Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1436ھ

ہ رسالہ

5 - 18
”مشکاة شریف“ کے شارح اول علامہ طیبی

مفتی عبدالغنی
استاد ورفیق شعبہ تصنیف وتالیف، جامعہ فاروقیہ کراچی

روز اول سے اسلام کی حفاظت کے لیے تائید ایزدی سے جو صورتیں پیدا ہوتی رہیں اور ابنائے اسلام نے اس دین متین کی جس طرح خدمت وحفاظت کی ہے تاریخِ انسانی میں کسی اور دین ومذہب کی اس طرح خدمت وحفاظت نہیں کی گئی، اس” شجرہ طیبہ“ کی آب یاری اور اس کے برگ وبار کے تحفظ کی سعادت دنیا کے مختلف خطوں سے تعلق رکھنے والی مختلف مقدس ہستیوں کو حاصل ہوئی، ان میں سے ایک مبارک ہستی قرآن وسنت کے شارح اور مختلف علوم وفنون میں ید طولی رکھنے والے آٹھویں صدی ہجری کے معروف عالم وفاضل امام شرف الدین طیبی کی بھی ہے، جنہیں حدیث شریف کی مقبول ومستند اور معتبر ومتداول کتاب ”مشکاة شریف “کی سب سے پہلی شرح لکھنے کا ہی صرف شرف حاصل نہیں، بلکہ اس عظیم الشان دینی وعلمی شاہکارکی ترتیب وتالیف بھی آپ کے مشورے سے وجود میں آئی ہے۔ ذیل میں ان کے احوال زندگی، مقام و مرتبہ اور ”الکاشف عن حقائق السنن“ کے نام سے” مشکاة شریف “کی مشہور ومعروف شرح کا قدرے تفصیلی اور دیگر علمی کارناموں کا اجمالی تذکرہ کیا جاتا ہے۔

علامہ طیبی کا نام ونسب
علامہ طیبی کا لقب” شرف الدین“، کنیت” ابو عبد اللہ“، نام ”حسین“، والد کا نام” عبداللہ“، دادا کا نام” محمد“ اور” طیبی“ نسبت ہے، اس طرح آپ کا پورا نام شرف الدین ، ابو عبد اللہ، حسین بن عبداللہ بن محمد طیبی ہے۔ اکثر اصحاب تراجم نے آپ کا نام” حسین بن محمد بن عبد اللہ“ اور بعض نے آپ کا نام” حسن “نقل کیا ہے، لیکن صحیح یہی ہے کہ آپ کا نام” حسین بن عبداللہ بن محمد“ ہے اورآپ کایہی نام ” شرح طیبی“ کے مقدمے ،”حاشیہ علی الکشاف“ کے دیباچے ، آپ کے شاگرد صاحب مشکاة علامہ تبریزی نے ”الاکمال فی اسماء الرجال“ کے آخر میں اور آپ کے ایک اور شاگرد علی بن عیسی نے آپ کی کتاب” التبیان“ کی شرح ”حدائق البیان“ میں ذکر کیا ہے۔ ”ابو عبداللہ“ کے علاوہ آپ کی کنیت” ابو محمد“ بھی نقل کی گئی ہے۔

