ماہ ِصفر سے متعلق عقیدہ نحوست اور ایک موضوع حدیث کا جائزہ
عبدالوکیل متوکل، متعلم جامعہ فاروقیہ ، کراچی
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنّت کو قرآن کریم کے بعد اسلامی ُقانون کا دوسرا اہم ترین ماخذ تسلیم کیا گیا ہے، سنت کا یہ مقام صدیوں سے مسلّم اور غیر متنازعہ رہا ہے اور اگرچہ فقہی آراء کے بارے میں مسلمانوں میں مختلف نقطہ نظر رہے ہیں، لیکن قرآن حکیم اور سنت نبوی کی حجیت کا کسی ماہر قانون نے کبھی انکار نہیں کیا، چند ایسے متفرق افراد کی انفرادی آرا سے قطع نظر، جنہوں نے اپنے آپ کو مسلم اُمت کے اجتماعی دھارے سے خود الگ کر لیا تھا، کسی فرد نے کبھی اسلامی قانون کے بنیادی اور اہم ماخذ کی حیثیت سے سنت کا درجہ چیلنج نہیں کیا۔
شریعت مطہرہ میں احادیث رسول الله صلى الله عليه وسلم کو مصدر ثانی کی اساسی حیثیت حاصل ہے، جس میں نقب زنی سے حفاظت کا انتظام عہدِ رسالت کے ابتدا ہی سے کر دیا گیا تھا اور یہ حفاظت آپ صلى الله عليه وسلم کے اس فرمان کا نتیجہ تھی:”من کذب علی متعمداً فلیتبوأ مقعدہ من النار․“ (البخاری، کتاب العلم، باب إثم من کذب علی النبی صلى الله عليه وسلم، ص:24،ح110، ط: دارالسلام)
ترجمہ:”جس شخص نے مجھ پر قصداً جھوٹ بولا وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالے۔“
آپ علیہ السلام کے اسی ارشاد کا اثر تھا کہ جب ذخیرہ احادیث میں من گھڑت اور ساقط الاعتبار روایات کے ذریعہ رخنہ اندازی کی مذموم کوششیں شروع ہو گئیں، تو محدثین کرام نے احادیث کے صحت وسقم کے مابین”اسناد“ کی ایسی خلیج قائم کردی، جس کی مثال اُمم سابقہ میں ملنا مشکل ہی نہیں، محال ہے، محدثین کرام نے احادیث کو خس وخاشاک سے صاف کرنے کے لیے یہی” میزان اسناد“ قائم کی، جس کے نتیجے میں حدیث کے مبارک علوم وجود میں آتے رہے، ضعیف او رکذاب راویوں پر مستقل تصانیف کی گئیں، انہی متقدمین علماء نے ” کتب العلل“ میں ” ساقط الاعتبار“ (غیر معتبر) احادیث کو واضح کیا، علما متاخرین نے بھی باقاعدہ مشتہرات (زبان زد عام روایات) ساقط الاعتبار اور من گھڑت روایات پر کتابیں لکھیں، چناں چہ ہر زمانے میں احادیث کا ذخیرہ محفوظ شاہ راہ پر گام زن رہا غرض یہ کہ روئے زمین پر جہاں کہیں اسلام کا سورج طلوع ہوا ہے، وہ حدیث کے محافظین خود ساتھ لایا ہے۔
لیکن جہاں علوم حدیث کو محافظ ملے، وہاں شریعت کا یہ عظیم ذخیرہ چند ایسے لوگوں کے ہاتھوں غیر محفوظ تصور کیا جانے لگا، جنہوں نے یا تو اسلام دشمنی کی وجہ سے شریعت مطہرہ کے بے داغ چہرے کو داغ دار بنانے کی کوشش کی، یا اپنے دیگر مقاصد کے حصول کے لیے انہوں نے ایسے مذموم عمل کی کوشش کی۔ (جس میں الله کے فضل وکرم سے و ہ ناکام ہوئے) آنے والی سطور سے معلوم ہو گا کہ یہ کون لوگ تھے اور ان کے مقاصد کیا تھے، جنہوں نے ایسا قبیح عمل کرنے کی ناکام کوشش کی۔
