Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1436ھ

ہ رسالہ

16 - 18
امیر تبلیغ مولانا محمد سعد کاندھلوی
شخصیت․․․․․․․․․․․ اور․․․․․․․․․ ارشادات

تحریر:مولانا سید محمد زین العابدین

گزشتہ سال نومبر2014ئکے رائے ونڈ میں ہونے والے دوسرے حصہ کے عالمی تبلیغی اجتماع میں بندہ کی حاضری ہوئی، دوسرے دن بروز جمعہ عالمی شوریٰ کے امیر حضرت مولانا محمد سعد کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم کی خدمت میں اپنی کتاب ”حیاتِ شیخ زبیر“ لے کر حاضر ہونے کا شرف حاصل ہوا۔ تو بندہ مولانا کی پرکشش شخصیت سے مسحور ہوکر رہ گیا، پھر اگلے دن بعد مغرب مولانا نے جب ساڑھے تین گھنٹہ سے زائد ”الہامی“ بیان فرمایا اور اس میں دعوت کی محنت سے متعلق ہرہر چیز کو قرآن و سنت سے ثابت کیا تو یوں محسوس ہورہا تھا کہ الفاظ ان کے سامنے پر باندھے کھڑے ہیں اور اپنے ہر ہر دعویٰ کے لیے دلائل ان کی زبان پر کھیل رہے ہیں اور یوں لگا کہ مولانا محمد یوسف صاحب(بقول مولانا نور عالم خلیل امینی کے کہ ان جیسا جادو طراز مبلغ پوری جماعت تبلیغ میں نہیں گزرا) پھر سے زندہ ہوگئے ہیں۔

مولانا محمد سعد صاحب نے دعوت و تبلیغ کے بنیادی تقاضوں اور اس کی اہمیت و ضرورت پر روشنی ڈالی، ان کے بیان میں بعض باتیں ایسی بھی تھیں جن کے بارے میں محسوس ہوا کہ وہ یہ باتیں عام معمول سے ہٹ کر بطورِ خاص ارشاد فرمارہے ہیں، مثلاً انہوں نے زور دیا کہ ایمان کی محنت کے ساتھ ساتھ، اعمالِ صالحہ، عبادات، معاملات، حلال و حرام، اخلاقیات اور باہمی حقوق کے بارے میں رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو حرز جان بنایا جائے۔

بیان کے بعد بعض پرانے ضعیف العمر احباب کہنے لگے کہ حضرت جی مولانا محمد الیاس اور حضرت جی مولانا محمد یوسف کی نسبت اب ان میں منتقل ہوتی نظر آرہی ہے اور ان حضرات کے بارے میں جو سنتے تھے کہ چار چار گھنٹہ کے بیانات میں ایسے ایسے مضامین ”قبیل از واردات غیبیہ“ بیان ہوتے تھے کہ لوگوں کے منہ کھلے کے کھلے رہ جاتے تھے، یقین کیجیے کہ مولانا سعد صاحب کے بیان میں یہی صورت حال تھی، کیا عالم اور کیا جاہل، کیا نیا اور کیا پرانا، کیا چھوٹا اور کیا بڑا؟ ہر ایک پر عجیب ہی کیفیت تھی، پورے مجمع پر سناٹا طاری تھا۔

بعض دفعہ ایسا ہوتا ہے کہ مقرر وقت پورا کرنے کے لیے اپنے بیان کو لمبا کرتا ہے، لیکن سامعین کو اندازہ ہوجاتا ہے، جب کہ یہاں ایسا کچھ نہیں تھا ہر ایک زبانِ حال سے کہہ رہا تھا کہ ”وہ کہیں اور سنا کرے کوئی“۔

پھر اس کے علاوہ بعض دفعہ ایسا شخص مقرر طے ہوجاتا ہے، جس کے پاس کم علمی کی بنا پر بولنے کے لیے الفاظ نہیں ہوتے تو وہ ادھر ادھر کی باتیں کر کے بیان کو لمبا کرتا ہے، لیکن یہاں تو بیان میں علمی موتی جھڑ رہے تھے، مولانا کا علم بلند طائر اونچے سے اونچے آشیانہ پر جاکر بادل کی طرح برس رہا تھا اور زبان حال و قال سے کہہ رہا تھا کہ جتنا کچھ سمیٹنا اور محفوظ کرنا چاہو کرلو، ”پھر موقع لگے نہ لگے“۔ اس سے زیادہ اور کیا عرض کروں؟

