مؤمن کے چار خزانے
مولانا اسماعیل نو ساری
عن عبدالله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ قال: اربع خلال إذا اعطیتھن فلا یضرک ما عزل عنک من الدنیا: حسن خلیقة، وعفاف طعمةٍ، وصدق حدیث، وحفظ امانة․(صحیح، الأدب المفرد، حدیث نمبر221)۔
ترجمہ:” حضرت عبدالله بن عمرو بن العاص رضی الله عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا کہ چار خصلتیں ایسی ہیں کہ جب تمہیں وہ عطا کی جائیں تو پھر دنیا کی جو کوئی چیز بھی تم سے دور کر دی جائے تمہیں کوئی نقصان نہیں پہنچے گا:
1..حسنِ اخلاق 2.. پاکیزہ لقمہ 3.. سچی بات 4.. امانت کی حفاظت
یہ حدیث حضرت عبدالله بن عمروبن العاص سے موقوفا بھی مروی ہے اور خود نبی پاک صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کے طو رپر بھی نقل کی گئی ہے ، دونوں کی سند صحیح ہے، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس شخص کو یہ چار خصلتیں الله پاک عطا فرما دے تو وہ ایسا خوش نصیب انسان ہے کہ اگر دنیا کا بڑے سے بڑا نقصان بھی ہو جائے تو بھی اس کے ہاتھ سے کچھ گیا نہیں، کیوں کہ اس کے ہاتھ میں جو یہ چار خزانے آگئے ہیں ان کے برابر کوئی چیز نہیں اوران کے ہوتے کوئی نقصان، نقصان نہیں، یہ چاروں صفات ہم تمام کے لیے ہی بہت اہم ہیں کہ زندگی میں بارہا ایسے مواقع آتے ہیں کہ ایک طرف دنیوی فائدہ ہے اور دوسری طرف ان چاروں میں سے کوئی خزانہ، اب ایک کو اختیار کریں تو دوسرا ہاتھ سے چھوٹ جائے اور خاص طو رپر جو حضرات تجارت، ملازمت وغیرہ دنیوی کاموں کے ساتھ براہِ راست وابستہ ہیں ان کے لیے تو دن میں کئی مرتبہ ایسے مواقع پیش آتے ہیں رہتے ہیں، لہٰذا ان چاروں صفات کا جو قیمتی خزانہ اور سرمایہ کی طرح ہے، اچھی طرح قدر وقیمت سمجھ لینی چاہیے اورکوئی بھی معاملہ کرتے ہوئے اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ دنیا کی قیمتی سے قیمتی چیز ہمارے ہاتھ سے جاسکتی ہے، لیکن ان میں سے کوئی چیز ہم نہیں چھوڑ سکتے ،یہی تو ہمارا سرمایہ او رپونجی ہے، جب تک سرمایہ باقی ہے نفع حاصل کیا جاسکتا ہے، لیکن جب سرمایہ ہی ضائع ہو جائے تو پھر آدمی کہیں کا نہیں رہتا۔
پہلاخزانہ… حسن اخلاق
حسن اخلاق ہی مؤمن کا امتیاز ہے، جس طرح درخت اپنے پھل سے پہچانا جاتا ہے اسی طرح انسان اپنے اخلاق سے پہچانا جاتا ہے ، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی بعثت ہی حسنِ اخلاق کی تکمیل کے لیے ہوئی ہے اورحدیث شریف کی رُو سے الله تعالیٰ کے پاس حسنِ اخلاق کا ایک خزانہ ہے، جب الله پاک کسی بندے سے محبت کرتے ہیں تو اس کو اس خزانے میں سے نوازتے ہیں، جب آدمی ایک معاشرہ اور سماج میں زندگی گذارتا ہے تو مختلف لوگوں سے اس کی ملاقات اور معاملات ہوتے ہیں اور ہر انسان کی طبیعت ومزاج جداگانہ ہوتا ہے، لہٰذا خلافِ طبیعت بہت سے اُمور پیش آتے ہی رہتے ہیں ،کسی کے سلوک سے تکلیف ہوتی ہے تو کسی کی زبان سے دل زخمی ہو جاتا ہے او راگر انسان تاجر یا ملازم ہو تو ہزار طبیعت کے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے ،دکانوں اور دفتروں میں بد مزاج، تندخواور بد ذوق لوگ بھی آتے ہیں، جو قیمتی چیزوں کو پانی کے بھاؤ مانگتے ہیں یا بہتر سامان کی جھوٹی برائی کر جاتے ہیں ، مالیات کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنے والے بھی ہوتے ہیں ، وعدہ کرکے خلاف ورزی کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ، ان سب حالات میں حسنِ اخلاق کا دامن تھام کر رکھنا اپنے آپ کو بد اخلاقی وبد زبانی سے باز رکھنا بڑی ہمت کا کام ہے، نیز تجارت کی دنیا