Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق شعبان المعظم 1436ھ

ہ رسالہ

2 - 18
جدید نسل کی بے چینی اور ذہنی کرب کے اساب

حضرت مولانا سیّد محمدیوسف بنوریؒ
	
ہمارے نزدیک کرب و بے چینی کے متعدد اسباب ہیں ،سب سے اہم تو یہ ہے کہ جدید تعلیمی اداروں میں دینی ماحول ،دینی تربیت اور دینی ذہن وفکر کی ضرورت کو کبھی محسوس نہیں کیا گیا ،بلکہ اس کے برعکس نئی نسل کو دین سے بیزار کرنے کے تمام اسباب و وسائل مہیا کیے گئے ،دین کو ”ملائیت“کا نام دے کر نو خیز ذہنو ں کو اس سے نفرت دلائی گئی ،علمائے دین کے لیے طرح طرح کے القاب تجویز کر کے انہیں ”تعلیم یافتہ “طبقہ کی نظر میں گرانے کی ہر ممکن کوشش کی گئی،ذرائع نشر و اشاعت کو تمام حدودو قیود سے آزاد کر کے انہیں بددینی کا مبلغ بنا دیا گیا،اس پر مستزادیہ کہ لادینی نظریات کا پرچار کرنے کے لیے مستقل ادارے قائم ہوئے اور سرکاری طور پر ان کی بھرپور حوصلہ افزائی کی گئی۔

اب خود سوچیے کہ جس نو خیز نسل کے سامنے گھر کا پورا ماحول بے دین ہو،تعلیم گاہوں میں دینی ماحول کا فقدان ہو،گلی کوچوں ،سڑکوں اور بازاروں سے بے دینی کا غلیظ اور مسموم دھواں اٹھ رہا ہو،زندگی کے ایک ایک شعبہ سے دین کو کھرچ کھرچ کر صاف کر دیا گیا ہو،والدین سے اساتذہ تک اور صدر سے چپراسی تک نئی نسل کے سامنے دین دار ی،خدا ترسی اور خوف آخرت کا کوئی نمونہ سرے سے موجود نہ ہواور جس ملک میں قدم قدم پر فواحش ومنکرات،بے حیائی اور بد اخلاقی اور درندگی و شیطنت کا سامان موجود ہو،کیا آپ وہاں کی نئی نسل سے دین داری ،شرافت اور انسانی قدروں کے احترام کی توقع کر سکتے ہیں؟جس نسل کا خمیر تخریب سے اٹھایا گیا ہو کیا وہ کوئی تعمیری کارنامہ انجام دے سکتی ہے ؟جو خود معاشرے کے عمومی بگاڑ کی پیداوار ہو،کیا وہ کسی درجہ میں بھی معاشرہ کی اصلاح کے لیے مفید اور کارآمد ہو سکتا ہے؟

تم لاکھ تعلیمی ترقی اور اعلیٰ تہذیب کے ڈھنڈورے پیٹو، لیکن خوب یادرکھو،تعلیم کا ماحول جب تک دینی نہیں ہوگا،نئی نسل کے سامنے والدین ،اساتذہ اور اہم شخصیتوں کی شکل میں اخلاق و انسانیت اور دین داری و خداخوفی کے اعلیٰ نمونے جب تک موجود نہیں ہوں گے ،تعلیم میں جب تک دینی تربیت مطمح نظر نہیں ہوگی اور جب تک اخلاق و اعمال ،جذبات و عواطف اور رجحانات ومیلانات کی اصلاح نہیں ہوگی،تب تک یہ مصیبت روز افزوں ہوتی جائے گی۔ تعلیم سے جب اسلامی روح نکل جائے،اخلاق تباہ ہوجائیں،انسانی قدریں پامال ہوجائیں اور مقصد زندگی صرف حیوانیت اور شکم پروری رہ جائے تو اس تعلیم کے یہ درد ناک نتائج ظاہر نہیں ہوں گے تو اور کیا ہوگا؟

