Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1436ھ

ہ رسالہ

3 - 18
تدوین فقہ اور اس کے فوائد

مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ
	
امت کی دو فوری ضروتیں
امت کی روح اور اس کے اخلاق کی حفاظت کے ساتھ ( جس کا سلسلہ برابر جاری ہے ) امت کی اجماعی زندگی ومعاشرت اور معاملات وسیاست کی حفاظت کی بھی ضرورت تھی اور اس بات کی ضمانت کہ وہ آئندہ بھی اسلام کے اصول وآئین کے مطابق ہوں گے ، اس وقت دو براعظم ( ایشیا وافریقہ) اوربراعظم یورپ کا ایک حصہ (اسپین) اسلام کی نگرانی وتولیت میں تھے، اسلام کی سلطنت روئے زمین کی سب سے بڑی وسیع اور سب سے طویل عریض سلطنت تھی، جو دنیا کے متمدن ترین ممالک پر مشتمل تھی، نئے حالات ومسائل سے مسلمانوں کا سابقہ تھا، تجارت وزراعت، جزیہ وخراج محکومین، مفتوحہ ممالک کے نئے نئے مسائل درپیش تھے، قدیم عادات ورواج کا بہت بڑا ذخیرہ اور نئی نئی ضروریات تھیں، جو مسلمانوں کی قوت فیصلہ اور اسلامی احکام کی منتظر تھیں ، ان میں سے نہ کسی ضرورت کو ٹالا جاسکتا تھا، نہ سرسری طور پر ان سے گذرا جاسکتا تھا، حکومت مفصل ومکمل آئین و قانون سلطنت کی طالب تھی ، حکومت کی انتظامی مشین کو روکا نہیں جاسکتا تھا، اگر قانون اسلامی کی ترتیب میں تاخیر ہوتی تو وہ رومی یاایرانی قانون کو اختیار کرنے پر مجبور تھی، جس کا نتیجہ وہ ہوتا، جو اس وقت کی نام نہاد”اسلامی سلطنتوں“ کا ہوا ہے ، علماء کی ذرا سی غفلت او رمحافظین سنت کی ذہنی کاہلی اور راحت پسندی اس امت کو ہزاروں برس کے لیے اسلامی معاشرت اور اس کے اجتماعی قوانین کی برکت سے محروم کر دیتی #
        یک لخط غافل بودم صد سالہ را ہم دور شد
اس وقت دو مسئلوں کی طرف فوری توجہ کی ضرورت تھی، ایک تو یہ کہ حدیث وسنت کے سرمایہ کو محفوظ ومدون کر لیا جائے، جو محدثین کے سینوں اور منتشر سفینوں میں تھا، حدیث کے جمع وتدوین کا کام عہدِ تابعین سے شروع ہو چکا تھا، دوسری ہی صدی میں حدیث کے مختلف مجموعے تیار ہو چکے تھے، جن میں سے ابن شہاب زہری ( م124ھ) ابن جریج مکی ( م150ھ) معمر یمنی (م153ھ) ربیع بن صبیح (م160ھ) وغیرہ کے مجموعے خاص طور پر مشہور ہیں، لیکن ضرورت تھی کہ اس کو زیادہ علمی وترقی یافتہ شکل پر انجام دیا جائے، یہ نئے مسائل کے استنباط کا بہت بڑا ذریعہ اور فقہ اسلامی کا ایک بہت بڑا ماخذ تھا، اسی کے ساتھ وہ امت کے اسلامی مزاج اور زندگی کے اسلامی سانچہ کی حفاظت کا بھی ذریعہ تھا، ”حدیث “رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سب سے زیادہ مفصل اور مستند سیرت ہے اور زمانہٴ نبوت کے تیئس برسوں کا ایک طرح کا روزنامچہ ہے، جو کسی پیغمبر کی امت کو حاصل نہیں، اس کا ضائع ہو جانا بہت بڑا علمی ودینی سانحہ تھا، علاوہ بریں اس میں امت کی اخلاقی اصلاح، اعتدال، صحیح روحانیت، زہد وتقویٰ اور تغیر وانقلاب پر ابھارنے والی زبردست طاقت ہے، جس کے اثر سے ہر زمانہ میں اہل دعوت واہل عزیمت پیدا ہوتے رہیں گے اور ہر زمانہ کی مسلم سوسائٹی کا شرعی واخلاقی احتساب ہو سکے گا او رہر زمانہ اور ہر طبقہ کی بدعات کا مقابلہ کیا جاسکے گا۔