”طیبی “نسبت کی وجہ اور مقام” طیب“ کا مختصر تعارف
”طیبی“، ”طاء “ کے کسرہ کے ساتھ مقام ” طیب “ کی طرف نسبت ہے، جو” واسط اور سوس“، یا” واسط اور کور الاہواز“ کے درمیان خوزستان کے علاقے میں واقع ایک قصبہ ہے اور یہ علاقہ ایران کا حصہ ہے۔ علامہ حمیری نے کہا ہے کہ یہ کوئی بڑا شہر نہیں ہے ،لیکن مختلف برکات پر مشتمل ہے اوراس میں کئی قسم کی ایسی صنعتیں پائی جاتی ہیں جن کا کوئی مقابل نہیں اور اس کے باشندے معاملہ فہم وسمجھ دار ہیں۔ (دیکھیے، الروض المعطار للحمیری :1 /401، الانساب للسمعانی:4/95)، علامہ یاقوت حموی نے”معجم البلدان“ (4/53) میں لکھا ہے کہ اس کے باشندے اب تک” نبطی“ ہیں اور نبطی زبان بولتے ہیں، اس شہر کو حضرت شیث بن آدم علیہ السلام نے آباد کیا تھااور اس کے باشندے ملت شیث پر تھے، یہاں تک کہ اسلام آیا تو وہ مسلمان ہو گئے۔ اس شہر کے عجائبات میں سے یہ ہے کہ اس میں سانپ ، بچھو ، غراب ابقع (چتکبرا کوا) اور عقعق (کالا کوا) داخل نہیں ہو سکتا اور بھڑ داخل ہو تو مر جاتی ہے۔ علامہ طیبی کے علاوہ علماء کی ایک جماعت بھی اس شہر کی طرف منسوب ہے، جن میں ابو بکر احمد بن اسحاق بن نیخاب طیبی ، بکر بن محمد بن جعفر طیبی، ابو عبداللہ ہلال بن عبداللہ طیبی، ابو عبد اللہ حسین بن ضحاک بن محمد انماطی بغدادی المعروف ابن الطیبی اور جامع بن عمران بن ابی الزعفران طیبی وغیرہ شامل ہیں۔ (دیکھیے، معجم البلدان: 4/53، الانساب للسمعانی: 4/95 )

علامہ طیبی کے اوصاف جمیلہ
علامہ طیبی علم و عمل اور زہد و تقوی کا پہاڑ تھے اور آسمان علم کی بلندیوں کو چھونے کے ساتھ ساتھ عمل میں بھی آپ کا پایہ بہت بلند تھا،آپ دینی امور میں بہت متصلب تھے، خود بھی دین پر عامل تھے اور علماء ، طلبہ اور دین پر عمل کرنے والوں سے محبت کرتے تھے، مال دار ہونے کے باوجود مال کی محبت سے دور تھے اور اپنا مال امور خیر میں خرچ کر دیا کرتے تھے، اس دور میں اگرچہ ان علاقوں پر تاتاریوں کا تسلط تھااور ان کے معاون ومددگار رافضی اور بد دین لوگ ہوا کرتے تھے، لیکن اس کے باوجوداہل بدعت اورفلاسفہ کے رد میں آپ سخت گیر تھے۔ حافظ ابن حجر  ” الدرر الکامنہ “ میں آپ کے اوصاف حمیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ:

”کان ذا ثروة من الإرث والتجارة، فلم یزل ینفق ذالک في وجوہ الخیرات، إلی أن کان في آخر عمرہ فقیراً … وکان متواضعاً، حسن المعتقد، شدید الرد علی الفلاسفة والمبتدعة، مظہراً فظائحہم، مع استیلائہم في بلاد المسلمین حینئذٍ، شدید الحب للّٰہ ورسولہ، کثیر الحیاء، ملازماً للجماعة لیلاً ونہاراً، وشتاءً وصیفاً، مع ضعف بصرہ بآخرہ․ ملازماً لإشغال الطلبة في العلوم الإسلامیة بغیر طمع، بل یحدثہم و یفتیہم، ویعیر الکتب النفیسة لأہل البلد وغیرہم من أہل البلدان، من یعرف و من لا یعرف، محباً لمن عرف منہ تعظیم الشریعة، مقبلاً علی نشر العلم، آیة في استخراج الدقائق من القرآن والسنن، شرح الکشاف شرحاً کبیراً، وأجاب عما خالف مذہب أہل السنة أحسن جواب، یعرف فضلہ من طالعہ“․ (الدرر الکامنة: 2/68،69)

