امامت کا منصب اور امام
ضبط وترتیب :مفتی احمد خان
حضرت مولانا عبیدالله خالد صاحب مدظلہ کا یہ بیان فضلاء جامعہ فاروقیہ سے اس فکر کی عکاسی کرتا ہے جس کا اظہار اجتماعی وانفرادی مجالس میں حضرت ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں کہ ایک عالمِ دین کو آنحضرت صلی الله علیہ وسلم کے نائب وخلیفہ ہونے کی حیثیت سے امت کے ساتھ کیا رویہ رکھنا چاہیے اور کس طرح معاملہ اختیار کرنا چاہیے… اسی فکر کی ایک کڑی مختلف علاقوں کی سطح پر جوڑ واجتماع کا انعقاد ہے … جن میں ایک طویل محنت اور دور دراز کے اسفار کے بعد… ساتھیوں میں یہ درد اور فکر بیدار کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ استاد محترم نے یہ بیان اسی طرح ایک جوڑ کے موقع پر فرمایا…… جو اندرون سندھ کے شہرواڈکی، سانگھڑ میں منعقد ہوا… بیان بہت عمدہ اور مفید تھا… افادہٴ عام کی نیت سے قارئین کے سامنے پیش کیا جارہا ہے۔ (ادارہ)
مکتب ایک بہت طاقت وَر کارخانہ ہے۔ اس میں آپ جو چاہیں، بنائیں؛ جتنا بہترین آپ مال تیار کرنا چاہتیہیں، کرسکتے ہیں،بشرطیکہ آپ سنجیدہ ہوں، بشرطیکہ آپ کام کرنے کا جذبہ رکھتے ہوں۔ ہمارے بہت سے ساتھی کہتے ہیں کہ اتنا عرصہ ہوگیا فلاں مسجد میں ،اتنا عرصہ ہو گیا فلاں مکتب میں اورکوئی نتیجہ نہیں نکلا۔ آپ ذرا، یہ بھی تو بتائیں کہ آپ کی کارکردگی کیا ہے؟ آپ کی کارکردگی تو کچھ نہیں ہے۔ اور آپ چاہتے یہ ہیں کہ میں تیزی کے ساتھ ترقی کروں۔ مگر دنیا میں کہیں بھی ایسانہیں ہوتا۔ اس کے لیے تو محنت کرنی پڑ تی ہے، جان مارنی پڑتی ہے،پتہ پانی کرنا پڑتا ہے، تب جاکے یہ چیزیں ترقی کرتی ہیں، آگے بڑھتی ہیں اورکارکردگی ظاہر ہوتی ہے۔ لہٰذا، آپ مسجد پر محنت کیجیے،آ پ مکتب پر محنت کیجیے۔
مسجد کے حوالے سے ایک بات بہت اہم ہے کہ درسِ قرآن کا زبردست اہتمام کیجیے۔ ہمارے حضرت والد صاحب زید مجدہ (شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب) اپنے بیانات میں طلبہ کو ہمیشہ جو نصیحت فرماتے ہیں، اس کا ایک اہم حصہ یہ ہوتاہے کہ درسِ قرآن میں،درسِ قرآن ہو․․․ آپ کی تقریر نہ ہو۔ اپنے درسِ قرآن میں آپ قرآنِ کریم کا بہت سہل، آسان، بامحاورہ، ترجمہ لوگوں کو سمجھائیں تاکہ لوگوں کو یہ معلوم ہوکہ اللہ تعالیٰ یہ فرمارہے ہیں۔ آپ کیا فرمارہے ہیں، اس کی ضرورت نہیں ہے۔ تب اثرہوگا، فائد ہ ہوگا، وہ بات دلوں پر اثر کرے گی۔ اور آپ دیکھیں گے کہ اِن نشاء اللہ بہت جلد آپ کا حلقہ بڑھتا چلا جائے گا۔ اس درسِ قرآن میں زیادہ وقت نہیں، مختصر کیجیے۔ دس منٹ ورنہ زیادہ سے زیادہ پندرہ منٹ۔بہتر تو ہے کہ پندرہ منٹ سے کم ہی رہے۔ اس میں لوگوں کو بھی یہ ہوگا کہ زیادہ وقت بھی نہیں لیتے اور فائدہ بھی بہت ہوتا ہے۔ لوگ یہ کہنے لگیں گے کہ اللہ تعالیٰ کا کلام ہماری سمجھ میں آتا ہے۔
