہو گا، بعینہ طلاق کی یہی صورت ہے ۔ الله تعالیٰ نے فعل طلاق کو نکاح ختم کرنے کا سبب اور ذریعہ بنایا ہے، جب کسی مکلف شخص سے فعل طلاق کا صدور ہو گا تو لامحالہ اس کا اثر بھی مرتب ہو گا ،چاہے طلاق کا یہ مشروع عمل یعنی شریعت کے بتاے ہوئے طریقے کے مطابق ہو یا ناجائز طریقے کے مطابق ہو ، چناں چہ حضرت عبدالله بن عمر رضي الله عنه نے اپنی زوجہ کو بحالت حیض طلاق دی تھی ،جس کاناجائز او رممنوع ہونا شرعاً مسلّم ہے، اس کے باوجود اس طلاق کو نافذ مانا گیا۔ اس صریح نص کے بعد تو اس مفروضہ کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ ( ملخص از مجموعہ مقالات ہند، طلاق ثلاث:3/436)
دوسرا مغالطہ یہ دیا جاتا ہے کہ حضو راکرم صلی الله علیہ وسلم کے زمانہ مبارکہ میں تین طلاقوں کوایک طلاق شمارکیا جاتا تھا، لیکن حضرت عمر فاروق رضي الله عنه نے اپنے زمانہ خلافت میں تین طلاقوں کو تین شمار کرکے بیوی کو ہمیشہ کے لیے شوہر پر حرام کر دیا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا حضرت عمر فاروق رضي الله عنه قرآن وحدیث کے مخالف تھے؟ ( نعوذ بالله) کیا صحابہ کرام رضي الله عنهم جو آپ صلی الله علیہ وسلم کی چھوٹی چھوٹی سنتوں کی حفاظت کر تے تھے وہ دین کے اتنے اہم مسئلے کی تبدیلی پر خاموش رہے ؟ حضرت عمر فاروق رضي الله عنه کے زمانہ خلافت کے بعد عہد عثمانی اورعہد مرتضوی میں کتنے صحابہ کرام یا ان کے شاگرد حضرات ایسے تھے جو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کی سنت کے مطابق تین طلاقوں کے متعلق ایک طلاق کا فتوی اور فیصلہ دیتے تھے؟ اورکتنے صحابہ کرام حضرت عمرفاروق کے فیصلے کے مطابق تین طلاقوں کو تین ہی شمار کرتے تھے، کیاغیر مقلدین اس بات کا صحیح سند سے جواب دے سکتے ہیں؟ (ملخص از مجموعہ مقالات ہند، طلاق ثلاث:3/473،490)
﴿فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ تَحِلُّ لَہُ مِن بَعْدُ حَتَّیَ تَنکِحَ زَوْجاً غَیْْرَہُ فَإِن طَلَّقَہَا فَلاَ جُنَاحَ عَلَیْْہِمَا أَن یَتَرَاجَعَا إِن ظَنَّا أَن یُقِیْمَا حُدُودَ اللّہِ وَتِلْکَ حُدُودُ اللّہِ یُبَیِّنُہَا لِقَوْمٍ یَعْلَمُون﴾․(سورہ بقرہ، آیت:230)
پھر اگر اس عورت کو طلاق دی، یعنی تیسری بار تو اب حلال نہیں اس کو وہ عورت، اس کے بعد جب تک نکاح نہ کرے کسی خاوند سے اس کے سوا، پھر اگر طلاق دے دے دوسرا خاوند تو کچھ گناہ نہیں ان دونوں پر کہ پھر باہم مل جاویں، اگر خیال کریں کہ قائم رکھیں گے الله کا حکم اور یہ حدیں باندھی ہوئی ہیں الله کی، بیان فرماتا ہے ان کو واسطے جاننے والوں کے
تفسیر:حلالہ شرعیہ کی وضاحت
اس آیت کریمہ میں تیسری طلاق کا ذکر ہے ، تیسری طلاق کے بعد حق رجوع نہیں رہتا، میاں بیوی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ایک دوسرے پر حرام ہو جاتے ہیں ، دوبارہ نکاح کرکے ایک ساتھ رہنے کی ایک ہی صورت ہے کہ عورت عدت گزار کر دوسرا نکاح کرے ،اس دوسرے نکاح میں شوہر ہم بستر بھی ہو، پھر اگر یہ دوسرا شوہر طلاق دے یا بقضائے الہی فوت ہو جائے تو پہلے شوہر سے نکاح ہو سکتا ہے اور بیوی پہلے شوہر کے لیے حلال ہو جاتی ہے، اسی کو حلالہ شرعیہ کہتے ہیں۔ پہلے شوہر کے واسطے حلال ہونے کے لیے شرط یہ ہے کہ دوسرا شوہر ہم بستر ہو، قرآن کریم میں ”حتی تنکح“ کا لفظ اسی پر دلالت کر رہا ہے۔