پھر چوں کہ شوریٰ کے سابقہ امیر حضرت مولانا محمد زبیر الحسن کاندھلوی کی وفات ہوچکی ہے تو اب ان کے اندر ایک ذمہ دارانہ شان بھی نظر آرہی تھی۔ واقعہ یہ ہے کہ مولانا کے بیان میں امت کا ایک درد و غم تھا، اللہ سے ملانے کا ایک سوز و عشق تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں پر لانے کا جوش وجذبہ تھا ان کے بیان میں وہ سب کچھ تھا جس کی آج امت کو ضرورت ہے، میری رائے میں تو دعوت کی محنت کے معترضین اگر مولانا کا اس دفعہ کا دوسرے حصہ کا بیان خالی الذہن ہوکر غور و فکر سے سن لیں تو ان کے سارے اشکالات کافور ہوجائیں۔

ان کی خدمت میں حاضری کی جو کیفیت تھی وہ بڑی عجیب تھی، فی الحال تو اتنا کہوں گا کہ ان کی نورانی اور پرکشش شخصیت کے سحر سے تین دن تک میں باہر نہیں آسکا تھا، حالاں کہ دوسرے اکابر (حاجی عبد الوہاب صاحب، مولانا زبیر الحسن اور مولانا شاہد سہارن پوری وغیرہ) سے بھی ملاقات ہوئی تھی، لیکن کسی کے بارے میں تین دن تک کوئی خیال نہ رہا! اللہ جل شانہ مولانا کو لمبی عمر عطا فرمائے اور صحت و عافیت بھی۔

مولانا محمد سعد کاندھلوی 8/ محرم الحرام 1385ھ مطابق 10/ مئی 1965ء کو دہلی مرکز نظام الدین میں مولانا محمد ہارون صاحب کاندھلوی کے گھر میں پیدا ہوئے، آپ کی بسم اللہ 1392ء میں والد مرحوم مولانا محمد ہارون نے اپنے آخری حج کے دوران حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی سے ریاض الجنة میں کروائی، آپ کی پیدائش سے ایک ماہ قبل آپ کے دادا حضرت جی مولانا محمد یوسف کاندھلوی  کی وفات ہوچکی تھی اور پیدائش کے آٹھ سال بعد آپ کے والد ِمحترم مولانا محمد ہارون بھی اِنتقال فرماگئے، چناں چہ آپ کی پرورش و تربیت آپ کی والدہ اور نگرانی و سرپرستی آپ کے نانا حضرت مولانا محمد اظہار الحسن کاندھلوی، خاندانِ کاندھلہ کے سرپرست شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا کاندھلوی اور دعوت و تبلیغ کے اُس وقت کے امیر حضرت مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی نے فرمائی،1985ء میں مدرسہ کاشف العلوم دہلی سے پڑھ کر فاضل ہوئے اور وہیں پر تاحال علمی ودِینی خدمات میں مصروفِ عمل ہیں، ماشاء اللہ آپ کا علم شستہ اور عمل پختہ ہے، جب اجتماعات میں خطاب فرماتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حضرت مولانا محمد یوسف پھر زندہ ہوگئے ہیں، علم و عمل، اِخلاص و للہیت، تقویٰ و انابت، ذمہ دارانہ حیثیت اور جود و سخا میں اپنے آباوٴ واجداد کے ثانی و پرتو ہیں، اس وقت دعوت و تبلیغ کے صف ِ اوّل کے اکابر میں سے ہیں، بلکہ حضرت مولانا زبیر الحسن صاحب کی وفات کے بعد اب ان کی جگہ عالمی امیر کی حیثیت رکھتے ہیں اور مرکز نظام الدین بنگلہ والی مسجد کے متولی و ناظم اور مدرسہ کاشف العلوم کے بھی متولی و ناظم اور استاذ الحدیث ہیں، حضرت مولانا سید محمد سلمان سہارنپوری صاحب (داماد حضرت شیخ و موجودہ ناظم جامعہ مظاہر علوم سہارن پور) کی بڑی صاحب زادی بریرہ خاتون آپ کے نکاح میں ہیں۔ جن سے حق تعالیٰ نے آپ کو تین فرزند محمد یوسف، محمد سعید اور محمد سعود عطا فرمائے ہیں۔