میں اب تک دو باتیں کرچکا ہوں: ایک بات تو امامت سے متعلق تھی، اگرچہ کہ اس میں بہت تفصیل ہے لیکن بعض اشارے میں نے آپ حضرات کی خدمت میں عرض کیے ہیں۔ ایسے ہی مکتب کے حوالے سے آپ سے گزارش کی ہے کہ اسے حقیر نہ سمجھیں، اسے معمولی نہ سمجھیں بلکہ اس کے لیے خوب محنت کریں کہ یہ محنت کا بہت بڑا میدان ہے، خوب کام کرنے کا ہے۔ اگر آپ نے مکتب پر محنت کی تو آپ بہت جلد دیکھیں گے کہ آپ پورے محلے اور پورے علاقے میں بہت محبوب شخصیت بنتے چلے جائیں گے۔ سب آپ کا ادب کریں گے، سب آپ کا احترام کریں گے، سب آپ کی طرف رجوع کریں گے۔
تیسری گزارش ان حضرات سے ہے جو مدارس میں بطور مدرس کے خدمات انجام دے رہے ہیں۔ ہم سب اچھی طرح جانتے ہیں کہ وہ اساتذہ جو اپنے سبق پر محنت کرتے ہیں،اس کے لیے خوب تیاری کرتے ہیں اور اہتمام کے ساتھ درس گاہ کی حاضری کا اہتمام کرتے ہیں، وہ اپنے ادارے میں مقبول اور محبوب اساتذہ ہوجاتے ہیں۔ اگر درس گاہ میں ہم بغیر سبق کی تیاری کے گئے، کچا پکا مطالعہ کر کے چلے گئے، طالب علم نے کچھ سوال کیا اور ہم اسے مطمئن نہ کر سکے، اور جب وہ مطمئن نہ ہوا تو ہم نے اس کو بلا ضرورت ڈانٹ پلا دی (تاکہ وہ خاموش ہوجائے) یا اسے بے ادب کہہ دیا․․․ تو یوں آپ طلبہ کی نظروں سے دور ہوتے جائیں گے پھر طلبہ آپ کے قریب بھی نہیں آئیں گے۔
اگر آپ سبق کی بھر پور تیاری اور محنت کرکے جائیں گے، پورے اہتمام سے وقت پر درس گاہ میں پہنچیں گے تو ان شاء اللہ، امید ہے اللہ کی ذات سے کہ آپ طلبہ میں محبوب ہو جائیں گے۔
ان کے علاوہ درس گاہ کی بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو آپ نے اپنے اساتذہ کے عمل میں دیکھی ہیں۔ آپ ان کا اہتمام فرمائیں ،تدریس اور تعلیم کے ساتھ ساتھ طلبہ کی تربیت کی طرف بھی متوجہ ہوں۔ ا ُن کی وضع قطع کیسی ہے،ان کی حاضری غیر حاضری کیسی ہے، ان کے آداب اور اخلا ق کیسے ہیں۔ ان پہلوؤں پر بھی آپ محنت کریں۔ ایسے اساتذہ ہی طلبہ میں محبوب ہوتے ہیں۔
یاد رکھیے، میرا ذاتی تجربہ ہے کہ جو اساتذہ زمانہٴ تدریس میں ہمیں سخت لگتے تھے، ہمیں بعد میں انھی سے محبت ہوئی۔ انھی کے لیے دل سے دعائیں نکلتی ہیں۔ ہمارے اساتذہ اب بھی ہیں، اللہ تعالیٰ اُن کی عمر میں برکت عطا فرمائے، ان کو صحت اور عافیت عطا فرمائے۔ (آمین)
