Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1436ھ

ہ رسالہ

9 - 18
رفیقِ دیرینہ کی جدائی

شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان مدظلہ
صدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان

11/ ربیع الثانی 1436ھ بروز اتوار وفاق المدارس العربیہ پاکستان کے مرکزی دفتر واقع گارڈن ٹاؤن ملتان میں ضلع ملتان کے دینی مدارس کے ذمہ داران کے ایک اجلاس میں ایک مختصر اور آخری خطاب کے بعد ہمارے دیرینہ رفیق، مخلص و باوفا دوست، عقائد و افکارِ دیوبند کے محافظ و ترجمان، وفاق المدارس العربیہ کے روحِ رواں، نمونہ اسلاف، شیخ الحدیث حضرت مولانا عبدالمجید لدھیانوی رحمة اللہ علیہ ہزاروں لاکھوں پسماندگان کو غم زدہ، دل گرفتہ اور اشک بار چھوڑ کر عالم آخرت کو سدھار گئے۔ انا للّٰہ وانا الیہ راجعون․

حضرت مولانا کا شمار ان علماء میں ہوتا تھا جن کے علم و عمل، اخلاص وتقویٰ، علمی رسوخ اور دیانت و اصابت فکر پر اہل علم اور خواص کا اتفاق تھا۔ بلاشبہ ان جیسے علمائے ربانیین اب خال خال رہ گئے ہیں، جن کا وجود پوری امت کے لیے باعثِ رحمت و برکت ہے۔ بندہ کا حضرت مولانا  سے تعارف نصف صدی سے زائد عرصہ سے ہے، مگر اُن سے محبت و دوستی کا تعلق 1401ھ (1980ء) میں قائم ہوا،جب میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کا ناظم اعلیٰ منتخب ہوا۔ اس علاقہٴ الفت و محبت کو بھی پینتیس برس گزر چکے ہیں۔ اس طویل عرصہ میں مولانا مرحوم کے ساتھ جلوت و خلوت، سفر و حضر اور باہمی معاملات ورفاقت کے کئی مواقع پیش آئے۔ بندہ نے مولانا مرحوم کو ظاہرًا و باطناً عاملِ شریعت، پیکرِ اخلاص، متبعِ سنت، مضبوط عقیدے کا حامل، تدریس و تعلیم کا ماہرِ فن استاذ، تدریس کے ساتھ بے نظیر مربی، مدبر و مفکر اور مصلتحوں کا شکار نہ ہونے والاراہ نما پایا۔1982ء میں وفاق المدارس العربیہ پاکستان کی نظامت عُلیا کی ذمہ داری بندہ کے کندھوں پر تھی۔ وفاق المدارس کے موجودہ ناظم اعلیٰ حضرت مولانا محمد حنیف جالندھری سلمہ مہتمم جامعہ خیرالمدارس ملتان، ”وفاق المدارس“ کی مجلس عاملہ کے نئے نئے ممبر منتخب ہوئے تھے، ان دنوں راقم، مولانا لدھیانوی (مرحوم) اور مولانا محمد حنیف سلمہ نے پنجاب کے مدارس کا ایک تفصیلی دورہ کیا، مولانا مرحوم کی معیت و رفاقت کے اس طویل سفر میں اُن کے علمی رسوخ، حاضر جوابی، گہری نظر و بصیرت، علمی لطائف اور بذلہ سنجی سے مستفید و لطف اندوز ہونے کا موقع ملا۔ اس سفر میں بندہ کو اندازہ ہوا کہ مولانا اسلام، اہل السنت والجماعت، احناف اور مسلک دیوبند کی حفاظت کے لیے سیاسی و مفادی مصلحتوں کو قربان کرنے والے ایک بہادر قائد و جرنیل ہیں، جسے اپنے اسلاف و اکابر کی عظمتوں، قربانیوں، شجاعتوں اور ولولوں کی داستان ازبر اور ہر وقت مستحضر ہے، وہ اپنے اکابر کے عاشقِ زار اور اُن کے طریق کار پر اعتماد رکھنے والے وفادار سپاہی تھے۔ علم و تحقیق میں گہرائی و رسوخ اور مطالعہ میں تعمق و توسع کے باوجود وہ اپنے اکابر و اسلاف کے علم و فکر اور تحقیق و نظریات کے پختہ مقلد تھے۔ حکیم الامت حضرت مولانا اشرف علی تھانوی ،شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور دیگر اکابر کا نام اور حوالہ سننے کے بعد کسی جدید تحقیق و نظریہ کو خاطر میں نہ لاتے تھے۔ متاخرین میں شیخ الاسلام حضرت مدنی قدس سرہ کے دو عظیم و قابل فخر شاگرد امام اہل السنت حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور وکیل صحابہ حضرت مولانا قاضی مظہر حسین کی دیانت و اصابت فکر پر مکمل اعتماد فرماتے تھے، ایک مرتبہ فرمایا کہ ”اگر اللہ تعالیٰ کے ہاں اجمالی ایمان مقبول ہے تو میرے وہی عقائد ونظریات ہیں جو امام اہل سنت مولانا محمد سرفراز خان صفدر اور قائد اہل سنت مولانا قاضی مظہر حسین رحمہم اللہ کے ہیں“۔