چونکہ آپ کے باپ، دادا اور پردادا سبھی اِس کام کے روحِ رواں رہے ہیں، اِس لیے اِس کام کی عظمت و اہمیت اُن کے دِل ودماغ میں اس طرح جاگزیں ہے کہ جاگتے سوتے وہ اُسی کے داعی و مبلغ ہیں، حضرت مولانا محمد سعد صاحب نے موروثی طور پر اور اسی ماحول میں پروان چڑھنے اور اس کی قائد شخصیات کی صحبت اِختیار کرنے کی بنا پر دعوت کے مزاج و مذاق کو نہ صرف سمجھ لیا ہے، بلکہ اپنے اندر سمولیا اور اپنے اُوپر طاری کرلیا ہے۔

آپ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی، حضرت جی مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی، حضرت مولانا محمد اظہار الحسن کاندھلوی اور حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی کی صحبتوں سے فیض یاب ہوئے ہیں اور اس وقت حضرت مولانا مفتی محمد افتخار الحسن کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم (موجودہ سرپرست خاندان کاندھلہ و مرکز نظام الدین اور خلیفہ مجاز حضرت مولانا شاہ عبد القادر صاحب رائے پوری ) سے اِصلاحی تعلق ہے، جب کہ اجازت و خلافت حضرت مولانا سید ابو الحسن علی میاں ندوی اور حضرت مولانا مفتی محمد افتخار الحسن کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم سے رائے پوری سلسلہ میں حاصل ہے۔

اب مولانا کے بیان سے کچھ منتخب ملفوظات پیش خدمت ہیں:
٭…امام مالک رحمة اللہ علیہ فرماتے ہیں: یہ اُمت اس وقت تک سدھر نہیں سکتی جب تک اِس اُمت کے پچھلے وہ کام نہ کریں جو اِس کے پہلوں نے کیا، لہٰذا یقین سے کہاجاسکتاہے کہ اِس اُمت کی کام یابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام  کے نقشِ قدم پر چلنے میں ہے۔ یہ اُمت اتنی ہی کام یاب ہوگی جتنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب کے طریق پر رہے گی۔ہدایت اور کام یابی اسی طریقہٴ محنت میں ہے جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کا تھا۔ صرف ایمان کی ابحاث سے ایمان میں ترقی ممکن نہیں، جب تک وہ محنت نصیب نہ ہوجو حضور صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کی زندگیوں میں تھی۔ یقین کے سیکھنے کا وہ طریقہ جو صحابہ کرام کا تھا وہی مطلوب ہے۔ تبلیغی نصاب میں حیاة الصحابہ کی شمولیت پر غور کریں! یہ اِس لیے ہے کہ تبلیغ کی محنت جب صحابہ کرام  کی سیرت کے موافق ہوگی تب کام یابی ہوگی۔

صحابہ کرام  امت کے لیے نمونہ بنے، اُمت کے سامنے خودکو پیش کیا۔ لہٰذا دعوت کے کام میں کام یابی تب ہوگی جب دعوت مزاجِ صحابہ کے موافق ہوگی او رہم خود اُمت کے سامنے پیش ہوں گے۔ قرآن کو سمجھنے کے لیے صحابہ کرام  کو سمجھنا ضروری ہے، صحابہ  کو سمجھے بغیر قرآن کو نہیں سمجھ سکتے۔ صحابہ کرام  قرآن کی تفسیرو تفصیل ہیں۔ لہٰذا اُن کو سمجھنا ضروری ہے، صحابہ کرام قیامت تک کے لیے راہ نما ہیں۔

٭…حدیث شریف میں ارشاد ہے: جس شخص کو مسجد میں آتاجاتا دیکھو، اُس کے ایمان کی گواہی دو! چناں چہ فرمایا: انما یعمر مسجداللہ من أمن باللہ۔بے شک مساجد کی تعمیر وہ کرتے ہیں جو اللہ پر ایمان رکھتے ہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہر معاملہ میں صحابہ  کا رخ مسجد کی طرف موڑا ،صلوة الحاجة، صلوٰة الخوف، صلوٰ ة الکسوف، صلوٰ ة الخسوف وغیرہ پر غورکریں ۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: اگر تین کام نہ ہوتے تو دنیا چھوڑکراللہ سے جاملتا۔اللہ کے راستے میں پھرنا۔ علم کی مجالس میں بیٹھنا۔ علم کی باتیں ایسے حاصل کرنا جیسے کھجوروں میں سے عمدہ کھجوریں چن چن کر تلاش کی جاتی ہیں۔

حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے: ایمان کی تقویت کی جگہ مسجد کا ماحول ہے، خلوت کدوں، بازاروں اور دوسری جگہوں سے نکل کر مسجد میں آنا ضروری ہے۔ ہمار ا اَصل مقصد اُمت کو مسجد تک کھینچ لاناہے۔

ہماری سب سے زیادہ محنت اس بات پر ہونی چاہیے کہ مسلمانوں کو مسجد کے ماحول میں لایا جائے، کیوں کہ ایمان و اعمال کی تعلیم و تربیت ایمان کے ماحول میں ہوسکتی ہے اور اس کی جگہ مسجد ہے۔ مسجد سے باہر کیے جانے والے اعمال میں وہ برکت نہیں ہوتی جو مسجد میں ہوتی ہے۔ اس لیے ہم لوگوں کو مسجد کے ماحول کا عادی بنائیں۔

اللہ تعالیٰ سے تعلق اللہ کے گھر میں آنے سے ہی قائم ہوگا اور یہی دعوت و تبلیغ کا سب سے بڑا مقصد ہے کہ ہر ایک کا اللہ سے تعلق قائم ہوجائے۔

٭…نماز کی خاصیت ظاہر ہوکر رہتی ہے، تاہم ضروری ہے کہ نماز میں منکر نہ ہو۔ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: جس کی نماز اُسے گناہوں سے نہ روکے، اُس کی نماز اُسے اللہ سے دُور لے جائے گی۔ ﴿ان الحسنات یذھبن السیئات﴾۔بے شک نیکیاں گناہوں کو مٹادیتی ہیں۔

نما ز کا ایسا اہتمام کریں کہ اُس کا حق اداکردیں۔ نماز بلکہ تمام عبادات کو ہلکا مت سمجھیں، دعوت کے کام میں لگ کر عبادات سے غفلت استدراج ہے، دھوکاہے۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی قافلہ روانہ فرماتے تو نصیحت فرماتے: ”دیکھو! دن کے کاموں میں کام یابی تب نصیب ہوگی جب تمہیں رات کا قیام اور تلاوتِ قرآن نصیب ہوگی۔“

٭…اتباعِ سنت وہ کشتیٴ نوح ہے کہ جو اِس میں سوار ہوگیا وہ کام یاب ہوگیا اورجو باہر رہ گیا ناکام ہوگیا۔ فرائض، اِسلام میں آنے کے لیے شرائط ہیں، جب کہ اتباعِ سنت سے مسلم اور کافر میں امتیاز ہوتاہے، سنت کو ہلکا مت سمجھیں۔ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سنت پر عمل کرتے تھے، اُس کے سنت ہونے کی وجہ سے۔ جب کہ ہم سنت کو اُس کے سنت ہونے کی وجہ سے چھوڑدیتے ہیں۔

٭…کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ حکام بدلیں گے تو حالات بدلیں گے۔ یاد رکھیں!حالات کا تعلق اَحکام کے ساتھ ہے، حکام کے ساتھ نہیں، حالات تب بدلیں گے جب ہم اَپنے اَعمال بدلیں گے، کیوں کہ حالات کا تعلق بدن سے نکلنے والے اَعمال کے ساتھ ہے۔ جب تک ہم کافروں کے اَسباب واَعمال کو نہیں چھوڑیں گے، تب تک اُن کے حق میں ہماری ہدایت کی دعا قبول ہوگی اور نہ تباہی کی بددعا۔ اگر اُن کی ہدایت یا تباہی مطلوب ہے تو پہلے اُن کے طور طریقے چھوڑدو!

٭…حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے بڑی سنت دعوتِ ایمان ہے۔ اصل محنت انفرادی دعوت ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو ارشادہوا:﴿ بلغ ماأنزل الیک من ربک﴾․پہنچادیجیے جو آپ کی طرف آپ کے رب کی طرف سے اُتاراگیا۔

داعی طالب ہے او رامت مطلوب، ایک ایک فردکے پاس جاکر اللہ کی طرف بلانا اَصل ہے،اِس کا متبادل کوئی دوسرا طریق نہیں۔ بیٹھے بٹھائے علم یاروحانیت سے ہدایت نہ پھیلے گی۔ کیا حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑھ کر کسی کو علم یا روحانیت حاصل تھی؟ حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم نے اذیتیں اٹھااٹھا کر ایک ایک فرد کودعوت دی اور اللہ کی طرف بلایا، لہٰذا وہ محنت مطلوب ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کی۔

٭…دین کے کسی کام کو ہلکا مت سمجھیں، امامت، خطابت، فتویٰ، درس وتدریس دین کے اہم شعبے ہیں۔ اِن کو ہلکا سمجھ کر نکلنے کے لیے اِصرارکرنا محض جہالت ہے۔ دعوت کاکام اِس لیے ہے کہ اُمت علم پر آجائے، یعنی دعوت کے کام کی آمدنی علم و عمل ہے، کون مزدور ایسا ہوگا کہ اپنی آمدنی پر اشکالات کرے اور اس کو رد کردے، لہٰذا علم اور علماء پر اعتراضات و اشکالات بے وقوفی ہے، علم کو محفوظ رکھنے اور اس کو پھیلانے کا فریضہ مدارس انجام دے رہے ہیں۔

اپنی مساجد کے ساتھ جہاں جہاں مکتب نہیں ہے وہاں بچوں کا مکتب کھولو، تاکہ اللہ کا غصہ ٹھنڈا ہو۔

٭…باہمی حقوق کی ادائیگی کا ماحول پیدا کرنا بھی انتہائی ضروری ہے، اس لیے کہ حقوق العباد کبھی معاف نہیں ہوں گے جب تک کہ حقوق والے خود معاف نہ کردیں۔

٭…سود اور دیگر حرام ذرائع آمدنی کے استعمال کے ساتھ اپنی دعاوٴں اور عبادتوں کی قبولیت کی توقع رکھنا عبث ہے۔ سود خوری تو اللہ تعالیٰ اور رسولِ خدا کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ یہ عجیب بات ہے کہ ایک طرف تو اللہ تعالیٰ کے خلاف جنگ ہورہی ہے اور دوسری طرف ان سے دعائیں بھی مانگی جارہی ہیں۔ ہمیں اپنی عبادات اور دعاوٴں کی قبولیت کے لیے اللہ تعالیٰ اور ان کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف حالت جنگ سے نکلنا ہوگا۔

٭…حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ جس بات سے دل میں اثر نہ ہو وہ کانوں کی عیاشی ہے ، آج کل بڑوں کے ملفوظات پڑھنے کا شوق نہیں، قصے کہانیوں کو سننے اور پڑھنے کا شوق ہے ، یہ کانوں کی عیاشی ہے۔ ( اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)

٭…حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ آج کل لوگ قدرت سے فائدہ اُٹھانا جانتے نہیں اور نظامِ کائنات سے فائدہ ملنے کو قدرت کی طرف سے فائدہ جانتے ہیں، حالاں کہ اسباب سے فائدہ اٹھانا الگ ہے اور قدرت سے فائدہ اٹھانا الگ ہے۔ نظر اور خبر کا مقابلہ ہے، نظر پر یقین نہ ہو بلکہ خبر پر یقین ہو، یہ ہے اللہ تعالیٰ کی قدرت سے فائدہ اٹھانے کا طریقہ۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ2014ء)

٭…ایک ذہن یہ بن گیا ہے کہ اسباب اختیار کریں گے، اگر کام نہ بنا تو نماز پڑھیں گے۔ حالاں کہ نظامِ کائنات اللہ کا ضابطہ نہیں ہے کیوں کہ ضابطہ میں تبدیلی نہیں اور نظامِ کائنات میں تبدیلی ہے ﴿لن تجد لسنة اللہ تبدیلا ﴾ اللہ کی طرف سے سبب پر کوئی امید نہیں اور سبب پر اس سے مدد نہیں مانگی جاسکتی، انبیائے کرام علیہم السلام نے فرشتوں کی مدد نہیں مانگی، اللہ نے مدد کی صورت میں ان کو بھیجا ، سبب کو اللہ متوجہ کرتے ہیں۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)