حضرت مفتی سید نذیراحمدشاہ صاحب دامت برکاتہم فیصل آباد والے جن سے ہم نے پہلی کتاب ”قدوری“ پڑھی اور آخری کتاب ”ابو داؤد“۔ وہ نہایت سخت تھے۔ درس گاہ میں داخل ہوتے ہی سب سے پہلا کام یہ کرتے تھے کہ درس گاہ کے دروازے کی اندر سے کنڈی سے لگوادیتے۔ جو اندر آگیا، وہ اندر؛ جو باہر رہ گیا، وہ باہر۔ دوسرا کام یہ کہ سب سے پہلے حاضری۔ جو حاضر ہیں، وہ حاضر؛ جو غیر حاضر ہیں، وہ غیر حاضر۔ تیسرا کام یہ کہ بلا تعیین، کل کا سب سبق سنتے۔ اگر سنایا نہیں توسزا۔ پہلے سے سنانے کو کہا، دوسرے سے کہا تم سناؤ۔ اب سبھی کے سر پر تلوار لٹکی ہوئی ہے۔ ایک اہم بات اس میں یہ تھی کہ جو گزشتہ کل غیر حاضر تھے، سب سے پہلے ان سے سبق سنتے تھے۔ اب اگر وہ یہکہیں کہ حضرت میں کل موجود نہیں تھا تو․․․ اچھا ڈبل غلطی، سبق بھی یاد نہیں ہے اور کل غیر حاضر بھی تھے۔ کھڑا کردیتے تھے۔ آپ حیران ہوں گے، ان کا یہ سلوک اور معاملہ جیسا ”قدوری“ میں تھا، ویسے ہی ”ابو داؤد“ میں تھا۔ اس کی کوئی رعایت نہیں کرتے تھے کہ یہ دورے کا طالب علم ہے، یہ ثانیہ کا طالب علم ہے۔ چنانچہ ان کے سبق کا معاملہ یہ ہوتا تھا کہ دنیا میں کچھ ہو یا نہ ہو، لیکن مفتی صاحب کا سبق سب کو یاد ہوتا تھا۔ چنانچہ ہمارے جتنے بھی ساتھی ہیں، ہم آپس میں جب ملتے ہیں، سب یہی کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ دُعا مفتی صاحب کے لیے کرتے ہیں، کیوں کہ اگر وہ یہ سختی نہ کرتے تو شاید ہمیں کچھ بھی نہ آتا۔ انہوں نے جو سختی کی وہ شفقت کی بنیاد پر تھی، ظلم کی بنیاد پر نہیں تھی۔ لہٰذا، گزارش یہ ہے کہ درس گاہ کے حوالے سے، سبق کے حوالے سے ہم نہایت سنجیدہ ہوں کہ اہتمام کے ساتھ مطالعہ کریں، بھرپور مطالعہ کریں۔
ہمارے حضرت والد زید مجدہم کو بخاری شریف پڑھاتے ہوئے نصف صدی سے زیادہ ہوچکے ہیں۔ وہ فرماتے ہیں: ”آج بھی میں سبق کا مطالعہ ویسے ہی کرتا ہوں جیسے پہلے دنوں میں کرتاتھا۔“ پوری تیاری کرکے سبق پڑھاتے ہیں، حالانکہ ان کو تو ضرورت نہیں ہے، لیکن اہتمام اسی کو کہتے ہیں۔ ہم یہ نہ سمجھیں کہ یہ کتاب آسان ہے۔ اگر مطالعہ نہیں بھی کیا تو کام چلا لیں گے۔ یہ کتاب کے ساتھ، طلبہ کے ساتھ، درس گاہ کے ساتھ، مدرسہ کے ساتھ بہت بڑا ظلم ہے، بہت بڑی زیادتی ہے۔
پورے اہتمام کے ساتھ مطالعہ کیجیے۔ اگر کسی وجہ سے مطالعہ نہیں کرسکے تو سبق میں ضرور جائیں اور طلبہ سے کہہ دیں کہ آج میں نے مطالعہ نہیں کیا ہے، آج تربیت کے حوالے سے کوئی بات ہوگی۔ یہ بھی یاد رکھیں کہ اگر طالب علم کوئی سوال کرے اور آپ اس کا جواب نہ دے سکیں تو غلط بیانی نہ کیجیے، جھوٹ نہ بولیے۔ طالب علم سے کہہ دیں کہ یہ بات میں کتاب میں دیکھ کر بعد میں آپ کو بتاؤں گا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ اگر آپ نے یہ کہہ دیا کہ مجھے یہ نہیں آتاتو اللہ تعالیٰ آپ کے علم میں بہت برکت عطا فرمائیں گے۔ اس میں کوئی ڈرنے اور پریشان ہونے کی بات نہیں ہے۔ یہ تو علم ہے، اس سے بھی بڑھ کر علوم ِ الٰہیہ ہیں، علومِ نبوت ہیں، ہم ان میں جھوٹ نہیں بول سکتے۔ یہ کوئی سائنس اور جغرافیہ کا سبق نہیں ہے کہ اس میں ہم صاف صاف کہہ دیں۔ نہیں معلوم تو کہہ دیں میں کتاب دیکھ کر کل بتا دوں گا یا شام کو مجھ سے مل لینا، یا یہ کہ کل میں تیاری کرکے آؤں گا تو آپ کو بتادوں گا۔ اس میں کوئی حرج نہیں ہے۔ لہٰذاسبق اور درس گاہ کے حوالے سے ہمیں محنت کرنی چاہیے ۔
تربیتی اور انتظامی ذمے داریوں میں بھی دلچسپی
اسی طرح جو حضرات مدارس میں مختلف غیر تدریسی خدمات یعنی انتظامی یا تربیتی خدمات انجام دیتے ہیں آج بہت بڑا عیب یہ پیدا ہوگیا ہے کہ سوائے سبق کے، مدرسے کے کسی کام میں دلچسپی نہیں لیتے۔ مہتمم صاحب، ناظم صاحب اگر ہم سے کہتے ہیں تو ہمارے دل میں فوراً خیال آتا ہے کہ یہ ہمارا کام تھوڑیٴ ہے۔ ہمارا کام تو سبق پڑھانا ہے، یہ ہم سے اورطلبہ سے صفائیاں کرارہے ہیں یا فلاں کام کرارہے ہیں۔ یاد رکھیے ایسا ادارہ کبھی ترقی نہیں کرسکتا ہے جہاں کے لوگ یہ سوچنا شروع کر دیں کہ یہ میرا کام نہیں،وہ میرا کام نہیں۔ ایسی سوچ رکھنے والے کارکن ہوں گے تو وہ ادارہ ترقی نہیں کرسکے گا۔
آپ میری یہ بات یاد رکھیے گا کہ جو مدرس اور استاد مدرسے کے تمام کاموں میں دلچسپی لیتا ہے، وہ سب سے زیادہ ترقی کرتا ہے، اس لیے کہ وہ سب کے دلوں میں ہوتا ہے۔ جب اسباق تقسیم ہو رہے ہوتے ہیں تو ذمے داروں کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ یہ استاد ہمارا بہترین ساتھی ہے، یہ سبق بھی پڑھاتا ہے، ادارے میں اتنے بہت سے کام بھی کراتاہے، اسے آگے بڑھاؤ، اس کی ترقی ہونی چاہیے۔ جبکہ فلاں اور فلاں تو کاموں میں پیچھے رہتے ہیں، اپنے آپ کو چھپاتے ہیں، لہٰذا انھیں پیچھے کردو۔ یہ فطری بات ہے۔ آپ کے گھر کا کوئی معاملہ ہے تو آپ گھرمیں بھی ایسا ہی کریں گے۔ آپ کے گھر میںآ پ کے بچوں میں جو آگے بڑھے گا، آپ اس کو آگے بڑھائیں گے؛ جو پیچھے ہٹے گا تو اسے آپ کہیں گے کہ چلو بھئی پیچھے جاؤ۔
اس لیے مدارس میں خدمت کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی رضا مقصودہو،مہتمم کی رضا کے لیے نہیں، ناظم کی رضا کے لیے نہیں۔ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے ہر کام میں ہم پیش پیش رہیں، آگے آگے رہیں، ہم یہ بھی کریں ، وہ بھی کریں۔ یہ ہمارا کام ہے۔ جن مدرسین اور اساتذہ کے دل میں یہ بات ہوتی ہے کہ یہ کام ہمارا ہے اور یہ کام ہمارانہیں ہے وہ ترقی نہیں کرتے۔
عام طور پر یہ تذکرہ سننے میں آتا ہے کہ حالات بڑے سخت ہیں، تنخواہوں کا انتظام نہیں ہے، راشن کا انتظام نہیں ہے، تعمیرات کا انتظام نہیں ہے، قرضہ اتنا ہوگیا ہے، پریشانی بہت ہوتی ہے، وغیرہ۔ خوب یاد رکھیے کہ خزانے کی چابیاں آپ کے پاس ہیں۔ اب یہ آپ کا کام ہے کہ خزانے کو آپ کھولتے ہیں یا نہیں۔
وہ خزانہ کس کا ہے؟
اللہ کا خزانہ ہے۔ اللہ نے اپنے خزانے کی چابیاں آپ کو دی ہیں۔ اگر آپ اللہ سے مانگتے ہیں اور خوب مانگتے ہیں تو کوئی وجہ نہیں ہے کہ کام نہ چلے۔ پاکستان،ہندوستان ،بنگلہ دیش کے یہ دینی مدارس اس کی کتنی بڑی دلیل ہیں۔ یہ تو عین الیقین ہے۔ آج ایک آدمی پانچ افراد کے کنبے کو چلا نہیں پاتا، اس کے لیے صبح سے لے کر شام تک بھاگ رہا ہے، دوڑ رہا ہے، محنت کر رہا ہے، لیکن پھر بھی وہ پورا نہیں کرپاتا۔ لیکن آپ کے مدرسے میں کہیں تین ہزار طلبہ ہیں، کہیں چار ہزار طلبہ ہیں، کہیں دو ہزار طلبہ ہیں، کہیں ایک ہزار طلبہ ہیں، کہیں پانچ سو طلبہ ہیں، کہیں دو سو طلبہ ہیں، کہیں سوطلبہ ہیں۔ ان کا کھانا، ان کا پینا، ان کی دوا، ان کا علاج، ان کے کپڑے، ان کے اساتذہ کی تنخواہیں، ان کے وظائف، ان کا راشن، ان کی بجلی، ان کی گیس وغیرہ، یہ تمام اخرجات سب کہاں سے ہو رہا ہے؟ کون کر رہا ہے؟ صرف اللہ پاک کررہے ہیں۔
اب بات صرف اتنی سی ہے کہ اللہ تعالیٰ سے لینا جانتے ہیں یا نہیں جانتے ہیں۔ آپ نے اس پر محنت کی ہے یا نہیں کی ہے؟ آپ اگر اس پر محنت فرمالیں، راتوں کو اٹھیں، اللہ سے مانگیں، خوب مانگیں، ہر ہر عمل کے لیے اللہ سے مانگیں۔ اساتذہ کی تنخواہوں کا مسئلہ ہے تو اللہ سے مانگو۔ طلبہ کے وظائف کا مسئلہ ہے تو اللہ سے مانگو۔ راشن کا مسئلہ ہے تو اللہ سے مانگو۔ تعمیرات کا مسئلہ ہے تو اللہ سے ما نگو۔ کیوں ہم اللہ کے غیروں سے مانگیں؟ ہمیشہ اللہ سے مانگو بھئی۔ ہمارے حضرت والد صاحب فرماتے ہیں، ”اگر ان مہتممین کو اللہ سے مانگنا آگیا تو چندے وندے کا سارا قصہ ختم ہوجائے گا۔ ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اس لیے اللہ سے مانگو ۔
مدارس کے منتظمین اور ذمے دار حضرات سے گزارش اور درخواست ہے کہ وہ اللہ سے مانگنے کا خوب اہتمام کریں، اخلاص سے کام کریں، اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی کے لیے کام کرنے کی نیت اور جذبہ ہو۔ اس کے ساتھ ساتھ اللہ سے مانگنے کا طریقہ ہو۔ اسے پورے اہتمام کے ساتھ اختیار کریں۔ اِن شاء اللہ ،اللہ تعالیٰ سارے مسائل حل فرمادیں گے۔