سے وابستہ حضرات جانتے ہیں کہ بازار میں وہ تاجر کام یاب ہوتا ہے جو اپنے گاہکوں کے ساتھ اچھے اخلاق سے پیش آتا ہے ، اسی کی نیک نامی اور شہرت ہوتی ہے ، ماہرین معیشت انہیں اُصولوں کو بیان کرتے ہیں او ران پر عمل کرکے بہت سے غیر مسلم تاجر فائدہ اٹھاتے ہیں اور ہم آپ صلی الله علیہ وسلم کے نام لیوا آپ کی تعلیمات سے بے بہرہ ہو رہے ہیں ( الا ماشاء الله) اور دنیا وآخرت کا نقصان اٹھارہے ہیں او رمعلم انسانیت صلی الله علیہ وسلم نے صرف زبانی تعلیمات پر اکتفا نہیں کیا ،بلکہ ہمارے سامنے حسن اخلاق کے بہترین عملی نمونے پیش کیے ، چناں چہ بخاری شریف میں روایت ہے ،حضرت انس بن مالک رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے ساتھ چلتا ہوا جارہا تھا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کے بدنِ مبارک پر موٹی دھاری والی نجران کی بنی ہوئی چادر تھی، پیچھے سے ایک دیہاتی آیا او ربہت زور سے چادر پکڑ کر کھینچی، یہاں تک کہ میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کے کندھے کے کنارے پر دیکھا کہ زور سے کھینچنے کی وجہ سے نشان پڑ گیا، پھر اس دیہاتی نے کہا: الله کا جو مال آپ صلی الله علیہ وسلم کے پاس ہے اس میں سے مجھے کچھ دینے کاحکم کرو ۔( اتنا سخت رویہ اور لہجہ اختیار کرنے کے باوجود) آپ صلی الله علیہ وسلم اس کی طرف متوجہ ہوئے، مسکرائے اور پھر اس کو کچھ مال دینے کا حکم بھی فرمایا۔(بخاری شریف، حدیث نمبر3149)
دوسرا خزانہ… پاکیزہ لقمہ
دوسری چیز جس کی طرف نبی پاک صلی الله علیہ وسلم نے خاص توجہ دلائی وہ حلال، طیب او رپاکیزہ روزی ہے ، ایک مؤمن کی زندگی میں حلال روزی کا مسئلہ انتہائی اہمیت رکھتا ہے، وہ اس بات کو گوارا نہیں کر سکتا کہ حرام کا ایک لقمہ بھی اس کے حلق سے نیچے اتر کر اس کے جسم کا حصہ بنے، اس لیے کہ جو لقمہ پیٹ میں جاتا ہے اس کے زندگی پر اورا عمال پر بڑے اثرات ہوتے ہیں ، اگر حلال وطیب رزق پیٹ میں جارہا ہے تو اچھے اعمال کی توفیق گویا لازم ہے او راگر حرام لقمہ جارہا ہے تو اعمال صالحہ سے محرومی یا قبولیت سے محرومی لازم ہے، شریعت ِ مطہرہ میں حلال رزق کی بہت زیادہ تاکید کی گئی ہے او رحرام سے نہ بچنے پر سخت وعید سنائی گئی ہے اور حرام رزق کے ہر سبب پر پابندی لگائی ہے ایک روایت میں فرمایا کہ ” جس شخص نے سود کا ایک درہم کھایا تو 33 مرتبہ زنا کرنے کے برابر ہے او رجس کا گوشت حرام مال سے پلا بڑھا تو وہ آگ کا ہی زیادہ مستحق ہے ۔“ ( مجمع الزؤائد:214/5) لہٰذا ایک مؤمن کو اپنی آمدنی کے ذرائع پر خوب غور کر لینا چاہیے کہ کہیں سے دانستہ یا نادانستہ طور پر حرام اس میں شامل نہ ہوجائے، ہر ایسے معاملے سے اپنے آپ کو دور رکھے جس میں حرام یا حرام کا شبہ ہو، اگر چہ دنیوی اعتبار سے اس میں کتنا ہی نفع نظر آتا ہو، لیکن اگر وہ حرام ہے یا مشتبہ ہے تو اس کو بے خوف چھوڑ دے، نبی صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ دنیوی نفع تمہارے ہاتھ نہیں بھی آیا تو تمہارا کوئی نقصان نہیں ہو گا، یقین رکھو کہ رزق دینے والا الله ہے ، وہ حلال کا ایسا انتظام کرے گا کہ تمہارے وہم وگمان میں بھی نہ ہو گا، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ : حلال بھی واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اور ان دونوں کے درمیان کچھ مشتبہ چیزیں ہیں، جن کو بہت سے لوگ نہیں جانتے،پس جوکوئی آدمی ان مشتبہ چیزوں سے اپنے آپ کو بچائے گا وہ اپنے دین اور عزت کو محفوظ کر لے گا اور جو کوئی ان مشتبہ چیزوں کو اختیار کرے گا وہ حرام تک پہنچ جائے گا۔ (مسلم:1599)۔