یعنی”وہ میراث اور تجارت کی وجہ سے مال دار تھے اور مسلسل امور خیر میں خرچ کرتے رہے ، یہاں تک کہ آخر عمر میں فقیر ہو گئے، …وہ متواضع، اچھا عقیدہ رکھنے والے، فلاسفہ اور مبتدعہ کے اس وقت مسلمانوں کے شہروں میں غلبے کے باوجود ان پر شدید رد کرنے والے اور ان کی قباحتوں کو ظاہر کرنے والے، اللہ اور اس کے رسول سے بہت زیادہ محبت کرنے والے، بہت زیادہ حیا والے، آخر عمر میں نظر کمزور ہونے کے باوجود دن ، رات اور سردی ، گرمی میں نماز باجماعت کا التزام کرنے والے، بغیر کسی طمع لالچ کے طلبہ کو علوم اسلامیہ میں مشغول کرنے کا التزام کرنے والے تھے، بلکہ ان کو حدیث بیان کیا کرتے اور فتوی دیا کرتے تھے، وہ اپنے شہر اور دوسرے شہروں کے لوگوں کو، چاہے ان کو جانتے یا نہ جانتے ، قیمتی کتابیں عاریتاً دے دیا کرتے تھے، جس آدمی کو شریعت کی تعظیم کرنے والا جانتے، اس سے محبت کرتے، علم کی نشر و اشاعت کی طرف متوجہ رہتے، قرآن وسنت کے دقائق کو نکالنے میں اللہ کی نشانی تھے، تفسیر کشاف کی ایک بڑی شرح لکھی او رمذہب اہل سنت کے مخالف امور کا اچھا جواب دیا، جو آدمی اس کا مطالعہ کرے گا وہ ان کے علم و فضل کو بخوبی جان لے گا۔ “

علامہ طیبی کا یہی تعارف وترجمہ معمولی رد وبدل کے ساتھ اکثر اصحاب تراجم نے حافظ ابن حجر کے حوالے سے نقل کیا ہے اور ان کے تعارف کے لیے مزید درج ذیل کتابوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔ (شذرات الذہب: 6/137، 138، مفتاح السعادة: 2/90، 91، بغیة الوعاة:1/522، 523،معجم الموٴلفین: 4/53، الاعلام للزرکلی: 2/256، کشف الظنون: 2/341، 720، 1478، 1700)

امام طیبی اہل علم کی نظر میں
امام طیبی کی شان ومنقبت کا اندازہ اہل علم حضرات کے مندرجہ ذیل اقوال سے بخوبی لگایا جا سکتا ہے:
جیسا کہ ابھی گزرا ہے کہ حافظ ابن حجر نے ”الدرر الکامنہ“ (:2/69) میں آپ کی شان میں فرمایا ہے : ”أنہ کان آیة في استخراج الدقائق من القرآن والسنن“، یعنی”آپ قرآن و سنت سے دقائق نکالنے میں اللہ تعالی کی طرف سے نشانی تھے۔“

حافظ سیوطی نے ”بغیة الوعاة“ (1/522) میں فرمایا ہے کہ ”الإمام المشہور، العلامة في المعقول، والعربیة، والمعاني، والبیان․“، یعنی:”آپ مشہور امام اور معقولات و عربیت اور علم معانی و بیان میں بڑے پائے کے عالم تھے۔“

علامہ شعرانی نے” لطائف المنن و الاخلاق“ (1/41) میں فرمایا ہے : ”کان محدثاً، صوفیاً، نحویاً، فقیہاً، أصولیاً، قلّ أن تجتمع ہذہ الصفات في العالم․“، یعنی ”آپ محدث، صوفی، نحوی، فقیہ اور اصولی عالم تھے، کسی ایک عالم میں یہ تمام صفات بہت کم جمع ہوتی ہیں۔“

علامہ سبکی  نے ”طبقات شافعیہ “ (10/76) میں امام طیبی کے استاد امام فخر الدین احمد بن حسین بن یوسف جاربردی کے بیٹے ابراہیم جاربردی سے اپنے والد کے تذکرے میں نقل کیا ہے کہ:

”وأما الذین اجتمعوا عند والدي، واشتغلوا علیہ، وتمثلوا بین یدیہ، فہم العلماء الأبرار، والصلحاء الأخیار، بذلوا لہ الأنفس والأموال، منہم الإمام الہمام الشیخ شرف الدین الطیبي، شارح الکشاف، والتبیان، وہو کالشمس لا یخفی بکل مکان․“

یعنی ”جو لوگ میرے والد کے پاس آ کر جمع ہوئے،ان سے پڑھا اور ان کے سامنے اطاعت گزار ہوئے وہ نیکوکار علماء اور اخیار صلحاء تھے، انہوں نے اس کے لیے جان و مال کو خرچ کیا، ان میں سے بہت بڑے امام شیخ شرف الدین طیبی،جوکشاف اور تبیان کے شارح ہیں اور وہ ایسے آفتاب کی طرح ہیں جو کسی جگہ مخفی نہیں رہ سکتا۔“

استاد عمر رضا کحالہ نے ”معجم الموٴلفین“ (4/53) میں آپ کے متعلق فرمایا ہے کہ ”عالم مشارک فيأنواع من العلوم․“، یعنی ”آپ مختلف علوم و فنون کے ماہر عالم تھے۔“

علامہ طیبی صاحب” مشکوة “کے استاد تھے
علامہ طیبی صاحب مشکاة علامہ ولی الدین تبریزی  کے استاذ ہیں اور حافظ ابن حجر کے بقول انہوں نے ایک خاص نہج مقرر کر کے” مصابیح السنہ“کی ترتیب وتہذیب کے لیے اپنے ایک شاگرد کو حکم دیااور اس کا نام ”مشکاة“ رکھا، پھر خود اس کی ایک ضخیم شرح تصنیف فرمائی۔ (الدرر الکامنہ : 2/69) علامہ تبریزی  نے ”مشکاةشریف “کے تراجم کے سلسلے میں لکھی گئی اپنی تصنیف ” الاکمال فی اسماء الرجال “ کے آخر میں علامہ طیبی  کا جس والہانہ انداز سے تذکرہ کیا ہے اس سے بھی یہی معلوم ہوتا ہے کہ علامہ طیبی ان کے شیخ واستاذ ہیں۔ چناں چہ وہ فرماتے ہیں:

”فرغت من تصنیفہ یوم الجمعة، عشرین رجب سنة أربعین وسبعمائة، من جمعہ وتہذیبہ وتشذیبہ، وأنا أضعف العباد، الراجي إلی عفو اللّٰہ تعالی وغفرانہ محمد بن عبید اللّٰہ الخطیب بن محمد بمعاونة شیخي ومولاي سلطان المفسرین، إمام المحققین، شرف الملة والدین، حجة اللّٰہ علی المسلمین، الحسین بن عبد اللّٰہ بن محمد الطیبي، متعہم اللّٰہ بطول بقائہ، ثم عرضتہ علیہ، کما عرضت المشکوة، فاستحسنہ کما استحسنہا واستجادہا، والحمد للّٰہ رب العالمین، والصلاة والسلام علی محمد وآلہ الطیبین الطاہرین، في کل وقت وحین، وأصحابہ أجمعین․ “(شرح الطیبي، الإکمال في أسماء الرجال: 12/383، إدارة القرآن، کراتشي)

یعنی: ” میں اس کی تصنیف یعنی اس کو جمع کرنے، سنوارنے اور عمدہ بنانے سے بروز جمعہ 20 رجب سنہ740 ہجری میں فارغ ہوا، میں سب سے زیادہ کمزور بندہ، اللہ تعالی کی معافی اور مغفرت کا امیدوارمحمد بن عبید اللہ خطیب بن محمد اپنے شیخ اور مولی، مفسرین کے بادشاہ، محققین کے امام، دین و ملت کی عزت وسر بلندی، مسلمانوں پر اللہ کی حجت، حسین بن عبداللہ بن محمد طیبی (اللہ تعالی مسلمانوں کو ان کی لمبی زندگی کے ساتھ نفع پہنچائے) کی معاونت کے ساتھ۔ پھر میں نے اس(الاکمال فی اسماء الرجال) کو ان کی خدمت میں پیش کیا،جیسا کہ میں نے ”مشکاة“ کو پیش کیا تھا تو انہوں اس کو پسند کیا جیساکہ” مشکاة“ کو پسند کیا اور عمدہ سمجھا، سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں، جو تمام جہانوں کا رب ہے، درود و سلام ہر لمحہ و لحظہ نازل ہو حضرت محمد صلی الله علیہ وسلم پر آپ کی پاکیزہ و طاہر اولاد اور آپ کے تمام صحابہ پر “۔