مولانا مرحوم کے دینی کارناموں اور مصروفیات کو دیکھا جائے تو تعجب ہوتا ہے کہ انہوں نے کس طرح خود کو دین متین کے لیے وقف کر دیا تھا، وہ ہمہ وقت کسی نہ کسی دینی خدمت میں مصروف و مشغول ہوتے تھے، درس وتدریس، تعلیم وتبلیغ تقریر و تذکیر، ملک بھر کے اجتماعات میں شرکت، بیرون ملک دورے، ”ختم نبوت“ کے جلسوں میں حاضری ”وفاق “کے اجلاسوں کی سرپرستی، مریدین و طلبہ کی اصلاح و تربیت، مطالعہ و تحقیق اور تصنیف و تالیف جیسے بے شمار دینی کاموں میں وہہر وقت منہمک و مشغول رہتے تھے۔

صوبہ پنجاب کے مدارس کے معائنہ کے دوران بندہ نے بیشتر مدارس میں جامعہ خیرالمدارس کے فضلاء کو مصروف تدریس پایا۔ اس کے بعد زیادہ تر اساتذہ کا تعلق دارالعلوم کبیر والا، جامعہ قاسم العلوم ملتان اور جامعہ باب العلوم کہروڑ پکا سے تھا، ان تینوں اداروں میں مولانا مرحوم نے تدریسی خدمات انجام دیں۔ استاذ کی قابلیت و صلاحیت کا اندازہ شاگردوں کو دیکھ کر ہوتا ہے، پنجاب میں مولانا مرحوم کے شاگردوں کی کثیر تعداد اور پھر اُن کا درس و تدریس سے وابستہ ہونا مولانا  کے مدرسانہ اور مربیانہ اندازِ تدریس کا غماز ہے۔ مولانا کے ساتھ طویل محبت و رفاقت میں ان کی بے شمار خوبیوں اور کمالات کا مشاہدہ ہوا، لیکن ان کی دو خوبیاں ایسی تھیں جن میں بندہ انہیں معاصر علماء سے ممتاز و منفرد سمجھتا ہے۔

ان کی پہلی خوبی اصابت رائے تھی، وہ صاحب الرائے بھی تھے اور صائب الرائے بھی، بہت سے مشکل اور پیچیدہ مسائل میں، جب دوسرے حضرات غور و فکر میں غلطاں ہوتے تھے، مولانا لدھیانوی مرحوم جچے تلے انداز میں اپنی رائے پیش کرتے اور مسئلہ کا حل سامنے آجاتا۔