صد حیف!کہ آج انسانیت کی پوری مشین ”پیٹ “کے گرد گھومنے لگی ہے،آج کی تمام تعلیم،تمام تربیت اور تمام تہذیب کا خلاصہ یہ ہے کہ حیوانی زندگی کے تقاضے پورے کیے جائیں ،دین جاتا ہے تو جائے ،اخلاق مٹتے ہیں تو مٹیں ،انسانیت پامال ہوتی ہے تو ہو ،مگر ہمارے حیوانی تقاضے اور نفسانی خواہشات بہر حال پوری ہونی چاہییں ۔نہ دین سے تعلق،نہ اخلاق سے واسطہ،نہ انسانیت کا شعور،نہ افکار صحیح ،نہ خیالات درست،نہ خدا کا خوف ،نہ آخرت کی فکر،نہ مخلوق سے حیا۔انا لله وانا الیہ راجعون․

جدید تعلیم اور اسی کے چند مہلک ثمرات
اسی جدید تعلیم اور اس کے لادینی نظام نے لسانی عصبیت اور صوبہ پرستی کی لعنت کو جنم دیا،جس کی وجہ سے مشرقی بازو کٹ گیا اور اب کراچی اور سندھ میں بھی شب وروز اس کے درد ناک مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں ۔نہ معلوم اس بد نصیب قوم کا انجام کیا ہوگا؟انسانی اقدار و احترام انسانیت کا شعور پیدا کرنے کے لیے دین و مذہب کے سوا کوئی چارہ نہیں ۔ہم بارہا ان صفحات میں صاف صاف کہہ چکے ہیں کہ آخرت کی نجات اور دنیاکی سعادت صرف اسلامی تعلیمات اور اسلامی ہدایات و احکامات میں مضمر ہے،اس کے سوا خسارہ ہی خسارہ ہے،تعلیم کا مقصد روح کی بالیدگی،نفس کی پاکیزگی،سیرت و کردار کی بلندی اور ظاہر و باطن کی طہارت و نظافت ہونا چاہیے اور یہ جب ہی ہوسکتا ہے کہ اس تعلیمی قالب میں دینی روح بطور مقصد جلوہ گر ہو اور جب تم اپنے وسائل کی پوری قوت سے دین کو ختم کر رہے ہو اور دین کا مضحکہ اڑا کر اسے رسوا کر نے کی ہر ممکن کوشش کر رہے ہو تو اس کے بدترین نتائج کے لیے بھی تیار رہو:”خرمانتواں یافت ازاں خارکہ کشتیم“۔

نئی نسل کے اضطراب کا بڑا اور اہم سبب
نئی نسل کے کرب و اضطراب کا ایک بڑا سبب صنفِ نازک کے بارے میں غلط روی پر مسلسل اصرار ہے ،اسلام نے عورت کو عزت و احترام کا جو مقام بخشا ہے وہ نہ کسی قدیم تہذیب میں اسے حاصل ہوا تھا نہ جدید ترقی یافتہ تہذیب کو اس کی ہوا لگی ہے ۔اسلام نے اس کے تمام حقوق دلوائے، اسے ماں،بہن اور بیٹی کے نہایت قابل احترام القاب سے سرفراز کیا،مردو عورت کے درمیان نہایت مقدس ازدواجی رشتہ قائم کرکے دونوں کی زندگی سراپا امن و سکون بنانے کی ضمانت دی،عورت کے تمام حقوق و نفقات کا بوجھ مرد کے ذمہ ڈالا،اس کو گھر کی مالکہ بنا کر گھر کا سارا نظم و نسق اس کے سپرد کیا،اولاد کے بہترین اتالیق کی حیثیت سے اسے پیش کیا،مردو زن کے الگ الگ دائرہ کار کی حد بندی کی،دونوں کے لیے ایسے عادلانہ احکام وضع فرمائے کہ یہ رشتہ نفسیاتی طور پر محبت و خلوص کا مجسمہ بن جائے،گھر کے انتظامی معاملات عورت کے سپر د کر کے مرد کو گھر کی فکر سے یکسو کر دیا اور باہر کی تمام ضروریات کا بارمرد پر ڈال کر عورت کو فکر معاش سے آزاد کردیا،تاکہ دونوں جانب سے احسان مندی اور قدر شناسی کے جذبات پروان چڑھیں۔