وضاعین حدیث کے اقسام اور ان کے مقاصد
1...زنادقہ: موضوعحدیث سے ان کا مقصد اُمت میں رطب ویابس پھیلا کر شریعت کو مسخ کرنا ہے۔
2...مؤیدین مذاہب: دوسری قسم ان افراد کی ہے جنہوں نے اپنے مذہب اور موقف کی تائید میں روایتیں گھڑ لیں ،اس عنوان کے تحت علامہ لکھنوی نے حدیث میں خوارج کے طریقہ واردات کو بیان کیا ہے، تاریخ شاہد ہے اور بعض خوارج نے خود اس بات کا اقرار کیا ہے کہ ہم نے اپنے موقف کو ثابت کرنے کے لیے بہت سی احادیث گھڑی ہیں۔
3...اصلاح پسند افراد: تیسر ا طبقہ ان افراد کا ہے، جنہوں نے لوگوں کی اصلاح کے خیال سے ترغیب وترہیب کی احادیث گھڑ یں۔
4...طبقہ جہلاء: چوتھی قسم ان لوگوں کی ہے جو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی جانب ہرامر خیر، اقوال زریں وغیرہ کا انتساب جائز سمجھتے ہیں، حالاں کہ معتبر سند کے بغیر اس طرح کا انتساب ہر گز جائز نہیں۔
5...اہل غلو: ایک قسم ان لوگوں کی ہے، جو عقیدت ومحبت میں افراط وغلو کا شکار ہو جاتے ہیں او راہل بیت ، خلفائے راشدین، ائمہ کرام اور رسالت مآب صلی الله علیہ وسلم کے حوالے سے باطل مضامین مشہور کر دیتے ہیں، جب کہ اسلام اعتدال کا مذہب ہے، اسلام میں نہ افراط کی اجازت ہے اور نہ تفریط کی۔
6...واعظین: چھٹا طبقہ ان قصہ گو واعظین کا ہے، جو جعلی غرائب سنا کر عوام سے داد تحسین وصول کرتے ہیں ۔ ( غیر معتبر روایات کا فنی جائزہ، بتغیر یسیر)
حدیث گھڑے والوں نے تو کوئی ایسا موضوع نہیں چھوڑا ہے، جس کو نہ چھیڑا ہو، ہر موضوع کے حوالے سے حدیثیں گھڑی ہیں، آنے والی سطور میں ہم رواں ماہ کی مناسبت سے ایک موضوع حدیث کی حقیقت بیان کریں گے۔
اسلامی سال کا دوسرا مہینہ”صفر المظفر“ شروع ہوچکا ہے، زمانہ جاہلیت میں لوگوں میں یہ مشہور تھا اور ان کا یہ اعتقاد تھا کہ”صفر“ کا مہینہ مصیبتوں کا مہینہ ہے اور ا س مہینے میں آسمان سے آفتیں نازل ہوتی ہیں، اس وجہ سے وہ اس مہینے میں کسی قسم کی کوئی تقریب ( شادی، بیاہ وغیرہ) منعقد نہیں کرتے تھے اور وہ اس مہینے کو منحوس سمجھتے تھے، حالاں کہ کوئی چیز بذات خود منحوس نہیں ہوتی، بلکہ نحوست انسان کی بد اعمالیوں کی وجہ سے آتی ہے، اس کا سبب کسی مہینے، جانور، ستارے، یا کسی بے جان چیز کو قرار دینا یہ جہالت ہے، یہ بات اگر صرف دورِ جہالت تک محدود ہوتی تو اتنی بات نہ تھی، یہ غلط عقیدہ تو اس زمانے سے لے کر آج تک تسلسل کے ساتھ چلا آرہا ہے اور آج بھی بعض سادہ لوح مسلمان اس غلط عقیدے کا شکار ہیں، جب کہ یہ اسلام کی تعلیمات کے خلاف ہے اور اسلام اس قسم کے غلط عقیدوں کو یکسر مسترد کرتا ہے۔