مولانا مرحوم کی دوسری خوبی حد درجہ تواضع و انکسار اور خود کو چھپانا اور مٹانا تھا۔ وہ بہت بلند نسبتوں کے حامل، بزرگ اساتذہ کے شاگرد، دینی جماعتوں کے قائد، مدارسِ دینیہ کے سرپرست اور سلسلہٴ عالیہ رائے پور کے مجاز و فیض یافتہ تھے، مگر بایں ہمہ اُن میں تکبر، تعلّی، ریاء ونمود اور خود نمائی کا نام و نشان نہ تھا۔ اُن کے سانحہٴ رحلت کے بعد بندہ کو معلوم ہوا کہ تفسیر، حدیث اور مواعظ و خطبات کے موضوعات پر اُن کی کئی کئی جلدوں پر مشتمل تصانیف طبع ہو کر اہل علم میں مقبول و متعارف ہیں۔ اتنے قریبی تعلق کے باوجود انہوں نے مجھ سے کبھی اپنی کسی تالیف کا ذکر تک نہیں کیا، بندہ کو ان کی تصنیفات کاعلم اُن کی رحلت کے بعدہواتواحقرنے حضرت مولانامحمدحنیف سلمہ‘ مہتمم جامعہ خیرالمدارس وناظم اعلیٰ وفاق المدارس سے فرمائش کی کہ مولانامرحوم کی جملہ تالیفات مجھے روانہ فرمائیں۔مولاناموصوف نے میری درخواست کے مطابق کتابیں بھجوادیں۔آج کل مولانامرحوم کی تالیفات بندہ کے زیرِ مطالعہ ہیں،میں انہیں پڑھتاہوں اورمولانامرحوم کی نکتہ چینی ،استحضارفی العلوم، وسعتِ مطالعہ اور قوتِ استدلال پر روحانی لطف وکیف محسوس کرتااور متحیّر ہوتا ہوں کہ اُن کاوجود سادگی اور تواضع کی گوڈری میں لپٹے ہوئے جوہر کی مانندتھا ،جس کی قدروقیمت کااندازہ جوہر ی ہی لگاسکتا ہے۔

دوسری طرف مولانا کی تواضع کایہ عالم تھا کہ بندہ سے بندہ کی ”بخاری شریف“ کی املائی تقاریر کے مجموعہ ”کشف الباری“ کے بارے میں اکثر دریافت فرماتے اور اس کی ہر جلد کی اشاعت پر طالب علمانہ مسرت کا اظہار فرماتے، جو ان کی تواضع، بے نفسی اور انکسار کی دلیل ہے۔ سنة اللہ یہی ہے کہ جو شخص اللہ کے لیے تواضع اور عاجزی اختیار کرتا ہے حق تعالیٰ شانہ اُسے سربلند فرماتے ہیں۔ مولانا مرحوم نے خود کو جتنا مٹایا اور چھپایا اللہ تعالیٰ نے انہیں اس سے کئی گنا زیادہ اٹھایا اور چمکایا۔ اُن کی زندگی میں اُن کے ان گنت شاگرد مسندِ حدیث پر جلوہ افروز ہوئے، جو کسی بھی استاذ و مدرس کے لیے لائق تشکر اور باعثِ فخر ہے۔

بندہ کو حضرت مولانا کے سانحہ ارتحال کی دل دوز و دردناک خبر کراچی میں ملی، راقم خود کئی ماہ سے علیل و صاحبِ فراش ہے۔ اسفار کا سلسلہ قریب قریب کالمعدوم ہو گیا ہے۔ خبر سنتے ہی بے اختیار دلی تقاضا ہوا کہ مولانا مرحوم کی نماز جنازہ میں شریک ہونے کی سعادت حاصل کی جائے۔ میرے فرزند عزیزم مولوی عبیداللہ خالد صاحب اور دیگر احباب نے بندہ کی نقاہت علالت اور ضعف کے پیشِ نظر یہ محبانہ درخواست کی کہ آپ کی نمائندگی کے لیے میں حاضرہوجاتاہوں، آپ اس حالت میں سفر نہ کریں۔ اُن حضرات کے مخلصانہ اصرار کے پیش نظر بندہ نے سفر کا ارادہ ملتوی کر دیا، مگر حقیقت یہ ہے کہ مولانا کی طویل رفاقت اور پُر خلوص محبت و تعلق کی وجہ سے دل نے عقل کے اس فیصلے کو قبول کرنے سے انکار کر دیا اور بندہ نے ہر حال میں جنازے میں شرکت کا فیصلہ کیا، ”باب العلوم کہروڑ پکا“ پہنچنے پر معلوم ہوا کہ پورے پاکستان سے ہزاروں لاکھوں مسلمان ایک درویش صفت عالم ربانی کی نماز جنازہ میں شرکت کے لیے آئے ہوئے ہیں۔ بندہ کے عذر و علالت کے باوجود احباب نے نماز جنازہ پڑھانے کی فرمائش کی۔ بندہ نے سعادت سمجھتے ہوئے نماز جنازہ کی امامت کی۔ اللہ تعالیٰ حضرت مرحوم کو کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائیں اور اُن کی جدائی کے خلا کو اُن سے مخلص و متواضع علمائے کرام وشخصیات سے پر فرمائیں۔ آمین!

Flag Counter