اگر یہ حرام کا معاملہ ختم ہو جائے تو معاشرے سے ظلم کا خاتمہ ہو جائے، کسی غریب کا خون نہ چوسا جائے، کسی حق دار کا حق نہ مارا جائے اور پورا معاشرہ امن وچین کے ساتھ سکون بھری زندگی گزار سکے گا اور یہی ہمارے مشفق ومہربان خلاق کی چاہت ہے، اب جو انسان اس کی خلاف ورزی کرتا ہے وہ منشا خدا وندی میں رخنہ اندازی کی کوشش کر رہا ہے، پھر بھلا وہ انسان چین سکون کیسے پاسکتا ہے؟ وہ قربِ خداوندی کے درجات کیسے طے کر سکتا ہے ؟ وہ بارگاہِ خداوندی میں مقبولیت کیسے حاصل کر سکتا ہے؟ شاعر مشرق علامہ اقبال مؤمن کو مخاطب کرکے کہتے ہیں #
اے طائرِ لاہوتی! اس رزق سے موت اچھی
جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی
یہ دوسرا خزانہ ہے، جس کی حفاظت مؤمن کے لیے بہت ضروری ہے کہ کسی بھی قیمت پر اس کو اپنے ہاتھ سے نہ چھوٹنے دے۔
تیسرا خزانہ… سچی بات
تیسری چیز جو ایک مؤمن کا سرمایہٴ افتخار اور وصف امتیازی ہے سچی بات ہے، صداقت او رراست بازی ہی وہ چیز ہے جو انسان پر اعتماد او ربھروسہ کو بحال رکھتی ہے، جھوٹا آدمی معاشرہ میں بے اعتماد اور بدنام ہو جاتا ہے، کسی معاملہ میں لوگ اس پر بھروسہ نہیں کرتے، ایک مؤمن کی زندگی میں بار بار ایسے مواقع آتے ہیں جب سچ بولنے پر بظاہر اس کا کوئی نقصان ہوتا ہے اور جھوٹ بولنے سے فائدہ کی توقع ہوتی ہے، یہ امتحان کا موقع ہوتا ہے، ایسے موقع پر مؤمن کا کردار یہ ہے کہ وہ ظاہری نقصان کو برداشت کر لیتا ہے، لیکن یہ قیمتی خزانہ اپنے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا، مسلمان تاجر اوردکان دار کو چاہیے کہ اپنے سامان کی جھوٹی تعریف ہر گز نہ کریں، اس میں اگر عیوب ہیں تو بتا دے، قیمت بتانے میں دروغ گوئی سے ہر گز کام نہ لیں، پرانے کو نیا اور باسی کوتازہ کہہ کر نہ بیچیں، نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے اس ارشاد پر ہمارا یقین ہے کہ سچ بالآخر نجات دلا کر جنت تک پہنچائے گا اور جھوٹ بالآخر ہلاک کرکے جہنم تک پہنچائے گا۔
چوتھا خزانہ… امانت داری
مؤمن کا بنیادی وصف امانت داری ہے ، ایمان اور امانت الگ نہیں ہو سکتے ، آپ صلی الله علیہ وسلم اکثر اپنے خطبہ میں ارشاد فرماتے تھے:”لاإیمان لمن لا أمانة لہ“ (مسند البزار:439/13)” اس شخص کا ایمان ہی نہیں جس میں امانت داری نہ ہو “ امانت داری کا مفہوم بہت وسیع ہے، الله کے حقوق کے بارے میں امانت داری ہو یا بندوں کے حقوق کے بارے میں، جسمانی اُمور میں ہو، مالی معاملات میں ہو یا کسی کے راز کی امانت ہو ، مؤمن ان میں سے کسی معاملے میں خیانت نہیں کرتا، لہٰذا ہر مؤمن کو چاہیے کہ خیانت سے اپنے آپ کو بچائے، الله تعالیٰ فرماتے ہیں:﴿یَا أَیُّہَا الَّذِیْنَ آمَنُواْ لاَ تَخُونُواْ اللّہَ وَالرَّسُولَ وَتَخُونُواْ أَمَانَاتِکُمْ وَأَنتُمْ تَعْلَمُونَ﴾․ (الانفال:27) اے ایمان والو! الله اور اس کے رسول کی امانت میں خیانت نہ کرو اور نہ اپنی آپسی امانتوں میں خیانت کرو جب کہ تم جانتے بھی ہو۔“
خلاصہ یہ کہ یہ چار صفات حسن اخلاق پاکیزہ لقمہ سچی بات امانت داری، چار قیمتی خزانے ہیں او رمؤمن کے امتیازی اوصاف ہیں، مؤمن کسی بھی صورت میں ان سے دست بردار نہیں ہو سکتا، ہمیشہ ان چاروں اوصاف کو اپنی زندگی میں پیش نظر رکھنا چاہیے، اگر یہ چیزیں موجود ہیں تو پھر کوئی بھی دنیوی نقصان، نقصان نہیں او راگر خدا نہ خواستہ ان چیزوں پر دنیوی منافع کو ترجیح دی گئی تو پوری دنیا کی دولت مل کر بھی اس نقصان کی تلافی نہیں کر سکتی۔
الله تعالیٰ ہمیں ان اوصاف سے آراستہ ہو کر زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین!