Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1436ھ

ہ رسالہ

14 - 18
والدین کی یہ بھی ذمہ داری ہے

عبدالله خالد قاسمی خیر آبادی
	
دین اسلام، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے ہمیں عزت بخشی ہے اور اس دین کو ہم تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لے کر آئے،آپ نے ہمیں تعلیم دی اور کیا ہی خوب تعلیم دی،ادب سکھلایا اور مکمل ضابطہ آداب سکھلائے، ہمیں ہر قسم کی برائیوں سے بچایا ،سعادت و اطمینان کے حصول کا ایک صحیح ہدف متعین فرمادیا،مزید دن ،رات کے لمحات سے فائدہ اٹھانے کے اصول متعین فرمادیے،جس کی وجہ سے دنیا و آخرت کے منافع کا حصول ہوتا ہے، شر و خطا سے نجات ملتی ہے،اس میدان کا اہم کام یہ ہے کہ ہم اپنے بچوں کی تربیت بچپن سے اسلامی عقائد کی بنیادوں پر کریں۔

والدین کی سب سے پہلی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی اولاد کی بہترین دینی تعلیم کا انتظام کریں اور ان پر بھرپو ر نظر رکھیں، اس لیے کہ اولاد،تربیت کے سلسلہ میں سب سے پہلا نقش والدین ہی کا قبول کرتی ہے، اسی مضمون کی طرف حدیث پاک میں راہ نمائی کی گئی ہے ۔

”کل مولود یولد علی الفطرة، فابواہ یھودانہ اوینصرانہ اویمجسانہ․“(بخاری 1/185)
یعنی اولاد کی تعلیم و تربیت میں والدین کا کلیدی کردار ہوتا ہے، پیدائش سے لے کر سن شعور تک پہنچنے تک والدین کو بچوں کے سلسلے میں اسلام نے جو تعلیمات فراہم کی ہیں ان سب سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اگر اولاد کی تربیت میں کوئی کمی رہ جائے گی تو مستقبل میں صرف والدین ہی نہیں، بلکہ پورے معاشرے کے لیے بڑے نقصان و خسر ان کی بات ہوتی ہے۔

قرآنی مکاتب میں اپنے بچوں کو بھیجا جائے، تاکہ تعلیم کے اعتبارسے جو سب سے پہلا نقش ان کے ذہنوں پر ابھرے وہ قرآنی آیات کا ہو،پھر اس کی روحانی برکات بچوں کی پوری زندگی پر اثر انداز ہوں گی،بزرگان دین اور امت کے مصلح حضرات کے حالات ،اسلام اور دین کے لیے ان کی مجاہدانہ کوششوں کے واقعات سنائے جائیں،تاکہ اسلام کی قدروقیمت ان کے دلوں میں بیٹھے اسلامی احکامات کی عملی مشق کرائی جائے،نمازوں کی تاکید،بڑوں کا ادب واحترام انہیں سکھایا جائے ، تاکہ وہ اسلامی آداب سے آگاہ ہو سکیں ،اولاد جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے انعام اور عطیہ ہیں ،ہم ان کو آزمائش و عذاب میں نہ ڈالیں،بلکہ اپنی اولاد کو نیکی کے کاموں کی طرف راہ نمائی کریں اور ان کو یہ بتلائیں کہ اپنے اوقات کو کیسے کار آمد بنائیں ،جس سے خود بھی مستفید ہوں اور امت اسلامیہ بھی اس سے نفع اٹھائے۔

گرمی کی عام تعطیلات اور لمبی چھٹیوں کا زمانہ شروع ہونے والا ہے ،عصری علوم کے تقریباً سبھی ادارے اس زمانے میں بند ہوتے ہیں، ان میں تعلیم حاصل کرنے والے بچے اِدھر اُدھر بیکار پھرتے نظر آتے ہیں ، آوارہ گردی اور ضرورت سے زائد رشتہ داریاں نبھانے میں سارا وقت ضائع کردیتے ہیں۔