ایک پُر فریب نعرہ”آزادیٴ نسواں“
مگر جدید تہذیب نے ان تمام مصالح و اسرار کو غارت کر کے ”آزادی نسواں“کا ایک پر فریب نعرہ ایجاد کیا اور صنف نازک کو گھر کی سلطنت سے باہر نکال کر گلی کوچوں میں رسوا کیا اور زندگی کی پُر خاروادیوں میں اسے مرد کے دوش بدوش چلنے پر مجبور کیا،جو فرائض مردوں کے ذمے تھے ان کا بوجھ بھی عورتوں پر ڈالا،اس کے بعد ”تعلیم نسواں“کے فسون ساحری نے عورت کو جدید تعلیم اور جدید تہذیب کے قالب میں ڈھالا اور اب عورتوں کے لیے اعلیٰ تعلیم ایک فیشن بن گیا ،ڈگری حاصل کرنے کے بعد اب ضروررت ہے کہ ملازمتوں میں انہیں برابر کا حصہ دیا جائے،پہلے مردوں کے لیے ملازمت کی جگہ کا سوال تھا، اب عورتوں کے لیے ملازمت کا اس پر مزید اضافہ ہوگیا۔ہمیں خوب معلوم ہے کہ جدید طبقہ کس ذہن سے سوچنے کا عادی ہو چکا ہے،اس لیے ہمیں توقع نہیں کہ اس گرداب بلا میں پھنس جانے کے باوجود وہ کسی ناصح مشفق کی بات سننا گوارا کرے گا،تاہم ہمیں یہ کہنے میں باک نہیں کہ جدید تہذیب نے عورت سے بدترین مذاق کر کے شرفِ انسانیت کو بٹہ لگادیا ہے۔

پردہ عورت کا فطری حق ہے
پردہ عورت کا فطری حق ہے ،عورت گھر میں ہو یا بازار میں ،کالج میں ہو یا یونی ورسٹی میں یا دفتر اور عدالت میں ہو،وہ اپنی فطرت کو تبدیل کرنے سے قاصر ہے۔ وہ جہاں ہوگی اس کے ضمیر کی خلش اور فطرت کی آواز اسے پردہ کرنے پر مجبور کرے گی ،وہ بے دین قومیں جو عورت کی فطرت سے اندھی اور خالقِ فطرت کے احکام سے نا آشنا ہیں، وہ اگر عورت کی پردہ دری کے جرم کا ارتکاب کریں تو جائے تعجب نہیں ،مگر ایک مسلمان جس کے سامنے خدا اور رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے احکام اور اس کے اکابر کاشان دار ماضی موجود ہو،اس کا اپنی بہو و بیٹیوں کو پردے سے باہر لے آنا مردہ ضمیری کا قبیح ترین مظاہر ہ ہے ،عورت کی ساخت و پرداخت ،اس کی عادات و اطوار اور اس کی گفتار و رفتار پکار پکار کر کہہ رہی ہے کہ وہ عورت (مستور)ہے،اس ستر (پردہ) سے باہر لانا اس پر بدترین ظلم ہے۔

ستم ظریفی کی حد ہے کہ وہ عورت جو عصمت و تقدس کا نشان تھی اور جس کی عفت سے چاند شرماتا تھا ،اس کوپردہ سے باہر لاکر اس سے ناپاک نظروں کی تسکین اور نجس قلوب کی تفریح کا کام لیا گیا ،جدید تہذیب میں عورت زینت خانہ نہیں ،شمع محفل ہے،اس کی محبت و خلوص کی ہر اد اپنے شوہر اور بال بچوں کے لیے وقف نہیں ،بلکہ اس کی رعنائی و زیبائی وقف تماشائے عالم ہے،وہ تقدس کا نشان نہیں کہ اس کے احترام میں غیر محرم نظریں فوراً نیچے جھک جائیں،بلکہ وہ بازاروں کی رونق ہے،آج دو پیسے کی چیز بھی عورت کی تصویر کے بغیر فروخت نہیں ہوتی ۔اس سے زیادہ نسوانیت کی ہتک اور کیا ہو سکتی ہے؟کیا اسلام نے عورت کو یہی مقام بخشا تھا؟ کیا جدید تہذیب نے عورت پر یہی احسان کیا؟کیا یہی آزادی نسواں ہے جس کے لیے گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگائے جاتے تھے؟اسلام کی نظر میں عورت ایک ایسا پھو ل ہے جو غیر محرم نظر کی گرم ہوا سے فوراً مرجھا جاتا ہے۔ اس کو پردہ سے باہر لانا اس کی فطرت کی توہین ہے۔