٭…حضرت مولانا محمد یوسف صاحب رحمة اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اسباب کا ترک کرنا مجاہدہ نہیں اور بیوی بچوں کو چھوڑدینا مجاہدہ نہیں ہے، بلکہ ان دونوں کے اشتغال کو کم کرکے دین کے لیے وقت نکالنا اور اس کو بڑھاتے چلے جانا یہ اصل ہے اور یہ اصل مجاہدہ ہے، دونوں میں فرق سمجھیں، خلیفہ اول خلافت کے بعد تجارت کے لیے چل دیے کیا یہ توکل کے خلاف ہے، بعض لوگ اسباب کے اختیار کرنے کو جرم سمجھتے ہیں، حالاں کہ یہ مشرکوں کا قول تھا وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہتے کہ ﴿مالہٰذا الرسول یاکل الطعام﴾ ( اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ2014ء)

٭…جن کے دل غیروں سے متأثر ہوتے ہیں ان کو غیروں کے لباس اچھے لگتے ہیں، حالاں کہ اصل تو سنت ہے اسلام تو سنت طریقہ پر آتا ہے۔ ( اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ2014ء)

٭…مسلمان کی شان اتباع سنت ہے، صرف فرائض کو انجام دینا کافی نہیں، اتباع سنت کی مثال کشتی نوح ہے۔ ( اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)

٭…حضرت تھانوی فرماتے ہیں کہ آج کل مصالح (مصلحت) کی وجہ سے اسلام کو پیسا جاتا ہے، حالاں کہ اسلام پیسنے کی چیز نہیں، بلکہ مصالحے (نمک مرچ وغیرہ ) پیسنے کی چیز ہیں اور مصالحے کو جتنا پیسا جائے گا اتنا لذیذ ہوگا۔ ( اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)

٭…نماز پڑھوانا دعوت ہے، نماز کا کہہ دینا دعوت نہیں، امت کے لوگوں کو یہ مغالطہ لگ گیا ہے کہ نماز کے کہہ دینے کو دعوت سمجھ بیٹھے، حالاں کہ عملی طور پر نماز پر لانا دعوت ہے ، بات کا پہچانا تبلیغ نہیں بلکہ دل میں اتارنا تبلیغ ہے ، یہ حضرت مولانا محمد الیاس صاحب رحمة اللہ علیہ کا ملفوظ ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ2014ء)

٭…صلوة الحاجة حاجت کی نماز نہیں،بلکہ اللہ سے قرب کے لیے ہے کہ اگر جب کبھی کوئی پریشانی آئے اللہ سے مانگو تو مسئلہ حل ہو جائے گا ، حاجت کے پیش آنے کے لیے نماز نہیں، بلکہ عمل حاجت پر مقدم ہے کہ عمل سے حاجت پوری ہوتی ہے۔ ( اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ 2014ء)

٭…قرآن میں صبر کو نماز پر مقدم کیا ہے، مطلب یہ ہے کہ پہلے حرام سے بچو، پھر نماز کی طرف آوٴ ، پہلے معاملات کو درست کرو، ظاہری پاکی (ہاتھوں اور پاوٴں کو دھونا) اور باطنی پاکی ( سود اور حرام غذا سے بچنا) حاصل کرو، پھر نماز قبول ہوگی ، نماز کی قبولیت کے لیے حرام غذا سے پاکی پہلے ہے۔ (اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)

٭…جو حالات معاملات کی خرابی سے آئیں گے وہ عبادات سے درست نہیں ہوں گے، آج عبادات خوب ہیں، مگر معاملات درست نہیں (لوگوں کا حق دبانا وغیرہ) تو مدد کہاں سے آئے گی؟ ( اقتباس از بیان مولانا محمد سعد صاحب اجتماع رائے ونڈ)

٭…اختلافات پر صبر کرنا اور دوسروں کو برداشت کرنا ہی ”اخلاق“ ہے..

٭…ایک انسان کی ہلاکت کے لیے یہ کافی ہے کہ وہ کسی مسلمان کو حقیر سمجھے۔

٭…عصری فنون یہ علوم نہیں ہیں، ضروریاتِ زندگی کے حصول کے ظاہری ذرائع ہیں، ان کا حاصل کرنا منع نہیں ہے، لیکن ان پر فخر کرنا کفر کا مزاج ہے۔ علوم صرف اور صرف قرآن و حدیث ہے۔

(ان ملفوظات کو پڑھنے کے بعد اب یہ خواہش شدت کے ساتھ ابھر رہی ہے کہ کوئی اللہ کا بندہ مولانا کے تمام بیانات کتابی شکل میں مرتب کردے تو بہت ہی فائدہ ہو۔)

Flag Counter