چھٹی کے ان ایام میں والدین کی ذمہ داری اور بھی زیادہ بڑھ جاتی ہے ،اس لیے کہ یہ وقت ایسا ہوتا ہے کہ بچہ تعلیمی سرگرمیوں سے دور غیر متعلق اور مضر چیزوں کے اثرات زیادہ قبول کرتا ہے، اس لیے والدین کو چاہیے کہ ان کو قرآن کی تلاوت کرنے ،اسے مکمل یا جتنا ہوسکے یاد کرنے پر لگائیں، احادیث نبویہ کے پڑھنے اور آپ کے صحابہ کرام کی سیرتوں کو پڑھنے کی طرف را ہ نمائی کریں، تا کہ وہ ان سے عبرتیں اور اسوہٴ حسنہ حاصل کریں،بچوں کو زندگی گذارنے میں سنجیدگی کے طریقے سکھلائیں ،ان کو آزادی سے بچانے کا اہتمام کریں،سستی و کاہلی سے دور رکھیں ،صحیح دینی عقائد پر ان کو پروان چڑھائیں ،ان کی شخصیتکی حفاظت کریں ،تاکہ بچے بڑے ہو کر امت اسلامیہ کی شان دوبالا کریں ۔اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے اوقات لایعنی کاموں میں ضائع نہ کریں ،والدین کا اپنی ذمہ داری سے غافل رہنا یا تربیت کا صحیح طرز پر اہتمام نہ کرنا یہ بچوں کو ہلاکت میں ڈالنا ہے۔ہماری اولاد ایک ایسے ماحول میں رہتی ہے جہاں نشرو اشاعت اور ذرائع ابلاغ وافر مقدار میں موجود ہیں ،جن کا نفع کم اور نقصان زیادہ ہے اور یہ چیزیں اولاد کے افکار کو خراب کرنے کے اسباب و ذرائع ہیں ،اگر ہم بچوں کو ان ذرائع ابلاغ کے رحم و کرم پر چھوڑ دیں اور نگرانی اور اہتمام کوبالائے طاق رکھ دیں،خصوصاً فلموں ،فحش رسائل اور ذرائع ابلاغ، جو عقائد کو خراب کرنے والے ہیں،ان چیزوں پر نگرانی چھوڑ دینا ،اپنے فریضہ سے کوتاہی اور اپنے جگر گوشوں کو ضائع کرنا ہے،لہٰذا ضروری ہے کہ ہم ان بچوں کو ان ذرائع ابلاغ کے استعمال سے حتی الامکان بچائیں اور معقول نگرانی کے ساتھ جائز ذرائع تعلیم کی راہ پر لگائیں ،تا کہ بچوں میں ایک صحیح اسلامی سوچ پیدا ہو اور بچوں میں اللہ تعالیٰ کی محبت اور اس کے رسول اکر م صلی اللہ علیہ وسلم پر فدائیت کا رجحان پیدا ہو،ان میں تقوی اور خوف خدا پیدا ہو اور ان کی صحیح دینی،تاریخی اور اسلام ثقافت سے نسبت قائم ہو۔

بچوں کو یوں ہی فراغت میں چھوڑ دیا جائے تو دو مہینہ تک ایک تو انقطاع کے بعد اکثر طلباء دوبارہ تعلیم کے لیے سنبھل نہیں پاتے اور چھٹیوں سے عادت خراب ہوجاتی ہے ،جب کہ دوسری طرف بچوں کی ایک بڑی تعداد گھریلو نگرانی نہ ہونے کی وجہ سے بری عادتوں اور بری دوستیوں کا شکار ہوجاتی ہے اور بعض طلباء انٹرنیٹ کیفوں کا رخ کرتے ہیں، جہاں سے وہ مادر پدرآزاد بن جاتے ہیں ۔

ان تمام برائیوں سے بچانے کے لیے اس کا آسان حل یہ ہے کہ نہ صرف اپنے بچوں کی نگرانی کی جائے،بلکہ ان کو کسی نہ کسی تعلیمی سرگرمی میں مشغول رکھا جائے ،جو عام پڑھائی کی طرح ایسی طویل اور مستقل نہ ہو کہ بچے بوریت کا شکار ہوجائیں،بلکہ مختصر اوقات کے دینی کورسزمیں ان کو لگادیا جائے،تاکہ وہ نہ صرف یہ کہ کچھ نہ کچھ تعلیمی سلسلہ جاری رکھ سکیں ،بلکہ فضول قسم کی دوستیوں اور غلط حرکات سے بھی بچ جائیں ،یہی ان کے سیکھنے کی عمر ہے اور ابھی جو کچھ سیکھ لیں گے بقیہ عملی زندگی میں وہی ان کی بنیادو اساس ہوگی۔

اس میں شک نہیں کہ بچپن کا زمانہ یہ اثر اور ماحول قبول کرنے کا بہترین وقت ہے اور یہی عمدہ لمحات ہیں کہ ان کے اندر اچھی صفات پیدا کریں اور ان کی اعلیٰ تربیت کریں۔

بچے ایک امانت ہیں ،اگر ہم ان کی پڑھائی اور علم کے حصول کے لیے کوشاں ہیں تو ضروری ہے کہ ہم ان کی فراغت اور چھٹیوں کے اوقات کی نگرانی میں کمی نہ کریں اور کیا ہی بہتر ہو کہ ہم ان کو چھٹیوں میں تعلیم سے بالکل بیگانہ نہ کریں ،بلکہ ان کو جز وقتی تعلیمی کورسز میں داخل کروائیں یا پھر گھر میں ہی ان کو مختلف چیزیں سکھانے کا اہتمام کریں ،جس سے ان کا ایک طرف تو تعلیمی ارتقا ہوگا اور دوسری طرف بچوں کا بیکار رہنے کی وجہ سے مستقبل تباہ نہ ہوگا۔

والدین کی ایک بڑی ذمہ داری یہ بھی ہے کہ چھٹیوں کے ان دنوں میں خاص طور سے اور عام دنوں میں عام طور سے وہ اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت اس انداز سے کریں جو انھیں اخلاقی قدروں کا پابند بنائے،انھیں انسانیت کا سبق ملے ،حق و باطل کے فرق کو محسوس کر سکیں،تہذیب و تمدن اور شرافت و نجابت ،شرم و حیا اور صالحیت پیدا ہو سکے، تا کہ بچوں کی دنیا و آخرت دونوں سنور سکے اور خدائے ذوالجلال و الاکرام کی رضا اور خوش نودی حاصل ہو سکے ۔ایسا کرنا والدین کی ذمہ داری ہے، کیوں کہ بچوں کو دنیاوی و اخروی اعتبار سے مفید اور کارگر بنانے میں والدین کے کردار ہی کو سب سے بڑا دخل ہوتا ہے۔

Flag Counter