ادھر عورتیں پردے سے باہر آئیں ،اُدھر انہیں زندگی کی گاڑی میں جوت دیا گیا ،تجارت کریں تو عورتیں ،وکالت کریں تو عورتیں ،صحافت کے شعبہ میں جائیں تو عورتیں،عدالت کی کرسی پر متمکن ہوں تو عورتیں،اسمبلی میں جائیں تو عورتیں ،الغرض کاروباری زندگی کا وہ کون سا بوجھ تھا جو مظلوم عورت کے نازک کاندھوں پر نہیں ڈال دیا گیا؟سوال یہ ہے کہ جب یہ تمام فرائض عورتوں کے ذمہ آئے تو مرد کس مرض کی دوا ہیں؟اسلام نے نان و نفقہ کی تمام ذمہ داری مرد پر ڈالی تھی ،لیکن بزدل مغرب نے ”مردوں کے دوش بدوش چلنے“کا جھانسہ دے کر یہ سارا بوجھ اٹھا کر عورت کے سر پر رکھ دیا۔جدید تہذیب کے نقیبوں سے کوئی پوچھنے والا نہیں کہ یہ عورت پر احسان ہوا یا بدترین ظلم؟عورت گھر کے فرائض بھی انجام دے ،بال بچوں کی پرورش کا ذمہ بھی لے،مرد کی خدمت بھی بجالائے اور اسی کے ساتھ کسب معاش کی چکی میں بھی پسا کرے؟ظاہر ہے کہ عورت کے فطری قویٰ اتنے بوجھ کے متحمل نہیں ہوسکتے ۔اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ گھر کا کاروبار نوکروں کے سپرد کرنا پڑا ،بچوں کی تربیت و پرداخت ماماؤں کے حوالے کی گئی،روٹی ہوٹل سے منگوائی گئی،گھر کا سارا نظام تو ابتر ہوا ہی،باہر کے فرائض پھر بھی عورت یکسوئی سے ادا نہ کر پائی، نہ وہ کرسکتی ہے ،پھر مرد و زن کے اختلاط اور آلودہ نظروں کی آوارگی نے معاشرہ میں جو طوفان برپا کیا،اس کے بیان سے زبان قلم کو حیا آتی ہے ،یہ ہے آزادیٴ نسواں اور تعلیم نسواں کا پُر فریب افسوں ،جس نے انسانیت کو تہہ وبالا اور معاشرے کو کرب و اضطراب میں مبتلا کردیا۔

اسلام کی نظر میں جائز پیشے ذلت کے موجب نہیں
اس کر ب و ہیجان کا ایک بڑا سبب یہ ہے کہ عام طور سے صنعت وحرفت اور دست کاری سے عاری نوجوانوں کے مزاج میں تساہل داخل ہوگیا،گویا جب تک کوئی اچھی ملازمت یا کوئی بڑے پیمانے کا کاروبار نہ میسر ہو،اس وقت تک کسی کام کا شروع کرنا”بابوانہ“شان کے خلاف سمجھا گیا اور یہ بے جا تکبر ،بیروزگاری ،زبوں حالی اور ذہنی انتشار پر منتج ہوا،کسی ادنیٰ سے ادنیٰ حلال پیشے کو حقیر سمجھنا نہایت پست ذہنی کی علامت ہے،اسلامی نقطہ نظر سے کوئی جائز اور حلال پیشہ تحقیر و تذلیل کا مستحق نہیں ،حدیث میں ہے:

ما اکل احد طعاماً قط خیراً من ان یأکل من عمل یدیہ، وان نبی اللہ داود علیہ السلام کان یأکل من عمل یدیہ․