ہمارے دوست، احباب اور فضلائے جامعہ معاشرے کے مختلف طبقات میں مختلف ذمے داریاں اور خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بہت سے ساتھی ہیں جو دعوت وتبلیغ کے کام سے تعلق رکھتے ہیں۔بہت سے احباب سیاسی جماعتوں میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ بہت سے احباب ایسے اداروں کی خدمات میں مصروف ہیں کہ جنہیں ہمارے بزگوں نے فرقہ باطلہ کے رد کے لیے قائم فرمایاہے۔ ایک اصولی بات ہے کہ اگر ہم ایک روحانی باپ کی روحانی اولاد ہیں، اگر ہم اپنے آپ کو ایک کنبہ ،ایک خاندان سمجھتے ہیں اور حضرت شیخ زید مدہم کو اپنا استاد اور مرشد مانتے ہیں تو ہمیں آپس میں پورے طور پر اتفاق و اتحاد اختیارکرنا چاہیے۔ ہم نے ہمیشہ دیکھا ہے کہ بڑے بڑے لوگ حضرت مولانا سلیم اللہ خاں صاحب مدظلہ کے پاس آتے تھے۔ مثلاً، جب میں مشکوٰة کے سال میں تھا تو حضرت مولانا حق نواز جھنگوی رحمہ اللہ یہاں تشریف لائے۔ میں نے سب سے پہلے مولانا حق نواز جھنگوی رحمہ اللہ کی تقریر جامعہ فاروقیہ میں سنی۔ جمعہ کی نماز کے بعد جلسہ تھا۔ جلسہ تو تین دن کا تھا، دراصل خلافتِ راشدہ کانفرنس تھی۔ اس میں تیسرے چو تھے درجے کے جو مقرر تھے، ان میں مولانا رحمہ اللہ کی جمعے کی نماز کے بعد تقریر تھی۔ حضرت نے تقریر فرمائی۔ ا س وقت انھیں کوئی نہیں جانتا تھا، ان کا کوئی تعارف نہیں تھا۔ اس کے بعد ان کا تعارف بڑھا۔ پھر ماشاء اللہ، ان کی جماعت بہت بڑی جماعت بنی اور بڑے بڑے لوگ بنے۔ جمعیت علمائے اسلام کے حضرت مفتی محمود صاحب نوراللہ مرقدہ جامعہ فاروقیہ میں تشریف لاتے تھے۔ جامعہ میں جو سالانہ عظیم الشان جلسے ہوتے تھے، جیسے دستار بندی، ان میں حضرت زید مجدہم، مفتی صاحب نور الله مرقدہ کو بلایا کرتے تھے۔ اسی طرح، حضرت مولانا سمیع الحق صاحب دامت برکاتہم تو حضرت کے استاد زادے ہیں۔ حضرت مولانا عبد الحق صاحب رحمة الله علیہ اکوڑہ خٹک والے وہ حضر ت کے نہ صرف استاد ہیں بلکہ حضرت فرماتے ہیں کہ میرے محبوب اساتذہ میں سے تھے۔ اُن کا اکرام، اُن کا احترام۔ اسی طرح سے تبلیغی جماعت والے حضرات ہیں۔ حضرت فرماتے تھے کہ میں تو ہوں ہی بنیادی طور پر تبلیغی۔ چنانچہ جب چلہ لگانے کے لیے حضرت رائے ونڈ تشریف لے گئے توکسی کو نہیں بتایا، حالانکہ مولانا جمشید صاحب رحمة الله علیہ حضرت کے شاگرد ہیں۔ لیکن کسی کو نہیں بتایا۔ تشکیل والوں نے نام پوچھا تو کہا، محمد سلیم ہے۔ گجرات تشکیل ہو گئی۔ وہاں مسجد میں داخل ہوئے تو وہ مخالفین کی مسجد تھی۔ انہوں نے بستر اٹھا کر مسجد سے باہر پھینک دیے۔ جماعت کے ساتھ بہت سخت سلوک کیا۔ حضرت بھی اس جماعت میں تھے۔ جماعت پھر واپس رائے ونڈ آئی۔ جب جماعت واپس آتی ہے تودو چار دن قیام رہتا ہے۔ اس قیام کے دوران کہیں مولانا جمشید صاحب رحمة الله علیہ کو پتا چل گیا تووہ بھاگے بھاگے آئے۔ دوسرے بڑے بڑے حضرات بھی آئے۔ کہنے لگے، حضرت آپ؟ حضرت، آپ کم سے کم خصوصی طور پر بتا دیتے۔ حضرت نے کہا، خصوصی کا تو میں قائل ہی نہیں ہوں۔