الله تعالیٰ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے ایسے غلط عقائد کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی ہے۔ چنا ں چہ قرآن پاک میں الله تعالیٰ نے نحوست کا سبب بد اعمالیوں کو بتایا ہے، ارشاد باری تعالیٰ ہے:﴿قَالُوا اطَّیَّرْنَا بِکَ وَبِمَن مَّعَکَ قَالَ طَائِرُکُمْ عِندَ اللَّہِ بَلْ أَنتُمْ قَوْمٌ تُفْتَنُونَ﴾․(النمل، آیت:47)
ترجمہ: وہ لوگ کہنے لگے کہ ہم تو تم کو اور تمہارے ساتھ والوں کو منحوس سمجھتے ہیں ( حضرت صالح علیہ السلام نے جواب میں ) فرمایا کہ تمہاری (اس) نحوست کا (سبب) الله کے علم میں ہے، بلکہ تم وہ لوگ ہو کہ ( اس کفر کی بدولت) عذاب میں مبتلا ہو گئے۔ حضرت صالح علیہ السلام نے اپنی قوم کوجب ایمان کی دعوت دی تو ان لوگوں نے حضرت صالح علیہ السلام سے کہا ” جب سے تم لوگ آئے ہو، ہم پر قحط وسختیاں آگئی ہیں، یہ نحوست تم لوگوں کی وجہ سے ہے۔“ الله تعالیٰ نے اس کی تردید فرماکر بتا دیا کہ تم پر جو آفت پڑی ہے یہ تو الله تعالیٰ کی طرف سے عذاب ہے، اس کا سبب تو الله تعالیٰ کی علم میں ہے کہ وہ بد اعمالیاں ہیں۔
اور اسی طرح الله کے رسول صلى الله عليه وسلم نے اس غلط عقیدے کی سختی کے ساتھ تردید فرمائی ہے، چناں چہ ”صحیح مسلم“ کی ایک روایت میں ہے :” أن أبا ھریرة رضی الله عنہ قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: لاعدوی، ولاطیرة، و لاصفر، ولاھامة…․ الحدیث․“(صحیح مسلم: کتاب السلام، باب لاعدوی ولاطیرة ولاھامة ولاصفر، 1743/4، ح2225
ترجمہ: حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا، نہ بیماری کا متعدی ہونا ہے ( زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا اعتقاد تھا کہ جو شخص بیمار کے ساتھ کھاتا پیتا ہے تو اس کی بیماری اس کو بھی لگ جاتی ہے ) اور نہ بد فالی ہے ( عرب کی عادت بدشگونی کی تھی، جب کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتے تو پرندے کو اڑاتے، اگر وہ دائیں جانب جاتا تو نیک شگون لیتے، اگر وہ بائیں جانب جاتا تو بدشگونی لیتے) اور نہ ہامہ ہے ( یہ پرندے کا نام ہے ، زمانہ جاہلیت میں لوگوں کا زعم باطل یہ تھا کہ یہ مقتول کی ہڈیوں سے پیدا ہوتا ہے اور فریاد کرتا ہے، میری پیاس بجھا دو، یہاں تک کہ اس کا قاتل مارا جائے) اور نہ صفر ( ماہ صفر کے بارے میں عرب کا یہ اعتقاد تھا کہ اس میں حوادث وآفات کا نزول ہوتا ہے، جیسا کہ ابھی بیان ہو چکا ہے)۔
مذکورہ بالا آیت او رحدیث سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ اسلام میں ایسے غلط عقائد کا کوئی ثبوت نہیں ہے، یہ سب باتیں لغو ہیں۔
ماہ صفر کے بارے میں ایک موضوع حدیث کی حقیقت
حدیث موضوع:” من بشرنی بخروج صفر بشرتہ بالجنة“