”کسی شخص نے کبھی کوئی کھانا نہیں کھایا جو اس کے اپنے ہاتھوں کی کمائی سے بہتر ہو اور اللہ تعالیٰ کے نبی حضرت داؤد  (باوجود عظیم سلطنت کے)اپنے ہاتھ سے کما کر کھاتے تھے“۔

ایک اور حدیث میں آتا ہے کہ حضرت زکریا  نجار (بڑھئی) تھے۔ الغرض ایک طرف تو حرفت و دست کاری کو حقیر جانا گیا اور دوسری طرف کسی صحیح منصوبہ بندی کے ذریعہ نوجوانوں کے لیے روزگار مہیا کرنے کی نئی صورتوں پر توجہ نہیں دی گئی ۔نتیجتاً بے کاری و بے روزگاری کا سیلاب امڈآیا اور تعلیم یافتہ نوجوانوں کا مسئلہ پورے معاشرے کے لیے وبا ل بن گیا۔

تعلیم یافتہ بے روزگار نوجوانوں کے مسائل کا حل
اگر ہم اس مکروہ اور تکلیف دہ صورت حال سے نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے:
1... اوپر سے نیچے تک پورے معاشرے کی اور بالخصوص نئی نسل کی دینی تعلیم و تربیت کا انتظام کرناہوگا،اس کے لیے ضروری ہے کہ تمام تعلیمی اداروں میں خالص دینی ماحول بنایا جائے،امت مسلمہ کا رشتہ مسجد سے قائم کیا جائے اور انہیں تبلیغی مراکز میں جوڑا جائے۔
2...غیر اسلامی نظریات کی تلقین و تبلیغ کا سلسلہ یک لخت بند کرنا ہوگا، جس کے پاس محمدصلى الله عليه وسلم کا لایا ہوا پیغام حیات موجود ہو اور وہ اس کے مسائل کو حل نہ کر سکے تو خدا اس قوم کے کسی مسئلہ کو کبھی حل نہ کرے۔ہمارے اربابِ اقتدار کو اچھی طرح یاد رکھنا چاہیے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے دامن کو چھوڑ کر لینن و ماؤ سے راہ نمائی حاصل کرنے کا نتیجہ ذلت و رسوائی کے سوا کچھ نہیں ہوگا:
﴿ضربت علیھم الذلة والمسکنة وباء وابغضب من اللہ﴾․
3...خواتین کی بے پردگی ،عریانی اور سرِ بازار رسوائی کا انسداد کرنا ہوگا،عورتوں کی بقدرِ ضرورت تعلیم پردہ میں ہو اور باہر کی تمام ذمہ داریوں سے انہیں سبک دوش کیا جائے اور اگر کوئی ایسی صورت ہو کہ کسی خاتون کا کوئی معاشی کفیل نہیں تو اول تو قوم اور قومی خزانہ کا فرض ہے کہ ان کی معاشی کفالت اپنے ذمہ لے اور اگر قوم کی بے حسی اور حکام کی غفلت اس سے مانع ہوتو ان کے لیے باپردہ گھریلو صنعتوں کا انتظام کیا جائے ،جس سے وہ اپنی معاش حاصل کرسکیں۔

الغرض معاشی بوجھ صرف مردوں کو اٹھانا چاہیے اور اگر شاذ و نادر یہ ذمہ داری عورتوں پر آئے تو ان کے لیے باپردہ انتظام کیا جائے ۔ہم سمجھتے ہیں کہ اگر صرف عورتوں کا مسئلہ حل ہوجائے تو آدھا انتشار اسی وقت ختم ہوجائے گا۔

4...اس ذہنیت کو ترک کرنا ہوگا کہ تعلیم صرف ملازمت کے لیے ہے اور یہ کہ فلاں پیشہ حقیر ہے،بلکہ صحیح منصوبہ بندی کے ذریعہ نئی نسل کی افرادی قوت کو مفید کاموں میں لگانا ہوگا ۔اللہ تعالیٰ صحیح فہم نصیب فرمائے۔

Flag Counter