علامہ طیبی کی وفات
علامہ طیبی کا یہ معمول تھا کہ روزانہ نماز فجر سے نماز ظہر تک درس تفسیر دیا کرتے تھے اور پھر ظہر سے عصر تک بخاری شریف کا درس حدیث دیا کرتے تھے، چناں چہ جس دن آپ کی وفات ہوئی تو آپ تفسیر سے فارغ ہو کر مجلس حدیث کی طرف متوجہ ہوئے تھے کہ اپنے گھر کے پاس مسجد میں داخل ہوئے اور قبلہ رو ہو کر جماعت کے انتظار میں تشریف فرما تھے کہ آپ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی۔ یہ پیر،13 شعبان ،سنہ743ہجری کا دن تھا۔ (دیکھیے، البدرالطالع: 1/229، تذکرة المفسرین، ص:225)

”قاہرہ“ میں علامہ طیبی کی طرف منسوب ایک مسجد اور مقبرہ
اصحاب تراجم نے علامہ طیبی کے مقام وفات کا تذکرہ نہیں کیا کہ ان کی وفات کہاں ہوئی ہے اور وہ کہاں مدفون ہیں؟ عبد الستار حسین زموط نے کہا ہے کہ ”قاہرہ“ میں ایک مسجد کے اندر قبر ہے، جسے ”مسجد شیخ محمد طیبی“ کہا جاتا ہے۔ یہ مسجد شارع السد البرانی پر واقع ہے اور یہ شارع مسجد سیدہ زینب کی غربی جانب میں ہے۔ جس علاقے میں یہ مسجد واقع ہے اسے” میدان طیبی“ کہا جاتا ہے۔ میں نے اس کی زیارت کی تو میری حیرت کی اس وقت انتہا نہ رہی جب میں نے حافظ ابن حجر کی ”الدرر الکامنہ“ سے نقل کردہ علامہ طیبی کا ترجمہ قبر پر معلق پایا، میرے خیا ل میں یہ ناقل کی غلطی ہے۔ کیونکہ امام طیبی مصر میں نہیں آئے اور کسی موٴرخ نے ان کا” مصر “ میں آنا ذکر نہیں کیا، صرف نام کی مشابہت کی وجہ سے کسی نے بغیر تحقیق کے یہ ترجمہ نقل کر کے قبر پر لٹکا دیا ہے۔ ( کتاب التبیان فی البیان، مقدمة المحقق،ص:10، غیر مطبوع)