مندرجہ بالا حدیث کو اصحاب کتب مشتہرہ میں سے علامہ عجلونی نے موضوع کہا ہے اور اسی طرح ملا علی قاری اور علامہ طاہر پٹنی نے بھی اس حدیث کو موضوع کہا ہے، علامہ عجلونی کی عبارت ملاحظہ ہو:
”من بشرني بخروج صفر بشرتہ بالجنة“ قال القاری في الموضوعات تبعاً للصغانی: لا أصل لہ: کشف الخفاء، حرف المیم:280/2، ح2418
ملاعلی قاری کی عبارت درج ذیل ہے:” من بشرني بخروج صفر بشرتہ بالجنة“(لا أصل لہ: الأسرار المرفوعة فی الأخبار الموضوعة: حرف المیم، ص:225، ح(886)
علامہ طاہر پٹنی یوں رقم طراز ہیں:” من بشرني بخروج صفر بشرتہ بدخول الجنة․“( تذکرة الموضوعات، باب الفاضلة من الأوقات والأیام والجمعة وعاشوراء والکحل، ص:173، ح (765)
مندرجہ بالا حدیث کا ترجمہ یہ ہے:
” جس نے مجھے ماہِ صفر کے نکلنے کی خوش خبری سنائیمیں اس کو جنت کی بشارت دیتا ہوں ۔“ طرز استدلال اس حدیث سے یوں ہے کہ صفر کا مہینہ نحوستوں کا مہینہ ہے، تب ہی تو آپ صلی الله علیہ وسلم اس کے نکلنے کی خوش خبری سنانے والے کو جنت کی بشارت دیتے ہیں!! لیکن یہ استدلال اور طرزِ استدلال دونوں باطل ہیں، اس لیے کہ جب حدیث ہی موضوع ہے اور اس کی کوئی حقیقت نہیں ہے ( جیسا کہ مذکورہ بالا حوالہ جات سے معلوم ہوا) تو استدلال کا بطلان تو امر بدیہی ہے اسی طرح فتاوی ہندیہ میں بھی اس کی تردید مذکور ہے ملاحظہ فرمائیے۔
” سألتہ في جماعة لا یسافرون في صفر ولا یبدون بأعمال فیہ من النکاح والدخول ویتمسکون بما روي عن النبی صلی الله علیہ وسلم: من بشرني بخروج صفر بشرتہ بالجنة، وھل یصح ھذا الخبر؟ وھل فیہ نحوسة؟ ونھی عن العمل؟… أماما یقولون في حق صفر فذلک شیء کانت العرب یقولونہ، وأما ما یقولون فی القمر، فی العقرب، في الاسد فانہ شیء یذکرہ أھل النجوم؛ لتنفیذ مقالتھم ینسبون الی النبي صلی الله علیہ وسلم، وھو کذب محض، کذا فی جواہر الفتاوی․ ( الفتاوی الھندیہ، کتاب الکراہیة، باب فی المتفرقات380/5، ط: نورانی کتب خانہ)
مذکورہ بالا تفصیل سے معلوم ہوا کہ اس مہینے سے متعلق مذکورہ حدیث ہو یا دوسری کوئی موضوع حدیث ہو اور اسی طرح ہر وہ موضوع حدیث جو کسی دن یا مہینے سے متعلق ہو، یا کسی بھی موضوع سے متعلق ہو، ہمیں خود بھی اس کو بیان کرنے سے او راس کے مضمون کے مطابق عقیدہ رکھنے سے بچنا چاہیے اوردوسرے مسلمان جو کم علمی کی وجہ سے اس قسم کے خرافات کے شکار ہیں، انہیں بھی سمجھا کر اس طرح کے عقائد سے توبہ تائب ہونے کی ترغیب دینی چاہیے۔
اور آخر میں بارگاہ لم یزل میں بندہ دست بدعاہے کہ الله تعالیٰ ہمیں دین متین پر پورا پورا عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور دین اسلام کے دشمنوں کی سازشوں اور شرارتوں سے پوری اُمت مسلمہ کو محفوظ فرمائے۔ آمین!