دوسری ضرورت فقہ کی تدوین اور استنباط واجتہاد کی تھی، قرآن وحدیث میں اگرچہ زندگی کے ہر شعبہ کے لیے اصول وکلیات موجود ہیں، اوران سے باہر کہیں جانے کی ضرورت نہیں، مگر زندگی متغیر ہے او رانسان کے حالات وضروریات غیر محدود اور بے حد متنوع، ان اصول وکلیات کو زندگی کے ان تغیرات وتنوعات پر حاوی بنانے کے لیے اور ہر نئی حالت اور نئی ضرورت کے لیے، ان کی ترجمانی وتشریح کے لیے اجتہاد واستنباط کی ضرورت تھی۔

تدوین فقہ
لہٰذا فقہ کی تدوین، مسائل کا استنباط واستخراج، جزئیات وفتاویٰ کی ترتیب، اسلام کی ایسی عملی ضرورت تھی، جس کو بالکل مؤخر نہیں کیا جاسکتا تھا، اسلام جزیرة العرب سے نکل کر شام ، عراق، مصروایران اور دوسرے وسیع اور زرخیز ملکوں میں پہنچ گیا تھا، معاشرت، تجارت، انتظام ملکی بہت وسیع او رپیچیدہ شکلیں اختیار کر گئے تھے، اس وقت ان نئے حالات ومسائل میں اسلام کے اصول کی تطبیق کے لیے بڑی اعلیٰ ذہانت، معاملہ فہمی، باریک بینی، زندگی اور سوسائٹی سے وسیع واقفیت، انسانی نفسیات اور اس کی کمز وریوں سے باخبری، قوم کے طبقات اور زندگی کے مختلف شعبوں کی اطلاع او راس سے پیشتر اسلام کی تاریخ وروایات اور روح شریعت سے گہری واقفیت ، عہد رسالت اور زمانہٴ صحابہ کے حالات سے پوری آگاہی او راسلام کے پورے علمی ذخیرہ ( قرآن وحدیث اور لغت وقواعد) پر کامل عبور کی ضرورت تھی۔

ائمہ اربعہ او ران کی خصوصیات
یہ الله کا بہت بڑا فضل تھا اور اس امت کی اقبال مندی کہ اس کار عظیم کے لیے ایسے لوگ میدان میں آئے، جو اپنی ذہانت، دیانت، اخلاص اورعلم میں تاریخ کے ممتاز ترین افراد ہیں، پھر ان میں سے چار شخصیتیں امام ابوحنیفہ (م150ھ)، امام مالک (م179ھ)، امام شافعی  (م204ھ) اور امام احمد بن حنبل  ( م241ھ)۔ جو فقہ کے چار دبستان فکر کے امام ہیں او رجن کی فقہ اس وقت تک عالم اسلام میں زندہ او رمقبول ہے، اپنے تعلق بالله، للہیت، قانون فہمی، علمی انہماک او رجذبہٴ خدمت میں خاص طور پر ممتاز ہیں، ان حضرات نے اپنی پوری زندگی اور اپنی ساری قابلتیں اس بلند مقصد اور اس اہم خدمت کے لیے وقف کر دی تھیں، انہوں نے دنیا کے کسی جاہ واعزاز اورکسی لذت وراحت سے سروکار نہیں رکھا تھا، امام ابوحنیفہ کو دوبار عہدہٴ قضا پیش کیا گیا اور انہوں نے انکار کیا، یہاں تک کہ قید خانہ ہی میں آپ کا انتقال ہوا، امام مالک نے ایک مسئلہ ( مسئلہ یہ تھا کہ مجبوری کی طلاق کا کچھ اعتبار نہیں، اس مسئلہ کا سیاسی پہلو یہ تھا کہ خلفاء کے لیے جو بیعت لی جاتی تھی، اس میں یہ کہلایا جاتا تھا کہ اگر بیعت توڑی تو بیوی کو طلاق ہو جائے گی، اگر مجبور کی طلاق کا اعتبار نہیں تو بیعت کے اس حلف نامے میں کوئی طاقت او رتاثیر باقی نہیں رہ جاتی، اسی بنا پر حکومت کو امام مالک کے اس فتوی سے بڑی تشویش لاحق ہوئی او راس کے حکام نے اُن کے ساتھ سخت برتاؤ کیا) کے اظہار میں کوڑے کھائے او ران کے شانے اتر گئے۔ امام شافعی  نے زندگی کا بڑا حصہ عسرت میں گزارا اور اپنی صحت قربان کر دی، امام احمد  نے تن تنہا حکومت وقت کے رجحان اور اس کے ”سرکاری مسلک“ کا مقابلہ کیا او راپنے مسلک اور اہل سنت کے طریقہ پر پہاڑ کی طرح جمے رہے، ان میں سے ہر ایک نے اپنے موضوع پر تن تنہا اتنا کام کیا او رمسائل وتحقیقات کا اتنا بڑا ذخیرہ پیدا کر دیا، جو بڑی بڑی منظم جماعتیں اور علمی ادارے بھی آسانی سے نہیں پیدا کر سکتے، امام ابوحنیفہ  نے تراسی ہزار مسائل اپنی زبان سے بیان کیے، جن میں سے اڑتیس ہزار عبادت سے تعلق رکھتے ہیں اور پینتالیس ہزار معاملات سے ۔ ( فخر الاسلام بحوالہ مناقب ابی حنیفہ للمکی، ص:96) شمس الائمہ کردری نے لکھا ہے کہ امام ابوحنیفہ  نے جس قدر مسائل مدون کیے ان کی تعداد چھ لاکھ ہے۔ (سیرة النعمان ، مولانا شبلی، بحوالہ قلائد عقود العقیان) ، المدونہ میں جو امام مالک  کے فتاوی کا مجموعہ ہے، چھتیس ہزار مسائل ہیں، کتاب الام جوامام شافعی کے افادات کا مجموعہ ہے، سات ضخیم جلدوں میں ہے، ابوبکر خلال (م311ھ) نے امام احمدکے مسائل چالیس جلدوں میں جمع کیے۔ ( اس کتاب کا نام الجامع لعلوم لإمام احمد ہے، ابوبکر خلال کا مفصل حال شذرات الذہب فی اخبار من ذہب:361/2 میں ملاحظہ ہو)