”شرح طیبی“ کا تعارف
یہ علامہ طیبی کی تصنیفات میں سے مقبول ترین تصنیف ہے۔ اس کا اصل نام ”الکاشف عن حقائق السنن“ ہے اور یہ” شرح طیبی“ کے نام سے مشہور ہے۔ یہ ”مشکاة شریف“ کی سب سے پہلی اور سب سے زیادہ مقبول و معتمد شرح ہے اور بعد میں آنے والے تمام شارحین حدیث نے اس سے استفادہ کیا ہے۔ ”مشکاة المصابیح“ حدیث شریف کی مشہور ومعروف، مستند ومقبول کتاب ہے، جو ایک طویل عرصے سے مدارس وجامعات کے نصاب میں شامل ہے اور صحاح ستہ اور حدیث شریف کی دیگر تمام کتابوں کے لیے بطور مقدمہ کے پڑھائی جاتی ہے۔ یہ در اصل علامہ ابو محمد حسین بن مسعود بغوی کی مایہ ناز تالیف ”مصابیح السنہ“ کی تکمیل ہے جو”مصابیح “کی ترتیب وتہذیب پر مشتمل ہے اور اس میں جن امور کی ”مصابیح السنہ“ میں کمی محسوس کی جاتی تھی اور ان امور کی وجہ سے بسا اوقات ”مصابیح“ پر اعتراضات بھی ہوا کرتے تھے، اس کمی کو دور کرنے اور” مصابیح السنہ“ کی ترتیب میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے مرتب کی گئی ہے، مثلاً ”مصابیح السنہ “ میں راویوں (صحابہ وتابعین) کے نام اور حدیث کا ماخذ بیان نہیں کیا گیا تھا تو” مشکاة المصابیح “ میں راویوں کا نام اور حدیث کا ماخذ و مصدر بیان کر دیا گیا، ہر باب کو عموماً تین فصلوں میں تقسیم کر دیا گیا اور تیسری فصل میں اس باب سے متعلق وہ حدیثیں ذکر کی گئیں جو علامہ بغوی نے ذکر نہیں کی تھیں، نیز علامہ بغوی سے کسی روایت کے سلسلے میں اگر کوئی سہو ہوگیا تو اس کی بھی تلافی کر دی گئی۔ ”مشکاة المصابیح “ کے نام سے” مصابیح السنہ “ کی ترتیب وتہذیب کا یہ عظیم کارنامہ علامہ تبریزی  نے اپنے عظیم المرتبت استاذ علامہ شرف الدین طیبی کے مشورے سے کیا۔ چناں چہ علامہ طیبی  فرماتے ہیں کہ میں جب تفسیر کے کام سے فارغ ہوا تو میرے دل میں یہ خیال آیا کہ احادیث کے معانی و مطالب بیان کر کے دین کی خدمت کا اس جیسا کوئی اور کام کروں، اس سے پہلے میں علامہ تبریزی  سے احادیث کے ایک مجموعے کو مرتب کرنے پر مشورہ کر چکا تھا اور ہماری رائے ”مصابیح السنہ “ کی ترتیب و تہذیب پر متفق ہوئی، میں نے اس کو جس کام کا مشورہ دیا اس کی جمع وترتیب میں انہوں نے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں ہونے دیا، جب یہ مجموعہ تیار ہو گیاتو میں نے احادیث کے معانی ومطالب اور لطائف ونکات کو بیان کرنے کے لیے اس کی شرح لکھی۔ چناں چہ شرح کے مقدمے وہ لکھتے ہیں:

”لما کان من توفیق اللّٰہ تعالی إیاي، وحسن عنایتہ لدي، أن وفق للاستسعاد بسعادة الخوض في الکشف عن قناع الکشاف، توسلاً بہ إلی تحقیق دقائق کلام اللّٰہ المجید، الذي ﴿لا یأتیہ الباطل من بین یدیہ ولا من خلفہ، تنزیل من حکیم حمید﴾، ویسر بمنہ إتمامہ، کان الخاطر مشغوفاً بأٴن أشفع ذالک بإیراد بعض معاني أحادیث سید المرسلین، وخاتم النبیین، وإمام المتقین، وقائد الغرالمحجلین، وحبیب رب العالمین، وصلوات اللّٰہ وسلامہ علیہ․ وکنت قبل قد استشرت الأخ في الدین، المساھم في الیقین، بقیة الأولیاء، قطب الصلحاء، شرف الزھاد والعباد، وليالدین محمد بن عبداللّٰہ الخطیب دامت برکتہ بجمع أٴصل من الأحادیث المصطفویة، علی صاحبہا أفضل التحیة والسلام، فاتفق رأینا علی تکملة المصابیح، وتھذیبہ وتشذیبہ، وتعیین رواتہ، ونسبة الأحادیث إلی الأئمة المتقین، فما قصّر فیما أشرت إلیہ من جمعہ، فبذل وسعہ، واستفرغ طاقتہ فیما رمت منہ․ فلما فرغ من إتمامہ شمرت عن ساق الجد في شرح معضلہ وحل مشکلہ، وتلخیص عویصہ، وإبراز نکاتہ، ولطائفہ، علی ما یستدعیہ غرائب اللغة والنحو، ویقتضیہ علم المعاني والبیان، بعد تتبع الکتب المنسوبة إلی الأئمة رضي اللّٰہ عنہم، وشکر مساعیہم․“ (الکاشف عن حقائق السنن، مقدمة الموٴلف: 1/34، إدارةالقرآن)