حضرت رفاعہ رضي الله عنه نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دیں، بعد میں ان کا نکاح عبدالرحمن بن زبیر سے ہوا، کچھ عرصے بعد یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا؛ یا رسول الله: میں رفاعہ کی بیوی تھی، انہوں نے مجھے تین طلاقیں دیں، پھر میں نے عبدالرحمن بن زبیر سے نکاح کر لیا، لیکن ان میں مردانگی کمزوری ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے تبسم فرماکر پوچھا: شاید تم دوبارہ رفاعة کے پاس جانا چاہتی ہو ؟ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا، ہاں جب تک تم اپنے اس دوسرے شوہر سے ہم بستری کا لطف نہ اٹھا لو اور وہ تم سے لطف نہ اٹھالیں۔ (احکام القرآن للجصّاص، البقرہ تحت آیة رقم:230)اس حدیث سے معلوم ہوا کہ پہلے شوہر کے واسطے حلال ہونے کے لیے ہم بستری شرط ہے۔
حلالہ کی غرض سے کیے جانے والے نکاح کاحکم
اگر کسی نے اس شرط پر نکاح کیا کہ ہم بستری کرنے کے بعد طلاق دے دوں گا، تاکہ عورت عدّت گزار کر اپنے پہلے شوہر کے لیے تجدید نکاح کے ذریعے حلال ہو جائے تو اس شرط کے ساتھ منعقد ہونے والے نکاح سے حلالہ تو ہو جائے گا، لیکن گناہ گار ہو گا ،کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے پر اور جس کے لیے کرایا جائے دونوں پر لعنت فرمائی ہے۔ (جامع الترمذی، رقم الحدیث:1119) یہ حرمت صرف شرط لگانے کی وجہ سے ہے، اگر شرط نہ ہو تو حلالہ بھی ہو جائے گا او رگناہ بھی نہ ہو گا۔
﴿وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النَّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَأَمْسِکُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ أَوْ سَرِّحُوہُنَّ بِمَعْرُوفٍ وَلاَ تُمْسِکُوہُنَّ ضِرَاراً لَّتَعْتَدُواْ وَمَن یَفْعَلْ ذَلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہُ وَلاَ تَتَّخِذُوَاْ آیَاتِ اللّہِ ہُزُواً وَاذْکُرُواْ نِعْمَتَ اللّہِ عَلَیْْکُمْ وَمَا أَنزَلَ عَلَیْْکُمْ مِّنَ الْکِتَابِ وَالْحِکْمَةِ یَعِظُکُم بِہِ وَاتَّقُواْ اللّہَ وَاعْلَمُواْ أَنَّ اللّہَ بِکُلِّ شَیْْء ٍ عَلِیْمٌ ، وَإِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَاء فَبَلَغْنَ أَجَلَہُنَّ فَلاَ تَعْضُلُوہُنَّ أَن یَنکِحْنَ أَزْوَاجَہُنَّ إِذَا تَرَاضَوْاْ بَیْْنَہُم بِالْمَعْرُوفِ ذَلِکَ یُوعَظُ بِہِ مَن کَانَ مِنکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّہِ وَالْیَوْمِ الآخِرِ ذَلِکُمْ أَزْکَی لَکُمْ وَأَطْہَرُ وَاللّہُ یَعْلَمُ وَأَنتُمْ لاَ تَعْلَمُون﴾․(سورہ بقرہ، آیت:232-231)
اور جب طلاق دی تم نے عورتوں کو، پھر پہنچیں اپنی عدت تک تو رکھ لو ان کو موافق دستور کے یا چھوڑ دو ان کو بھلی طرح سے اور نہ روکے رکھو ان کو ستانے کے لیے ،تاکہ ان پر زیادتی کرو او رجو ایسا کرے گا وہ بے شک اپنا ہی نقصان کرے گا اور مت ٹھہراؤ الله کے احکام کو ہنسی اور یاد کرو الله کا احسان جو تم پر ہے اور اس کوکہ جو اتار ی تم پر کتاب اور علم کی باتیں کہ تم کو نصیحت کرتا ہے اس کے ساتھ اور ڈرتے رہو الله سے اورجان رکھو کہ الله سب کچھ جانتا ہے اورجب طلاق دی تم نے عورتوں کو، پھر پورا کر چکیں اپنی عدت کو تو اب نہ روکو ان کو اس سے کہ نکاح کر لیں اپنے انہی خاوندوں سے ،جب کہ راضی ہو جاویں آپس میں موافق دستور کے، یہ نصیحت اس کو کی جاتی ہے جو کہ تم میں سے ایمان رکھتا ہے الله پر اور قیامت کے دن پر، اس میں تمہارے واسطے بڑی ستھرائی ہے او ربہت پاکیزگی اور الله جانتا ہے او رتم نہیں جانتے (جاری)