ائمہ اربعہ کے شاگرد وجانشین
پھر ان کو شاگرد ایسے ممتاز ملے، جنہوں نے اسی ذخیرہ میں اضافہ کیا اور ان کی تنقیح وترتیب کا کام جاری رکھا، امام ابوحنیفہ کے شاگردوں میں امام ابویوسف جیسا قانونی دماغ نظر آتا ہے، جس نے ہارون رشید کی وسیع ترین سلطنت کے قاضی القضاة کے فرائض کام یابی کے ساتھ انجام دیے،اور اسلام کے ا صول معاشیات پر ”کتاب الخراج“ جیسی عالمانہ تصنیف کی، اسی طرح ان کے شاگردوں میں امام محمد جیسا فقیہ اور مؤلف اور امام زفر جیسا صاحب قیاس نظر آتا ہے، جنہوں نے فقہ حنفی کو چار چاند لگائے، امام مالک کو عبدالله بن وہب، عبدالرحمن بن القاسم، الشیب بن عبدالعزیز عبدالله بن عبدالحکم، یحییٰ بن لیثی جیسے وفادار شاگرد اور لائق عالم ملے، جن کی کوششوں سے مصر اور شمالی افریقہ فقہ مالکی کا حلقہ بگوش ہو گیا، امام شافعی کو بولیطی، مزنی اور ربیع جیسے محنتی اور ذہین شاگرد ملے جنہوں نے فقہ شافعی کو مرتب ومنقح شکل میں پیش کر دیا، امام احمد کی فقہ کو ابن قدامہ جیسا مصنف اور محقق حاصل ہوا، جس نے المغنی جیسی عظیم الشان تصنیف کی، جو فقہ اسلامی کے وسیع ذخیرہ میں خاص امتیاز رکھتی ہے۔

تدوین فقہ کا فائدہ
اسلام کی ابتدائی صدیوں میں ان ائمہ فن اور صاحب اجتہاد علماء کا پیدا ہو جانا اس دین کی زندگی او راس امت کی کارکردگی کی صلاحیت کی دلیل تھی، ان کی کوششوں اور ذہانتوں سے اس امت کی علمی ومعاملاتی زندگی میں ایک نظم اور وحدت پیدا ہو گئی اور اس ذہنی انتشار او رمعاشرتی بے نظمی او رابتری سے محفوظ رہ گئی، جس کی قوتیں اپنے ابتدائی عہد میں شکار ہو چکی ہیں، انہوں نے فقہ کی ایسی بنیادیں قائم کر دیں او رایسے اصول مرتب کر دیے جن سے بعد میں پیش آنے والے مسائل او رمشکلات کے حل کرنے میں مدد لی جاسکتی ہے اور عام معتدل زندگی کو باقاعدہ اور شرعی رہ نمائی کے ساتھ گزارا جاسکتا ہے۔

Flag Counter