یعنی ” جب اللہ تعالی کی توفیق اور حسن عنایت میرے شامل حال ہوئی کہ اس نے مجھے ” الکشف عن قناع الکشاف“ میں مشغولیت کی سعادت سے بر کت و سعادت حاصل کرنے کی توفیق دی، میں اس کے ذریعے کلام اللہ کے دقائق کی تحقیق تک پہنچا اور اللہ تعالی ہی نے اس کے اتمام کو آسان بنایا، تو مجھے اس بات سے دلچسپی ہوئی کہ میں رسولوں کے سردار، خاتم الأنبیا، متقیوں کے امام، غر محجلین کے قائد اور رب العالمین کے حبیب کی احادیث کی شرح اور معانی ومطالب لکھ کر تفسیر کے اس کام کے ساتھ اس جیسی ایک اور چیز ملاؤں۔ اس سے پہلے میں دینی بھائی، ایمان و یقین میں مساہم و شریک، بقیة الاولیا، قطب الصلحا، زاہدوں و عابدوں کی عزت و سر بلندی ولی الدین محمد بن عبداللہ خطیب (اس کی برکات ہمیشہ ہوں ) سے احادیث نبویہ (ان کے صاحب پر افضل صلاةو تحیہ ہو ) کے ایک اصل کو جمع کرنے پر مشورہ کرچکا تھا تو ہماری رائے ”مصابیح السنہ “ کے تکملہ ، اس کو سنوارنے و عمدہ بنانے ،اس کے راویوں کی تعیین کرنے اور ائمہ متقین کی طرف احادیث کو منسوب کرنے پر متفق ہوئی، چناں چہ میں نے اس کے جمع کرنے کی طرف اس کو جو اشارہ کیااس نے اس میں کوتاہی نہیں کی ، اپنی وسعت کو صرف کیا اور میں نے اس سے جو چاہا اس نے اپنی پوری طاقت ا س میں خرچ کر دی۔جب وہ اس کے اتمام سے فارغ ہوا تو میں نے اس کے دشوار کی شرح کرنے ، اس کے مشکل کو حل کرنے ، اس کے مغلق و پیچیدہ کی وضاحت کرنے اور اس کے نکات و لطائف کو ظاہر کرنے میں پوری کوشش صرف کی ، جیسا کہ علم نحوو لغت کے غرائب اور علم معانی و بیان اس کا تقاضا کرتے ہیں۔ ان کتابوں کی تلاش و جستجوکے بعد جو ائمہ کی طرف منسوب ہیں ، اللہ تعالی ان سے راضی ہو اور ان کی مساعی کو قبول فرمائے ۔

