بوڑھوں کے ساتھ آپ صلى الله عليه وسلم کاکریمانہ سلوک
مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
مرجھایا ہوا چہرہ، سفید ڈاڑھی، ہاتھ میں لاٹھی، چال میں سست روی، لڑکھڑاتی زبان، یہ معاشرہ کا وہ کمزور طبقہ ہے، جسے ہم بوڑھوں کے نام سے جانتے ہیں، انسانی زندگی کئی مراحل سے گذرتے ہوئے بڑھاپے کو پہنچتی ہے، بڑھاپا گویا اختتامِ زندگی کا پروانہ ہے، اختتامی مراحل ہنسی خوشی پورے ہوں تو اس سے دلی تسلی بھی ہوتی ہے، رہن سہن میں دشواری بھی نہیں؛ لیکن آج جو صورت حال سن رسیدہ افرا د کے ساتھ روا رکھی گئی ہے، اس سے ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ عمر رسیدہ افراد اپنی طبعی عمر بھی پوری کرسکیں گے، حالاں کہ والد نے بچے کی پرورش اس امید پر کی تھی کہ وہ بڑھاپے میں والد کا سہارا ہوگا، بجائے اس کے کہ یہ لڑکا بوڑھے باپ کی لاٹھی بنتا، بوڑھے والد کی کمزور کمر کو سہارا دیتا، رہی سہی لاٹھی وکمر کو بھی توڑ دیتا ہے۔ایک جانب معاشرہ کی یہ صورت حال ہے دوسری جانب نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کا اسوہ کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بوڑھوں کے ساتھ، کمزوروں کے ساتھ ،ضعیفوں کے ساتھ بہت ہی زیادہ حسنِ سلوک کا مظاہر کیاجہاں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنی تعلیمات کے ذریعہ عمر رسیدہ افراد کی قدر دانی کی تعلیم دی، وہیں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اپنے عمل کے ذریعہ قدردانی کا ثبوت بھی مہیا فرمایا، آپصلی الله علیہ وسلم نے سن رسیدہ افراد کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی عظمت وبڑائی کا تقاضہ یہ ہے کہ بوڑھے مسلمان کا اکرام کیا جائے۔ (ابوداوٴد:4843 باب فی تنزیل الناس منازلہم، حسن) ایک موقعہ پر آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے بال اسلام کی حالت میں سفید ہوئے ہوں اس کے لیے قیامت کے دن نور ہوگا۔ (ترمذی: 1634 باب ماجاء فی فضل من شاب، صحیح) ان احادیث سے سن رسیدہ افراد کی اہمیت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے، اول الذکر میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے عمر رسیدہ کو حامل قرآن وعادل بادشاہ پر بھی مقدم کیا ہے، حالاں کہ ان دونوں کی اہمیت وعظمت اپنی جگہ پر مسلم ہے، اس کے باوجود آپ صلی الله علیہ وسلم نے بوڑھوں کی رعایت کرتے ہوئے ان کی حمایت فرمائی، دوسری حدیث میں بڑھا پے کے اثرات کا اخروی فائدہ بیان کیا کہ جس پر بڑھاپا اسلام کی حالت میں آیا ہو تواس کے لیے اللہ اس بڑھاپے کی قدردانی کرتے ہوئے روزِ محشر نور مقدر فرمائیں گے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے بوڑھوں کا اکرام واحترام کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا: چھوٹا بڑے کو سلام کرے۔ (بخاری: 6234 باب تسلیم الصغیر علی الکبیر) بڑوں کے اکرام واحترام کی ایک شکل سلام بھی ہے بڑوں کی عمر، ان کی بزرگی کا لحاظ کرتے ہوئے چھوٹے ہی بڑوں کو سلام کیا کریں؛ تاکہ یہ سلام چھوٹوں کی جانب سے بڑوں کے اکرام کا جذبہ بھی ظاہر کرے، اور بڑوں کے لیے بھی دل بستگی کا سامان ہو، کئی مقامات پر بڑوں کو بچوں سے اسی بات کی شکایت ہوتی ہے کہ بچے انہیں سلام نہیں کرتے، فطری طور پر بڑے عزت کے طالب ہوتے ہیں، کیوں نہ ہم ان کے اس تقاضے کا لحاظ کرتے ہوئے سلام کے ذریعہ ان کے جی کو خوش کریں، مجالس میں کوئی مشروب آئے تو اس میں آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس بات کا لحاظ کیا اس کو اولا بڑے نوش فرمائیں، بڑوں سے آغاز ہو، فرمایا: بڑوں سے آغاز کرو۔ بلکہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک دفعہ مسواک کرتے ہوئے دو میں سے بڑے کو پہلے مسواک عنایت فرمائی۔ (ابوداوٴ: 50 باب فی الرجل یستاک ، صحیح) نیز آپ صلی الله علیہ وسلم نے بڑوں کی اہمیت اجا گر کرتے ہوئے فرمایا: البرکة مع أکابرکم کہ برکت تو تمہارے بڑوں کے ساتھ ہے، کون ہے جو برکت کا متلاشی نہ ہو؟ کون ہے جو برکت کا طلب گار نہ ہو؟ آج تو کئی ایک بے برکتی کے شاکی ہیں، ایسے میں بر کت کے حصول کا آسان طریقہ کار یہ ہے کہ بوڑھوں کو اپنے ساتھ رکھا جائے، ان کے اخراجات کی کفالت کی جائے ،اس سے آمدنی میں برکت ہوگی، نیز ایک موقعہ پر فرمایا: بات چیت میں بھی بڑوں کو موقعہ دو، کبر الکبیر، اس کی تشریح کرتے ہوئے یحییٰ نے فرمایا: بات چیت کا آغاز بڑے لوگوں سے ہو۔ (بخاری: 6142 باب اکرام الکبیر) ایک موقعہ پر بوڑھوں کے اکرام کے فضائل وفوائد ذکر کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جس نوجوان نے کسی بوڑھے کا اکرام اس کی عمر کی بنیادپر کیا تو اللہ تعالیٰ اس کے لیے بڑھاپے میں اکرام کرنے والا شخص مقرر فرمائیں گے۔(ترمذی: 2022 باب ما جاء فی اجلال الکبیر، ضعیف)کون ہے جو اپنے بڑھاپے کو ہنسی خوشی پورا نہیں کرنا چاہتا ؟ کون ہے جو بڑھاپے میں خدمت گذاروں سے کتراتا ہے؟ کون ہے جو بڑھاپے میں آرام ، سکون وچین نہیں چاہتا؟ ان سب کے لیے آپ صلی الله علیہ وسلم نے ایک آسان نسخہ عنایت فرمایا کہ اپنے بوڑھوں کا اکرام کرو، تمہیں بڑھاپے میں خدمت گذار مل جائیں گے۔ الغرض مختلف مواقع پر مختلف انداز سے آپ صلی الله علیہ وسلم نے بوڑھوں کی اہمیت وعظمت کو واضح کیا اور امت کو ان پر توجہ کی تعلیم دی، یہ آپ صلی الله علیہ وسلم کے کریمانہ اخلاق ہیں کہ امت کے ہر کمزور طبقہ پر بذات خود بھی رحم وکرم کا معاملہ کیا، اور وں کو بھی رحم وکرم سے پیش آنے کی تلقین کی۔
بڑوں کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا طرز عمل
ایک سن رسیدہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر ہوئے، آنے والے کے لیے لوگوں نے مجلس میں گنجائش نہ پیدا کی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس صورتحال کو دیکھ کر صحابہ کرام رضي الله عنهم سے مخاطب ہو کر فرمایا: جو شخص چھوٹوں پر شفقت نہ کرے، بڑوں کی عزت نہ کرے، وہ ہم میں سے نہیں (ترمذی: 1919 باب ماجاء فی رحمة الصغیر) یعنی ایک مسلمان میں جو صفات ہونی چاہئیں ان میں سے ایک بڑوں کا اکرام بھی ہے، اگر کوئی اس وصف سے متصف نہیں تو گویا وہ ایک اہم مسلمانی صفت سے محروم ہے، اگر کوئی اس اہم اسلامی صفت کا خواست گار ہے تو اسے بڑوں کے اکرام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے، فتح مکہ کے بعد جو حیرت انگیز واقعات رونما ہوئے انہیں میں ایک اہم واقعہ حضرت ابو بکر صدیق ص کے بوڑھے والد کا بھی پیش آیا، لوگوں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے دستِ حق پر ست پر اسلام قبول کرنے کے لیے انہیں آپ صلی الله علیہ وسلم کی مجلس میں حاضر کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کے بڑھاپے کو دیکھتے ہوئے فرمایا: ان کو گھر ہی میں کیوں نہ چھوڑا؟ میں ہی خود ان کے گھر پہنچ جاتا (مستدرک حاکم: 5065 ذکر مناقب ابی قحافہ)
واضح رہے آپصلی الله علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں فاتح بن کر داخل ہورہے ہیں، اس کے باوجود بوڑھوں کے ساتھ آپ صلی الله علیہ وسلم کا یہ رحیمانہ وکریمانہ سلوک ہے؛ حالاں کہ دیگر فاتحین کا طرزِ عمل تو وہ ہے جسے قرآن حکیم نے بیان کیا ہے کہ جب فاتحین کسی بستی میں داخل ہوتے ہیں تو اس بستی کو برباد کردیتے ہیں، اہل عزت کو ذلیل کرنا ان کا طرہٴ امتیاز ہوتا ہے۔ (النمل: 34) یہ عمر رسیدہ افراد کی عملی قدر دانی ہے، جس کا آپ صلی الله علیہ وسلم ثبوت فراہم کررہے ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کی تعظیم کرتے ہوئے یہ تصور نہ کیا کہ ابو قحافہ ایک طویل عرصہ تک کفر کی حالت میں رہے، اب کفر مغلوب ہوا تو وہ مسلمان ہورہے ہیں، بعض دفعہ انسان سابقہ اختلاف کی وجہ سے کسی کی تعظیم وتکریم سے کتراتا ہے؛ حالاں کہ اس میں ان لوگوں کے لیے اسوہ ہے کہ سن رسیدہ کی بہر صورت تعظیم کی جائے، نماز کے آپ صلی الله علیہ وسلم انتہائی حریص، اس حرص وطمع کے باوجود بھی بوڑھوں کی رعایت میں نماز میں تخفیف فرمادی، ابو مسعود رضي الله عنه انصاری فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ ایک صحابی آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوکر شکایت کرنے لگے کہ میں ظہر کی نماز میں فلاں شخص کی طویل قرات کی وجہ سے حاضر نہیں ہوسکتا، ابو مسعود رضي الله عنه کہتے ہیں کہ میں نے اس موقع پر آپ صلی الله علیہ وسلم کو جس غضب ناک کیفیت میں دیکھا اس سے پہلے کبھی نہ دیکھا، پھر آپ صلی الله علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضي الله عنهم سے مخاطب ہوکر ارشاد فرمایا: نمازیوں میں نماز سے نفرت مت پیدا کرو، لہذا جو بھی شخص امامت کرے وہ ہلکی نماز پڑھا یا کرے، کیوں کہ اس میں کمزور بھی ہیں ،بوڑھے بھی ہیں، ضرورت مند بھی ہیں۔ (بخاری: 702 باب إذا طول الامام وکان الرجل ذاحاجة) ایک اور موقعہ پر آپصلی الله علیہ وسلم سے تطویل قرات کی شکایت کی گئی تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت معاذ رضي الله عنه پر غصہ ہوتے ہوئے فرمایا:أفتان، أفتان۔ (بخاری: 701 باب إذا طول الامام) اے معاذ! کیا تم لوگوں کو فتنہ میں ڈالنے والے ہو؟ تین دفعہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کلمات کو دھرایا، غور وخوض کا مقام ہے کہ سن رسیدہ افراد کی رعایت کا سلسلہ نماز جیسے اہم فریضہ میں بھی جاری ہے، بڑھیا کا واقعہ مشہور ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بڑھیا کا سامان اٹھا کر شہر مکہ کے باہر پہنچا دیا تھا؛ حالاں کہ وہ بڑھیا جو اسلام سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے آپ صلی الله علیہ وسلم کے خلاف بد زبانی میں مصروف تھی، لیکن آپصلی الله علیہ وسلم کی خدمت کے طفیل اس بڑھیا نے بھی اسلام قبول کر لیا تھا۔ ایک دفعہ مجلس میں بائیں جانب اکابر صحابہ کرام رضي الله عنهم تشریف فرما تھے اور دائیں جانب ایک بچہ تھا اور مجلس میں کوئی مشروب پیش ہوا تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس بچے سے اجازت چاہی کہ چوں کہ تم دائیں جانب ہو اگر تم اجازت دو تو میں اس کا آغاز ان بڑے صحابہ کرام رضي الله عنهم سے کروں، اس بچے نے اپنے آپ پر کسی کو ترجیح دینے سے انکار کردیا؛ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے وہ مشروب اسی کے ہاتھ میں تھما دیا، (بخاری: 2366، باب من رأی أن صاحب الحوض الخ) غور طلب امر یہ ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بائیں جانب بڑوں کی موجودگی کے باوجود اس بات کی کوشش کی کہ مشروب کا آغاز بڑوں ہی سے ہو، اس کے لیے بچے سے اجازت بھی مانگی، لیکن یہ بچے کی سعادت مندی تھی کہ اس نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے نوش کردہ کو اپنے آپ پر کسی کو ترجیح نہ دی، اس سے بھی بڑوں کے ساتھ اکرام کا درس ملتا ہے کہ بہر صورت ان کے اکرام کی کوشش کی جائے ،ان کی توہین سے بیزارگی کا اظہار ہو۔
ان اقوال واحوال کا سرسری جائزہ لینے سے یہ بات بخوبی واضح ہوجاتی ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے بوڑھوں کا ہر موقعہ پر لحاظ فرمایا، کسی بھی بوڑھے کا اکرام آپ صلی الله علیہ وسلم نے انسانیت کی بنیاد پر کیا، رشتہ داری وتعلق سے بالا تر ہو کر آپ صلی الله علیہ وسلم نے ہر سن رسیدہ کے اکرام کو تر جیح دی،آج ضرورت اس بات کی ہے کہ انسانیت کے اس ستم رسیدہ طبقے کے ساتھ احترام واکرام کا معاملہ کیا جائے، ان کے حقوق جان جان کر پورے کرنے کی کوشش کریں، کسی چیز کے ذریعہ بڑھاپے میں انہیں تکلیف نہ دیں، ان کی ضروریات پوری کرکے ان پر احسان کرتے ہوئے ان کی دعاوٴں میں شامل ہوں، بعض دفعہ بوڑھوں سے ہونے والی خطاوٴں کو نظر انداز کریں۔