یہ واقعات سنانے کا مقصد آپ حضرات سے یہ گزارش ہے کہ ہم نے اپنے بچپن سے جب ہمیں شعور بھی نہیں تھا، اس وقت سے حضرت نے ہماری تربیت فرمائی کہ مکی مسجد ضرور جایا کرو۔
اس وقت مکی مسجد جانے میں ہمارا فائدہ اور مزہ یہ تھا کہ ہمیں ایک روپیہ ملتاتھا۔ اس زمانے میں ایک روپیہ بہت ہوتا تھا۔ آپ یوں سمجھیں کہ آٹھ آنے سے کم میں آنے جانے کا کرایہ تھا او راس کے بعد جو دس آنے یا بارہ آنے بچ جاتے تھے، وہ بہت ہوتے تھے۔ اس سے حلیم بھی کھاتے تھے، وہا ں پر چھولے بھی کھاتے تھے اور گیٹ کے باہر جو بازار لگتا تھا، بہت کچھ کھاتے تھے۔ یہ معلوم نہیں تھا کہ یہاں گیٹ کے اندر مسجد میں کیا ہوتا ہے۔ تو اس وقت سے حضرت نے سرپرستی فرمائی کہ بھئی جاؤ، جاؤ۔
اپنے دوستوں سے میری گزارش یہ ہے کہ چاہے دعوت و تبلیغ کا کام ہو تووہ ہمارا کام ہے، فرقہ باطلہ کے ردکے لیے جو جماعتیں ہیں وہ ہماری جماعتیں ہیں۔ جمعیت علمائے اسلام ہماری جماعت ہے۔ جیسے بعض حضرات، آپ نے پوچھاکہ کیا کرتے ہیں؟ جواب دیا، میں تو سال لگاکر آیا ہوں، اور پھردوسرے سے پوچھاکہ آپ کیا کرتے ہیں؟ جواب ملا، میں تو جمعیت سے وابستہ ہوں․․․ بس، فوراً دونوں کے راستے الگ ہوگئے کہ یہ ہمارے کام کا نہیں ہے۔
یہ بڑی عجیب بات ہے۔ یہ بہت عجیب مزاج ہے۔ یہ جذبہ ہمارے اندر بالکل نہیں ہوناچاہیے۔ اس کی بجائے، ہونا یہ چاہیے کہ اگر ایک آدمی دعوت کا کام کر رہا ہے اور ہم مدرسے کی مشغولیت کی وجہ سے یا اور کسی دینی مشغولیت کی وجہ سے، دعوت کے کام کو وقت نہیں دے پارہے تو ہم دل ہی دل میں شرمندہ ہوں کہ مجھے بھی شبِ جمعہ میں جانا چاہیے، مجھے بھی سہ روزہ لگانا چاہیے، مجھے بھی چالیس دن کے لیے جانا چاہیے۔ یعنی اگر آدمی اپنی دینی مصروفیات کی وجہ سے نہیں جاسکا تو اس پر آدمی شرمندہ ہو۔ ایسے ہی ایک آدمی دعوت وتبلیغ کے کام لگاہوا ہے اور بھر پور لگاہواہے، وہ اگر مدرسے کا کام نہیں کرسکا یا دینی سیاست کی جو ضرورتیں ہیں انھیں انجام نہیں دے پارہا یا جو ساتھی فتنوں کے رد میں کام کر رہے ہیں، اس میں کام نہیں کرپارہا․․․ تو اسے شرمندہ ہونا چاہیے کہ یہ تو میرا کام ہے، مجھے کرنا چاہیے تھا لیکن میں اپنی اس مصروفیت کی وجہ سے نہیں کر سکا۔(جاری)