”شرح طیبی“ کا اسلوب ومنہج
”شرح طیبی“ میں یہ اسلوب اختیار کیا گیا ہے کہ ہر باب کی ہر فصل میں الحدیث الاول، الحدیث الثانی، الحدیث الثالث…کا عنوان قائم کر کے راوی کا نام ذکر کیا جاتا ہے اور پھر لفظ قولہ:”…“ کہہ کر وہ کلمہ یا جملہ جس کی شرح کرنی ہو ذکر کر کے تشریح کی جاتی ہے، کبھی الحدیث الاول الی الحدیث الثالث، یا الی الرابع وغیرہ کا عنوان قائم کر کے کئی ا حادیث کی ایک ساتھ تشریح بھی بیان کر دی جاتی ہے، اس صورت میں کبھی پہلی حدیث اور کبھی آخری حدیث کے راوی کا نام ذکر کر دیا جاتا ہے۔شرح میں حدیث سے متعلق لغوی ، نحوی، بلاغی، فقہی اور کلامی مسائل کو بیان کیا جاتا ہے۔ علامہ طیبی اکثر احادیث کی تشریح میں پہلے حدیث کے غریب الفاظ کی شرح، پھر اس سے متعلق فقہی احکام ،اس کے بعد بلاغی امور کی وضاحت اور آخر میں حدیث سے متعلق فوائدذکر کرتے ہیں، لیکن یہ ان کی مستقل ترتیب نہیں ہے، بلکہ بسا اوقات نحوی، لغوی، فقہی اور بلاغی امور کو غیر مرتب طور پر بھی ذکر کر دیتے ہیں۔ شرح میں دیگرشارحین حدیث کی کتابوں سے بھی استفادہ کیا گیا ہے اور ان کی عبارتیں کثرت سے نقل کی گئی ہیں، لہذا طوالت سے بچنے کے لیے ہر کتاب کا ایک رمز مقرر کر دیاگیا ہے اور کتاب یا شارح کی طرف اس عبارت کی نسبت کرنے کے لیے اس کے مقررہ رمز کو ذکر کر دیا جاتا ہے، جن کی تفصیل آگے مستقل عنوان کے تحت آ رہی ہے۔اگر کوئی روایت متعدد راویوں اور طرق سے مروی ہو تو ”شرح طیبی“میں ہر طریق کو مستقل حدیث شمار نہیں کیا گیا،جیسا کہ متن میں وہ الگ حدیث شمار کی جاتی ہے؛ اس لیے بعض اوقات شرح اور متن کے رقم الحدیث میں مطابقت نہیں ہوتی۔ شرح میں نحو ولغت اور علم معانی وبیان کی روشنی میں حدیث کے مشکل الفاظ کا حل اور اس کی بلاغی خصوصیات ونکات کو خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے اور پھر خصوصا بلاغی خصوصیات کے بیان کرنے کے حوالے سے یہ شرح نما یاں مقام رکھتی ہے۔نیز ضبط الفاظ اور وجوہ عربیت کے بیان کے سلسلے میں اگرپہلے کسی سے غلطی وتسامح ہوا ہے تو اس کی بھی کی اصلاح کی گئی ہے۔ علامہ طیبی نے” شرح “میں محدثین کے نہج واسلوب کو اختیار کیا ہے ، جس میں احکام کے اصول وفروع کا بیان، آداب وزہدیات،، الفاظ کے لغوی معانی کی وضاحت، اسماء الرجال، مشکل الفاظ کا ضبط،لطائف ونکات کا استخراج اور ظاہراً متعارض روایات میں تطبیق شامل ہوتی ہے، اس لیے انہوں نے کتاب کی ابتداء میں اصول حدیث کے بیان میں ایک مقدمہ شامل کیا ہے۔ چناں چہ وہ خود فرماتے ہیں:

” وإذاکنا التزمنا أن یکون شرحنا ہذا علی نہج أہل ہذہ الصناعة، أوجب ذالک علینا أن نصدر الکتاب بمختصر جامع لمعرفة علم الحدیث، ملخصاً من کتاب ابن الصلاح وغیرہ، مرتباً علی مقدمة، ومقاصد، وخاتمة․“
یعنی ”جب ہم نے یہ التزام کیاہے کہ ہماری یہ شرح اس فن والوں کے نہج پر ہو تو اس نے ہمارے اوپریہ بات لازم کر دی کہ ہم کتاب کی ابتدا معرفت علم حدیث کے لیے ایک مختصر جامع رسالے کے ساتھ کریں جو کتاب ابن صلاح وغیرہ سے ملخص ہو اور مقدمہ، مقاصد اور خاتمہ پر مشتمل ہو۔“ (جاری)

Flag Counter